Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بلوچستان میں نصاب اور نصاب سازی کے مسائل

$
0
0

پاکستان میں نصاب سازی کبھی بھی مقتدر حلقوں کے ہاں سنجیدہ موضوع نہیں رہی۔ بلوچستان تو یوں بھی اپنی پیشانی پر شروع دن سے پس ماندگی کا داغ سجائے ہوئے ہے۔

وفاق کے رویے اور رجحانات ہمیشہ یہاں اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ ابھی چند برس قبل تک نصاب سازی کے تمام تر اختیارات جب وفاق کے پاس ہوا کرتے تھے تو بلوچستان میں نصاب کی تمام کتابیں اسلام آباد یا پنجاب سے تیار ہوکر آتی تھیں۔ اب جب کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد نصاب سازی کا اختیار صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، اس کے باوجود بلوچستان میں اب تک نصاب کی کوئی کتاب صوبائی سطح پر تیار نہیں کی جا سکی ہے۔ شعبۂ نصابیات کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان حکومت نے یہ کہہ کر کہ ان کے پاس نصاب سازی کے اہل افراد ہی موجود نہیں، 2016ء تک وفاقی نصاب کو ہی بروئے کار لانے کا حکم جاری کیا ہے۔

قطع نظر اس بحث کے، پاکستان میں تین مضامین نصاب کی سطح پر ہمیشہ نظریاتی افکار کی ترویج کا باعث رہے ہیں؛ اردو، اسلامیات اور مطالعۂ پاکستان۔ مطالعہ پاکستان کا مضمون جنرل ضیاء الحق کے عہد میں متعارف ہوا۔ یہ آج بھی لازمی مضمون کی صورت میں میٹرک سے لے کر انٹر (بعض مضامین میں یونیورسٹی کی سطح تک) پڑھایا جاتا ہے۔ ان مضامین سے بالخصوص طلبہ کی نظریاتی تربیت کا کام لیا جاتا ہے اور جو مضمون ریاست کی نظریاتی تربیت کا ذریعہ بن جائے، اس میں مبالغہ آمیزی کا عنصر یقینی ہوجاتا ہے۔

لیکن پاکستان میں پڑھایا جانے والا مطالعہ پاکستان کا اہم مضمون مبالغہ کے علاوہ حقائق کی اغلاط اور تعصبات سے بھی بھرا ہوا ہے۔ بلوچستان میں گذشتہ برس نئی ’روشن خیال‘ حکومت نے آتے ہی تعلیمی ایمرجینسی کا جو اعلان کیا تھا، اس میں نصاب میں نفرت انگیز اور متعصب مواد کو خارج کرنے کا عزم بھی شامل تھا۔ لیکن آج ڈیڑھ برس بعد بھی جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، وہ کس قدر تعصبات اور اغلاط سے بھرا ہوا ہے، ذیل میں ہم محض اس کی ایک جھلک پیش کر رہے ہیں۔

اس مطالعے کے لیے ہم نے بلوچستان میں میٹرک اور انٹر لیول پر پڑھائی جانے والی مطالعۂ پاکستان کی نصابی کتب کو منتخب کیا۔ ہر دو کتب میں شامل اغلاط اور متعصبانہ مواد کی الگ الگ نشان دہی کی گئی ہے۔

پہلے تذکرہ کرتے ہیں میٹرک، جماعت دہم میں پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی کتاب کا۔ اس کے مصنفین ہیں، پروفیسر احمد سعید خٹک، پروفیسر محمد نصیرخان۔ مدیر: ڈاکٹر محمد نواز، اشاعت:2013۔ منظور شدہ: بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ، کوئٹہ۔ پبلشر: نیو کالج پبلی کیشنز، کوئٹہ۔

