جھیلیں پہاڑوں کے دامن میں نیلگوں پانی کا ایک مسکن ہوں یا پھر میدانوں میں وست نظر پر محیط بل کھاتی لہروں پر مشتمل ذخیرہ گاہیں، ہمیشہ سے انسان کی تفریح اور ضروریات کی تکمیل کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں ۔جس کے باعث انسانی توجہ حسین نظاروں کی امین ان آبی ذخیرہ گاہوں کی جانب زیادہ مبذول رہتی ہے اور دور دور سے لوگ ان جھیلوں کی سیاحت سے محظوظ ہونے کے لئے آتے ہیں۔ آج ہم آپ کو ایک ایسی جھیل کے بارے میں بتائیں گے جو جب آباد ہو تو اپنی مثال آپ اور جب ویران ہو تو اپنی عظمت کی نوحہ کناں۔
کوئٹہ شہر سے تقریباً 17 کلومیٹر کے فاصلے پرکوئٹہ اوڑک ر و ڈ پر وادی ہنّہ کے مقام سے شمال کی طرف جانے والی ایک سڑک کے اختتام پر سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میںواقع ہنّہ جھیل کوئٹہ کی ایک معتبر و جہ تسمیہ ہے۔ ہنّہ جھیل صرف ایک جھیل ہی نہیں بلکہ انگریز کے دور میں کوئٹہ چھاؤنی میں پانی کی فراہمی کا اہم مرکزہونے کے ساتھ ساتھ اپنی تعمیر کی دلچسپ کہانی بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔
ہنہ جھیل کی تعمیر وتاریخ کے حوالے سے اگرچہ کوئی معتبر حوالہ دستیاب نہیں، تاہم کہا جاتا ہے کہ پہاڑوں پر پگھلنے والی برف اور بارشوں سے دستیاب پانی کو محفوظ کر کے چھاؤنی کی پانی کی ضروریات کے لئے بیسویں صدی کے اوائل میں اس مقام پرایک بند تعمیر کر کے برٹش گورنمنٹ میں ا سے جھیل کی صورت دی گئی۔ ایک مقامی باشندے خلیل احمد منور کے مطابق ’’بند کی تعمیر 1901ء میں شروع ہوئی اور 1908ء میں تکمیل کے بعد اسے جھیل کی موجودہ شکل ملی۔‘‘ بند کے ساتھ ساتھ ہنّہ ندی پر (موجودہ کلی حاجی عطا محمد ہنہ کے مقام پر) ایک ہیڈ ورکس بھی تعمیر کیا گیا جسے ’لال پل ‘ کہا جاتا ہے۔
اس ہیڈ ورکس میں استعمال ہونے والا لوہا DORMAN. LONG & C.L, MIDDLESBROUGH, ENGLAND کا ہے۔ ہیڈ ورکس سے تقریباً ایک کلو میٹر طویل نہر کے ذریعے ہنّہ ندی کا پانی جھیل تک پہنچانے کا اہتمام کیا گیا۔ ہیڈ ورکس سے ہنّہ جھیل جانے والی نہر کے پل پر سیمنٹ کے ایک بلاک پر تعمیر کا سال 1910ء کندہ تھا۔
یہ بلاک حوادثِ زمانہ کے باعث اَب آدھا سے زیاد ہ ٹوٹ چکا ہے اور یہ تاریخی حوالہ اب پڑھا نہیں جا سکتا۔ ہیڈ ورکس کی تعمیر سے متعلق خلیل احمد منورایک دلچسپ کہانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں! ’’تعمیر کے آغاز پر برطانوی انجینئر نے مقای مزدوروں سے ادائیگی کا جو معاہدہ کیا اس کے مطابق جو مزدور دورانِ کام نماز ادا کرے گا، اُسے 50 پیسے کم دیہاڑی دی جائے گی اور جو نماز نہیں پڑھے گا اُسے پوری دیہاڑی ملے گی ۔ لیکن جب ادائیگی کی گئی تو صورتحال اس کے بر عکس رہی اور نمازپڑھنے والے مزدور کو پوری اور بے نمازی مزدور کو 50 پیسے کم اُجرت ادا کی گئی۔ ‘‘
ایک صدی سے سے زائد تاریخ کی حامل اس جھیل کا نام’ ہنّہ جھیل ‘ کیسے پڑا؟ اس سے متعلق بھی متضاد روایات ہیں ۔ ایک موقر انگریزی روزنامہ میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق یہ نام ایک برطانوی جنرل جیک اینڈرسن کی بیگم کے نام پر ہے۔ بتاتے چلیں کہ جنرل موصوف کے نام پر کوئٹہ میں ایک سڑک بھی تھی جو آج کل لیاقت بازار کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ایک مقامی باشندے نذیر ہنّہ وال کے مطابق ’’وادی ہنّہ میں واقع ہونے کی نسبت سے جھیل کانام ’ہنّہ جھیل ‘پڑا اور اس وادی کا ذکر احمد شاہ ابدالی کے زمانے کی تاریخ میں بھی موجود ہے۔‘‘
