مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان
مصنف: منیر احمد منیر
قیمت:400روپے
ناشر:آتش فشاں 78ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
زیرنظرکتاب بنیادی طورپر مولاناابوالکلام آزاد کی پاکستان کے بارے میں کی گئی پیش گوئیوں پر مشتمل ہے۔ جناب منیراحمد منیر مصنف سے زیادہ محقق ہیں،ان کی ہرکتاب تحقیق کی شاہکار ہوتی ہے،اس کتاب کے موضوع پر بھی انھوں نے تحقیق کا حق اداکردیا اور اسے ایک ریفرنس بک بنادیا۔ قریباً تین سوصفحات اور نایاب وتاریخی تصاویر پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے مولانا کی پیش گوئیوں اور دعووں کاتاریخی حوالوں، شواہد اور ریکارڈ کے ذریعے تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ہرپیش گوئی کو غلط قراردیا ہے۔
مثلاً مولانا آزاد نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان بن گیا تو نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے یہاں بھی فوج حکمران رہے گی جس طرح کہ باقی کے اسلامی ملکوں میں ہے، کہا کہ پاکستان غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے گا، کہا کہ پاکستان میں اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑے رہیں گے، کہا کہ پاکستان غیرملکی کنٹرول میں رہے گا۔پارٹیشن پلان کی منظوری یا نامنظوری کے لئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا جواجلاس ہوا اس میں مولانا نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ تقسیم عارضی ہے۔ جو صوبے ہندوستان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیں گے وہ بہت جلد ہندوستان میں واپس آجائیں گے۔ مولانا نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ بعد کی نسلوں کو پتہ چلے گا کہ پاکستان کی صورت میں انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
جناب منیر احمد منیر نے اپنے دلائل سے ثابت کیاکہ مولانا آزاد کی یہ پیش گوئیاں درست ثابت نہ ہوئیں اور لکھا ہے کہ پاکستان نہیں بھارت اندرونی خلفشار کا خوفناک حد تک شکارہوا جس کے 29 صوبوں میں سے 14میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، 26فیصد بھارتی علاقہ انتہاپسندوں کے کنٹرول میں ہے، وہاں حکومتی رٹ کا وجود ہی نہیں۔ دیگرپیش گوئیوں کو بھی مصنف نے پورے دلائل سے حرف بہ حرف غلط قرار دیا ہے، ان کے دلائل پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
حیی علی الفلاح
مصنف: پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام عادل
قیمت:480 روپے
ناشر: بک کارنر شوروم بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم
مصنف ریڈیو پاکستان کے شعبہ مذہبی امور سے وابستہ ہیں، زیرنظرکتاب ان کی ریڈیو پر نشرہونے والی تقاریر کا دوحصوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔پہلے حصے میں ماہ ربیع الاول کی خصوصی تقاریر اور سیمینارز سے خطاب مع سوال وجواب (جو حاضرین کی طرف سے پوچھے گئے) شامل ہیں جبکہ دوسرے حصے میں درس حدیث میں نشر ہونے والی تقاریر ہیں۔ رسول اللہﷺ اور نظام عدل، ذخیرہ اندوزی اور تجارت، سیرت النبیﷺ کے تناظرمیں، سیرت طیبہﷺ اور معاشیات، انبیائے کرام کی بعثت فلاح انسانی کا ذریعہ ہے، حضور اکرمﷺ بحیثیت عظیم انقلابی، دعوت حق میں پیش آنے والی مشکلات کتاب میں شامل متعدد تقاریرمیں سے چند ایک ہیں۔