یہ کتاب ہندو دشمنی کے مواد سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھیں:
1۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان 14اگست1947کو آزاد ہوا، اس کے ایک روز بعد بھارت کا قیام عمل میں آیا۔ (ص،۶۳)
2۔ لاکھوں مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا، جن کے قافلوں کے ساتھ بھارت کے اندر ہندوؤں اور سکھوں نے وہ انسانیت سوز سلوک کیا جس کے بیان سے بھی دل لرز جاتے ہیں۔ اس ہجرت کے دوران بعض واقعات میں تو بھارتی فوج بھی برملا عام ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مسلمانوں کے قتل و غارت میں شامل تھی۔ (ص، ۶۴)
3۔ پاکستانی علاقوں میں قائم دفتروں کے ہندو اہل کار ہندوستان جاتے ہوئے تمام ریکارڈ تباہ کر گئے تھے ۔ (ص، ۶۵)
4۔ 1971ء میں بھارتی جارحیت کی بدولت ہی تو مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ (ص،۹۷)
انٹرمیڈیٹ کی سطح پر رائج مطالعہ پاکستان کی کتاب بھی اسی قسم کے مواد سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے مدیران ہیں؛ محمد سلیم اختر، حفصہ جاوید سبط حسن، مسز شفقت افتخار۔ اشاعت: 2011۔ منظور شدہ: بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ، کوئٹہ۔ پبلشر، فہد پبلشنگ کمپنی، کوئٹہ۔

1۔ اونچی ذات کے ہندو، نچلی ذاتوں خصوصاً ویش اور شودروں سے بہت برا سلوک کرتے تھے۔ مسلمان حملہ آوروں نے جب ان لوگوں سے رواداری کا مظاہرہ کیا تو انھوں نے اپنے حکم رانوں کا ساتھ دینے کی بجائے مسلمان حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔ (ص، ۱)
2۔ عوام کی اکثریت جاہل، پس ماندہ اور توہم پرستی کا شکار تھی…ہندو، ترقی اور جدت کے دشمن تھے، غیرملکیوں کو ناپاک سمجھتے تھے۔…ذات پات کے بندھنوں کے باعث عوام میں باہمی رواداری کا فقدان تھا…عورت کی معاشرے میں کوئی عزت نہ تھی۔ وہ مرد کی دست نگر اور لونڈی بن کر رہتی تھی۔ ستی کا رواج عام تھا۔…گوتم بدھ کی اصلاحی کوشش جو بدھ مت کے نام سے مشہور تھی اندرونی انتشار اور شاہی سرپرستی سے محرومی کے باعث ناکامی کا شکار ہو چکی تھی۔ (ص،۲)
یہ باتیں وہاں بھی پڑھانی پڑتی ہیں جہاں کلاس میں کہیں کہیں ہندو طلبہ کی تعداد مسلمان طلبہ سے زیادہ ہوتی ہے، جیسے بیلہ وغیرہ۔
3۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندو، لباس کے معاملے میں سلیقہ مند نہ تھے۔ وہ اپنے جسم کو ایک یا دو چادروں سے ڈھانپ لیتے تھے، مسلمانوں نے پہلی دفعہ لباس سینے کا طریقہ رائج کیا، جو زیادہ باپردہ اور زیادہ خوب صورت تھا۔ (ص،۳)
4۔ مسلمانوں کی آمد سے اس خطے کے عوام کو ہندو سماج کی ناانصافیوں سے بڑی حد تک نجات مل گئی۔ ذات پات کی چکی میں پسنے والے پسماندہ طبقات نے سُکھ کا سانس لیا اور اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔ (ص،۴)
5۔ مسلمانوں کوہمیشہ اپنی بلندپایہ تہذیب و ثقافت پہ ناز رہا ہے، ہندو قوم اس تہذیب کو مٹانے کے درپے تھی۔…جنوبی ایشیا میں مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی تھی چناںچہ وہ نہایت خوش حال قوم تھے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوؤں اور انگزیزوں کی ملی بھگت سے مسلمان اس علاقے کی نہایت مفلس وبدحال قوم بن گئے۔ (ص،۶)
6۔ انسانیت دشمن ہندوؤں اور سکھوں نے ہزاروں بل کہ لاکھوں عورتوں ، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو انتہائی بے دردی اور سنگ دلی سے قتل کیا اور بے آبرو کیا۔ (ص،۴۳)
7۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ نہ صرف پاکستان کی ابتدائی مشکلات اور مسائل بھارت کے پیداکردہ ہیں بلکہ پاکستان کا ہر مسئلہ بھارت کا پیداکردہ ہے، جب کہ پاکستان نے شروع ہی سے بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ (ص،۴۰)

