Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

چنڈال؛ بھارتی معاشرے کی سب سے ’’نچلی ذات‘‘

$
0
0

 ہمارے معاشرے میں لفظ چنڈال اور چھنال اُن عورتوں کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی کے ساتھ دھوکا کرتی ہوں یا بہت فطین اور تیزطرار ہوں، مگر جب ہم ان الفاظ کی تہہ میں جاتے ہیں اور ان کے معانی ہم پر عیاں ہوتے ہیں تو ہمارے رونگٹے گھڑے ہوجاتے ہیں اور اس بات سے واقفیت بھی ہوتی ہے کہ دنیا میں دولت، طاقت اور غلط رسوم کا بہانہ بناکر نہ جانے کب سے عام انسانوں سے زندگی گزارنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔

لفظ ’’چنڈال ‘‘ سنسکرت سے ہندی اور اردو میں آیا ہے، جس کا مطالعہ کرتے ہوئے جب ہم تاریخ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو ہمیں وقت کی اندھیری کوٹھڑیوں میں داخل ہونے کے بعد سوائے انسان کی دکھ بھری زندگی، محرومیوں اور بے بسی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

تاریخ کے سہارے جب ماضی میں برصغیر کی قدیم اقوام کا مطالعہ کیا جائے تو موئن جودڑو اور ہڑپہ کی وادیاں ہمیں اس خطے میں بسنے والے قدیم انسان کا پتا دیتے ہوئے اُن کے پیشے کے بارے میں بتاتی ہیں کہ وہ ٹولیوں کی شکل میں رہتے تھے اور جانوروں کے شکار کے ساتھ جنگلی پھلوں سے اپنی بھوک مٹاتے تھے جو رفتہ رفتہ کھیتی باڑی سے بھی واقف ہوتے گئے اور یہیں سے اس خطے میں زرعی غلامی کی بھی ابتدا ہوئی، لیکن اُس وقت ذاتوں کی تقسیم کا عمل شروع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی تاریخ ہمیں کوئی ایسے شواہد مہیا کرتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ جب گاؤں اور شہر وجود میں آئے اور اس خطے میں لکھی جانے والی سب سے قدیم کتاب ’’رگ وید‘‘ نے اس خطے میں رہنے والے لوگوں کے سماجی، مذہبی اور ثقافتی قوانین اور طریقے مرتب کیے تب تک بھی کسی ذات کا کوئی واضح نام اور کام ہمیں نظر نہیں آتا۔

ذات پات، پیشوں، رنگ، نسل اور اونچ نیچ کی تقسیم سے شاید کوئی بھی معاشرہ نہ بچ سکا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج بھی امریکا جیسے ملک میں کالی رنگت والے امریکی باشندے گوری رنگت والوں کے خلاف اپنے استحصال اور قتل عام کے خلاف مظاہرے نہ کر رہے ہوتے، مگر ہندو مذہب اور معاشرے میں ذات پات کا جو بیج بویا گیا ہزاروں سال بعد بھی اُس کے تناور درخت پر کُلہاڑا چلانا کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔

اس مذہب سے تعلق رکھنے والے روشن خیال ہندو بھی اس مذہب کی ایسی رسوم کے خلاف ہیں جو انسان کو انسان کا غلام یا اُسے ذات پات کا قیدی بناتی ہیں، جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ’’رگ وید ‘‘ کو اس خطے کی سب سے قدیم کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس میں کہیں بھی کسی انسان کو کمتر یا برتر کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ اس کے باوجود اس میں درج ایک منتر ذات پات کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جو کچھ اس طرح سے ہے:

’’اُس کے منہ سے برہمن، بازوؤں سے کشتری، ٹانگوں سے ویش اور پاؤں سے شودر پیدا کیے گئے۔‘‘