یہ دعویٰ اپنی جگہ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وادیِ ہنّہ کے بزرگ افراد اس جھیل کو کسی اور نام سے بھی پکارتے ہیں اور وہ نام ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے ریٹائرڈ سینئر پروڈیوسرابو الخیر ذلان کے مطابق ’’نار تلاؤ ‘ ہے ۔’ نار‘ وادی ہنّہ کے اس مقام کا نام ہے جہاں یہ جھیل موجود ہے ، جبکہ پشتو میں’ تلاؤ‘ پانی کے تالاب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لفظ ’ہنّہ ‘کے حوالے سے خلیل احمد منور کہتے ہیں کہ’’ پشتونوں کے کا کڑ قبیلے میں خواتین کا ایک خاص کشیدہ لباس تیار کیا جاتا ہے، جس کے گلے کے درمیان والے اگلے حصے کو ہنّہ کہتے ہیں ، جو اپنی خوبصورتی کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔‘‘
روایات کا یہ تضاد اپنی جگہ لیکن اس بات سے تمام لوگ اور حوالہ جات متفق ہیں کہ اس جھیل کی تعمیر اس وقت کی چھاؤنی کی پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے حوالے سے ایک سٹوریج ٹینک کے طور پر کی گئی جس میں مقامی افراد اور چھاؤنی کے استعمال کے بعد بچ جانے والے اضافی پانی کو سٹور کیا جاتا تھا ۔ کیونکہ برطانوی حکومت نے چھاؤنی کے لئے پینے کے واسطے پانی ہنہ ندی سے براہ راست پائپ لائن کے ذریعے چھاؤنی کو مہیا کیا تھا جبکہ مقامی آبادی ندی میں بہنے والے پانی سے اپنی ضرورت پوری کرتی تھی ۔ اس طرح دونوں کے استعمال کے بعد جو پانی بچ جاتا تھا وہ ہنہ جھیل میں ذخیرہ کر لیا جاتا تھا ۔
اس پائپ لائن کا ذکر بلوچستان کے تاریخی گزئیٹیر میں بھی موجود ہے جس میں اس ہنہ ندی کا آغاز کوئٹہ سے 14میل شمال مشرق کی جانب زرغون کے پہاڑوں کی اترائیوں سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ندی بہتی ہوئی کوئٹہ کے مضافات میں واقع کلی کو توال ( پشتو میں گاؤں کو کلی کہا جاتا ہے ) اور کلی ترین شارمیں موجود باغات کو سیراب کرتی تھی ۔ راستے میں اس ندی پر آٹا پیسنے کی 20 سے 25 چکیاں لگی ہوئی تھیں جو اُس وقت کوئٹہ کے آٹے کی ضروریات پوری کرتی تھیں ان چکیوں کی اکثریت ہندوؤں کی ملکیت تھی۔ ابتداء میں ان ہی کلیوں کا پانی برٹش حکومت نے خریدا اور پائپ لائن کے ذریعے چھاؤنی کو سپلائی کیا۔
اس پائپ لائن کو علاقے سے گزارنے کے لئے مقامی لوگوں کو رائلٹی دی گئی اور جھیل کی زمین جس پر جھیل کی تعمیرسے قبل بارانی گندم کاشت ہوتی تھی خریدی گئی اس طرح رفتہ رفتہ پانی کی اضافی مقدار حاصل کرنے کی لئے مقامی لوگوں سے معاہدے کئے گئے۔ اور ایک نمایاں معاہدہ جو برٹش حکومت اور مقامی یاسین زئی قبیلے کے مابین ہوا ( ہنہ اوڑک میں پشتون کاکڑ قبیلے کی شاخ یاسین زئی آباد ہے ) جس کی رو سے مارچ ، اپریل اور مئی کے مہینوں میں ولی تنگی کا پانی ( ولی تنگی زرغون پہاڑی سلسلے میں واقع ہے) پورے کا پورا ندی سے گزارہ جائے گا اور اس کے استعمال کی مقامی افراد کو اجازت ہوگی اور جو بچ جائے گا اسے جھیل میں سٹور کر لیا جائے گا ۔
