یہ رواں سال مئی کی ایک شام تھی۔قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی سالانہ میٹنگ میں چین کے وزیرِخزانہ Lou Jiwei نے 50 ارب ڈالر مالیت کے ایک نئے مالیاتی ادارے کے قیام کی تجاویز پیش کیں، جسے میٹنگ میں موجود ایشیائی ممالک کے اراکین کی جانب سے سراہا گیا، جب کہ آسڑیلیا سمیت چند یورپی ملکوں کے وفود نے بھی اس تجویز میں دل چسپی ظاہر کی۔ تجویز کے مطابق اس بینک کے قیام کا بنیادی مقصد ایشیائی خطے کی معاشی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا تھا۔
اس تجویز کے ساتھ ایشیائی ترقی بینک کی ناکامی کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ چین کے وزیر خزانہ نے کہا،’’ایشیا کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، خصوصاً انفرا اسٹرکچر کے مختلف شعبوں میں، لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک کے مالیاتی وسائل ان ملکوں کی موجودہ ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ ا س کا موازنہ چائنا ڈیولپمنٹ بینک سے کیا جائے تو یہ کمرشیل انفرااسٹرکچر کے لیے زیادہ قرضے دے رہا ہے اور اس کا کاروباری حجم بھی ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے کہیں زیادہ ہے اور یہ بیس سال سے بھی کم عرصے میں ہوا ہے۔‘‘
چین کی اس تجویز میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے علاقائی کردار کو بھی چیلینج کیا گیا، جس پر امریکا اور جاپان کا زیادہ اثر تھا۔ اس بینک کا قیام ایشیائی ممالک خصوصاً چین کے لیے بے حد ضروری تھا۔ اس بینک کے قیام کا تصور چین کے اُن اقدامات میں سے ایک ہے، جو وہ خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اٹھا رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر مزید نمایاں کردار ادا کرنے اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی خواہش، سمندری علاقے پر جاپان کے ساتھ تنازع اور امریکا کے اس خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں استحکام نے چین کو ایسے مالیاتی ادارے کے قیام پر مجبور کیا، جس سے اُس کے روایتی حریف کا خطے میں اثر اور تسلط کم سے کم کیا جاسکے۔
اس اجلاس کے پانچ ماہ بعد 24 اکتوبر کو اکیس ملکوں کے نمائندوں نے بیجنگ میں ’’ایشیائی انفرا اسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک‘‘ کے قیام کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ اسے مختصراً اے آئی آئی بی کہا جارہا ہے۔ یادداشت پر دستخط کرنے والے ممالک میں سنگاپور، چین، ویت نام، فلپائن، منگولیا، کمبوڈیا، عمان، ازبکستان، تھائی لینڈ، سری لنکا، قطر، پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلادیش، برونائی، قازقستان، کویت، ملائیشیا اور میانمار شامل ہیں، جب کہ امریکا اور اس کے قریبی اتحادی انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا ابھی تک اس منصوبے کا حصہ نہیں بنے ہیں۔
ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام نے چین کی خطے میں سرمایہ کاری کی اُس دیرینہ خواہش کو پورا کردیا ہے، جس سے محرومی کی شکایت اسے جاپان اور امریکا کے زیرِتسلط ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپ کے زیراثر ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے تھیں۔ واضح رہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر Takehiko Nakao نے آستانہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ہمارا بینک ہر سال صرف 13ارب ڈالر کے نئے قرضے فراہم کرنے کی استعداد رکھتا ہے، جب کہ ایشیا کو اپنی شرح نمو برقرار رکھنے کے لیے اگلی دہائی میں قومی انفرا اسٹرکچر پر تقریباً 8 ٹریلین ڈالرصرف کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