اور اسی منتر کی بنیاد پر بعد میں آنے والے ہندو علماء نے شودروں کو سب سے نیچ ذات قرار دے کر اُن کے استحصال کے طریقوں کو مزید مضبوط کیا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس منتر سے کسی بھی ذات کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا بلکہ لوگو ں کے کام کی تقسیم کی گئی ہے۔ یعنی برہمن کو منہ سے پیدا کرنے کی طرف اس لیے اشارہ کیا گیا گیا ہے کہ مذہبی علوم کو یاد رکھنے کے بعد منہ سے بولا جاتا تھا۔ ہتھیار ہاتھ سے اٹھائے جاتے ہیں اس لیے کشتری کو بازؤوں سے پیدا کیا گیا۔

کاروبار کے لیے ٹانگوں پر چل کر تجارت اور لین دین کا کام کیا جاتا ہے۔ اس لیے ویش کو ٹانگوں سے پیدا کیا اور ان سب برادریوں کی خدمت کے لیے شودر کو پیروں سے پیدا کیا، تاکہ وہ اپنے آقاؤں کا حکم ماننے کے لیے اور خدمت کے لیے ہر کام کرنے کو ہمہ وقت مستعد رہے۔ ہندو مذہب میں ذات پات اور اونچ نیچ کا سلسلہ اس بات سے بھی جڑا ہوا ہے کہ اس میں تین اعلیٰ ذاتوں کے بارے میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ برہمن، کشتری اور ویش تو دوسرا جنم لیں گے، مگر شودر دوسرا جنم نہیں لے سکتا اور اس کے لیے سنسکرت کا ایک لفظ ’’دِوِج ‘‘ برتا جاتا ہے۔ یہی لفظ پرندوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہندو عقیدے کے مطابق دوسرا جنم لیتے ہیں، یعنی پہلے انڈے اور پھر بچے کی صورت میں۔

ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں ’’منو سمرتی‘‘ کو اہم مقام حاصل ہے۔ اس کتاب میں ہندو معاشرے کے سماجی اور مذہبی اطوار پر روشنی ڈالی گئی ہے، مگر ہندوستان میں یہ کتاب اس لیے متنازعہ ہے کہ اس میں شودروں اور اس سے جڑی نچلی ذاتوں کے لیے جو قوانین درج کیے گئے ہیں، وہ انتہائی ظالمانہ اور غیرمساوی ہیں۔ اس کتاب کو قدامت پسند ہندو طبقے تو بہت احترام سے دیکھتے ہیں، مگر نچلی ذاتوں کے نمائندے اسے بالکل مسترد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ’’چنڈال‘‘ کی ابتدا اور چنڈالوں کے استحصال میں اس کتاب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

وسشٹھ دھرم سوتر نامی ہندوؤں کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ اگر کسی شودر مرد اور برہمن عورت کے ملاپ سے کوئی بچہ پیدا ہو تو وہ ’’چنڈال‘‘ ہوگا، جس کا مطلب کمینہ، نیچ، ادنیٰ ذات کا، ظالم، بدنصیب، بدبخت، بخیل اور کنجوس ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ برہمن مرد اور شودر عورت سے جنم لینے والے بچے کو ’’نشاد‘‘ کا نام دے کر ایک اور نیچ ذات کا اضافہ کیا گیا، بل کہ چاروں ذاتوں کو ایک دوسرے سے مزید دور کرنے کی کوشش کی گئی۔

اگر ہم اس سے بھی آگے بڑھیں تو شودروں سے بھی نچلی ذاتوں کے اختلاط سے پیدا ہونے والی اولاد کو مزید نام دیے گئے ہیں اور ان ذاتوں یعنی ’’اچھوتوں‘‘ نشادوں، آیوگوں، سیووں، آندھروں، کنکؤں، مدیوں، کشتروں اور دھگونوں وغیرہ کے علاوہ بھی ایسی کئی ذاتیں وجود میں آئیں جو اُس وقت معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں تھیں۔ مثلاً کشتری مرد اور ویش عورت کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوتا تھا اُسے ’’ماہشیا‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔

اسی طرح ویش مرد اور شودر عورت سے جو اولاد پیدا ہو اُسے ’’کَرن ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس ذات سے تعلق رکھنے والے افراد مزید ذلیل اور رسوا اُس وقت ہوتے جب اُن کے ہاں، یعنی اُن کے جنم دیے ہوئے بچوں ماہشیا مرد اور کرن عورت سے جو اولاد پیدا ہوتی اُسے ’’رتھ کار‘‘ کا نام دیا جاتا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ منو نے ان کے لیے بہت سخت ضابطے مقرر کیے تھے۔ اس کے تاکیدی حکم کے بعد کہ انھیں گاؤں سے باہر پہاڑوں، باغوں، پیڑوں اور شمشان گھاٹ کے قریب قیام کرنا چاہیے، یہ بات ثابت ہوتی تھی کہ یہ ذاتیں آبادی سے باہر رہنے پر مجبور تھیں اور انہیں صرف دن کے وقت ہی آبادی میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔

شام ڈھلنے کے بعد وہ آبادی میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ ہاں تاریخ ہمیں یہ ضرور بتاتی ہے کہ ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد آبادی کی چوکی داری پر مامور کیے جاتے تھے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان ذاتوں میں ’’چنڈال‘‘ اور ’’شواپچے‘‘ تو آبادی سے بالکل ہی دور رہتے تھے اور یہ ذاتیں جو برتن کھانے پینے کے لیے استعمال کرتی تھیں وہ ناقابل استعمال سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ صرف کتے اور خچر رکھتے تھے، ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھانا کھاتے تھے، لوہے کے زیورات اور مردوں کے جسم سے اتارے گئے کپڑے استعمال کرتے تھے اور کوئی مستقل رہائش نہ ہونے کی وجہ سے مختلف جگہوں پر مارے مارے پھرتے تھے۔

منو نے ان ذاتوں کے لیے جو قوانین مرتب کیے تھے ان کے مطابق کسی اونچی ذات کے شخص کے لیے اپنے ہاتھوں سے انہیں اناج دینا بھی ممنوع تھا، بل کہ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ شرادھ (مرنے والوں کی ایک رسم) کے دوران اگر کوئی برہمن کسی گاؤں میں جائے تو اُسے گاؤں کے چنڈالوں، سؤروں، مرغوں، کتوں وغیرہ کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ ارتھ شاستر کے مصنف کوٹلیہ نے تو یہ تک لکھ دیا تھا کہ پرندوں میں کوّا اور جانوروں میں کتّا ’’چنڈال‘‘ ہے۔

مضمون کی طوالت سے ڈرتے ہوئے ہم اُن کتابوں اور اہل دانش کا ذکر یہاں نہیں کر سکتے جنہوں نے چنڈالوں اور نچلی ذات کے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ کہا، ہاں اتنا ضرور کہیں گے کہ ان کی کہی یا لکھی گئی باتوں کے طفیل آج بھی برصغیر کے مختلف علاقوں میں ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کسی نہ کسی صورت میں نظر آجاتے ہیں، جن کے پاس سوائے کتوں، گدھوں اور بندروں کے کوئی اور اثاثہ نہیں ہوتا۔

رگ وید اور اتھروید میں درج کیے گئے سماجی نقشے سے شودروں کی مشکلات اور ان کے خلاف بنائے گئے ضابطوں کی تصدیق بہت مشکل سے ہوتی ہے، یہاں تک کہ اُس وقت کھانے اور شادی کے متعلق داسوں، آریوں یا شودروں میں کوئی قید دکھائی نہیں دیتی۔ ابتدائی دور میں شودر صرف زرعی غلامی تک ہی محدود دکھائی دیتے ہیں اور چھوت چھات کی بھی کوئی واضح مثال دکھائی نہیں دیتی بل کہ ’’یجر وید‘‘ میں درج ایک واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ برہمن، ویش اور شودر مل کر ایک گائے کے لیے جوا کھیلتے ہیں، لیکن آگے چل کر انہی ذاتوں میں سے ایک ذات شودر اور اُس سے بھی نچلی ذاتوں کے لیے ایسے ضابطے سامنے آتے ہیں جنھیں پڑھ کر انسان کا دل دہل جاتا ہے۔