میٹرک کی کتا ب میں حقائق کی چند غلطیاں:
1۔ خیبر پختونخوا کی ریاستیں تحریک پاکستان کے دور سے ہی پاکستان کی حامی تھیں ۔ (ص،۶۶) ……(تاریخ کا قتل عام!)
2۔ (۱۹۶۵ء کی) جنگ میں بھارت کی شکست کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اس کے 110طیارے تباہ ہوئے جب کہ پاکستان کے صرف 14طیارے تباہ ہوئے۔ (ص،۷۲)
ان اعدادوشمار کی تصدیق کہیں سے نہیں ہوتی۔
3۔ اس وقت پاکستان میں غربت کی شرح 25%ہے۔ (ص، ۱۴۰)
جب کہ درحقیقت ۲۰۱۳ء میں صرف غربت کی لکیر سے نیچے افراد کی شرح 22% تھی۔ (ذریعہ، عالمی مالیاتی بینک سروے)
4۔2009ء کے ایک سروے کے مطابق مجموعی طور پر ملک میں خواندگی کی شرح 54فی صد ہو چکی ہے۔ (ص،۱۴۸)
یونیسکو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح 72%ہے۔ 2013ء کے اعدادوشمار کے مطابق شرح خواندگی کے حوالے سے دنیا کے 221 ممالک میں پاکستان کا نمبر 180ہے۔
5۔ منیر احمد بادینی، حکیم بلوچ، ڈاکٹر نعمت گچکی، عبداﷲ جان جمالدینی اور شاہ محمد مری کو بلوچی کے ’مشہورشعرا‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے (ص،۱۵۷) حالانکہ ان سب کا تعلق نثر سے ہے۔
6۔ پاکستان کی دیگر زبانوں میں ’مکرانی‘ کو بھی اہم زبان قرار دیا گیا ہے۔ (ص،۱۵۸) حالانکہ مکرانی ، بلوچی زبان کا ایک لہجہ ہے نہ کہ الگ سے کوئی زبان۔
7۔ پرویزمشرف کی معاشی اصلاحات کے ضمن میں بتایا گیا ہے،’’آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات حاصل کرنا ان کی حکومت کا اہم کارنامہ تھا۔‘‘ (ص،۹۱) آسان زبان میں اسے ’سفید جھوٹ‘ کہتے ہیں۔

انٹر کی کتاب میں حقائق کی غلطیاں:
1۔ باب پنجم، ’پاکستان کا کلچر‘ میں لکھا ہے؛’’سرزمین پاکستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں قدیم ترین انسانی تہذیب نے جنم لیا، اسے وادی سندھ کی تہذیب کہا جاتا ہے۔ یہ مصر اور عراق کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی، اور آج سے چار پانچ ہزار سال پہلے اپنے عروج پر تھی۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں بسنے والوں کے مقابلے میں یہ لوگ بہت زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب تھے۔ ‘‘ (ص، ۹۷)
حالانکہ جدید تحقیق کے مطابق بلوچستان میں واقعہ مہرگڑھ کی تہذیب کو دنیا کی قدیم ترین تہذیب قرار دیا گیا ہے۔ یہ وادی سندھ کی تہذیب کی نسبت گیارہ ہزار سال قدیم ہے۔ لیکن کتاب میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔
2۔ براہوی زبان بولنے والوں سے متعلق لکھا ہے؛’’ساراوان، جھالاوان، کیچ اور مکران کے علاقوں میں ان کی آبادی گنجان ہے۔‘‘ (۱۲۷)
براہوی بولنے والے قبائل کی اکثریت ساروان اور جھالاوان کے علاوہ کچھی اور بولان میں بستی ہے۔ کیچ اور مکران میں ان کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی نہیں، یہ کتابیں بیان کی غلطیوں (Mistakes in Statements) سے بھی بھری ہوئی ہیں، جو نہ صرف ان کے مصنفین، بلکہ بورڈ انتظامیہ اور پبلشرز کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ پہلے میٹر ک کی کتاب میں موجود ایسی

