عرب ممالک میں پچھلے چار سال سے کشت وخون کی ایک ایسی لہر چل پڑی ہے جو تھمنے کا نام توکیا لیتی مسلسل ایک اژدھے کی طرح انسانوں کو نگلے جا رہی ہے۔مصر، لیبیا، تیونس، شام اور عراق کے بعد اب یمن اس کشت وخون کا تازہ ہدف ہے، جہاں ایک جانب سلطانی جمہور کے لیے بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں ، ملین مارچ اور دھرنے ہورہے ہیں وہیں تباہ کن بم دھماکوں نے ملک کی چولیں ہلا دی ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ وسط اگست میں پاکستان اور یمن میں قریباً ایک ساتھ حکومت کے خلاف ملین مارچ اور دھرنوں کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں عوامی تحریک کے انقلاب اور تحریک انصاف کے آزادی مارچ کی طرح یمن کے اہل تشیع مسلک کے زیدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے حوثیوں نے بھی انہی مطالبات کے ساتھ حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جن کی بازگشت پاکستان میں دھرنا پارٹیوں کی جانب سے سنائی دے رہی تھی۔ جنوبی یمن کے حوثی قبیلے کے نوجوان سربراہ عبدالملک الحوثی نے حکومت مخالف ملین مار چ کا آغاز کرتے ہوئے دو اہم مطالبات پیش کیے اور صنعاء کی جانب مارچ سے قبل اپنے مرکز ضلع عمران میں اپنے حامیوں کے ایک جلوس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی ، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ان کی تحریک کے دو اہم مطالبات ہیں۔
یمنی حکومت نے اول تو حوثیوں کے مطالبات کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ جب ملک کے طول وعر ض سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے دارالحکومت کی اہم تنصیبات، داخلی راستوں بالخصوص وزارت داخلہ کے ہیڈ کواٹر کا محاصرہ کیا تو صدر عبد ربہ منصور الھادی کو اندازہ ہوا کہ حالات واقعی ان کی توقع سے زیادہ خراب ہیں۔ انہوں نے کسی حد تک دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور حوثیوں کے دونوں مطالبات تسلیم کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات پرختم کی گئی 50 فی صد سبسڈی بحال کرنے اور نئی کابینہ تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ یمن اور پاکستان میںجاری حکومت مخالف دھرنوں کو عرب میڈیا میں تقابل کے طورپر پیش کیا گیا۔
پاکستان میں عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے بھی وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ اٹھا رکھا تھا۔ وقت کے ساتھ جس طرح پاکستانی دھرنا جماعتوں کے مطالبات کی فہرست میں تبدیلی آتی گئی، کچھ ایسے ہی یمن میں حوثیوں نے بھی حکومت کو کمزور پڑتے دیکھا تو اپنے مطالبات کی فہرست میں اضافہ کردیا۔ عبدالملک الحوثی نے صنعاء میں اپنے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارا مطالبہ صرف حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ جنوبی یمن کی خود مختاری بھی ہمارے مطالبات کا حصہ ہے۔ صدر عبد ربہ اور ملک کے دیگر سیاسی دھڑوں نے حوثیوں کا یہ مطالبہ غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، تو حوثی جو پچھلے 25 سال سے ’’حزب الانصار‘‘ نامی ایک مسلح گروپ کی شکل میں منظم ہوچکے تھے سرکاری عمارتوں ، پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ پر پل پڑے۔
جواب میں سیکیورٹی فورسز کو دفاعی اقدام کرنا پڑا جس کے نتیجے میں تیس کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوگئے۔ حوثیوں نے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا عندیہ دیا اور اقوام متحدہ کے ایک متنازعہ کردار کے حامل جمال بن عمرو نامی مندوب کے ذریعے حکومت اور حوثی شد ت پسندوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوگیا۔بات چیت کئی بار آگے بڑھتی اور بوجوہ ڈیڈ لاک کا شکار ہوتی رہی۔ آخر کار حوثیوں اور صدر منصور ھادی کے درمیان مفاہمتی معاہدہ طے پا گیا۔حکومت نے اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کرنے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سبسڈی بحال کرنے اور کابینہ تحلیل کرکے ایک قومی حکومت تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔ فریقین میں معاہدہ ہونے کے دو روز بعد صنعاء میں حوثیوں کے ایک دھرنے میں دو سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے جن میں 70 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ القاعدہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن حالات ایک دفعہ پھر کشیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تا دم تحریر فریقین مفاہمتی معاہدے پر تو قائم ہیں البتہ حوثیوں نے صدر عبد ربہ کے مقرر کردہ وزیراعظم محمد بن مبارک کو مسترد کردیا ہے۔ یوں قومی حکومت کی مساعی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ خود بن مبارک نے بھی یہ عہدہ قبول کرنے سے معذرت کی ہے۔ڈیڈ لاک کا سلسلہ برقرار رہا تو قومی حکومت کی تشکیل میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔
اب یہ طے ہے کہ یمن میں وزیراعظم جو بھی ہوگا وہ یا تو حوثی قبیلے سے ہوگا یا کم از کم ایسی شخصیت ہوگی جو حوثیوں ہی کی ترجمانی کرے گی۔ قومی حکومت کی تشکیل تو کوئی ایسا پیچیدہ مرحلہ نہیں ۔ حوثیوں کی کسی من پسند شخصیت کو وزیراعظم منتخب کرکے بحران کو ٹالا جاسکتا ہے لیکن مبصرین جس بڑے خطرے کی نشاندہی کررہے ہیں وہ ملک کے ایک بار پھر تباہ کن خانہ جنگی کے اشارے ہیں۔یمنی حکومت کئی سال سے الزام عائد کررہی ہے کہ حوثیوں کو بیرونی مدد حاصل ہے اور وہ ایران اور بعض دوسرے ممالک کہ شہ پر یمن کے وفاق کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اس وقت یمن جنوبی اور شمالی دو اکائیوں پر مشتمل ہے۔ جنوبی یمن میں اکثریت اہل تشیع مسلک 30فی صد باشندوں اور شدت پسند سلفیوں پر مشتمل ہے۔
سلفیوں کی ہمدردیاں القاعدہ کے ساتھ ہیں لیکن حوثی ایران کا دم بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے ایران براہ راست یمن میں افراتفری پھیلانے میں ملوث نہ ہو لیکن تہران سرکار کی جانب سے ایسے متنازعہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں جنوبی یمن کے علاحدگی پسندوں کی کھلم کھلا حمایت کی گئی ہے۔ یمنی حکومت کا کہنا ہے کہ صدرکے منتخب کردہ وزیراعظم بن مبارک کو حوثیوں نے نہیں بلکہ ایران نے مسترد کیا ہے۔ ایران اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے حوثیوں کے کندھے پر بندوق رکھ کرانہیں استعمال کررہا ہے۔
یمن میں کشیدگی کا آغاز نیا نہیں ہے۔ سنہ90 ء کے آغاز میں بھی ملک ایک بدترین خانہ جنگی سے گذر چکا ہے جس کے بعد ملک کی دونوں اکائیوں کو یکجا کیا گیا ۔ ملک میں جاری بد نظمی اور سیاسی افراتفری میں حوثیوں کی تحریک کے علاوہ خود صنعاء حکومت کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ سابق صدر علی عبداللہ صالح 33 سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ انہوں نے نہ صرف فوج بلکہ اپنی سیاسی جماعت نیشنل کانگریس میں بھی اپنے ہی قبیلے کے لوگوں کو عہدے دیے۔ تین عشرے تک یمن میں عملا صرف ایک قبیلے کی حکومت قائم رہی جس نے باقی ماندہ قبائل اور عوام میں گہری مایوسی پیدا کی۔
علی عبداللہ صالح نے طاقت کے ذریعے مخالفین کو دبانے کی پالیسی اپنائی۔ اخوان المسلمون کی الاصلاح اور حوثی اس کا خاص نشانہ بنے۔ اخوان نے تو ملک میں انارکی پھیلانے کی کوئی کوشش نہیں کی لیکن بیرونی مدد پر ناچنے والے حوثیوں نے پندرہ برسوں میں یمنی حکومت کے خلاف چھ بار اور سعودی عرب کے ساتھ ایک مرتبہ باقاعدہ جنگ لڑی۔
عرب ذرائع ابلاغ اور یمن کی صورت حال پر گہری بصیرت رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملکوں کی سازش کے تحت یمن کے حوثیوں اور اخوان المسلمون کو دست وگریباں کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔زیدی قبیلے کے اہل تشیع جو اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کے ساتھ ایک امام کی امامت میں نماز ادا کرنے کے بھی قائل ہیں کواب ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔
پچھلے ایک ماہ کے دوران حوثی مسلح جنگجوؤں نے صنعا میں اخوان المسلمون کے ان اہم رہ نماؤں کے گھروں اور دفاتر پرحملے کیے جو کسی نہ کسی شکل میں یمنی حکومت کا حصہ ہیں۔ مصرمیں اخوان المسلمون کو زیرعتاب لانے اور لیبیا میں متوقع کامیابی کی راہ روکنے کے بعد اب شہنشاہیت پرست عرب حکمران یمن میں بھی اخوان المسلمون کو حوثیوں کے بے لگام گھوڑے کے کھروں تلے روندنے کا مکروہ منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کا کردار