ہنّہ جھیل پر ریڈیو پاکستان، کوئٹہ کے تیار کردہ دستاویزی پروگرام کے مطابق 818 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی اس جھیل میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 22کروڑ20لاکھ گیلن ہے اور گہرائی لگ بھگ 49 فٹ ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ کوئٹہ کی یہ شہرہ آفاق تاریخی جھیل موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے جس کی وجہ سے یہ جھیل 21 ویں صدی کے پہلے عشرے میں کئی بار پانی کی بوند بوند کو ترسنے کے بعد پانی کے وجود سے با لکل عاری رہ چکی ہے ۔ وہ جھیل جو کبھی کشتیوں کے ذریعے گھومی جاتی تھی ۔ ریس کے میدان کی صورت بھی کئی بار اختیار کر چکی ہے۔ جہاں کشتیوں کی بجائے گاڑیاں چلتی پھرتی رہی ہیں ۔
وہ جھیل جس میں کبھی رنگین مچھلیاں اور آبی پرندے تیرتے تھے۔ پیدل چلنے والوں کی پگڈنڈیوں کے مناظر بھی پیش کرتی رہی ہے۔ ہنہ جھیل جو کوئٹہ کے مکینوں میں خونی جھیل کے طور پر مشہور ہے تاوقت تحریر پانی کی موجودگی سے دلکشی کے حسین مناظر پیش کر تے ہوئے سیاحوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ شاید ہی کوئٹہ کا کوئی ایساباشندہ ہو کہ جس نے خود اور اُس کے مہمانوں نے اس جھیل کی سیاحت سے لطف حاصل نہ کیا ہو۔ کوئٹہ آنا اور ہنہ جھیل نہ جانا یہ ممکن نہیں۔ لیکن جھیل کی پانی کے دم سے قائم یہ رعنائیاں کب تک قائم رہتی ہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔کیونکہ اس وقت جھیل میں پانی تو موجود ہے لیکن اپنی اوسط سطح (مقدار)سے کم ہے۔
بارشیں کم ہونے کی وجہ سے اور اطراف سے بارشوں، چشموں اور کاریزوں کا جو پانی بہہ کر جھیل کی طرف آتا تھا، ان گزر گاہوں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے باعث بارشوں کے موسم میں پورے کا پورا پانی جھیل میں نہیں آتا ہے۔ مقامی افراد جھیل میں پانی کی آمد کا ماخذ کوہ مردار، کوہ زرغون اور ولی تنگی کو قرار دیتے ہیں ان کے مطابق کوہ مردار کے سلسلے سے پانی لانے والے چینل کی دیکھ بھال نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اب اس طرف سے برساتی پانی جھیل تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔
یہ چینل وادی ہنہ میںواقع ڈی سی ریسٹ ہاؤس کے پیچھے سے ہوتی ہوئی ہنہ ندی کے ہیڈ ورکس میں آتی تھی لیکن یہ چینل اب بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ جبکہ زرغون اور ولی تنگی والی چینل پانی لانے کے لیے ٹھیک ہے۔ جھیل کے لئے پانی کے بنیادی ماخذ ہائیڈرو جیالوجسٹ غلام قادر کے مطابق 17 مربع کلومیٹر پر مبنی اس کا کیچ منٹ ایریا اور وہ نالہ ہے جو ہیڈ ورکس کے ذریعے ہنہ ندی سے جھیل میں آتا ہے۔ اور ہنہ ندی میں پانی کا بنیادی ماخذ ولی تنگی زرغون کے پہاڑ ہیں۔ ان کے مطابق جھیل اور اس کا کیچ منٹ ایریا جو زیادہ تر شمال مشرق سے جنوب مشرق کی سمت میں ہے، ایسے علاقے میں ہے۔
جہاں کی مٹی(GHAZIJ SHALES) قسم کی ہے جو پانی کو زیر زمین رسنے نہیں دیتی اس لئے اس جھیل کا زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے اور اس کا تمام کا تمام پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ کیونکہ یہ جھیل جس علاقے میں واقع ہے وہ بلوچستان کے اکثر حصوں کی طرح ایرڈ زون ہے۔ جہاں موسم سال کے اکثر حصے خشک رہتا ہے۔ ان کے مطابق جھیل کے خشک ہونے کی ایک اور وجہ اس کا مٹی سے بھرنا ہے جس کے باعث اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہو چکی ہے اس وجہ سے پانی کے بخارات بننے کے عمل میں ماضی کے مقابلے میں تیزی واقع ہوئی ہے ۔
