خوراک کا بحران دنیا بھر میں پھیلے درجنوں ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جبکہ بہت سے ملکوں کو مستقبل میں اس بحران کا خطرہ ہے۔
ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق خوراک کا بحران سب سے زیادہ جن ممالک میں سر اٹھارہا ہے وہ اسلامی دنیا کے ممالک ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اسلامی ممالک میں مستقبل کی منصوبہ بندی بہت کمزور ہے جبکہ اس کے برعکس ان ممالک میں آبادی میں اضافے کا تناسب دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔بہت سے ممالک صحرائی اور بارانی خطے میں واقع ہونے کی وجہ سے خوراک کے بحران کے خطرے سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔یہ زیادہ تر وہ ممالک ہیں جہاں بارش بہت کم ہوتی ہے ا ور جہاں زمین کے نیچے بھی پانی موجود نہیں ہے۔ ان میں عرب اور افریقی ممالک سرفہرست ہیں۔خلیج فارس میں واقع قطر بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں پانی اور خوراک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
مستقبل میں پانی اور خوراک کہاں سے آئیں گے ، اس بارے میں وہاں پر حکمران اور ماہرین پریشانی کا شکار ہیں۔قطر ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اسے اپنی خوراک کی عدم کفالت کا بھرپور احساس ہے اور وہ اس سلسلے میں منصوبہ بندی کررہا ہے۔دیگر اسلامی ممالک جیسے پاکستان ، بنگلہ دیش ، مصر ، کویت ، بحرین ، یواے ای ، سوڈان اور موریطانیہ ایسے ممالک ہیں جہاں مستقبل میں خوراک کے بحران کے خدشات موجود ہیں جس کے نتیجے میں ان ملکوں کی سلامتی تک خطرے میں پڑسکتی ہے۔پاکستان میں غذائی بحران کے مظاہر ماضی میں تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ خوراک کی قیمتوں اور خورا ک کی کمی کا شکار افراد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بنگلہ دیش ، پاکستان ، مصر ، سوڈان ، موریطانیہ سمیت بہت سے مسلم ملکوں میں عوام کی کثیر تعداد خوراک کی کمی کا شکار ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں پانی اور زرخیز زمینوں کی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود وطن عزیز میں خوراک کے حوالے سے مسائل سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ماضی میں اس سلسلے میں چینی، آٹے اور دیگر خوردنی اجناس کی قلت اور بحران کے واقعات ہمارے سامنے ہیں اور کوئی پتہ نہیں کس وقت کوئی اور بڑا خوراک کا بحران پیدا ہوجائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ آبادی میں بے محابا اضافے کے ساتھ ساتھ بدانتظامی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
خوراک اور پانی کی کمی کا شکار عرب ممالک میں ایسے دلچسپ اور احمقانہ آئیڈیاز بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ برفانی علاقے سے برف لاکر خطے میں پانی کی کمی پوری کی جائے۔ایسا ہی ایک سعودی شہزادہ 1977 میں یہ ’’کارنامہ‘‘ دکھا چکا ہے۔ اس شہزادے نے آئیڈیا پیش کیا کہ عرب ممالک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قطب شمالی اور سائبیریا سے برف کے پہاڑ منگوائے جائیں اور یوں ان کا پانی استعمال کیا جائے۔ اس نے علامتی طور پر ٹرک اور ہیلی کاپٹرکے ذریعے الاسکا سے برف کا ایک عظیم الشان ٹکڑا منگایا اور لوگوں کے ایک بڑے اجتماع کے سامنے رکھ دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس برف اور اس کے پانی کو ہڑپ کرگئے۔الاسکا سے برف کے اس ٹکڑے کو لانے کے لیے کتنا سرمایہ خرچ کیاگیا ہوگا اور غیرملکی کمپنیوں نے اس سے کتنا پیسہ کمایا ہوگا، اس کے بارے میں آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔واقعی شہزادے شہزادے ہی ہوتے ہیں!