یمن میں کشیدگی کے براہ راست اثرات پڑوسی ملک سعودی عرب پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ خلیجی ممالک میں شامل ہونے کے باوجود یمن کو خلیج تعاون کونسل میں شامل نہیں کیا گیا مگر سعودی عرب نے واضح کیا ہے کہ اگر یمن کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اس کی حفاظت کے لیے ہرممکن اقدام کے لیے تیار ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی میںبھی سعودی عرب او ر ایران جیسے دو بڑے ممالک سیاسی محاذ پر مد مقابل ہیں۔
عرب مبصرین کے خیال میں سعودی عرب خطے کے تمام ممالک کو اپنے وفاداروں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ عرب ملکوں میں جہاں کہیں بھی سعودی حکومت کے مخالف لوگ برسراقتدار آئے تو ریاض نے انہیں برداشت نہیں کیا۔ اس کی ایک بڑی مثال مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا ایک سالہ قیام بھی ہوسکتی ہے۔ اخوان حکومت کے ریاض کے ساتھ ایسے خوش گوار تعلقات نہیں تھے جتنے کے صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد وہاں کی فوجی سرکار کے ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شام میں بھی سعودی عرب اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ دوسری جانب ایران اپنے دائرہ اثر بڑھانے کے لیے یمن تک اپنے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کی باہمی نظریاتی چپقلش یمن میں شام او ر عراق جیسے حالات پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ عرب ممالک اس وقت دولت اسلامی’’داعش‘‘ جیسے شدت پسندوں سے نمٹنے میں بھی مصروف ہے۔ ایسے حالات میں یمن میں استحکام ایران اور سعودی عرب دونوں کے مفاد میں ہے۔
خدا نخواستہ یمن میں حالات خراب ہوئے تو سعودی عرب اور ایران دونوں اس کی لپیٹ میں آئیں گے اور سلسلہ آگے چل نکلا تو دونوں بڑوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔یمن میں ایران نواز حوثیوں کے سیاسی غلبے کے خطے کے دوسرے عرب ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، یقینا ان خطرات کے بارے میں خلیجی ممالک غافل نہیں ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے نزدیک اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف اخوان المسلمون ہے جو ان کے اقتدار کا بستر گول کرسکتی ہے۔
القاعدہ کا گڑھ
یمن کی سرحدیں چونکہ عراق اور سعودی عرب دونوںسے ملتی ہیں۔ سعودی عرب میںسیکیورٹی اداروں کی منظم حکمت عملی اور ریاض حکومت کی گڈ گورننس کہ اس نے القاعدہ کو اپنی سرزمین پرپاؤں مضبوط کرنے کا موقع نہیں دیا۔ انفرادی طورپر سعودی شہریوں کی قابل ذکر تعداد القاعدہ اور اس کے نظریاتی حامی دوسرے گروپوں میں شامل ہوتی رہی ہے مگر وہ اپنے ملک میں کوئی غیرقانونی سرگرمی نہیں کرسکے ہیں۔
اسی طرح عراق کی سرزمین پر بھی القاعدہ نے خود کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ جب تک امریکی فوج عراق میں موجود رہی تب تک القاعدہ مقامی قبائل کے دلوں میں اپنی زیادہ ہمدردیاں پیدا نہیں کرسکی۔ صدام حسین حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی عراق کی فوج بھی ختم ہوگئی اور نئی سرکار کا سب سے بڑا سہارا امریکی اور دوسری غیرملکی فوج تھی۔ امریکی فوج کی بیساکھیوں پر چلنے والی عراقی حکومت نے جو سیکیورٹی ادارے تشکیل دیئے انہیں ایک پیشہ ور فوج میں تبدیل کرنے میں کئی سال کا عرصہ لگے گا۔ عراق میں منظم فوج نہ ہونے کے نتیجے میں القاعدہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
چنانچہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے نکلنے والے القاعدہ جنگجو یا عراق میں جمع ہوئے یا انہوں نے یمن اور سعودی عرب کے درمیان سنگلا پہاڑی علاقوں کو اپنا مرکز بنایا۔پاکستان اور افغانستان کی طرح امریکی فوج نے یمن میں بھی القاعدہ کے ٹھکانوں پر ڈرون طیاروں کے ذریعے حملوں کی پالیسی اپنائی۔ لیکن پالیسی کسی ایک ملک میں بھی کوئی موثر نتائج حاصل نہیں کرسکی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں طالبان کی خاطر خواہ تعداد کے مارے جانے کے دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں لیکن القاعدہ کے انور العولقی کے سوا کسی دوسرے اہم ذمہ دار کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔یمن حکومت کی بد انتظامی، سیکیورٹی اداروں کی کمزوری، قبائلی جھگڑے اور فرقہ وارانہ کشیدگی وہ اہم محرکات تھے جنہوں نے القاعدہ کے لیے یمن کو ایک محفوظ جنت بنا دیا۔ اس وقت عراق اور شام میں سرگرم دولت اسلامی داعش اور القاعدہ کی النصرہ فرنٹ میں لڑنے والے تمام جنگجوؤں کے ڈانڈے یمن میں القاعدہ کی تربیت گاہوں سے ملتے ہیں۔