اس مجوزہ منصوبے میں چین پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، جب کہ پچاس ارب ڈالر نجی سرمایہ کاروں سے حاصل کیے جائیں گے۔ اس بینک میں سرمائے کا حجم پہلے سے موجود مالیاتی اداروں کی نسبت کم ہے۔ اس وقت ورلڈ بینک کا سرمایہ تقریباً 220 ارب اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا حجم 175ملین ڈالر ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ اس بینک میں مزید سرمایہ کاری کی جائے گی۔
ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک خطے میں سڑکیں، ریلوے، پاور پلانٹ اور مواصلات کے نیٹ ورک سے متعلق منصوبوں کے لیے قرض فراہم کرے گا اور یہ اس خطے میں ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ بینک کا صدر دفتر بیجنگ میں قائم کیا جائے گا، اور کہا جارہا ہے کہ اس کی سربراہی چین کے انویسٹمنٹ بینکوں میں سرِفہرست ’چائنا انٹر نیشنل کیپیٹل کارپوریشن‘ کے سابق چیئرمین Jin Liqun کریں گے۔
مفاہمتی یادداشت کی تقریب سے خطاب کے دوران چینی وزیر Lou Jiwei نے کہا کہ ’’ہم مشترکہ کوششوں سے ’’ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک‘‘ کی شکل میں ایک بہترین اور مؤثر مالیاتی ادارہ تعمیر کر سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ مستقبل میں یہ بینک بہترین انتظامی ڈھانچے کے ساتھ کثیرالقومی مالیاتی ادارہ ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ مالیاتی اداروں کو اس بینک کے قیام پر تحفظات کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور یہ انفرااسٹرکچر سے متعلق شعبوں کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے۔‘‘
چین اے آئی آئی بی کے علاوہ ’’بِرکس‘‘ ممالک روس، بھارت، برازیل اور ساؤتھ افریقا کے مشترکہ نئے ترقیاتی بینک کو بھی تعاون فراہم کر رہا ہے۔ ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کا قیام ترقی پذیر ممالک کو من پسند شرائط پر قرض دینے والے ’’ورلڈ بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ‘‘ اور ’’ایشیائی ترقیاتی بینک ‘‘ کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ واشنگٹن نے اس بینک کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے اسے پہلے سے موجود مالیاتی اداروں کا غیرضروری حریف قرار دیا ہے۔
امریکا کے سیکریٹری خزانہ جیکب لیو نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا،’’اس بینک کا قیام پہلے سے موجود مالیاتی اداروں کی کارکردگی کے معیار میں کمی کے ساتھ ساتھ اُن کی ساکھ کو بھی متأثر کرسکتا ہے، جسے برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے سالوں جدو جہد کی ہے۔ اے آئی آئی بی کے قیام سے انسانی حقوق، مزدوروں کے تحفظ اور شفافیت سے جڑی قرضوں کی لازمی شرائط کی پابندی کم ہوجائے گی۔ بعض میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے آسٹریلیا کو نئے بینک کے قیام کے معاہدے سے دور رہنے پر زور دیا ہے، جب کہ امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین پساکی کا کہنا ہے،’’جان کیری نے چین اور اس منصوبے کے دیگر شراکت داروں سے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم ایشیا کے لیے نئے انفرا اسٹرکچر بینک کے قیام کو خوش آئند کہیں گے۔
تاہم اسے چلانے کا طریقہ اور شفافیت عالمی معیار کے مطابق ہونی چاہیے، کیوں کہ اس پر ہمیں تحفظات ہیں جن کا اظہار ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔‘‘ آسٹریلوی اخبار ’’دی آسٹریلین فنانشل ریویو‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جان کیری نے ذاتی طور پر آسٹریلوی وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ آسٹریلیا کو ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے دور رکھیں۔‘‘
