مقبوضہ جموں وکشمیر پرفوجی قبضے کے بعد بھارتی سرکار نے ڈیڑھ عشرے تک انتخابات سے پہلو تہی اختیار کیے رکھی ۔سنہ 1965ء میں ریاستی اسمبلی کے پہلا باضابطہ چناؤ عمل میں لایا گیا۔اس کے بعد سے اب تک کل 12ریاستی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔ پچیس نومبر کو مقبوضہ ریاست میں 13واں انتخابی ڈھونگ ہوا۔
ان سطور کی اشاعت تک یہ اندازہ ہوجائے گا کہ آیا اب کی بار میدان کس نے مارا ہے۔ اس سے قبل سستی شہرت کے دلدادہ شیخ محمد عبداللہ اینڈ سنز کی جماعت نیشنل کانفرنس چھ مرتبہ ریاست میں نئی دہلی کے کٹھ پتلی حکومت بنا چکی ہے۔ چار مرتبہ نیشنل کانگریس کو کشمیر کو لوٹنے کا موقع ملا جب کہ مفتی محمد سعید اور ان کی باقیات کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کو ایک مرتبہ اور غلام محمد شاہ کی عوامی نیشنل کانفرنس کو ایک مرتبہ حکومت بنانے کا موقع ملا۔ لیکن اب کی بار ایک نئی جماعت ریاست کے انتخابات میں کودی ہے۔ جی ہاں یہ نئی پارٹی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ (بی جے پی) ہے۔
بی جے بھی وادی کشمیر میں بالکل نووارد نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس نے حتی الامکان اپنے پاؤں جمانے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن ماضی میں اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب کی بار چونکہ مرکز میں اس کی حکومت ہے اور وزیراعظم نریند ر مودی نے مقبوضہ وادی میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی مشینری کا بھرپور استعمال کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔آنے والے دنوں میں اس کی زندہ مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔ ماضی کی روایت عموماً یہی رہی ہے کہ جس پارٹی کی مرکز میں حکومت بنی کم وبیش اسی کے ہمنوا و ہم خیال گروپ نے وادی میں بھی اپنی حکومت بنائی۔
مجموعی طورپر وادی کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی 87 نشستیں ہیں۔ ان میں 41 جموں اور لداخ کے ان علاقوں پر مشتمل ہیں جہاں ہندو پنڈتوں کی اکثریت ہے اور مسلمانوں کی تعداد کم ہے جبکہ 46 نشستیں کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کے مصاحبین کی نظریں سری نگر کے بجائے جموں اور لداخ پرمرکوز ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ جنتا پارٹی نے لداخ اور جموں میں اپنے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے بھرپور پیسہ خرچ کیا ہے۔ چونکہ مرکزی انتخابات میں بھی جمو ں اور لداخ سے جنتا پارٹی کو کامیابی مل چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کی نریندر مودی اسی کامیابی کو اب ریاستی انتخابات پراثرانداز ہونے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ووٹوں کی خریداری کا سلسلہ پورے زور وشور کے ساتھ جاری ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ بھارتی حکمراں جماعت نے اپنے من پسند اُمیدواروں کی کامیابی کے لیے فی ووٹر تین سے پانچ ہزار روپے تقسیم کیے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے نئی دہلی اور اپنے گڑھ گجرات سمیت ملک کے کئی دوسرے شہروں سے بھی سیکڑوں پارٹی کارکن لداخ اور جموں میں بھیج رکھے ہیں جو نہ صرف انتخابی مہم چلا رہے ہیں بلکہ ووٹروں کو دھونس اور لالچ کے ذریعے جنتا پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اثرانداز ہو رہے ہیں۔
یہ سیکڑوں نام نہاد سیاسی ورکر دن رات اپنے ’کام‘ میں مصروف عمل ہیں۔ جموں شہر میں ڈیرہ جمائے بی جے پی کے مربی سمجھے جانے والے پروفیسر ’’ھری اوم‘‘ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں اب مستقبل صرف بی جے پی کا ہے۔ جنرل نیشنل کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی باریوں کا دور لد چکا ہے۔ کشمیر کے عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں اور تبدیلی صرف بھارتیہ جنتا پارٹی لا سکتی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ لداخ اور جموں کے عوام نے انتخابات سے قبل ہی ان کی جماعت کی کھل کر حمایت کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آئندہ کشمیر میں حکومت بی جے پی بنائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پوری ودای کشمیر میں ’’مشن 44 پلس‘‘ کے عنوان سے انتخابی مہم شروع کی ہے۔ یہ مہم وقت سے قبل ہی نتائج دکھا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی میں وہ جہاں بھی جلسہ کرتے ہیں تو لوگ دیوانہ وار ان کے انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرکے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔
پروفیسر ہری اوم کا دعویٰ اپنی جگہ مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ غیرجانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ جنتا پارٹی نے ریاستی انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرنے کے لیے جو طریقہ واردات اختیار کر رکھا ہے وہ قطعی غیر جمہوری ہے۔ بندوق کی نوک پر لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ دیں ورنہ انہیں سخت انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب بندوق اورپیسہ دونوں دھڑلے کے ساتھ استعمال ہو رہے ہیںتو لازماً اس کے انتخابی نتائج پر بی جے پی کے حق میں اثرات مرتب ہوں گے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسند قیادت کی جانب سے انتخابی ڈھونگ کے بائیکاٹ اور جمو ں اور لداخ کے پنڈتوں کی بڑھتی حمایت سے بی جے پی کو نہ صرف جموں میں فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ جنتا پارٹی ریاست کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنے پاؤں مضبوط کرسکتی ہے۔ پروفیسر اوم کا کہنا ہے کہ جموں کے امیرہ کد، حبہ کدل، سوپور، بیج بہاڑہ اور اننت ناگ جیسے حلقوں پران کے امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہی وہ حلقے ہیں جہاں بھارتی سرکار نے اپنے امیدواروں کی جیت کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے۔
عوام کیا سوچتے ہیں؟
ملک کی نئی قیادت کے چناؤ کے لیے انتخابات جب اور جہاں بھی ہوں تو ان کا محور اور مرکزبیچارے عوام ہی ہوتے ہیں۔ ہرسیاسی جماعت اور انتخابی امیدواربلند بانگ دعووں اور وعدوں کے ساتھ میدان میں نکلتا اور عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔
مقبوضہ وادی کشمیر کے سیاسی پنڈت بھلا اس میدان میں ایک دوسرے سے کب پیچھے رہ سکتے ہیں۔ بار بار عوام کو لوٹنے والے بھی خود کو آسمان سے اترے فرشتے ثابت کرتے اور ایسے ایسے سہانے باغ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان کے دعوؤں کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس باب میں کشمیر کی موجودہ نام نہاد کٹھ پتلی قیادت نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین کے بھرے بازار میں خوب لتے لیتی ہے بلکہ ایک دوسرے کی بگڑیاں اچھال کر اپنا ووٹ بنک بڑھانے اور ایک بار پھر عوام کی گردنوں پرمسلط ہونے کی راہ ہموار کررہی ہے۔
الزام تراشی کی سیاست میں نیشنل کانگریس ،نیشنل کانفرنس ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز ڈیمو کریٹک کے رہنما سب برابر ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہاں کے عوام کیا سوچتے ہیں؟ مقامی اخبارات اور غیر جانب دار مبصرین کے خیالات و تجزیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کشمیری عوام اپنی گردنوں پر مسلط بھارتی ایجنٹ نما سیاست دانوں سے سخت نالاں ہیں۔آج تک کوئی بھی مقامی حکومت کشمیری عوام کی فلاح بہبود کے لیے کوئی موثرحکمت عملی وضع نہیں کرسکی۔
مبصرین کا خیال ہے چونکہ کشمیر میں حکومت سازی میں دہلی سرکار کا ہاتھ ہوتا ہے اس لیے جو بھی حکومت بنے گی اس کی اول تا آخر کوشش عوام کی فلاح بہبود نہیں بھی بلکہ بھارتی حکومت کی خوشنودی ہوگی۔ کشمیر کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کے سامنے عوام کے مسائل کبھی نہیں رہے۔ انتخابات سے قبل، مہم کے دوران اور کامیابی کے بعد ہرسیاست دان دہلی سرکار کی مالا جپتا اور اس کی جی حضوری میں اپنے شب و روز بتاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سخت مایوس اور پریشان ہیں۔
اگرچہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ کشمیر کی سیاست اور وہاں کی سماجیات میں جوہری تبدیلیاں لانا چاہتی ہے لیکن وہ کیا تبدیلیاں ہوسکتی ہیں؟ ان پرالگ سے بحث کی جائے گی۔ سردست جنتا پارٹی کے امیدواروں کے سیاسی کردار اور عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر پرنگاہ ڈالنے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ بی جے پی کے انتخابی امیدواروں میں اکثریت ڈاکوؤں، رسہ گیروں اور بدمعاشوں پر مشتمل ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی میں دیہاتوں میں آباد گجرآبادی کی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہڑپ کرتے رہے ہیں۔ چونکہ ان کی پشت پربڑے بڑوں کا ہاتھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں بھی نہیں آسکے اور نہ کشمیر ی پولیس انہیں روکنے میں ناکام رہی ہے۔ کٹھ پتلی فوج اور پولیس آخر انہیں روک ہی کیوں سکتی ہے۔ یہی تو وہ عناصر ہیں جن کے بل پربھارت نے وادی پرغاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔
ایک بھارتی اخبار کے ادارتی مضمون میںوہاں کی مقامی سیاست کا بجا طور پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’کشمیر میں روز اول سے کرسی کے متوالوں نے عوام کی خدمت کو پس پشت ڈالا اور آج تک کسی حکومت نے عوامی فلاح بہود کو ادنیٰ درجے کی حیثیت بھی نہیں دی۔ ہربرسراقتدار گروپ کو یہی دھن سوار رہی کہ وہ کس طرح نئی دہلی کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ سیلاب میں بھی پریشان حال عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی اور نہ ہی مابعد سیلاب کسی نے عوام کی یاوری کی۔ محض فوٹو سیشن کی حد تک کام ہوا اور یہ سراسر جھوٹ ہے کہ ریاستی سرکار اور اس کے کارندے عوام کے کندھے سے کندھا ملا کر اس ناگہانی مصیبت میں ان کی مدد کرتے رہے۔
چشم فلک نے ہر بار یہی دیکھا کہ کشمیر کی اقتدار کی نیلم پری کا حصول عوام کی من مرضی کا تابع نہیں، دلی کے کنگ میکروں کی مرہون منت رہا۔ اس لیے ہرسیاست دان اور ہر پارٹی نے ہمیشہ اہل کشمیر کو نظرانداز کرکے دلی کی خوشنودی کا بیڑا اٹھایا۔ اگر سیلاب جیسی مصیبت کسی دوسری ریاست میں آئی ہوتی تو وہاں کب کا صدارتی یا گورنر رول نافذ کردیا گیا ہوتا، لیکن یہاں پرمقامی حکومت کی نالائقیوں پرکسی نے ٹوکا تک نہیں۔ اسی لیے کسی کو کشمیر ی عوام کی فکر نہیں‘‘۔
جہاں تک نیشل کانفرنس کاتعلق ہے تو وہ اب ویسے ہی مردہ گھوڑا بن چکی ہے۔ پچھلے چھ سالہ اقتدار کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے ایسے ایسے اندوہناک واقعات نیشنل کانفرنس کی سیاست کو تباہ کرنے کا موجب بنے ہیں۔ مبصرین کے خیال میں نیشنل کانفرنس کے پچھلے چھ سال کے دوران کشمیر میں حقیقی معنوں میںبھارتی فوج کی حکومت رہی ہے۔
سنہ 2009ء شوپیا ں کے مقام پرآسیہ اور نیلوفر نامی دو خواتین کی آبرو ریزی کے بعد جس بہیمانہ طریقے سے انہیں شہید کیا گیا، سنہ 2010ء میں چند ہفتوں کے دوران بھارتی فوج نے120 نہتے نوجوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تو نیشنل کانفرنس کی قیادت کے ماتھے پرایک شکن تک نہیں آئی۔ ان حالات میں کشمیر ی عوام کو اندازہ ہوگیا کہ نیشنل کانفرنس کشمیر ی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بھارتی سرکار کی خوشنودی کے لیے کام کرتی ہے۔
عوام کا بدلتا روپ دیکھ کر پارٹی کے کئی رہ نما جن میں شیخ غلام احمد سالورہ، شیخ غلام رسول اور محبوب بیگ جیسے اہم رہ نماشامل ہیں پارٹی سے الگ ہوگئے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر کئی پنچھی اب نریندر مودی کی منڈیر پر بیٹھنے کا سوچ رہے ہیں۔ چڑھتے سورج کے پجاریوں کو شاید اندازہ ہو چکا ہے کہ نریندر مودی ہرقیمت پرکشمیر میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا نا چاہتے ہیں۔ مرکز میں کانگریس کی شکست کے بعد اس جماعت کو بھی کشمیر کے حالیہ الیکشن میں اپنی دال گلتی دکھائی نہیں دے رہی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے وادی کشمیر میں مقاصد نہایت خطرناک ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی حکومت بنانا چاہتی ہے بلکہ ایک سازش کے تحت ریاست کی الگ حیثیت اور شناخت کے اس قانون کو بھی ختم یا ترمیم کے ذریعے تبدیل کرنا چاہتی ہے جسے آج تک کوئی دوسری حکومت چھیڑنے کی جرات نہیں کرسکی۔ ریاستی قانون کے آرٹیکل370 کو چھیڑا جاتا ہے تو اس کا تنازعہ زیادہ خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔ کشمیر کی حریت قیادت پہلے ہی نظربند ہے ۔
یوں لگ رہا ہے کی نریندر مودی کی جماعت طاقت اور سیاست دونوں راستے اختیار کرکے وادی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی سازش تیار کر رہی ہے۔ نریندر مودی کے حمایت یافتہ بدمعاش قسم کے سیاسی چمچے وادی کشمیر میں برسر اقتدارآئیں گے تو بی جے پی کی یہ سازش ممکنہ طورپر کامیاب ہوسکتی ہے۔