تاہم عرب ممالک میں اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں بھی جاری ہیں جیسے کہ مصنوعی طورپر بادل بناکر بارش برسائی جائے یا صحرا کی پیش قدمی روکنے کے لیے ہر ے بھرے درختوں کی فصیل بنائی جائے۔اس کے علاوہ خشک سالی سے دوچار خطوں میں فصلیں اگانے کے منصوبے بھی بنائے جارہے ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق اس وقت دنیا کی اکتالیس فیصد زمین صحرائی اور بارانی ہے اور یہاں پر دو ارب لوگ رہتے ہیں۔ان اعداد وشمار سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے وقت میں خوراک کا بین الاقوامی بحران جنم لے سکتا ہے۔
قطر خدشے سے دوچار سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔یہ خلیج فارس میں واقع چھوٹا سا ملک ہے جو پاکستان کے ضلع چاغی سے بھی پانچ گنا چھوٹا ہے۔یہاں پر کوئی دریا یا جھیل نہیں جبکہ سالانہ بارش کی شرح 7.4 سنٹی میٹر سے بھی کم ہے۔قطر اس سلسلے میں جو منصوبہ بندی کررہا ہے ، باقی عرب ملکوں کو بھی اس کی پیروی کرنا ہوگی۔قطر کو خوراک کے معاملے میں خود کفیل بنانے کے لیے جو شخص منصوبہ بندی کررہا ہے، اس کا نام فہد بن محمد العطیہ ہے۔ العطیہ کہتے ہیں کہ برفانی پہاڑکو صحرا میں لانے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔اس کا کہنا تھا کہ سعودی شہزادے کے ’’کارنامے‘‘ میں توسیع کرتے ہوئے اگر دس کروڑ ٹن وزنی برف کا پہاڑ بھی قطر لایا جائے تو اس سے پیدا ہونے والا پانی صرف ساٹھ دن چلے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا!
العطیہ کے بارے میں آپ کو مزید بتاتے چلیں کہ وہ ملک کے نیشنل فوڈ سیکورٹی پروگرام کے ایگزیکٹو چیئرمین ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ قطر جو خوراک درآمد کررہا ہے ، اس کی شرح کو کم سے کم کیا جائے۔ان کے ادارے کی کوشش ہے کہ قطر جو اس وقت اپنے ملک کی نوے فیصد خوراک بیرون ملک سے منگوا رہا ہے ، اس کے بجائے اگلے بارہ سال کے دوران ملک کی پچاس فیصد خوراک اندرون ملک ہی پیدا کی جائے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس کے تحت قطر کے موسم کو مکمل طورپر ری انجینیرڈ کیا جا ئے گا۔ڈی سالینیشن پلانٹ یعنی سمندری پانی سے نمک نکال کر اسے استعمال کے قابل بنانے کے لیے نئے پلانٹ لگائے جائیں گے۔ ملک کے گرین ہائوسز کو ایکڑوں کے بجائے میلوں پر پھیلا جائے گا۔ملک میں سماجی انقلاب کے ذریعے کاشت کاروں کے درجے کو بلند کیا جائے گا۔اس منصوبے کے لیے کل تیس ارب ڈالر کا بجٹ رکھا گیا ہے جس میں سے اسی فیصد نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے حاصل ہوگا۔اس کے علاوہ العطیہ کو قطریوں کو اس بات پر بھی قائل کرنا ہوگا کہ خوراک میں خود کفالت قومی سلامتی کے لیے لازمی ہے۔ ان کی یہ دلیل اس وقت اور بھی مضبوط ہوچکی ہے جب صرف ایک سال قبل سعودی عرب ، جو اسے خوراک کی سپلائی کرنیوالا سب سے بڑا ملک ہے ، نے اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے کے لیے قطر کو پولٹری ، آلو اور پیاز کی ایکسپورٹ روک دی تھی۔