اسی طرح دروس حدیث کے سلسلہ میں ڈاکٹرصاحب نے آداب مجلس، مرض پر صبروشکر، سورہ واقعہ کے فضائل، نماز کی تاثیر اور برکت، نوافل کا ایک خاص فائدہ، اولاد سے محبت، محبت رسول ﷺ کے تقاضے، بہترین عورت، قرض کی ادائیگی، اعمال صالحہ، دوستی کے اثرات، انسانوں سے حسن سلوک، ہمسائے اور مہمان کی عزت وتکریم،وسائل وذرائع کی پاکیزگی، اپنی حاجات کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا،عرش کے سائے میں جگہ پانے والے اور جنت کا حصول سمیت دیگر بہت سے موضوعات پر تقاریربھی شامل ہیں۔
گفتگو کا دورانیہ اگرچہ کم ہے لیکن اس مختصر دورانئے میں زبان وبیان کی سادگی ، قرآن وحدیث کی آسان وعام فہم تشریح ، مزاج کی شگفتگی، تقریروتحریر کی برجستگی، مفردات ومرکبات کی شستگی جابجا نظرآتی ہے۔ پاکستان ایسے معاشرے میں جہاں مطالعہ کا رجحان گزشتہ ایک عرصہ سے کم ہوتاجارہاتھا، اعلیٰ معیار کی خوبصورت کتابیں شائع کرنا ’بک کارنرشوروم‘ کا کارنامہ شمار ہوتا ہے۔
بین الاقوامی انسانی سمگلنگ
مصنف: ذبیح اللہ صدیق بلگن
قیمت:480 روپے
ناشر:نگارشات،24 مزنگ روڈ، لاہور
’بین الاقوامی انسانی سمگلنگ‘ دراصل ان مشاہدات اور تجربات کا نتیجہ ہے جن کا مصنف کوبیرون ملک سامنا رہا، دوبئی، سعودی عرب، عمان، ملائشیا، ماسکو، ازبکستان، سائوتھ افریقہ، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، سنگاپور، انگلینڈ وغیرہ میں مصنف کی ملاقاتیںان افراد سے ہوئیں جو کسی نہ کسی شکل میں انسانی سمگلنگ کا شکارہوئے تھے۔ دوبئی اور ملائیشیا میں ان کلب ڈانسرز کے انٹرویوکرنے کا موقع ملاجنھیں ان کے گھر والوں نے معمولی پیسوں کے عوض انسانی سمگلروں کے سپردکردیاتھا۔ بعض ایسی خواتین سے بھی بات چیت کا موقع میسرآیا جنھیں پرکشش نوکریوں کا جھانسہ دیا گیا تھا مگر بیرون ملک لاکر جسم فروشی کے مکروہ دھندے پر لگادیا گیا۔
اسی طرح متعدد ایسے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دے کر اس مصیبت میں گرفتارہوئے تھے۔اس اعتبار سے کتاب بہت دلچسپ اور معلومات سے بھری ہوئی ہے۔ کتاب تیرہ ابواب میں منقسم ہے۔ پہلے باب میں دنیا بھر میں ہونے والی انسانی نقل مکانی کو پوری تفصیل سے بیان کیاگیاہے، اگلے ابواب میں انسانی سمگلنگ کی تعریف ، نوعیت اور وسعت کو بیان کرتے ہوئے مصنف نے ہربراعظم میں ہونے والی انسانی سمگلنگ کا الگ الگ مفصل ذکرکیاہے۔آخر میں انسانی سمگلنگ اور بین الاقوامی قانون سازی کا مختصر جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے یہ ایک منفرد کتاب ہے جس میں چائلڈلیبر، جبری مشقت، معاشی اور جنسی استحصال پر قابل قدرتحقیق کی گئی ہے۔
انسانی ارتقاء
مصنف: ڈاکٹر ایم آرساہنی
قیمت:600 روپے
ناشر:بک ہوم، بک سٹریٹ،46۔مزنگ روڈ لاہور
