وہ ٹھیک ہی تو کہتا تھا
دُرِبتول ہوں، شیرِ جَلی کا بیٹا ہوں
میں عام شخص نہیں ہوں علی ؓکا بیٹا ہوں
محمد محمود احمد ہاشمی، جس کے قلم سے روشنی پھوٹتی تھی۔
وہ محمود جسے یقین تھا:
وہ مجھ کو میری خطاؤں پہ کچھ نہیں کہتا
اُسے خبر ہے کہ میں آدمی کا بیٹا ہوں
وہی محمد محمود احمد جو ماڑی انڈس میاںوالی میں ہونے والے مشاعرے کے دوران اسٹیج پر تیسری بار آکر شعر
’’علم دی، احساس دی کوئی تازگی دی گالھ کر
رات کالی ہے تاں کوئی روشنی دی گالھ کر
شاعری دا خُمس وی محمود تئیں تے فرض ہے
اپنی ہر پنجویں غزل وِچ توُں علی ؓدی گالھ کر
پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
محمد محمود احمد سرائیکی وسیب کے ضلع میانوالی میں 1969ء میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب محمد سلیم رضا قریشی درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ اس کے ساتھ وہ بہت بڑے ادیب بھی تھے۔ روسی اور فارسی ادب پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ اچھے مترجم بھی تھے۔ انہوں نے فارسی کی بچوں کی کہانیوں کے تراجم بھی کیے۔ ان کی ترجمہ کردہ تین جلدوں پر مشتمل ’’ْقصہ یہ تھا ‘‘ کو گورا پبلشرز اور فارسی ناول کے ترجمے ’’چھوٹا امیر اور بڑا امیر‘‘ کو کلاسیک نے شائع کیا تھا۔ محمود احمد کو علمی ماحول میسر آیا جس سے ان کے اند ر کے ادیب کو آگے بڑھنے کا بھر پور موقع ملا اور وہ کم عمری ہی میں فکر اور شعور کی وہ منازل طے کرگئے جس کے لیے ریاضت اور عمر خضر درکار ہو تی ہے۔
محمد محمود احمد نے اپنی کتاب ’’عورت، خوش بو اور نماز‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے،’’میاںوالی میرے خاندان کا تیسرا پڑاؤ ہے۔ میرے تخیل کی دودھیا لہریں افغانستان کے راستے سرزمینِ حجاز میں داخل ہوتی ہیں۔ عرب تین باتوں میں سے ایک اس بات پر بھی جشن منایا کرتے تھے کہ ان کے خاندان میں شاعر پیدا ہوا ہے۔ آج مجھے دیگر مسرتوں کے ساتھ یہ اطمینان بھی ہو رہا ہے کہ میں اپنے خاندان کا پہلا صاحبِ کتاب شاعر بن چکا ہوں۔‘‘
وہ لکھتے ہیں، ’’جس عمر میں بچے پتنگیں اُڑاتے اور تتلیاں پکڑتے ہیں میری وہ عمر فردوسی کا ’’شاہ نامہ‘‘ سعدی کی ’’گلستان‘‘ عمر خیام کی ’’رُباعیاں‘‘رومی کی ’’مثنویاں‘‘ جامی کی ’’نعتیں‘‘ فریدالدین عطار کا ’’پند نامہ‘‘ پڑھنے اور حکیم الامت کے اشعار حفظ کرنے میں گزرتی رہی۔ اسی لیے میں کھیل کے میدان میں کبھی نہیں گیا۔ دوستوں کے قہقہوں میں اپنا قہقہہ شامل نہ کر سکا۔ کیمروں اور دور بینوں سے دور رہا۔ واک مین کے ذریعے مغربی موسیقی نہ سُن سکا۔ ہالی وُڈ کے حصار میں نہ آیا۔ دوسری طرف یوں ہوا کہ میں نے ’’عورت، خوش بو اور نماز‘‘ لکھ ڈالی۔
وہ کہتے تھے،’’میرے اند ر جو شخص بیٹھا ہے اس کی عمر میری طرح ستائیس برس نہیں ہے اس کے سارے بال سفید ہو چکے ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں جو روشنی ہے وہ میں نے جسم سے باہر کبھی نہیں دیکھی۔ وہ میری کڑی نگرانی کر تا ہے۔ کبھی کبھار میں کسی کھلنڈرے بچے کی طرح اس سے آنکھ چُرا کر بھاگ نکلتا ہوں۔ میں نے اکثر نظمیں اُسی فرار کی ساعتوں میں لکھی ہیں اس کی رفاقت میں بہت سرور ہے۔‘‘