خوراک میں خود کفالت کی قطری مہم کا منبع 2007-2008 کاخوراک کا بحران ہے جب خوراک پیدا کرنے والے ممالک میں خشک سالی اور ایکسپورٹ پر پابندیوں اور اجناس کے حوالے سے قیاس آرائیوں کے نتیجے میں خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔العطیہ کے بقول یہ وہ وقت تھا جو پکار رہا تھا کہ ہمیں اب جاگنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں: ’’اس وقت یہ صورت حال تھی کہ ہم دنیا کا امیر ترین ملک ہیں لیکن ہم چاول نہیں خرید سکتے۔‘‘دیگر خلیجی ملکوں نے اس بحران کے بعد بیرون ممالک زرخیز زمینیں خریدنا شروع کردیں۔تاہم العطیہ کا کہنا ہے کہ یہ حل پائیدار نہیں۔ان کے نزدیک اس بحران کا واحد حل یہ ہے کہ ملک کی خوراک ملک میں ہی پیدا کی جائے۔
اس مہم میں العطیہ کو ملک کے ولی عہد شہزادہ تمیم بن حماد الثانی کی بھرپور مدد حاصل ہے جس کے تحت العطیہ اور ان کی ٹیم بہترین سے بہترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔العطیہ کا کہنا ہے کہ ہمیں مزید فارمز اور گرین ہائوسز کی ضرورت ہے ، لیکن پانی کہاں سے آئے گا؟ چنانچہ اس کے لیے ہم سمندری پانی کو صاف کرنا چاہتے ہیں ، لیکن ایسا کرنے کے لیے توانائی کہاں سے آئے گی؟ فاسل ایندھن کے استعمال کے ذریعے ہم گلوبل وارمنگ کو بڑھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔اس کا حل شمسی توانائی ہے۔ ’’ہم سب کو اس کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔‘‘
جس زمانے میں العطیہ کے والد پیدا ہوئے تو فوڈ سیکورٹی کا مطلب کھجوریں اور اونٹ کا گوشت تھا۔ملک کے چند نخلستانوں سے بہت کم آبادی کو پانی دستیاب تھا۔تاہم جب ملک سے تیل کی دریافت ہوئی تو یہ سب کچھ بدل گیا۔لیکن امیرہونے کے باوجود قطر خود کو غیر محفوظ ترین ملک سمجھتا ہے۔اس وقت قطر کے لوگ 9.8 ارب لٹر پانی روزانہ استعمال کرتے ہیں اور یہ صاف کیا گیا سمندری پانی ہوتا ہے۔اس کے مقابلے میں اسرائیل جس کی آبادی قطر سے چار گنا زیادہ ہے وہ قطر سے تین گنا کم پانی روزانہ استعمال کرتا ہے۔قطر کی وزارت زراعت کے مطابق کی ملک کی آبادی اٹھارہ لاکھ ہے اور آنے والے دنوں میں پانی کی اس طلب میں ساڑھے تین ارب لٹر کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔
قطر میں صرف چند فارمز ہیں جو کنویں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں جن میں پانی زیرزمین چٹانوں سے آتا ہے۔ کنویں کا پانی مفت ہوتا ہے، اس لیے کسان اس کی پروا نہیں کرتے جبکہ پانی کو بچانے کے لیے انہیں کوئی مراعات بھی نہیں دی جاتیں۔العطیہ کے بقول ہم قطر میں اس طرح کاشتکاری کرتے ہیں جیسے دریائے نیل کے کنارے رہتے ہیں۔ ان کا خیالات کا اظہار العطیہ نے اس وقت کیا جب وہ اپنے خاندانی فارم ہائوس پر آئے تھے جو ایک شاندار نخلستان ہے جس میں کھجور کے ا ونچے اونچے پیڑ اور سفیدے کے درخت ہیں۔وہ ایک ایسی منصوبہ سازی کررہے ہیں جس کے ذریعے پانی کے ہر قطرے کو سیدھا پودے کی جڑوں تک پہنچایا جائے اور یوں ان پودوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جائے۔ان کو ایسا ماحول دیا جائے جس میں وہ موسم گرما کی شدید گرمی کو سہار سکیں۔العطیہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ ان کی عرب بہار ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق قطر کی مستقبل کی زراعت کا انفراسٹرکچر وسیع پیمانے پر سبسڈی پر منحصر ہوگا۔سمندر سے جو پانی صاف کرکے کھیتوں کو دیا جائے گا ، اس کے استعمال کی نگرانی کی جائے گی ۔ کاشت کاروں کی تربیت کی جائے گی کہ وہ کس طرح پانی ضائع ہونے سے روک سکتے ہیں اور پانی کو بچا سکتے ہیں۔اگر کوئی شخص ٹماٹر غلط طریقے سے اگاتا پایا گیا تو اسے سزا دی جائے گی اور اس کا پانی بند کردیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق 2025 میں جب سمندری پانی صاف کرنے کی تنصیبات کا مکمل ہونگی تو ملک اضافی پانی کو زیر زمین چٹانوں میں محفوظ کرلے گا۔ تاہم سمندری پانی صاف کرنے کا عمل اس قدر سستا نہیں ہوگا۔قطر کے منصوبے کے تحت روزانہ پونے دو سو ٹن نمک پیدا ہوگا اور یہ نمک دوبارہ سمندر میں بہا دیا جائے گا جیسا کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور کویت میں کیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں ماحول پر کیا اثر ہوگا ، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔قطر یونیورسٹی کے ماحولیاتی سٹڈی کے شعبے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فاضل سعدونی کے بقول خلیج کا پانی پہلے ہی دبائو کا شکار ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ اس قسم کی مزید آلودگی کو برداشت نہیں کرسکے گا۔
سمندری پانی کو صاف کرنے کے روایتی طریقے میں توانائی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔تاہم قطر نیشنل فوڈ سیکیورٹی پروگرام (QNFSP) کا منصوبہ ہے کہ اپنی ضرورت کے تمام تر پانی کو سمندرسے لیکر صاف اور استعمال کیا جائے اوراس مقصد کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کیا جائے۔ قطر کو اپنی ضرورت کا زرعی پانی پیدا کرنے کے لیے 753 میگاواٹ اضافی بجلی کی ضرورت ہوگی۔اس مقصد کے لیے دو ہزار فٹ بال سٹیڈیمز کے برابر شمسی توانائی کے پینل لگانا ہوں گے تاہم اس وقت شمسی توانائی کے جو پینل دستیاب ہیں وہ سرد ماحول کے لیے ہیں۔دوہا سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی ’’گرین گلف‘‘ اور ’’چیورون قطر‘‘ دس ملین ڈالر کی گرانٹ سے ایسے شمسی توانائی کے پینل تیار کررہی ہے جو قطر کے ماحول کے مطابق ہوں۔
اپنے فارم سے واپسی پر العطیہ اپنی پورشے کے ڈیش بورڈ پر ایک نقشہ پھیلائے ہوئے تھے اوراس کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔وہ قطر میں زراعت کی ترقی کے حوالے سے ایک لیکچر دینے کے لیے جارہے تھے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت کے مطابق قطر کی صرف ایک فیصد زمین قابل کاشت ہے ۔ تاہم قطر کے لوگ امید پرست ہیں اور ان کا یقین ہے کہ ان کے ملک کی ایک فیصد نہیں چھ فیصد زمین قابل کاشت ہے جو ستر ہزار ہیکٹر بنتی ہے۔تاہم صورت حال اتنی خوش کن نہیں۔اگر قطراپنی توقعات کو کم کرتے ہوئے سالانہ دس لاکھ ٹن خوراک بھی پیدا کرنا چاہے جو کہ اس کی ضرورت کا چالیس فیصد پورا کرتی ہے ، توروایتی زراعت کے ذریعے ایسا بھی ممکن نہ ہوگا۔
قطر نیشنل فوڈ سیکیورٹی پروگرام (QNFSP) ایسی چار سو مختلف فصلوں کا جائزہ لیکر ان میں سے ایسی فصلیں شناخت کرچکا ہے جن کو نئی قسموں ،گرین ہائوسز اور ہائیڈرو پونک ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے قطر میں کاشت کرنا ممکن اور مفید ہوسکتا ہے۔اس معاملے میں ہدف یہ ہے کہ موجود زمین کو ہی استعمال کرکے پانچ گنا زیادہ پیداوار حاصل کی جائے جبکہ پانی کا استعمال 30 فیصد تک کم ہو۔