یہ ضابطے زیادہ تر ہندومذہب کے دھرم سوتروں، یعنی ایسی کتابیں جن میں ہندو مذہب، انسانی طرز عمل، بادشاہ اور قوم کے فرائض وغیرہ کے بارے میں قوانین درج ہیں، میں ملتے ہیں۔ خاص دھرم سوتروں کی تعداد آٹھ ہے، مگر ان میں تین دھرم سوتروں کو ہندو مذہب میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

پہلا گوتم دھرم سوتر، دوسرا بودھاین، دھرم سوتر اور تیسرا وسشٹھ دھرم سوتر۔ گوتم کا کہنا تھا،’’شودر نوکروں کو اونچی ذات کے لوگوں کے پھینکے ہوئے جوتوں، چٹائیوں، چھتریوں اور کپڑوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ ایک اور دھرم سوتر ’’آپس تنبہ‘‘ کا مصنف کہتا ہے،’’اگر کوئی شودر کسی آریا کو گالی دے تو اُس کی زبان چھانٹ لینی چاہیے۔‘‘ وسشٹھ کا کہنا ہے،’’اگر کسی برہمن کی موت اس حالت میں ہوجائے کہ اُس کے پیٹ میں شودر کا کھانا موجود ہو تو وہ یا تو کسی گاؤں میں سؤر کی حیثیت سے یا کسی شودر کے گھر میں جنم لے گا۔‘‘

گوتم یہ بھی کہتا ہے کہ’’ اگر کوئی شودر ویدک تحریروں کو پڑھے تو اُس کی زبان کاٹ دینی چاہیے اور اگر وہ انھیں یاد کرے تو اُس کے جسم کے دو حصے کر دینے چاہییں۔‘‘ جس سے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ شودروں اور دوسری ذاتوں کے ملاپ سے جنم لینے والی نچلی ذاتوں چنڈال، نشاد، دینا، رتھ کار اور پکوسہ جیسی حقیر ذاتوں کے ساتھ اس دور میں کیا سلوک کیا جاتا ہوگا۔ یہ وہی ذاتیں ہیں جن کے بارے میں ارتھ شاستر کہتا ہے،’’چنڈال سے ایک بدچلن عورت کو گاؤں کے بیچوں بیچ کوڑے مارنے کا کام لیا جا سکتا ہے اور اس سے ایسے افراد کی لاشوں کو جنھوں نے خودکشی کی ہو، رسی سے باندھ کر عام راستے پر کھینچنے کو کہا جاسکتا ہے۔‘‘

لفظ ’’چنڈال‘‘ کے پس منظر میں جانے کے بعد ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطے میں ابتدائی دور کے درمیان ذات پات اور چھوت چھات کا نظام اتنا مضبوط نہیں تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ذات پات کے نظام میں مضبوطی آئی جو ہزاروں برس گزرنے کے بعد بھی کم نہ ہوسکی۔

آج بھارت میں نچلی ذاتوں یعنی دلتوں کے لیے بہت سارے قوانین بنائے جانے کے بعد بھی مذہب کے نام پر اُن کا جو استحصال کیا جاتا ہے اُس کی خبریں روزانہ کسی نہ کسی اخبار میں ضرور دکھائی دیتی ہیں۔ شاید اسی صورت حال سے تنگ آکر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے اپنا ناتا ہندو دھرم سے توڑ کر بدھ دھرم سے جوڑ لیا تھا، مگر اس دھرم کی ایک قدیم کتاب ’’مجھیما نکایا‘‘ مہاتما بدھ کے ایک وعظ کا حوالہ کچھ یوں دیتی ہے،’’ایک عقل مند شخص سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ یہ جانے کہ اُس کی محبوبہ عورت کشتری، برہمن، ویش یاشودر میں سے کس طبقے کی ہے۔‘‘


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>