عنوان ہی کافی حد تک کتاب کا تعارف کرارہاہے، اس میں مصنف نے ارتقاء کے اصول، اس کے اہم سنگ میل، زمین کی قدامت اور کرہ ارض پر زندگی بلکہ ارضیات کی مبادیات جیسے اہم سائنسی حقائق کو حتی الوسع آسان زبان میں پیش کیا ہے، تشبیہات اور مثالوں کے آزادانہ استعمال سے ان میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح اسے ارضیات، انسانیات، حیوانیات کے طلبا کے لئے یکساں طورپر موزوں بنایا گیا ہے۔
بظاہر ایک بے حد خشک اور سائنسی موضوع لگتاہے لیکن مصنف نے کمال خوبی سے اسے دلچسپ بنایاہے۔ پہلے باب میں اس موضوع کا سرسری جائزہ لیاگیا، دوسرے باب میں ارضیاتی ٹائم ٹیبل (ارضیاتی اور انسانی تاریخ کا تقابل)، تیسرے باب میں نئے اور پرانے خیالات کا جائزہ لیاگیاہے، چوتھے باب میں ارتقا کے سنگ میل بیان کئے گئے ہیں، پانچویں باب میں اسباب کا تذکرہ کیا گیا ہے، چھٹے عظیم برفانی دور یا یورپ، ہندوستان، پاکستان اور برما میں پلیسٹوسین عصر، ساتویں باب میں پتھر کے زمانہ کو بیان کیا گیا ہے، اس باب میں یورپ، ہندوستان، پاکستان اور برما کی بعد کی تہذیبوں کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
آٹھویں باب میں سری لنکا میں پلیسٹوسین اور ماقبل تاریخ کا ذکرہے، نویں باب کا عنوان ہے: حیوانات اعلیٰ، دسویں باب میں احفوری انسان کی نسلیں اور اس کے قریبی رشتہ داروں کابیان ہے۔ توقع ہے کہ ایک عام آدمی بھی اسے اس قدر دلچسپ پائے گا کہ ایک نامانوس اور خشک سے موضوع کے بارے میں بہت کچھ جان سکے گا۔
باباجی، چاچا جی تے میں
مصنف: مدثر بشیر
قیمت: 160روپے،صفحات: 104
ناشر: سانجھ، مزنگ روڈ، لاہور
معاشرے میں بکھری ہوئی کہانیوں اور باتوں کو ایک لڑی میں پرونا بہت بڑا فن ہے، بظاہر یہ کچھ مشکل دکھائی نہیں دیتا مگر ان کہانیوں اور باتوں کو تحریر کی شکل دینا کچھ اتنا آسان بھی نہیں، خاص طور پر دیہاتوں کی زندگی کو سامنے لانا۔ مدثر بشیر کو اس فن میں خصوصی ملکہ حاصل ہے وہ معمولی باتوں کو بھی اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیونکہ ہر بات یا کہانی کوئی سبق لئے ہوتی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب کی کہانیوں کے عنوانات ہی اس کی نشاندہی کر دیتے ہیں جیسے پنچائیت، نیوندرا، حویلی، اوکات، پرکھ وغیرہ۔
اس کتاب میں انھوں نے دیہات میں بسنے والے بزرگوں سے سنی ہوئی باتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ بابا جی، جو ان کے دادا جان تھے اور گاؤں کی زندگی میں ایک سربراہ کی حیثیت رکھتے تھے ان کی باتیں اور فیصلے انھوں نے بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔
دوسرے حصے میں انھوں نے اپنے چچا جان کی سنائی ہوئی کہانیاں بیان کی ہیں، کتاب کے تیسرے حصے میں وہ کہانیاں شامل ہیں جو دیہات کے رہنے والے دوسرے افراد نے انھیں سنائی ہیں، مصنف نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ بہت سی کہانیوں میں ضرورت کے مطابق تھوڑی بہت تبدیلی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیہات میں گائے جانے والے گیت بھی کتاب کے آخری صفحات کی زینت بنائے گئے ہیں جس سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ پنجابی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب پنجاب کے معاشرے کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہے۔ مجلد کتاب کا ٹائٹل بھی بہت خوبصورت ہے۔