تاہم ٹیکنالوجی کے ذریعے قطر کو خوراک کے معاملے میں خود کفیل بنانے میں ابھی بہت سی محدودات ہیں۔عملی طورپر قطر کبھی بھی اس قابل نہیں ہوگا کہ اپنی ضرورت کا چاول اور گندم پیدا کرسکے اور اسے گوشت اور ڈیری کی مصنوعات کے لیے بھی ہمیشہ امپورٹ پر انحصار کرنا ہوگا۔اس طلب کو پورا کرنے کے لیے قطر نے اپنے خودمختار فنڈز سے ایک ارب ڈالر مختص کیے ہیں ۔ اس نے آسٹریلیا اور سوڈان میں زمینیں خریدی ہیں۔ اس نے کینیا میں لیزپر زمینیں حاصل کی ہیںجبکہ بھارت میں چاول کی ایک بڑی کمپنی میں دس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔چینی ، سرخ گوشت اور اناج کے لیے قطر کی نظریں جنوبی امریکہ پر ہیں۔
قطر کو ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کسان اور کاشت کار مطلوبہ تعداد میں موجود نہیں۔ملک کی چورانوے فیصد ورکنگ فورس غیرملکی ہے۔زراعت کے میدان میں آگے نکلنے کے لیے قطرکو سماجی انقلاب بھی لانا ہوگا تاکہ ملکی ضرورت کے مطابق کسان اور کاشت کاربھی پیداکیے جاسکیں۔کسانوں کو اس معاملے میں مراعات اور عزت اور احترام دینا ہوگا۔العطیہ کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قطر میں کاشت کاری شروع کی جاتی ہے تو ان زمینوں کو کاشت کون کرے گا۔ہمیں زرعی کالجوں اور زرعی تعلیم کی ضرورت ہے۔ہمیں مارکیٹنگ ، فضلہ اور سیوریج کی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔سپلائی چین اور نالج اکانومی کی ضرورت ہے تاکہ یہ سب کچھ چلتا رہے۔
ٹماٹروں کی فصل کی طرح قطر کو دوسری فصلوں کے لیے بھی ہاٹ ہائوس انوائرمنٹ کی ضرورت ہوگی ۔ اس مقصد کے لیے اسے قدرتی گیس کی ضرورت ہوگی جو قطر کے پاس کثرت سے ہے۔ دوبئی سے تعلق رکھنے والے انرجی کے تجزیہ کار رابن ملز کے مطابق اگر گیس کے نرخوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی توقطر کو ان تمام منصوبوں پر نظرثانی حتیٰ کہ ان سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔العطیہ ان تحفظات کو مسترد کرتے ہیں۔ان کے بقول حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں بجٹ مختص ہوچکا ہے بصورت دیگر حکومت کو سبسڈائز درآمدی خوراک پر انحصار کرنا ہوگا۔یہ جو پچیس ارب ڈالر ملکی زراعت پر لگائے جائیں گے ، اس کا فائدہ ہوگا۔وہ کہتے ہیں:’’ہمارے پاس پانی کے سٹرٹیجک زخائر ہیں۔ہم اپنے لیے خوراک کے بحران کے عالمی خدشات کو کم کرچکے ہیں۔ہمارے پاس انٹیلیکچول پراپرٹی ڈویلپمنٹ اور ٹیکنالوجی ہے جسے منافع کی قیمت پر کہیں بھی ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘
واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کلیمنز برسنگر کا کہنا ہے کہ فوڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری کرنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ اگلے بیس سال تک دنیا کی آبادی میں ایک تہائی اور خوراک اور توانائی کی طلب میں نصف فیصد تک اضافہ ہوچکا ہوگا تاہم ان کا کہنا ہے کہ صحرائوں کو سرسبز بنانے کے بجائے اس سرمایہ کاری کو زیادہ سمجھداری سے استعمال کرنا ہوگا۔مثال کے طورپر اگر سب صحارن افریقہ میں مزید ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے تو سالانہ تیس لاکھ ٹن اناج پیدا کیا جاسکتا ہے جوکہ قطر کی سالانہ کھپت سے پندرہ گنا زیادہ ہے۔