چند اغلاط کی نشان دہی:
1۔ تین جون 1947ء کا منصوبہ: (نمبر۴) چوںکہ اس زمانے میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ حاصل نہیں تھا، لہٰذا تجویز یہ تھی کہ اس کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کوئٹہ میونسپل کمیٹی اور شاہی جرگہ کے عمائدین مل کر کریں گے۔
(نمبر۶) برصغیر میں سیکڑوں ایسی ریاستیں تھیں جن کو خارجی تعلقات کی آزادی تو نہ تھی مگر اندرونی انتظام میں خودمختار تھیں۔ ایسی ریاستوں کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنی آبادی کے رحجان اور جغرافیائی قربت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرلیں۔ (ص،۲۲)
حالانکہ بلوچستان دوسری قسم کی ریاستوں میں شامل تھا اور یہ پاکستان کے قیام کے سات ماہ بعد مارچ 1948ء میں پاکستان کا حصہ بنا۔
2۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک تمام فوجی حکم رانوں کی کارکردگی تو گنوائی گئی ہے، لیکن ان کے حکومت میں آنے کو کہیں بھی غیرجمہوری قرار نہیں دیا گیا۔ سیاسی حکومتوں کی بعض ناکامیاں یا خامیاں بھی بتائی گئی ہیں، لیکن فوجی حکم رانوں کی صرف کام یابیاں بتائی گئی ہیں۔
3۔’سقوطِ مشرقی پاکستان‘ کے اسباب میں مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ کا کردار، معاشی بدحالی، نوکرشاہی کا رویہ، سیاسی بصیرت کا فقدان اور بھارت کی مداخلت شامل ہیں، عسکری ناکامی کا تذکرہ کہیں نہیں۔
4۔ ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے بیان میں ’نفاذِ اسلام کے لیے اقدامات‘ کے عنوان سے پورا ایک صفحہ ان کی شان میں صرف کیا گیا ہے۔ اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والے اس آمر کے بنیادپرستانہ اقدامات کو بھرپور طور پر سراہا گیا ہے۔ (ص،۸۳)
5۔ جہادِ افغانستان اور اس کے اثرات‘ کو بھی مثبت طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کے کردار کو بالخصوص سراہا گیا ہے۔ (ص،۸۴)
6۔ پرویز مشرف کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ، انتخابی اہلیت کے لیے بی اے کی لازمی شرط، اور غیرمسلموں کے لیے جداگانہ انتخاب کے خاتمے جیسے اقدامات کو مشکوک بناتے ہوئے لکھا گیا ہے…’’اگرچہ ملک کے اندر اس قانون پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تاہم امریکا اور دیگر غیرمسلم قوتیں مشرف کے اس اقدام سے بہت خوش ہوئیں۔‘‘(ص،۹۰)
7۔ ’’غربت کے نتائج اور تدارک‘‘ کے ضمن میں مقتدر قوتوں کا موقف دہراتے ہوئے لکھا ہے ؛’’تمام انتظامی اکائیاں اپنے اپنے طور پر غربت کا رونا رہی ہیں۔ اس صورت حال سے ہمارے بیرونی دشمن خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ہی عوام ہیں کہ دشمن ممالک کے کارندوں کے ہاتھوں گم راہ ہو کر یا کچھ معاوضے کے لالچ میں آکر اپنے ملک کی سلامتی کے خلاف کام کر جاتے ہیں۔‘‘ (ص،۱۴۱)

ایسی ہی کچھ اغلاط اور غلط بیانیاں انٹر کی کتاب میں بھی موجود ہیں:
1۔ پاکستان میں صحیح اسلامی معاشرہ قائم کر کے مسلمان جدید دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے کہ دوسری اقوام اس سے متاثر ہو کر اس کی تقلید کرسکیں۔ ان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان کو عالم اسلام کا قلعہ اور مرکز بنا دیا جائے اور یہ مرکز مسلم ممالک کے مسائل حل کرنے میں مدد دے۔ (ص،۷)
’صحیح اسلامی معاشرہ‘ کی وضاحت کہیں نہیں کی گئی۔
2۔ قیام پاکستان کے وقت فیصلہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کا شاہی جرگہ طے کرے گا کہ آیا یہ صوبہ، پاکستان میں شامل ہوگا یا بھارت میں۔ اس موقع پر کانگریس نے سازشوں کا جال بچھایا لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ (ص،۱۰)
قیام پاکستان کے وقت قلات کی حیثیت آزاد ریاست کی تھی، شاہی جرگہ اس معاملے کا اختیار ہی نہ رکھتا تھا۔ یہ فیصلہ ریاست قلات کے دارالعوام اور دارالعمرا پر مشتمل ایوان کو کرنا تھا۔
3۔ یہ کتاب 2011میں شائع ہوئی ہے، لیکن اس میں ایک جگہ لکھا گیا ہے،’’موجودہ حکومت نے ڈویژنل نظام ختم کر کے مقامی حکومت کے حوالے سے ضلعی نظام متعارف کروا یا ہے۔ (ص،۹۴)