محمود کہا کرتے تھے۔۔۔
’’میں کتاب گھروں میں کم جاتا تھا۔ کنڈل شریف اور کافر کوٹ کے بھورے پہاڑوں پر جھکے نیلگُوں بادل ’’سندھ‘‘ کی چھاتی پر لہلہاتی ہوئی سرسبز کوندر، ریت کی چادر پر بکھرے ہوئے آک کے جامنی پھول، وطن کی یاد میں روتی کونجیں، اپنی موج میں تیرتی ہوئی مُرغابیاں، کالے تیتروں کی تسبیح، ہمت شاہ کی مسجد سے سنائی دیتی ہوئی شام کی اداسی بھری اذان۔ پائی خیل کے پہاڑی چرواہوں کے درد بھرے ماہیے، خانقاہوں میں بِکھری صدیوں پرانی سنجیدگی، رات کے تیسرے پہر کی گہری نیلی اور شوخ سنہری کرنیں۔ زمستانی ہواؤں کے ماتم، موسمِ گرما کی ایک ٹھنڈی دوپہر، حوا کے ہجر میں آدم کا پہلا آنسو، اُڑتے تخت پر بیٹھے سلیمان اور نشیبوں میں رینگتی چیونٹیوں کا مکالمہ۔ آصف برخیہ کا اعتماد۔ ابو جہل کی مٹھیوں میں کلمہ پڑھتی کنکریاں، فاروقِ اعظمؓ کا دریائے نیل کے نام خط، حضرت علی المرتضیٰؓ کی خا ک نشینی، حضرت زینبؓ کا ابنِ زیاد کی عدالت میں خطبہ میری شاعری کے اجزائے ترکیبی ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا:
’’مٹی اور پانی کی کہانی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ شاعری وہ رزق ہے جو میری روح پر اترتا ہے۔ میں نے شاعری پر قبائلی نظام ِ زندگی کا فارمولا لاگو کیا ہے۔ میرا شاعری میں کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ میں تو ایک قبائلی راہ نما کی طرح اپنی ذات اور ذات سے وابستہ لوگوں اور جگہوں کا بھرم برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ شاعری میرے لیے جرگے کا منظر نامہ ہے۔ جرگے میں زرخیز دماغوں اور چمکتی آنکھوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے ہمیشہ انتہائی محتاط اور سنبھلی ہوئی گفت گو کی ہے۔
وہ اپنی نسبت پہ کس قدر نازاں تھے۔
’’قبائلی نظام میں کم زور اور افرادی قوت سے محروم لوگ بڑے سرداروں کی امان میں زندگی گزارتے ہیں تاکہ ان کی ہر طرح سے حفاظت ہوتی رہے میرے تفکرات حضرت علی ؓکے زیرِسایہ پروان چڑھ رہے ہیں۔ اسی لیے مجھے شاعری میں کبھی اصلاح لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔
محمود نے اتنی کم عمری میں جتنا طویل سفر طے کیا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس نے اپنی پرواز کو ہمیشہ بلند رکھا۔ ہر وقت سفر کے لیے کوشاں۔ مکانِ ہستی کے لامکاں سے مراقبہ کرتا ہوا تو کبھی اپنے اندر کے آدمی سے مکالمہ کرتا ہوا محمود۔ اپنی مٹی کے ان ستاروں سے رابطے میں سرگرداں جو اس کے ساتھ آسماں سے زمین پہ گر کر بِکھر گئے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ اپنے بدن کی مسجد میں بیٹھ کر اپنے ذہن اور دل کا مناظرہ
کرتا ہوا ملتا پوچھتے تو بتاتا کہ
اِنہوں نے باہم تفرقہ بازی سے منتشر کر دیا ہے مجھ کو