شرینہہ دے پھْل
شاعر: شِو کمار بٹالوی ، انتخاب: مقصود ثاقب
صفحات :111،قیمت : 200روپے
ناشر:۔ سچیت کتاب گھر ، شرف مینشن، گنگارام چوک، لاہور
بھارتی پنجاب کے رہنے والے شِوکمار بٹالوی پنجابی کے بڑے معروف شاعر ہیں ۔جنہوںنے اپنے ڈھنگ کی زندگی بسر کی اور وہ ان شاعروں میں سے ہیں جنہیں ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بھی مقبولیت حاصل رہی ۔وہ پنجابی زبان کے قادرالکلام شاعر تھے ۔انہیں نظم، غزل اور گیت تینوں اصناف پر یکساں عبور حاصل تھا ۔شِوکمار بٹالوی نے 1973ء میں وفات پائی۔ مقصود ثاقب نے ان کی شاعری کاانتخاب ’’ شرینہہ دے پھْل‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا اور یوں پنجابی زبان کے قارئین کے لیے شاعری کی ایک معیاری کتاب کاتحفہ دیا۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
نویاں سنگاں دے گاون
شاعر : نجم حسین سید
صفحات: 88 ،قیمت:30 روپے
ناشر: سچیت کتاب گھر، شرف مینشن ، گنگارام چوک، لاہور
’’نویاں سنگاں دے گاون‘‘ معروف شاعر اور دانش ور نجم حسین سید کی پنجابی نظموں اور گیتوں پر مشتمل ہے ۔جن میں شعروں کی زبان میں ہماری تہذیب ، رہن سہن ، انسانی رویوں کا عکس بڑی خوبصورتی کے ساتھ دکھائی دیتاہے ۔بلا شبہ یہ نظمیں خاصے کی چیز ہیں ۔جنہیں خالص پنجابی زبان کا چولا پہنایا گیاہے۔وہ لوگ جو پنجابی زبان وادب سے واقفیت چاہتے اور شاعری کا ذوق رکھتے ہیں ان کے لیے یہ ایک بہترین کتاب ہے۔
سیر جہاں
مصنف:فقیراللہ خاں
قیمت:500 روپے
ناشر: بک ہوم، بک سٹریٹ،46۔ مزنگ روڈ لاہور
جناب فقیراللہ خاں نے ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک لاہور ہی میں حاصل کی اور پھرقومی ائیرلائن کے شعبہ فنانس میں وابستہ ہوگئے۔ 24 برس ملازمت کرکے ریٹائرمنٹ حاصل کی ۔زیرنظرکتاب میں انھوں نے دنیا کے 16ممالک کی سیاحت کے تاثرات بیان کئے ہیں۔ ان ممالک کے رسم ورواج، ثقافت، کلچر، مذہب، قوانین اور لوگوں کے رویوں کے متعلق تحریر کیاگیاہے۔ تاشقند، سمرقند وبخارا، زار روس کے دیس میں، استنبول، بوسنیا میں چند روز ، بارسلونا، کوالالمپور، یہ ہے سنگاپور، بنکاک، ہانگ کانگ، شنگھائی، شنگھائی ایکسپو2010ء، بیجنگ، منیلا، ٹوکیو، سیول اور بالی اس سفرنامہ کے ابواب ہیں۔
مختلف ممالک کے اسفارکا ذکر اس اندازمیں کیاہے کہ تحریر میں مسافر کی اپنی ذات یا تو موجود نہیں اور اگرہے بھی تو غیرمحسوس اندازمیں۔ وہ نظروں کے سامنے فلم چلاتے ہیں، بس! کمنٹری ان کی ہوتی ہے۔ مصنف نے ان ممالک کے معاشروں میں جھانکنے کی کوشش ضرور کی ہے، وہاں کے لوگوں کے رہن سہن، فن وثقافت اور ان کے کرداروگفتار کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ ایک تقابلی جائزہ بھی لیتے رہے، انھوں نے قیام کے دوران معاشرے کے اندر رہ کر ان کی عادات واطوار کو جس طرح محسوس کیا، تحریرکردیا ہے۔ جہاں کچھ چیزیں مصنف کے ضمیر اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں، وہاں جانے کی کوشش ہی نہیں کی، صرف ان کے پرکشش اشتہاری بورڈز پڑھنے اور لچھے دار باتیں سننے پر ہی اکتفا کیا۔