کیونکہ پانی کی گہرائی میں کمی واقع ہونے سے اس کی درجہ حرارت کو جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے ۔ ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے دستاویزی پروگرام کے مطابق جھیل میں مٹی جمع ہونے کے باعث پانی کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہوکر 15کروڑ20لاکھ گیلنز رہ گئی ہے جو اصل گنجائش کا 75فیصد ہے یعنی 25فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش جھیل میں مٹی بھر جانے کی وجہ سے کم ہو چکی ہے۔
ماہرینِ ماحولیات اس کا ایک سبب زرغون کے پہاڑوں پر موجود جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو بھی قرار دیتے ہیں، جس کے باعث پہاڑوں پر موجود مٹی کی تہہ بارش کے پانی میں شامل ہو کرندی کے راستے جھیل تک پہنچتی رہی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ اسیسمنٹ آف جونیپر فارسٹ ان زرغون کے مطابق ہر سال ایک اندازے کے مطابق زرغون میں گھریلو استعمال کے لئے 10ہزار صنوبر کے درخت چوری چپکے کاٹ لئے جاتے ہیں۔ (کوہ زرغون صنوبر کے جنگلات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔) کیونکہ بلوچستان فارسٹ ایکٹ کے مطابق زرغون کے محفوظ جنگل جس کا رقبہ 28ہزار 9سو 56ایکڑ ہے میں درختوں کی کٹائی ممنوع ہے ۔
لیکن اس قانون پر موثر عمل نہ ہونے کی وجہ سے زرغون پر جنگلات کا تیزی سے صفایا ہو رہا ہے جس کے باعث علاقے میں بارشوں کے تناسب میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ بارش کی کمی کے ساتھ ساتھ زرغون پر برف باری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق زرغون پرکبھی اتنی برف باری ہوتی تھی کہ نومبر کو پڑنے والی برف اپریل سے پہلے نہیں پگھلتی تھی جس کی وجہ وہ درخت بھی تھے جو پہلے زرغون میں کثیر تعداد میں موجود تھے۔ اور یہ درخت برف کے پگھلنے کی رفتار کو آہستہ رکھتے تھے۔
جس کی وجہ سے سارا سال پانی ایک تواتر کے ساتھ ندی میں جاری رہتا تھا جبکہ چشمے اور زیر زمین کاریزیںبھی چلتی رہتی تھیں جن سے جھیل کو پانی کی سپلائی متواتر ہوتی رہتی تھی لیکن جنگل کٹنے سے جہاں برف باری میں کمی واقع ہوئی وہیں درجہ حرارت میں اضافہ بھی ہوا ہے اور اب مقامی افراد یہ کہتے ہیں کہ زرغون کا موسم پہلے کی نسبت بہت گرم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں پڑنے والی تھوڑی بہت برف جلد پگھل جاتی ہے۔
درجہ حرارت میں اضافہ کے حوالے سے کوئٹہ کی صورتحال کو ایک مثال کے طور پر مد نظر رکھا جاسکتا ہے۔کوئٹہ جہاں کبھی جون، جولائی میں صرف پنکھوں کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اب شہر میں آپ کو ائیرکنڈیشنز جا بجا نظر آتے ہیں۔ اِمسال جاری موسمِ گرما میں کوئٹہ کے شہریوں کا یہ بر ملاکہنا ہے کہ اس سال موسم گرما ماضی کے مقابلہ میں زیادہ گرم ہے۔
درجہ حرارت میں یہ اضافہ صرف کوئٹہ شہر تک ہی محدود نہیں بے شک چند عوامل کی وجہ سے یہ شہر میں زیادہ ہوا ہے لیکن عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے کی جو نوید سننے کو مل رہی ہے اس صورتحال کی روشنی میں کوئٹہ سے محلقہ علاقوں میں بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہوگا اور اسی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ہنہ جھیل میںپانی کے بخارات بننے کے عمل میں ماضی کے مقابلے میں حالیہ عشروں میں نسبتاً تیزی واقع ہوئی ہے ۔