گویا یہ پرویزمشرف کے زمانے کی بات ہو رہی ہے، جب کہ کے پی کے کو بعض جگہ صوبہ سرحد اور بعض جگہوں پہ خیبر پختونخوا لکھا گیا ہے۔ صوبے کو یہ نام پیپلزپارٹی کی حکومت میں ملا۔ اس سے مدیران کی متن سے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے بلوچستان میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر مطالعہ پاکستان کی دو مختلف کتابیں بلوچستان کے کالجز میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ ایک بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی منظور کردہ، جس کا تذکرہ ہم گذشتہ سطور میں کر چکے ہیں اور دوسری وفاقی وزارتِ تعلیم کی منظورکردہ جسے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیا۔ بعض اساتذہ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں سے وہ وفاقی وزارت تعلیم کی منظورکردہ کتاب ہی پڑھا رہے ہیں، لیکن اندرونِ بلوچستان بعض مقامات پر بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب بھی پڑھائی جار ہی ہے۔ یہ کتاب انتظامی سطح پر منسوخ نہیں کی گئی، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس کا آخری ایڈیشن2011ء میں شائع ہوا ہے۔
بلوچستان ٹیکسٹ بیک بورڈ کی کتاب کا تذکرہ تو ہم نے کردیا، اب وفاقی وزارتِ تعلیم کی کتاب کی بھی بات کرلیتے ہیں۔ اس کے مصنف ہیں، مصنف: ڈاکٹر عبدالقادر خان (کتاب میں اندر ایک جگہ مصنف، ڈاکٹر عبدالقدیر بھی لکھا ہوا ہے) ایڈیشن: 2013۔ منظور شدہ: وفاقی وزارتِ تعلیم (شعبہ نصاب) اسلام آباد۔ پبلشر: نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد:

٭تعصبات:
1: ثقافتی ورثے کے حوالے سے پاکستان کے اہم مقامات (ص،۱۱۶) میں کوٹ ڈیجی، ہڑپہ، موئن جو دڑو، ٹیکسلا، سوات، بھنبھور، منصورہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
مہرگڑھ، چاکر کا قلعہ اور ہنگلاج کا کوئی تذکرہ نہیں۔
2 : باب ’پاکستان کی قومی زبانیں‘ میں لکھا ہے؛ ’’قائداعظم نے ابتدا میں ہی میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا، اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گام زن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے، جو میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔ ‘‘ (ص، ۱۳۰)
یہ نہیں بتایا گیا کہ بنگال میں ان کے اسی خطاب سے بنگلا زبان کی تحریک اٹھی، جو پاکستان کی تقسیم پر منتج ہوئی۔
3 : اردو زبان کی امتیازی خصوصیات: تاریخ نے اسلام، پاکستان اور اردو کو ایک دوسرے کے لیے اس طرح لازم و ملزوم بنا دیا ہے کہ اب ایک کے بغیر دوسرے کا تصور بھی محال ہے۔ اردو میں اسلامی لٹریچر کا قابلِ فخر ذخیرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مملکت کے نظریاتی مقاصد کی تکمیل قومی زندگی کے ہر شعبے میں اردو کے نفاذ کے بغیر مکمل ہی نہیں۔ (ص، ۱۳۱)

پاکستان کی علاقائی زبانیں:
پنجابی: پنجابی شاعری کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری میں ہوتا ہے ۔
بلوچی: بلوچ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے کی تمام خصوصیات ان میں موجود تھیں۔ (ص، ۱۳۷)