ان کے بقول:’’ میں نے گلی کوچوں، محلوں، سمندروں اور میدانوں کی ہلکی سی عکاسی ضرور کی ہے۔ آگے ان کے خاکوں کی تصاویر میں رنگ بھرنے کا کام اپنے قارئین پر چھوڑتاہوں‘‘۔ اور ڈاکٹرسلیم اختر کے بقول:’’ فقیراللہ خاں صاحب کے پاس ایکس ریز کرنے والی آنکھ ہے جس ملک میں گئے اپنی مشاہدہ کرنے والی آنکھ کی بدولت ظاہر میں چھپے باطن کو بے نقاب کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یوں وہ بدیشی کلچرز کے تجزیاتی مطالعہ میں کامیاب رہے ہیں‘‘۔ یقیناً اس کتاب کا مطالعہ قارئین کے لئے ایک دلچسپ تجربہ ثابت ہوگا۔
بچوں کیلئے 2 ننھی، پیاری کتابیں
جب بچے سکول جانے لگتے ہیں، اچھے والدین کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اب بچے صرف ان کی گود میں بیٹھ کر کہانیاں سننے کے بجائے، کتابوں میں کہانیاں پڑھنے کا شوق پالیں۔ تاہم انھیں مسئلہ یہ درپیش ہوتاہے کہ ایسی کتابیں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں جو ان کے بچوں کی ذہنی سطح سے مطابقت رکھتی ہوں۔ خوشی ہے کہ چند ادارے ایسے بھی ہیں جو اس مسئلہ کا احساس رکھتے ہیں اور بچوں کی ضرورت میرٹ پر پوری کرتے ہیں۔ ’القاپبلیکیشنز‘ گنتی کے ان اداروں میں شامل ہے جن کی شائع کردہ کتابیں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات ہے کہ اب اردو ادب کے بڑے نام بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنے میں مصروف ہیں۔ تاہم یہ چند نام ہیں، باقی لوگوں کو بھی اس میدان میں آناچاہئے۔
زیرنظر انتہائی خوبصورت اور دلچسپ کتابیں’ بندر اور مگرمچھ‘اور’ میاں نکھٹو‘ ممتاز ادیب جناب خورشیدرضوی کی لکھی ہوئی ہیں۔ پہلی کہانی ’پنچ تنتر‘ سے ماخوذ ہے۔ پنچ تنتر سنسکرت کی قدیم کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کے کردار جنگلی جانور ہوتے ہیں۔ ان کہانیوں کا تعلق300قبل ازمسیح سے ہے۔ قریباً 200سے زائد زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوچکاہے۔ ’بندر اور مگرمچھ‘ میںکس طرح مگرمچھ اور بندر دوست بنے اور پھر ان کی دوستی کا عجب انجام ہوا۔ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ظاہرہے کہ کہانی سے پڑھنے سے ہی معلوم ہوگا۔دوسری کہانی کا مرکزی خیال آذربائیجان کی ایک لو ک کہانی سے لیا گیا ہے۔
یہ کہانی ایک نکمے انسان کی ہے ، جو بہت ہی نکما تھا، اس قدرنکما کہ آپ جتنا بھی سوچیں ، اس سے بھی کئی گنا زیادہ۔ صرف نکماہی نہیں تھا بلکہ خودغرض بھی تھا۔ اس کے نکمے پن اور خودغرضی کا نتیجہ کیانکلا، یہ بھی آپ کو کہانی پڑھ کر ہی پتہ چلے گا۔ آفسٹ پیپر پر چہار رنگوں سے شائع ہونے والی باتصویر کتابوں میں سے ہرایک کی قیمت 150روپے ہے۔ القاپبلیکیشنز۔12-k مین بلیوارڈ گلبرگ 2لاہورسے ملے گی۔