بدن کی مسجد میں بیٹھ کر ذہن و دِل کا مناظرہ کرنا چاہتا ہوں
شعرو ادب اور ثقافت کی ترویج کے لیے انہوں نے میاںوالی میں 2013ء کے محرم الحرام میں بنیاد رکھی، جس کے زیرِاہتمام سب سے پہلے محفلِ مسالمہ کرایا گیا، بعدازاں ’’محمود ایوارڈ‘‘ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کے حامل مردوخواتین میں تقسیم کیے گئے، محفلِ سنگیت اور شبِ نغمہ منعقد ہوئی۔ ان کی زندگی کے آخری دنوں میں میاں والی کی تاریخ کا پہلی اور ریکارڈ آل پاکستان خواتین محفلِ مشاعرہ منعقد کی گئی۔ یہ اپنے لحاظ سے میاںوالی میں منفرد محفلِ مشاعرہ تھی۔
میں نے اُن سے مطالعے بارے ایک بار سوال کیا تو کہنے لگے:
’’پیشے کے لحاظ سے سرجن، ڈاکٹر اور مزاجاً ادیب انتونیو چیخوف کی ایک نصیحت میں نے ہمیشہ اپنے ساتھ ساتھ رکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کتاب کو ہڑپ نہیں کرنا چاہیے (ایک دو نشستوں میں نہیں پڑھ لینی چاہیے ) بلکہ چبا چبا کے پڑھنا چاہیے۔ اس سے نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ نہایت احتیاط، حاضر دماغی، توجہ اور ذوق و شوق سے پڑھنا چاہیے کہ تخلیق اور خالق کے معیار اور اس کی تفہیم تک رسائی حاصل ہو سکے ۔
محمد محمود احمد کو اﷲ پاک نے بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔ جس نشست میں محمود موجود ہوتے اس نشست کے سب مقرر سامع میں بدل جاتے۔ پڑھنے کا مخصوص انداز سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا اور پھر مدتوں اسے اپنے سحر میں جکڑے رہتا۔
محمد محمود احمد نے اپنی شاعری کا آغاز اگرچہ اردو میں کیا لیکن انہوں نے اپنی مادری زبان سرائیکی کو بھی پیچھے نہیں رکھا۔ انہوں نے اس زبان میں شان دار گیت، دوہڑے اور غزلیں لکھیں۔ شروع میں محمود ہاشمی کے نام سے لکھتے رہے، لیکن بعدازاں بقول افضل عاجز انہوں نے ایک نشست میں آئندہ تخلیقات محمود احمد کے نام سے لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے محمد محمود احمد نام تجویز کیا، انہوں نے پھر تاعمر یہی نام لکھا۔
انہوں نے بے پناہ سرائیکی، اردو، پنجابی، پوٹھوہاری گیت بھی لکھے جن میں سندھ سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ شازیہ خشک کا گایا ہوا گیت ’’میڈا رانجھنا‘‘ بھی شامل ہے۔ محموداحمد کے درجنوں گیت عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے بھی گائے، جن میں ’’سانول سانول، ذرا انصاف کر ماہی، محبت پہلے کئیں کیتی‘ ملن دی رات لنگھ گئی ہے، وے چنگا ڈھولا رب راکھا ‘ بارشاں دے موسماں وچ پئے گئے وچھوڑے‘ اور دیگر گیت شامل ہیں۔ حامد علی خان نے ان کی کافی ’’سب مٹی کا مال ہے سائیں ‘‘ گائی، اسی طرح ملک بھر کے مختلف گلوکاروں جن میں فریحہ پرویز، شفاء اﷲ خان روکھڑی، عطا محمد نیازی، ستار زخمی، اعجاز راہی اور دیگر شامل ہیں نے ان کا کلام گایا۔ ’’اکھیوں سے جھروکوں سے‘‘ فیم انڈین گلوکارہ ہیم لتا نے بھی ان کا کلام اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا۔ عطاء اﷲ خان عیسیٰ خیلوی اور لتا منگیشکر کا ڈوئیٹ البم ’’سرحدیں‘‘ جو ابھی ریلیز ہونا ہے، میں بھی ان کا کلام شامل ہے ۔