اغلاط:
1: صفحہ 124پر لکھا ہے؛ ’’چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف بارہ اکتوبر1999کو برسراقتدار آئے اور انھوں نے چیف ایگزیکٹیو کا عہد ہ سنبھال لیا۔ ان کا سیاسی فلسفہ یا وژن یہ ہے …‘‘
کتاب کا پہلا ایڈیشن 2004ء میں شائع ہوا جب پرویز مشرف برسراقتدار تھے، موجودہ ایڈیشن 2013ء میں شائع ہوا ہے، لیکن زبان سے پتا چلتا ہے کہ دس برسوں میںاس پہ کوئی نظر ثانی نہیں کی گئی۔
2: کے پی کے کو ایک جگہ ’سرحد اسمبلی‘ لکھا گیا ہے (ص،۱۲۵)، حالانکہ 2010ء سے اس کا سرکاری نام خیبرپختونخوا ہوچکا ہے، لیکن 2004ء میں شایع شدہ کتاب کے تازہ ایڈیشن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
3: بلوچی زبان کے ضمن میں لکھا ہے: ’’ہر قبیلے کا اپنا اپنا شاعر ہوا کرتا تھا جو قبیلے کے بہادروں اور جواں مردوں کی شان میں قصیدے کہتا اور مدمقابل کی ہجو کیا کرتا۔ اس طرح جو ادب پیدا ہوتا رہا، تحریری طور پر اس کا نام و نشان بھی موجود نہیں۔‘‘ (ص،۱۳۷)
بلوچستان میں بے شمار قبائل ہیں، ہر قبیلے کے الگ شاعر کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ اسی طرح ہجو بلوچی شاعری میں کہیں نہیں ملتی، جب کہ کلاسیکی رزمیہ و بزمیہ شاعری کا تمام ریکارڈ آج بھی تحریری صورت میں موجود ہے۔
3: ایک جگہ لکھا ہے؛’’تحریک پاکستان میں میر محمد حسین عنقا کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔‘‘ (ص، ۱۳۸)
افسوس کہ عملی طور پر ایسی کوئی بھی خدمت گنوائی نہیں جا سکتی۔ بہتر ہوتا کہ اس ضمن میں کوئی اور نام گنوایا جاتا (جیسے کہ میر جعفرخان جمالی، قاضی فائز عیسیٰ وغیرہ)
4: صفحہ ۱۳۸ پر ہی درج ہے؛’’جدید بلوچی ادیبوں میں محمد رمضان، گل خان نصیر اور آزاد جمال دین ممتا ز ہیں۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ یہ نام بھی ازراہِ مروت ڈال دیے گئے ہیں، ورنہ یہ فہرست بہتر طور پر مرتب ہو سکتی تھی۔ نیز آخری الذکر نام کا درست املا آزاد جمالدینی ہے۔
یہ وہ نصاب ہے جو اس وقت بھی بلوچستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں رائج ہے، اور واضح رہے کہ بلوچستان میں میٹرک اور انٹر لیول پر نوے فی صد سے زاید طلبہ سرکاری اداروں سے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ حکم راں تو اس معاملے میں یوں سوئے ہیں کہ اٹھنا حشر کو معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا کام زنجیر ہلا دینا ہے…عدل کی پوچھ گچھ اہلِ انصاف سے ہی ہو گی۔

مطالعہ پاکستان
متضاد بیانات ( Paradox in Statements)
یہ جاننا دل چسپ ہو گا کہ ایک ہی صوبے میں میٹرک اور انٹر لیول پر پڑھائے جانے والے ایک ہی مضمون میں ایک دوسرے سے یکسر متضاد بیانات شامل ہیں۔ ذیل کے جدول میں ایسے ہی چند بیانات کی نشان دہی کی گئی ہے:

برائے جماعت دہم
مصنفین: پروفیسر احمد سعید خٹک، پروفیسر محمد نصیر خان
مدیر: ڈاکٹر محمد نواز, اشاعت:2013
منظور شدہ: بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ، کوئٹہ

پبلشر: نیو کالج پبلی کیشنز، کوئٹہ
1۔ باب ہفتم: پاکستان کا عالمی کردار:
۰ روس اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا۔ تاہم پاکستان نے کبھی بھی ناجائز طور پر کسی ایک بلاک کا ساتھ نہیں دیا بل کہ ہمیشہ غیرجانب دارانہ پالیسی اپنائی۔ (ص،۴۰۱)
۰ بلاشبہہ پاکستان سیاسی طور پر کافی عرصے سے مغربی بلاک کا حامی رہا ہے۔ (ص،۶۹)
۰ پاکستان دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے اور اسی طرح اپنے معاملات میں مداخلت کو بھی برداشت نہیں کرتا ۔ (ص، ۵۹)
۰ حکومت پاکستان نے روس سے برسرپیکار افغان مجاہدین کی ہر طرح کی امداد کی، جس کے نتیجے میں 1988ء کے جنیوا معاہدے کے تحت روس کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا پڑیں۔
۰ 1991ء کے مشرقِ وسطیٰ کے انتشار کے دوران پاکستان نے سعودی عرب کی مقدس سرزمین کی حفاظت کے لیے فوجی دستے بھی روانہ کیے۔ (ص، ۱۰۱)
2۔ 11ستمبر2001کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے کے بعد امریکا کی توجہ ایک بار پھر پاکستان کی طرف ہوئی اور دھونس دھمکی کے ذریعے القاعدہ اور تحریک طالبان کے خلاف جنگ میں ساتھ ملا لیا ۔ (ص، ۵۰۱)
3۔ 1971ء میں بھارتی جارحیت کی بدولت ہی تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ (ص، ۷۹)
4۔ پاکستان نے بھی چھے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ (ص، ۷۹)
5۔ بھارت کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ پر امن بقائے باہمی میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ (ص،۷۹)

