برقی ذرائع ابلاغ میں خبروں کے حصول کی دوڑ اور جائے وقوع پر سب سے پہلے پہنچنے کی جنگ نے دیکھنے والوں کو بھی انسان کے بجائے روبوٹ میں تبدیل کر دیا ہے، جو کسی ایک مقام پر رکنے کے بجائے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ لمحہ بھر میں سب کچھ جاننے کا خواہش منددکھائی دیتا ہے، مگر فطرت کا اپنا الگ نظام ہے جس میں تیزی کے ساتھ قرینہ اور سلیقہ بھی جڑا ہوا ہے، جسے نفی کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا۔
خبر اور پیغام رسانی کا طریقہ کبوتر کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ اور گھوڑے کے سُم سے نکلتا ہوا جب اخبار کی سرخیوں میں منتقل ہوا تو کون جانتا تھا کہ معاملہ اس سے بھی آگے نکلنے والا ہے اور ایک دن ساری دنیا سمٹ کر ایک شہر بلکہ ایک گھر بن جائے گی۔ برقی ذرائع ابلاغ کی ابتدا ریڈیو سے ہوئی، جسے آج ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے باوجود ہر قدم پر عروج کو ہی عروج نظر آتا ہے، جس کا اگلا موڑ کیا ہو گا شاید کوئی نہیں جانتا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں برقی ذرائع ابلاغ نے جہاں زبان و بیان سے جُڑی اہم شخصیات کے منہ سے بکھرنے والے موتیوں کو یک جا کیا وہاں ایسے افراد کو بھی کام کرنے کا موقع فراہم کیا جو زبان و بیان کی اہمیت سے ناآشنا تھے یا انھیں وہ کمال حاصل نہ تھا جس کی ضرورت اس شعبے میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے بعض کے پاس کسی ایسے ادارے کی اسنادہی موجود نہیں جو اس فن کو سائنسی اور تحقیقی انداز سے ترقی دیتے ہوئے آگے لے جانے کے خواہش مند ہیں۔ اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مسلسل لکھا جا رہا ہے، اس کے باوجود لکھنے والوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس پر بھی ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔
ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ اردو مختلف زبانوں کا مرکب ہے، لہٰذا اس میں استعمال ہونے والے مختلف زبانوں کے الفاظ سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ دوسرا طبقہ یہ کہتا ہے اس زبان میں استعمال ہونے والے دوسری زبانوں کے الفاظ کے بجائے سادہ، عام فہم اور عام الفاظ کا چنائو کرنا چاہیے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ سب کی سمجھ میں آسکتے ہیں یا نہیں۔ ہمارے خیال میں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسرے طبقے سے اتفاق کرتے ہوئے سادہ اور عام فہم زبان ہی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ لکھتے وقت مصنف کے ذہن میں آنے والا خیالات کا بہائو اُسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ بار بار رُک کر الفاظ کا چنائو کرتا رہے۔ اُس نے دوران مطالعہ یا اپنی درس گاہ سے جو الفاظ سیکھے یا پڑھے، اُس کے ذہن میں تو وہی الفاظ آئیں گے اور وہ اُن سے باہر نکلنا بھی مناسب نہیں سمجھے گا۔
ذرائع ابلاغ میں برتی جانے والی زبان کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ وہ سادہ اور عام فہم ہو۔ برقی ذرائع ابلاغ کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ نازک اور پیچیدہ ہے۔ یہاں اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ کسی اہم خبر (بریکنگ نیوز)کے لیے فوراً ایسے متبادل الفاظ تلاش کیے جائیں جو عام فہم بھی ہوں اور درست بھی۔ اس کے لیے تو صرف علم اور تجربہ ہی کام آسکتا ہے۔ اس طرح کی مشکلات ٹی وی کے پروگراموں یعنی ڈراما، فیشن شو، ٹاک شو اور دوسرے ریکارڈ پروگراموں کے اسکرپٹ کے ساتھ وابستہ افراد کے ساتھ تو بہت کم، لیکن خبروں کی چھان بین، فوری تبدیلی اور ان کا لب لباب ایک مختصر سی سطر یعنی Tickerمیں لکھ کر پیش کرنے والوں کو ضرور پیش آتی ہیں۔