دنیا میں اس وقت لگ بھگ 68 ملک ایسے ہیں جو بارانی سمجھے جاتے ہیں اور یوں یہ ملک بھرپور زراعت کے لیے موزوں نہیں۔تاہم خدشے کی بات یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں بارانی ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا کیونکہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں بارشوں والے خطوں میں بارشوں جبکہ خشک ملکوں میں خشکی میں مزید اضافہ ہوگا۔العطیہ نے بتایا کہ قطر اپنی دولت کو استعمال کرتے ہوئے سب کے لیے تحقیق کے اخراجات میں کمی کررہا ہے۔اس کی ایک مثال قطر میں قائم کیا گیا ایک تجرباتی فارم ہائوس بھی ہے۔تین سال قبل قطر کی وزارت ماحولیات کے بائیوٹیکنالوجی سنٹر کے محققین نے نمک کھانے والے خوردبینی جانداروں کو ’’سبخا‘‘ (صحرائی مٹی جس میں سمندری پانی سے تین گنا زیادہ نمک ہوتا ہے) میں شامل کیا۔ مکئی ، تربوزوں اور ٹماٹروں کو براہ راست اس تیار شدہ نئی قسم کی مٹی میں بویا گیا اور انہیں ٹریٹ کیا گیا سیوریج کا پانی دیا گیا۔سنٹر کے ڈائریکٹر مسعود المری نے خبردار کیا کہ ان خوردنی اشیاء کو ابھی انسانوں کے استعمال کیے آزمایا نہیں گیا۔تاہم اس کے باوجود جب ایک شخص نے وہاں پر موجود مکئی کے ایک بھٹے کو چکھا تو المری اسے روک نہ سکے۔المری نے اس موقع پر مسکراتے ہوئے کہا: ’’یہ میٹھا ہے۔ اگرہم اس میں کامیاب ہوگئے تو سب کچھ بدل جائے گا۔‘‘
پاکستان کی صورت حال
پاکستان بھی دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں خوراک کے بحران کا زبردست خدشہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بہت تیزی سے خوراک کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے، اس لیے حکومت کو فوری طور پر اس ضمن میں اقدامات کرنے چاہئیں۔ پچھلے دنوں ایک تنظیم کی جانب سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر حکومت نے فوری طور پر گندم کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے اہم فیصلے نہ کیے تو عوام کو اس کاخمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے کیونکہ اس وقت گندم کا جو لوکل سٹاک ہے ، وہ اگلی فصل آنے تک ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس تنظیم کا نام پاکستان اکانومی واچ ہے جس کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے پچھلے دنوں خبردار کیا کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کے پاس اناج کا جو پچھتر لاکھ ٹن کا ذخیرہ ہے ، اس کی مقدار غیرتسلی بخش ہے۔
آزاد اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے 2013 میں 22.8 ملین ٹن (دو کروڑ اسی لاکھ ٹن) گندم پیدا کی جو کہ مقررہ ہدف 25ملین ٹن (ڈھائی کروڑ ٹن) سے بائیس لاکھ ٹن کم تھا۔ ڈاکٹر مغل کے بقول اگر اب بھی حکومت نے کوئی فیصلہ لینے میں تاخیرکی تو عوام اور حکومت کو نقصان ہوگا جس کا فائدہ زخیرہ اندوز اٹھائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتی ہوئی سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور ایکسپورٹ کی وجہ سے گندم کے زخائر پر اضافی بوجھ پڑرہا ہے جس کو ایکسپورٹ پر پابندی لگاکر کنٹرول کیا جاسکتا ہے جو پندرہ لاکھ ٹن تک پہنچ چکی ہے۔دوسری جانب ود ہولڈنگ ٹیکس کی وجہ سے گندم کی امپورٹ بھی بہت سے لوگوں کے لیے بے معنی ہوچکی ہے جس کو ختم یا کم کرنا ہوگا تاکہ فوڈ سیکورٹی کو لاحق خطرات سے نمٹا جاسکے۔