برائے انٹر میڈیٹ
مصنف: ڈاکٹر عبدالقادر خان
ایڈیشن: 2013
منظور شدہ: وفاقی وزارتِ تعلیم(شعبہ نصاب) اسلام آباد
پبلشر:نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد
1۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی:
۰ غیرجانب داری: دنیا کے ممالک کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ سوشلسٹ بلاک اور سرمایہ دار بلاک۔ پاکستان کا بنیادی نظریہ اسلام دونوں بلاکوں کے نظریات سے مختلف ہے۔ اس لیے پاکستان نظریاتی طور پر کسی بلاک کا حصہ نہیں رہا۔ عملی طور پر پاکستان کی یہ خواہش رہی ہے کہ قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں۔ 1979ء میں پاکستان غیر جانبدار تحریک کا ممبر بن گیا ۔ (ص،۰۷۱)
۰ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا: 1950ء میں لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے امریکا کا دورہ کیا۔ انہیں سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکا دونوں کی طرف سے دورے کی دعوت موصول ہوئی تھی لیکن انھوں نے امریکا جانے کا فیصلہ کرکے پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کردیا۔ (ص،۰۸۱)
۰ 1954ء میں ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اور اس طرح پاکستان باضابطہ طور پر امریکی بلاک کا حصہ بن گیا۔ (ص،۱۸۱)
2۔گیارہ ستمبر2001 کو امریکی ٹریڈ سینٹر اور دفاعی مراکز پر دہشت گردانہ حملوں کا الزام امریکا نے طالبان حکومت پر لگایا اور پاکستان سے یہ کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کا حصہ بنے ۔ پاکستان چوں کہ خود بھی دہشت گردی کا شکار رہا اور اس کے ہاتھوں جانی و مالی نقصان اٹھا چکا تھا، لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ لہٰذا افغانستان میں اتحادی افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی۔ (ص،۲۸۱)
۰ اس موقع پر حکومت پاکستان نے عالمی برادری کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ (ص،۴۸۱)
3۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے عہدہ برآں ہونے کے لیے جس سیاسی تدبر اور حوصلہ مندی کی ضرورت تھی، پاکستان کے حکم راں اور سیاست داں اس کا مظاہرہ نہ کرسکے، جس کے نتیجے میں مشرقی بازو پاکستان سے الگ ہو گیا۔ (ص، ۶۷۱)
4۔ وقت نے ثابت کردیا کہ دونوں ملکوں کے لوگوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی قیمت ادا کرنے کے لیے معیارِزندگی کی قربانی دینا پڑی ۔ (ص، ۶۷۱)
5۔ دونوں ملکوں کی قیادت یہ سمجھ چکی ہے کہ انسانی تہذیب کی ترقی کے لیے علم اور امن بنیادی قدریں ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں، ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے ۔ (ص،۷۸۱)

بلوچستان میں مطالعہ پاکستان کا بائیکاٹ
2006ء میں نواب اکبر خان بگٹی کے بہیمانہ قتل کے بعد بلوچ طلبہ تنظیم نے کالج سطح پہ مطالعہ پاکستان کے مضمون کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مطالعہ پاکستان کی نصابی کتب جلائی گئیں اور بلوچ طلبہ نے امتحانات میں مطالعہ پاکستان کا پرچہ دینے سے انکار کر دیا۔ ظاہر ہے اس کا منطقی انجام طلبہ کے تعلیمی نقصان کی صورت ہی میں برآمد ہوا۔ یوں اس احتجاج کا انجام حال ہی میں ایک راہ نما کی جانب سے اعلان کردہ سول نافرمانی کی تحریک جیسا ہی ہوا۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>