اخبار کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کو اس منصوبے سے دور رہنے کے لیے امریکی دباؤ کا سامنا بھی ہے اور جان کیری نے یہ کیس جکارتا میں ہونے والی ایک ملاقات میں وزیرِاعظم ٹونی ایبٹ کے سامنے رکھا تھا۔دوسری جانب ایشیا میں امریکا کے سب سے مضبوط اتحادی جنوبی کوریا نے امریکی دباؤ کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اس نئے بینک کے انتظامی اور آپریشنل معاملات پر تحفظات ہیں، جس پر چین کے ساتھ بات چیت کے بعد اس منصوبے میں شمولیت کا فیصلہ کیا جائے گا، جب کہ گذشتہ ماہ ہی چین کے وزیرخزانہ نے اس منصوبے میں آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کی جانب سے دل چسپی ظاہر کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
چین کی ریاستی کمپنیاں کئی ممالک میں سڑکوں، ریلوے اور دیگر انفرااسٹرکچر پروجیکٹس میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جس کے لیے انہیں ’’چائنا ڈیولپمنٹ بینک‘‘ اور ’’ایکسپورٹ، امپورٹ بینک آف چائنا‘‘ جیسے پالیسی بینکوں کی جانب سے قرض فراہم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے مالیاتی ادارے امریکا کے زیرِتسلط ہیں، جن کے ذریعے وہ دنیا کی معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ عالمی معیشت کے ایسے طاقت ور اداروں سے دنیا کی توجہ ہٹ جائے، جن پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا گہرا اثر ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو کڑی شرائط پر قرض فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں اضافے، نئے ٹیکس لاگو کرنے اور پرانے ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی پالیسیاں بھی جاری کرتے ہیں، جس کا بوجھ ان ملکوں کی حکومتیں غریب عوام پر ڈالتی ہیں اور ان کی وجہ سے ملک میں منہگائی اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام سے جہاں ایک طرف امریکا کی اجارہ داری کم ہوگی، وہیں عالمی سطح پر چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا۔
اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو عسکری طاقت امریکا اور معاشی سپر پاور کے طور پر دنیا میں ابھرنے والا چین ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں، کیوں کہ ایشیائی خطے میں اگر امریکا اپنی دفاعی صلاحیت کی بنا پر برتری رکھتا ہے، تو چین اپنی مضبوط معیشت کے سبب خطے میں اہمیت اختیار کرچکا ہے اور اسی بنا پر 20 ممالک کے اشتراک سے اس نئے بینک کا قیام عمل میں لایا ہے۔
ان ہی عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے چینی وزیراعظم زی جن بینگ نے گذشتہ سال آسیان ممالک کے اجلاس میں اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے مختلف ملکوں کے وفود کو اس کا حصّہ بننے کی تجویز دی تھی۔ اس منصوبے میں ہندوستان، انڈونیشیا، پاکستان، سری لنکا، نیپال، بنگلادیش، اومان، قطر اور کویت سمیت بیس ممالک نے دل چسپی ظاہر کی تھی۔ ابتدا میں امریکا کے اتحادی ممالک آسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی چین کے اس منصوبے میں دل چسپی لی تھی، لیکن امریکا کے دباؤ کے بعد انہوں نے اس میں شریک ہونے سے گریز کیا۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر خود کو منوانے والے ملک چین کا بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں نمایاں کردار نظر نہیں آیا یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاص طور پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک پر امریکا اور یورپی اتحاد میں شامل ملکوں کا گہرا اثر ہے۔ چین کا اپنے منصوبے پر عمل درآمد عالمی سطح پر معاشی میدان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی اجارہ داری کے لیے چیلنج کے مترادف ہوگا۔
اسی سال برکس بینک کے قیام کے اعلان نے بھی عالمی مالیاتی اداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ بِرکس میں شامل پانچ ممالک کی اقتصادی منصوبہ بندی کو عالمی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے دوسرے ممالک کے لیے قابلِ رشک قرار دیتے ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، ثقافت، مذہب اور الگ الگ ریاستی مسائل اور مفادات کے باوجود انہوں نے بِرکس کے ذریعے عالمی اقتصادی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