بصورت دیگر گندم کا بحران پیدا ہوگا جس کا فائدہ صرف اور صرف ذخیرہ اندوزوں کو ہوگا جن کو تاحال حکام نے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ڈاکٹر مغل نے مزید کہا کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کا وافر سٹاک موجود ہے لیکن اگر حکومت نے اس کو امپورٹ کرنے میں تاخیر کی تو عالمی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال نئی حکومت کے لیے ایک امتحان ہے جس میں ناکامی کا اسے سیاسی طور پر سخت نقصان ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تو وقتی صورت حال ہے لیکن اگر پاکستان نے پانی کے مزید ذخائر نہ بنائے اور پانی کو ضائع ہونے سے نہ روکا تو مستقبل قریب میں پانی کی کمی کے نتیجے میں فصلوں کو نقصان ہوگا اور یوں گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار کم ہونے سے کسی مخصوص وقت یا سال کے بجائے ہر وقت خوراک کے بحران کا خدشہ موجود رہے گا۔
بنگلہ دیش کی صورت حال
بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی زمانے میں قحط معمول تھے لیکن پھر ملک خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہوگیا تاہم اب ایک بار پھر اس ملک میں خوراک کی قلت کے خدشات سر اٹھارہے ہیں۔بنگلہ دیش کے چالیس فیصد سے زائد دیہی عوام روزانہ سوا ڈالر سے بھی کم پر گذارا کرتے ہیںجس میں 60 فیصد خوراک پر لگ جاتے ہیں۔ملک کی 66 فیصد آبادی کا گذارا زراعت پر ہے اور 81 فیصد بنگلہ دیشی کسانوں کے پاس ایک سے ڈیڑھ ایکڑ تک زمین ہے جس پر وہ کاشت کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں کاشت کے لیے مزید زمین دستیاب نہیں جس کامطلب ہے کہ بنگلہ دیش کو موجودہ زمینوں پر اپنی پیداوار کو بڑھانا ہوگا لیکن اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت اس ضمن میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی۔ بنگلہ دیشی کسانوں کی صرف9 فیصد تعداد ایسی ہے جو پیداوار بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور طریقے اختیار کررہی ہے۔
بنگلہ دیشی عوام کی 90 فیصد تعداد خوراک کی قلت کا شکارہے۔بے تحاشا آبادی اور پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کسی بھی وقت خوراک کا بحران پیدا ہوسکتا ہے اور غذائی قلت ایک معمول بن سکتی ہے۔
فوڈ سکیورٹی
خلیجی ممالک اپنی 70 فیصد خوراک مختلف ممالک سے امپورٹ کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے کئی خلیجی ممالک دوسرے ملکوں کی زرعی زمینوں میں پیسہ لگار ہے ہیں تاکہ وہاں اپنی ضرورت کی خوراک اگاسکیں۔دوسری جانب قطر کی منصوبہ بندی مختلف ہے۔ وہ اپنی خوراک ملک میں اگانا چاہتا ہے۔اس وقت خلیجی ممالک میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے جو اعداد وشمار ہیںان کے مطابق سعودی عرب اپنی 35 فیصد خوراک خود پیدا کرتا ہے۔دوسری جانب اومان 33 فیصد خوراک خود پیدا کررہا ہے۔ قطر سب سے کم خوراک اندرون ملک پیدا کرتا ہے جس کا تناسب صرف 7 فیصد ہے یعنی وہ اپنی 93 فیصد خوراک امپورٹ کرتا ہے۔دیگر خلیجی ممالک میں بحرین 10 فیصد اور یواے ای 18 فیصد خوراک اندرون ملک پیدا کرتا ہے۔اس طرح خلیجی ممالک میں قطر وہ ملک ہے جو خوراک کے معاملے میں سب سے کم خود کفیل ہے اور یہ عدم خود کفالت اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