1995ء میں ان کا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’عورت، خوش بو اور نماز‘‘ الحمد پبلی کیشنز نے شائع کیا، جس کے اب تک پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ حوم نئے اردو مجموعۂ کلام ’’آنکھ‘‘ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ سرائیکی غزلوں کا مجموعہ بھی زیرِترتیب تھا۔ انہوں نے سرائیکی زبان میں افسانے بھی لکھے۔
محمد محمود احمد ایم اے اردو کرنے بعد محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اپنے آخری دنوں میں وہ ڈیپوٹیشن پر ٹیچرز انسٹرکٹر تھے۔ ایک طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان میاں والی پر متعدد پروگرام بھی کرتے رہے جن میں ’’تھل سنگھار‘‘ اور غزل رنگ بہت مقبول ہوئے۔ 14اکتوبر2014 کو میاں والی کے قریبی قصبہ ماڑی انڈس میں ایک محفلِ مشاعرہ میں شریک تھے کہ شعر پڑھتے ہوئے دل کا دورہ پڑا اور خالقِ حقیقی سے جاملے۔ مرحوم نے سوگواران میں بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ وہ اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔
محمد محمود احمد واقعتا ً محبتوں کے شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو نیا رنگ اور آہنگ دیا۔ ان کا نمونۂ کلام:
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرۂ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
۔۔۔۔
اے فکرِ ساجدین عبادت ضرور کر
انسانیت سے پہلے محبت ضرور کر
۔۔۔۔
جاگتا کیسے نہ پھر میرا مقدر سائیں
میم ہیں پانچ مرے نام کے اند ر سائیں
۔۔۔۔
زمین کی گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں
زمین ماں کی بھی ماں ہے زمیں سے پیار کرو
۔۔۔۔
سدھار دیتا ہے سنگیت باغیانہ مزاج
پہاڑی جوگ تلنگ بھیرویں سے پیار کرو
۔۔۔۔۔
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
۔۔۔۔
ظاہر ہوا یہ مجھ پہ یتیمی کی پہلی رات
اب میرا جسم آدھا ہے، آدھا نہیں رہا
۔۔۔۔
دن اگر میرا پریشانی میں گزرے محمود
ماں تسلی کے لیے خواب میں آجاتی ہے
۔۔۔۔۔۔
ایسا ذائقہ کہاں گندم کے پاس ہے
روٹی میں ماں کے ہاتھ کی شامل مٹھاس ہے
۔۔۔۔
ایک ان پڑھ ماں نے مجھ کو علم کی تحریک دی
اس حوالے سے میں میکسم گورکی پر چھا گیا
۔۔۔۔
عہدِ غفلت میں مسلسل المیے بڑھتے گئے
زندگی گھٹتی گئی اور مسئلے بڑھتے گئے
۔۔۔۔
تجسس اُس کی آنکھوں کا خدا تک لے گیا مجھ کو
کبھی سوچا تھا اُن آنکھوں میں مصرعے کس نے لکھے ہیں؟
۔۔۔۔۔
سعدی، رومی، خُسرو اور مادھو لال
ہر مجذوب کے دل میں دھڑکا اِک لڑکا
۔۔۔۔۔
مجھے تو کوئی علامت نظر نہیں آتی
بزرگ کہتے ہیں میرا وطن عروج پہ تھا
۔۔۔۔۔
حافظِ شیراز کی زندہ غزل کے پانچ شعر
تم، تمہارے ہاتھ، آنکھیں، دل کی دھڑکن اور میں
۔۔۔۔۔
ہر رنگ بھری چیز کا انجام یہی ہے
تتلی کا یہ ٹُوٹا ہوا پَر ذہن میں رکھنا