اے آئی آئی بی کے قیام پر بین الاقوامی ردِعمل
ورلڈ بینک کے صدر جم یانگ کم نے ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ترقی پزیر ممالک میں انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے سالانہ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے، جس کے لیے نجی شعبے میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔‘‘
ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر تاکی ہیکو ناکاؤ نے بھی اس بینک کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس سے انفرا اسٹرکچر کے کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا جس کا براہ راست اثر ان ممالک کی معیشت پر مرتب ہوگا۔‘‘
پاکستان کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ایشیائی انفراسٹرکٹر انویسٹمنٹ بینک کے قیام کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بینک کے قیام سے ایشیائی خطے کی معیشت میں تیزی سے بہتری آئے گی۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لیے دوسرا بڑا صدمہ
دنیا بھر کی معیشت کو قابو کرنے والے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لیے یہ اس سال کا دوسرا صدمہ ہے، کیوں کہ رواں سال 15جولائی برازیل میں ہونے والے چھٹے برکس اجلا س میں دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقا نے 100بلین (ارب) ڈالر حجم کے بینک کے قیام کا اعلان کیا جو ان ممالک میں تعمیروترقی کے منصوبوں پر کام کرے گا۔
فیصلے کے مطابق مجوزہ بینک کا صدر دفتر چین کے شہر شنگھائی میں ہوگا جب کہ ابتدائی پانچ برسوں کے دوران اس کی صدارت بھارت سنبھالے گا۔ بھارت کے بعد پہلے برازیل اور پھر روس بینک کی سربراہی کریں گے۔ برکس بینک میں شامل پانچوں ممالک نے ’’برکس‘‘ کے رکن ملکوں کو مالی بحران سے بچانے کے لیے 100 ارب ڈالر کا ایک ریزرو فنڈ قائم کرنے کی بھی منظوری دی۔ اس بینک کا قیام ’’برکس‘‘ اتحاد کی پہلی بڑی کام یابی ہے جسے پانچوں ابھرتی ہوئی معیشتوں نے بین الاقوامی مالی معاملات میں اپنا کردار اور اثرورسوخ بڑھانے کے لیے 2009میں تشکیل دیا تھا۔
دنیا کی لگ بھگ نصف آبادی ’’برکس‘‘ کے رکن ممالک میں رہتی ہے اور دنیا کی کل معاشی پیداوار میں ان ممالک کا بیس فی صد حصہ ہے۔ اعلامیے کے مطابق بینک کا آغاز ابتدائی طور پر 50 ارب ڈالر کی رقم سے کیا جائے گا جس کے لیے پانچوں رکن ملک آئندہ سات برسوں کے دوران 10، 10 ارب ڈالر فراہم کریں گے۔ دیگر ممالک بھی اس بینک کے رکن بن سکیں گے لیکن انتظامی معاملات پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے بینک کے اثاثوں میں ’’برِکس‘‘ ممالک کا حصہ کم از کم 55 فی صد رہے گا۔ ورلڈ بینک کی برعکس اس بینک میں ہر ملک کو ایک ووٹ کا حق تفویض کیا جائے گا۔ تاہم کسی ملک کے پاس ’’ویٹو پاور‘‘ نہیں ہوگی۔
برکس بینک 2016میں قرضے دینے کا آغاز کرے گا۔ برِکس ممالک کے علیحدہ بینک کے قیام کے لیے مذاکرات گزشتہ دو برس سے زاید عرصے سے جاری تھے اور بینک کے قیام پر اتفاق کو پانچوں ملکوں کی ایک بڑی کام یابی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد مغربی طاقتوں کی جانب سے تشکیل دیے جانے والے عالمی معاشی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا جارہا ہے۔
کب کیا ہوا؟
ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام کی خبر گذشتہ سال اکتوبر میں سنائی دی۔
جون 2014 میں بینک کے رجسٹرڈ سرمائے کو 50بلین ڈالر سے بڑھا کر 100بلین ڈالر کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور بینک کے قیام کے لیے انڈیا کو شراکت کی دعوت دی۔
رواں سال 24اکتوبر کو بیجنگ میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے کے ساتھ بینک کے قیام کا اعلان کیا گیا۔