برقی ذرائع ابلاغ میں منہ سے نکلنے والے الفاظ اُس تیر کی مانند ہوتے ہیں جو ایک دفعہ کمان سے نکل جائے تو دوبارہ واپس نہیں آتا، مگر لکھے ہوئے الفاظ بھی کسی تلوار سے کم نہیں ہوتے، جن کا غلط انتخاب انسان کے دل و دماغ پر بار بار حملہ کرتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ٹی وی کی اسکرین پر دکھائی دینے والے بعض غلط الفاظ کو درست کرنے کی گنجائش ہونے کے باوجود درست نہیں کیا جاتا اور وہ دن بھر ناظرین کا منہ چڑاتے اور دل دکھاتے رہتے ہیں۔
ٹکر، جسے عام افراد اسکرین پر چلنے والی اہم خبروں کی پٹی کہتے ہیں، ٹکر کا انتہائی سادہ، درست اور بہترین ترجمہ ہے۔ ٹی وی پر چلنے والے اہم ٹکرز تین قسم کے ہوتے ہیں: پروموشنل ٹکر، ایونٹ ٹکر اور بریکنگ ٹکر، اور یہ اسی ترتیب سے ٹی وی کی اسکرین پر اوپر نیچے اور درمیان میں چلتے ہیں، جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ عام لوگ اسے پٹی بھی کہتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہاں اردو کے دو محاورے یاد آرہے ہیں،’’ پٹی پڑھانا‘‘ یعنی کہ کسی کو غلط تعلیم دینا یا بہلانا پھسلانا، مگر ٹیلی ویژن پر چلنے والی پٹی کو ہم ان معنوں میں استعمال نہیں کر سکتے۔
ہاں اگر اس میں لکھی ہوئی خبر یا واقعہ درست نہ ہو تو پھر یہ اس محاورے پر سو فیصد پوری اترے گی۔ اس سے ملتا جلتا ایک اور محاورہ بھی ہے، ’’آنکھوں پر پٹی بندھی ہونا‘‘ جس کا مطلب ہے کہ سامنے کی حقیقت بھی نظر نہ آنا اور دھوکا کھاجانا۔ ٹی وی پر چلنے والی پٹی دیکھ کر بعض دفعہ یہ دونوں محاورے انتہائی سچے اور موزوں لگتے ہیں۔
ٹکر یعنی پٹی لکھنے والے کی آنکھ پر اُس وقت پٹی بندھ سکتی ہے جب اُس کے ذہن میں کسی لفظ کا مترادف موجود نہ ہو اور وہ وہی کچھ لکھنے پر مجبور ہو جو کسی سیاست داں سماجی کارکن یا عام آدمی کے منہ سے نکلا ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں چلنے والے زیادہ تر ٹکر زمیں انگریزی کے الفاظ کی بھر مار ہوتی ہے۔ حال آں کہ اردو میں اس کے کئی متبادل الفاظ موجود ہیں۔ یاد رہے کہ ٹی وی صرف پڑھے لکھے اور دولت مند افراد ہی نہیں دیکھتے بلکہ اس کے زیادہ تر ناظرین کا تعلق کچی بستیوں، ہوٹلوں، تھڑوں اور پس ماندہ علاقوں سے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی بھی ٹکر لکھتے وقت ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے باشندوں سے زیادہ مچھر کالونی، چیچو کی ملیاں، پڈ عیدن، نوشہرہ اور ڈیرہ بگٹی کے مکینوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سیاست داں اپنی تقریر یا بیان میں اردو یا انگریزی کا کوئی غلط لفظ بول دے تو ٹکر لکھتے وقت اُسے درست نہیں کیا جاتا، بل کہ من و عن لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس سال کے اکتوبر میں مختلف ٹی وی چینلز پر آصف زرداری کا پرویز مشرف کے بارے میں ایک بیان ٹکر کی صورت میں چلا تھا، جسے ایک چینل نے اس طرح چلایا تھا:
’’مشرف کو اقتدار سے مکھن سے بال کی طرح نکال دیا۔‘‘
ہمارے خیال میں اس ٹکر کو یوں ہونا چاہیے تھا کہ ’’مشرف کو اقتدار سے ایسے نکالا جیسے مکھن سے بال۔‘‘
ایک اور چینل پر سابق صدر آصف زرداری کے بیان کا ٹکر کچھ یوں چلا:
’’میرے سینے میں ایسے راز ہیں اگر افشا کردوں تو عوام پریشان ہوجائیں۔‘‘
ہمارے خیال میں اس ٹکر کو یوں ہونا چاہیے ’’سینے میں چھپے راز افشا کردوں تو عوام پریشان ہوجائیں۔‘‘
ٹی وی کی اسکرین پر چلنے والے بیک وقت ایک سے زیادہ ٹکرز ناظرین کی توجہ کو نشر ہونے والی خبر سے دور لے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ کے مصداق اوپر کا لکھا ہوا ٹکر کچھ اور کہہ رہا ہوتا ہے اور اسی واقعے کے بارے میں نیچے والا ٹکر کچھ اور بیان کر رہا ہوتا ہے۔ لکھے ہوئے حروف، گرامر اور مطالب بھی کبھی کبھی عجیب وغریب لگتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک ٹکر یوں ہو گا:
راول پنڈی: موسلا دھار بارش سے کئی اموات۔
تو اسی اسکرین پر اُس کے نیچے چلنے والا ٹکر کچھ یوں ہوگا:
راولپنڈی: بارش سے مرنے والوں کی تعداد پانچ ہوگئی۔
بہ ظاہر ان دونوں ٹکرز میں کوئی خاص خامی نہیں، مگر غور سے دیکھا جائے تو بہت بڑی خامی یہ ہے کہ ایک میں راول پنڈی کو توڑ کر اور ایک میں جوڑ کر لکھا گیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ راول پنڈی کے حروف کو جوڑ کر لکھنا چاہیے، جب دوسرے ہی لمحے آنے والی خبر یا پروگرام میں انھیں کرامت اللہ ملک، ایس پی، راول ڈویژن کا نام لکھنا پڑا تو کیا کریں گے۔ راول کے معنیٰ ہیں سردار، سپاہی، جوگی وغیرہ اور لفظ پنڈ سے پنڈی بنا ہے جس کے معنیٰ ہیں گائوں، آبادی یا دیہہ۔ یعنی سرداروں، جوگیوں یا سپاہیوں کی آبادی۔ اسی لیے دونوں کو الگ الگ لکھنا ہی درست ہے۔ راول پنڈی کی بات چلی تو ہمیں یاد آیا کہ ٹی وی پر صرف راول پنڈی کے ساتھ ظلم نہیں ہوتا بلکہ ساہی وال، جام شورو، پاک پتن، میاں والی، نواب شاہ، رحیم یارخان اور سیال کوٹ سمیت درجنوں شہروں کے ناموں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔
ٹی وی کی اسکرین پر چلنے والی خبروں کی پٹیاں پڑھنے کے بعد دل پر وہی گزرتی ہے جو کسی اچھے یا برے منظر کی جھلک دیکھ کر محسوس ہوتا ہے، لہذا کوئی بھی پٹی لکھتے وقت کسی خبر کے درست اعداد و شمار کا اندراج اور غلطیوں سے پاک زبان ہی اُسے اچھا یا برا بنا سکتی ہے۔ بعض دفعہ خبروں کے میدان میں سب سے تیز بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ چینل مختلف حادثات کے دوران ہلاک، زخمی اور شدید زخمیوں کی تعداد بتاتے ہوئے جھوٹ کی حد کو چھو لیتے ہیں، جو بعد میں اُن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی لگا دیتا ہے۔
پٹی لکھتے وقت اس بات کا احساس بھی ضروری ہے کہ خطاطی، فنون لطیفہ کا جزو ہے، جسے دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور دل و دماغ پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے پٹی لکھتے وقت اگر خط نستعلیق کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو تو اُسے کم پڑھا لکھا طبقہ بھی آسانی سے پڑھ لے گا۔ ٹیلی ویژن پر چلنے والی پٹی کا اختصار ہی اُسے بامعنیٰ، جاذب نظر، پُرکشش اور مدلل بناتا ہے۔ اس میں ’’کا، کی، کے‘‘ جیسے الفاظ کی تکرار بعض دفعہ انتہائی ذومعنٰی ثابت ہوتی ہے اور اس کی طوالت ناظرین کو اکتا سکتی ہے۔
ہمارے خیال میں اُسی پٹی کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے جو ایک نظر میں پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے سکے، نہ کہ دیکھنے والے کا ذہن پٹی کے جال میں الجھ کر رہ جائے اور وہ اُسے بار بار پڑھنے کے انتظار میں پروگرام یا خبریں دیکھنے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ بعض دفعہ کسی واقعے کی ایک ہی پٹی بنانے کے بجائے اُسے دو تین پٹیوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً جب تک ساری پٹیاں پڑھ نہ لی جائیں اُن کا مطلب واضح نہیں ہوتا۔ اس سے گریز کرنا چاہیے اور ایک پٹی میں ایک ہی واقعے کا خلاصہ درج کرنا چاہیے۔
ذرائع ابلاغ نے ٹی وی چینلز کے ذریعے اردو اور پاکستان کی دوسری زبانوں کے سہارے جس تیزی کے ساتھ اپنے علاقائی اور ملکی مسائل کو بے نقاب کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے، مگر ان زبانوں کے نقاد اور محقق اس بات پر شاکی ہیں کہ اس تیزی کی وجہ سے زبان کی سمعی، بصری اور معنوی خوب صورتی دم توڑتی جا رہی ہے، جس کا الزام پٹی، یعنی ٹکرز لکھنے والے صاحبان کے سر بھی جاتا ہے۔