علاقے میں بارش کی کمی کا جھیل پر اثر ایک اور حوالے سے بھی ہوا ہے کہ علاقے میں موجود سیب کے باغات بارش کی کمی کے باعث بری طرح متاثر ہونا شروع ہوئے تو لوگوں نے زیر زمین پانی کے وسائل کو استعمال کرنے کے لئے ٹیوب ویلوں کا سہارا لینا شروع کیا جس سے زیر زمین پانی کی سطح گرنا شروع ہوئی اور اس سے علاقے کے چشمے اور کاریزیں خشک ہوتی گئیں۔ مقامی افراد کے مطابق ہنہ اوڑک میں15کاریزیں تھیں جن میں سے اب صرف تین کام کر رہی ہیں ۔
ان میں سے دو پینے کے پانی کے لئے اور ایک زراعت کے لئے استعمال ہو رہی ہے لیکن ان کا پانی بھی دن بدن کم ہوتاجا رہا ہے۔ ان کاریزوں اور چشموں کا پانی ماضی میں جھیل کے پانی کا ایک ماخذ تھا جو ہنہ ندی میں پانی کے بہاؤ میں کسی حد تک معاون تھے۔ لیکن ان کے پانی کی روز بروز کم ہوتی ہوئی مقدار نے ہنہ جھیل میں پانی کی تواتر سے آمد کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ہنہ جھیل کا اپنے تعمیری مقاصد کے بر عکس عرصہ دراز سے سوائے تفریح، مہاجر پرندوں کی سردیوں میں آمد اور روئینگ کے کھیل کی سر گرمیوں کے علاوہ کچھ استعمال نہیںکیونکہ اس کا پانی نا تو پینے کے لئے اور نہ ہی آبپاشی کے لئے استعمال ہو رہا ہے اورمٹی کی خاص تہہ کے باعث زیر زمین رساؤ نہ ہونے کے حوالے سے اس کا ری چارج کا کوئی کردار بھی نہیں ہے۔
اس لئے یہ جھیل انسا ئیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کی مذکورہ تعریف جس میں کہا گیا ہے کہ ایسی جھیلیں جن میں پانی کا اخراج نہ سطح سے ہو اور نہ ہی تہہ سے ( زیر زمین ر ساؤ کی صورت میں ) ایسی جھیلوں کو بند جھیلیں CLOSED LAKESکہتے ہیں ۔ اور ایسی جھیلیں جن سے پانی کا اخراج یا تو سطح سے ہو یا پھر تہہ سے ایسی جھیلیں کھلی جھیلیں OPEN LAKES کہلاتی ہیں۔ اس تعریف کی رو سے ہنہ جھیل بند جھیل کی کیٹیگری میں آتی ہے جو پہلے شاید کبھی کھلی جھیل ہو لیکن پاکستان بننے کے بعد سے اس کے پانی کو استعمال میں نہیں لایا گیا ۔
مہاجر پرندوں کی سردیوں میں آمد کے حوالے سے یہ جھیل ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں سردیوں کے آغاز سے سائیبریا سے آنے والی مرغابیاں MALLARDS سردیوں کا موسم گزارتی ہیں۔ ان کی جھیل پر ستمبر کے مہینے سے آمد شروع ہوجاتی ہے اور یہ مارچ تک یہاں رہتی ہیں زوالوجیسٹ جمال عبدالناصر کے مطابق یہ مہاجر پرندہ روس سائبیریا سے افغانستان کے راستے پاکستان کے جنوب میں سندھ کی طرف جاتا ہے ۔ یہ پرندے یہاں اپنے قیام کے دوران بریڈنگ بھی کرتے ہیں ۔ لیکن جھیل کے خشک ہونے پر ان پرندوں کاپڑاؤ متاثر ہوتا ہے۔
ہنہ جھیل کی قدرتی ہیئت کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین ماہی پروری کے مطابق جھیل میںتجارتی بنیادوں پر ماہی پروری کے بھر پور مواقع موجود ہیں اور یہاں پروان چڑھنے والی مچھلیوں کو کسی مصنوعی کھاد کی بھی ضرورت نہیں بلکہ جھیل میں قدرتی طور پر خوراک کا اچھا انتظام موجود ہے ۔ لیکن ان تمام چیزوں کا احیاء اسی صورت ممکن ہے کہ جھیل میں پانی تواتر سے آئے اور وہ بخارات کی صورت میں جلد جھیل کے دامن سے نہ اڑے۔
اس حوالے سے ماہرین نے جو تجاویز پیش کی ہیں کہ ان کے مطابق سب سے پہلے جھیل کی تہہ میں جمع ہونے والی مٹی کو نکالا جائے تاکہ جھیل میں پانی کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ ہو اور وہ جلد بخارات بننے کے عمل کے باعث خشک نہ ہو سکے اورجھیل سے نکلنے والی مٹی کو ارد گرد کے پہاڑوں پر ڈالا جائے تاکہ اس میں درخت لگائے جاسکیں۔ اس حوالے سے نجی شعبہ کے تعاون سے جھیل کے اردگرد کچھ شجرکاری کی گئی ہے جو ایک اچھے تاثر کے ساتھ ساتھ ایک بہتر اقدام بھی ہے۔