مصریوں کا مسئلہ ؟
مصر گندم امپورٹ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اسے ان دنوں خوراک کی شدیدقلت کا سامنا ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ اگر اس قلت کو نہ روکا گیا تو مصر میں سیاسی صورت حال اور بھی خراب ہوجائے گی۔مصر کی حکومت کا کہنا تھا کہ اس سال ملک میں پچھانوے لاکھ ٹن گندم کی پیدوار کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا تاہم تازہ ترین اعدادوشمارکے مطابق مصر یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2011 میں صدر حسنی مبارک کے طویل اقتدارکے خاتمے اور دوسال سے جاری اقتصادی بحران کے باعث ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم ہوچکے ہیں۔بعض اعدادوشمار کے مطابق حسنی مبارک کیخلاف انقلاب سے لے کر اب تک یہ ذخائر 30 ارب ڈالر سے کم ہوکر 13.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ مصر کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ بیرون ملک سے گندم خرید سکے جو ملک کے ساڑھے آٹھ کروڑ لوگوں کی بنیادی غذا ہے۔
مصر میں گندم کی روٹی انتہائی سبسڈائز نرخوں پر ملتی ہے لیکن اگر یہ سبسڈی ختم کردی جائے تو موجودہ حالات میں اس کے سیاسی اور سماجی نتائج بہت سنگین ہوسکتے ہیں اور 1977 جیسی وہ بغاوت سامنے آسکتی ہے جب مصری حکومت نے روٹی پر سبسڈی ختم کی تھی اوراس کے نتیجے میں لوگ سڑکوں پر آگئے تھے۔
مصرسے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پانی اور ڈیزل کی کمی کی وجہ سے فصل متاثر ہورہی ہے اور یوں خوراک کا بحران پیدا ہورہا ہے۔گندم اور اناج کی قلت کی وجہ سے حکومت کو قیمتی غیرملکی زرمبادلہ گندم کی امپورٹ پر خرچ ہونا ہوگا جبکہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی تیزی سے نیچے کی طرف جارہے ہیں۔ اس سے ملکی کسانوں میں بھی غم وغصہ بڑھے گا جس سے سیاسی صورت حال خراب ہوگی۔
مصری حکومت کا اصرار ہے کہ اس کے پاس گندم کے ذخائر کی کوئی کمی نہیں اور تمام اشاریے یہ کہتے ہیں کہ حکومت گندم کے ہدف کو حاصل کرلے گی ۔ حکومت کا یہ بھی اصرار ہے کہ ڈیزل کی سپلائی میں کوئی رکاوٹ نہیں حالانکہ مصر کو غیرملکی کمپنیوں کے پانچ ارب ڈالر ادا کرنا ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ابھی ذخائر موجود ہیں اور عالمی مارکیٹ سے گندم خریدنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔
تاہم عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق صورت حال سنگین ہے۔’’ایشیا ٹائمز آن لائن‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں مصری پائونڈ کی قیمت میں ساٹھ فیصد تک کمی ہونے کے بعد سوائے سبسڈائزڈ روٹی کے ہر شے مصری عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے جبکہ حقیقت میں روٹی کی سپلائی بھی خطرے میں ہے۔کرنسی کی قیمت گرنے سے امپورٹ کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بحران کی شدت بھی ضرب لے رہی ہے۔ملک میں ایندھن کی سپلائی بھی کم ہے۔ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر ہے اور ملک کا زیادہ تر انحصار غیرملکی امداد اورقرضوں پر ہے۔