ڈاکٹر عبدالمجید سابق ہیڈ آئی یو سی این واٹر پروگرام کے مطابق’’ہنہ جھیل کے پانی کا بخارات کی صورت میں اڑ جانا ایک قدرتی عمل ہے اور اسے قابو میں رکھنے کے لئے جو بھی کوششیں کی جائیں گی ان کے کوئی نہ کوئی سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ جھیل میں پانی کی ایک خاص مقدار میں آمد متواتر جاری رہے۔‘‘ یہ تواتر بروقت بارشوں اور برف باری سے ہی حاصل ہو سکتا ہے جس کے ذریعے اس کے کیچ منٹ ایریا اور ہنّہ ندی سے پانی جھیل میں آسکتا ہے۔
اس بات کو ہائیڈ روجیا لوجسٹ غلام قادر ایک مثال سے واضح کرتے ہوئے بتاتے ہیں’’ہنّہ جھیل 2001ء سے 2003ء کے موسمِ سرما تک بالکل خشک تھی لیکن 2003ء کی سردیوں میں ہونے والی چند بارشوں اوربرف باری کے باعث اس میں تھوڑا پانی آیا لیکن متواتر سپلائی نہ ملنے اور پانی کے بخارات بننے کے نتیجے میں جھیل جولائی 2004ء میں دوبارہ خشک ہوگئی اور 2005 ء کے چند مہینوںتک پانی سے محروم رہی۔ ‘‘
پانی جو کہ اس وقت کوئٹہ کے شہریوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پانی کے لازمی جزو سے کئی بارمحروم ہونے والی ہنہ جھیل آب و ہوا میں تبدیلی کا شکار وہ واضح ثبوت ہے جو ہمیں اس بات پر سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ موسمی تغیرات کے نقصانات سے بچنے کے لئے فوراً جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ کوئی اور شاہکار اس عفریت کی بھینٹ نہ چڑھ سکے ۔
جھیل
جھیل جزیزہ کی متضاد کیفیت کا نام ہے یہ پانی کی وہ صورت ہے جو چاروں اطراف خشکی سے گھری ہوئی ہو۔ تاہم دریا اور ساحلی پانیوں کے پھیلے ہوئے قطعات بھی بعض اوقات جھیل کہلاتے ہیں جھیل کے مطالعے کو لیمنالوجی (LiMNOLOGY)کہتے ہیں جبکہ لاکو سٹرائن (LACUSTRINE)اس کی توصیفی کیفیت ہے جوکہ جھیل سے وابستہ اشیاء کو بیان کرتی ہے۔ جھیل کے پانی کے بنیادی ماخذ بارش اور برف ہیں ۔
درحقیقت زمین کے 40فیصد حصے پر ہونے والی بارش اور برف بہہ کر جھیلوں میں آتی ہے ۔ دنیا میں زیادہ تر جھیلیں تازہ پانی ( میٹھے پانی) کی ہوتی ہیں جبکہ نمکین اور کھارے پانی کی جھیلیں زیادہ تر خشک آب و ہوا کے حامل علاقوں میں پائی جاتی ہیں ۔ ان علاقوں میں پانی بخارات کی صورت میں جلد تبدیل ہوکر اڑ جاتا ہے بر عکس اس کے جھیل میں نیا پانی آئے۔ جھیلیں پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں اس کے علاوہ بجلی ‘ زراعت کے لئے پانی ، تجارتی بنیادوں پر ماہی پروری اور تفریحی سہولیات بھی جھیلوں سے وابستہ اہم ذرائع ہیں ۔
جھیل میں زندگی
جھیلیں پودوں اور جانوروں کی منفرد اقسام کی آماجگاہ ہوتی ہیں جس کا دارومدار جھیل کے سائز ، ساخت ، ارد گرد کے پتھروں ، مٹی اور آب و ہوا پر منحصر ہے۔ جھیل کو عموماً تین زونر میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ جھیل کی اوپری سطح ( ساحل سے نزدیک) لیٹیورل زون(LITTORAL ZONE)کہلاتی ہے۔ دلد لی پودے جیسا کہ کیٹیلز Cattailsاور پانی کے سوسن کے پھول(WATER LILIES)اکثر یہاں پیدا ہوتے ہیں۔
اسی طرح ساحل سے ذرا ہٹ کر دوسری زون لیمو نیٹیک (LIMONITIC) ہوتی ہے یہاں صرف وہ پودے پائے جاتے ہیں جو تیرتے ہوتے ہیں اگر تو جھیل کم گہری ہے تو۔ اور اگر جھیل گہری ہے تو وہ ایک اور زون کی حامل ہوتی ہے جسے PROFUNDAL ZONE یعنی گہرائی زون کہتے ہیں جہاں روشنی کم پہنچتی ہے جس کے باعث وہاں آکسیجن کی مقدار کم ہوتی ہے اس حصے میں زندگی معدوم ہوتی ہے۔
جھیل کیسے بنتی ہے
جھیلوں کے لئے عموماً دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک پانی اور دوسری وہ جگہ جہاں وہ اکٹھا ہو یا اسے اکٹھا کیا جائے۔ دنیا میں جھیلیں کسی اور طریقے کی نسبت زیادہ تر گلیشیرز کے باعث وجود میں آئیں اس طرح کی جھیلوں کو ’’GLACIAL LAKES‘‘ کہتے ہیں۔
اسی طرح اونچے پہاڑوں کی اترائیوں( وادیوں) میں واقع جھیلیں ’’ALPINE LAKES‘‘کہلاتی ہیں، یورپ میں ایسی جھیلوں کو ’’Trans‘‘ کہتے ہیں جبکہ مٹی اور برف کے تودوں کے گرنے کی وجہ سے بننے والی جھیلیں ’’ Barrier Lakes‘‘ کہلاتی ہیں۔
جھیلیں آہستہ آہستہ بہاؤ کے حامل دریاؤں اور سمندروں کے قریب نچلی سطح کے علاقوں میں بھی عموماً پائی جاتی ہیں ایسی جھیلوں کو ’’OXBOWS‘‘کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرتی طور پر پڑنے والے بڑے شگافوں پر مشتمل جھیلیں ’’ TECTONIC LAKES ،،کہلاتی ہیں اسی طرح بعض جھیلیں ایسے علاقوں میں بنتی ہیں جہاں چونے کا پتھر گھل کر خلاء اور گڑھا بناتا ہے۔
اس طرح کی جھیلوں کو ’’KARAST LAKES،،کہتے ہیں۔ زیر زمین پانی بھی چونے کے پتھر کو گھلا کر زیر زمین جھیلیں بناتا ہے، علاوہ ازیں جھیلیں آتش فشاں کے پھٹنے سے بھی بنتی ہیں اور کئی ایک جھیلیں مصنوعی طور پر بھی بنائی جاتی ہیں ۔
جھیل اعداد و شمار
٭ دنیا میں 80 فیصد میٹھا پانی زیر زمین اور برف کی صورت میں موجود ہے جبکہ 20 فیصد دریاؤں اور جھیلوں کی صورت میں پایا جاتا ہے۔
٭ دنیا کی جھیلوں میں موجود 80 فیصد پانی( تقریباً ایک لاکھ 25 ہزار مربع کلو میٹر) 40بڑی جھیلوں میں پایا جاتا ہے۔
٭دنیا میں رقبے کے لحاظ سے نمکین پانی کی سب سے بڑی جھیل کو ہم CASPIAN SEA کے طور پر جانتے ہیں اس ایشیائی جھیل کا رقبہ ایک لاکھ 50 ہزار مربع میل پر مشتمل ہے جبکہ اس کی لمبائی 750 میل اور زیادہ سے زیادہ گہرائی 3 ہزار ایک سو فٹ ہے ۔
٭دنیا میں رقبہ کے حوالے سے میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل SUPERIOR LAKE ہے جس کا رقبہ 95 ہزار مربع میل ہے یہ امریکا اور کینیڈا کے درمیان بحری راستے کا بھی کام دیتی ہے SUPERIOR LAKE میں پانی کا اندازہ 3 کوارڈیلینزگیلنز ہے (3,000,000,000,000,000) یہ دنیا میں سطح زمین پر دستیاب میٹھے پانی کا 10فیصد ہے اور یہ اتنا پانی ہے جو شمالی اور جنوبی امریکا کو ایک فٹ پانی میں ڈبو سکتا ہے۔
٭ دنیامیں رقبے کے حوالے سے بڑی پانچ جھیلوںمیں اندازہً 22 ہزار 9 سو مربع کلو میٹر پانی ہے۔
٭ ایشیاء کی جھیل BAIKAL میٹھے پانی کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل سے جوکہ رقبے کے حوالے سے بڑی پانچ جھیلوں کے برابر پانی کی حامل ہے اور یہ دنیا میں دستیاب میٹھے پانی کے 20 فیصد کی حامل ہے ( ماسوائے زیر زمین اور برف) یہ میٹھے پانی کی سب سے گہری جھیل ہے جس کی گہرائی کا اندازہ ایک میل سے زائد ہے۔
٭ جھیل BAIKAL اپنے کشیدی نظام کے حوالے سے بھی منفرد مقام کی حامل ہے جس کے باعث یہ دنیا کی صاف و شفاف جھیل ہے ۔ اس جھیل میں بعض نایاب ترین حیاتیاتی اقسام بھی پائی جاتی ہیں جو دنیا کی اور کسی جھیل میں نہیں پائی جاتی جیسا کہ میٹھے پانی کی سیل (FRESHWATER SEAL)ہے۔ گرم چشموں کے ذریعے جھیل کو تازہ پانیLiving water مہیا ہوتا ہے جو آکسیجن سے لبریز پانی کو جھیل میں پمپ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس جھیل کی گہرائی میں بھی زندگی پائی جاتی ہے اس کے بر عکس تمام گہری جھیلوں کی گہرائی مردہ ہوتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ کوئی عام جھیل نہیں ۔
٭ سطح سمندر سے 12ہزار 5 سو فٹ بلندی پر پیور(PERU) کی جھیل Titicacaدنیا کی بلند ترین جھیل ہے جس میں کسی بڑے بحری جہاز کی مدد سے گھوما جاتا ہے۔
٭ سطح سمندر سے ایک ہزار 3 سو16فٹ نیچائی پر دنیا کی سب سے نیچی جھیل بحیرہ مردار ہے جو اردن اور اسرائیل کے درمیان ہے ۔
٭ دنیا میں رقبہ کے حوالے سے بڑی25 جھیلوں میں سے 10شمالی امریکا میں ہیں ان میں سے 9 کنیڈا میں ہیں ( جو کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ بڑی جھیلوں کی تعداد ہے) جبکہ 7 ایشیاء میں( جن میں دو بڑی ترین ہیں) یورپ میں کوئی نہیں۔دو جنوبی امریکا اور ایک آسٹریلیا میں واقع ہے۔
٭ امریکا میں موجود چھ بڑی جھیلیں آئس ایج کی پیداوار ہیں پانچ جھیلیں ایسی جگہوں پر ہیں جہاں آئس ایج میں گلیشیئر ہوتے تھے۔ n
تلخ حقائق
٭ دنیا میں تقریباً آدھی جھیلیں انسانی سر گرمیوں کے باعث تنزلی کا شکار ہیں۔
٭ چین کی 100جھیلیں بری طرح آلودہ ہو چکی ہیں ان جھیلوں کا 70 فیصد پانی میونسپل اور صنعتی اخراج پر مشتمل ہے۔
٭ کمبوڈیا کی جھیلTONLE SAPبری طرح مٹی سے بھر تی جارہی ہے جس کی بنیادی وجہ اس جھیل کے واٹر شیڈ کے علاقوں میں درختوں کی بے تحاشا کٹائی ہے ۔
٭ نیکار اگوآ کی LAKE MANAGOA حیاتیاتی تنوع سے عاری ہو چکی ہے کیونکہ 1925سے بغیر کسی کشید کے گندہ پانی اور میونسپل ویسٹ اس جھیل میں ڈالا جا رہا ہے ۔
٭ شمالی تنیسیا ’’NORTHERN TUNISIA کی جھیل ’’ LCH KEUL‘‘ کو پانی مہیا کرنے والے دریاؤں کے رخ موڑنے کے حوالے سے اس جھیل کو خطرات کا اندیشہ ہے۔
٭ مصر کی ’’LAKE MANZALA،، مچھلیوں سے محروم ہو چکی ہے جس کی بنیادی وجہ پورٹ سعید کی توسیع کے نتیجے میں 1970کے عشرے میں زہریلے صنعتی مادے کا جھیل میں پھینکا جانا تھا۔
٭ جھیل وکٹوریا کا 30 میٹر سے زائد گہرائی کا پانی آکسیجن سے محروم ہو چکا ہے کیونکہ ہر سال جھیل میں 2 ملین لیٹر گندا پانی تنزانیا کی جانب سے پھنکا جا رہا ہے۔
٭ سائبیریا کی جھیل Baikalمیں آلودہ فیکٹریاں ملین کیوبک میٹر مادہ پھینک چکی ہیں جس سے 1990کے عشرے کے وسط تک جھیل کی تہہ کے 20 مربع کلو میٹر علاقے میں آلودگی کے باعث آکسیجن کی مقدار کم ہو چکی ہے۔
٭مغربی افریقہ کے ممالک چاڈ ‘ نائیجراور کیمرون کی سرحدوں پر واقع جھیل چاڈ ان تینوں ممالک کے تازہ پانی کے آبپاشی کے منصوبوں کا ماخذ ہے لیکن گزشتہ 30 سالوں میں جھیل کے سائز میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی ہے۔ 1963سے اب تک جھیل اپنے اصل سائز کے مقابلے میں صرف20 فیصد رہ گئی ہے جس کی وجہ آب و ہوا میں تبدیلی اور زراعت کے لئے پانی کی زیادہ مانگ ہے۔
جھیل کیسے مرتی ( ختم ہوتی ) ہے
جھیلیں جانوروں کی طرح ہیں جو پیدا ہوتی ہیں پھلتی پھولتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔کچھ جھیلیں تب مر جاتی ہیں جب ان کے پانی کا ماخذ ختم ہو جائے۔ جھیلیں ایک اور طرح سے بھی مرتی ہیں اس عمل کو EUTROPHICATION کہتے ہیں۔
جس میں جھیلوں میں مٹی یا پھر مردہ پودے اور جانور بھر جاتے ہیں یہ چیزیں رفتہ رفتہ جھیل کی گہرائی کم کردیتی ہیں اور وہ ایک دلدل کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور پھر آخر کار مر جاتی ہیں۔