یہ یکم جنوری 2004ء کی بات ہے، دوران حج ہزارہا حاجی منیٰ سے کنکر جمع کرکے رمی جمار کرنے چھبیس فٹ بلند دیواروں کی سمت بڑھے۔ پل کے راستے میں بہت ہجوم تھا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب جانے اور آنے والے ہزاروں حاجی اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔
راستے میں ایک جگہ کچھ حاجیوں کا سامان رکھا تھا۔ جب پیچھے سے دباؤ آیا، تو کچھ حاجی سامان سے الجھ کر نیچے گرگئے۔ اس حادثے کے بعد راستے میں افراتفری پھیل گئی اور ہر کوئی اپنا راستہ بنانے لگا۔ اسی کشمکش میں کئی لوگ خصوصاً ضعیف افراد پیروں تلے آکر کچلے گئے۔اس بھگدڑ کے باعث 346 حاجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ افسوس ناک واقعہ دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً سعودی حکومت پر واضح کرگیا کہ دورانِ حج خانہ کعبہ کے اطراف میں لوگوں کا ہجوم بہت بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا راستے کھلے کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ حاجی آرام و سہولت سے حج کا مقدس دینی فریضہ ادا کرسکیں۔
آج سے ساٹھ ستر سال پہلے ذرائع آمدورفت محدود تھے۔ خاص طور پر مسلمانوں کو پیدل یا اونٹوں پر سوار ہوکر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانا پڑتا تاکہ وہ مقدس ترین مقامات کی زیارت کرسکیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ بہت بڑی تبدیلی آئی کہ ہوائی جہاز اور بحری جہاز بڑی تعداد میں چلنے لگے۔ کاروں اور بسوں کے ذریعے ایک سے دوسرے شہر جانا آسان ہوگیا۔ شعبہ آمدورفت میں اسی انقلاب کے باعث ممکن ہوا کہ دنیا بھر سے مسلمان سعودی عرب پہنچ کر حج یا عمرہ ادا کرسکیں۔
1950ء سے قبل ہر سال دوران حج ایک لاکھ حاجی جمع ہوتے تھے۔ آج یہ تعداد ’’تیس لاکھ‘‘ تک پہنچ چکی۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ 2030ء تک ہر سال ’’پچاس لاکھ حاجی‘‘ حج کرنے آیا کریں گے۔ تب تک دنیا بھر میں ’’سوا دو ارب‘‘مسلمان آباد ہوں گے۔ اس وقت ان کی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے۔
دوسری طرف مکہ مکرمہ کی آبادی بھی تیزی سے بڑھی۔ چناں چہ رفتہ رفتہ انسانوں کے زبردست اکٹھ کی وجہ سے خصوصاً ایسے مسائل جنم لینے لگے جن کا تعلق رہائش کی جگہ، صحت و صفائی، آمدورفت اور پینے کے صاف پانی سے تھا۔ لاکھوں لوگوں کو نظم و ضبط سے سنبھالنا بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔یہی مسائل مدنظر رکھ کر سعودی عرب کے حکمران پچھلے چالیس برس میں مسجد الحرام کو توسیع دے چکے تاکہ حاجیوں اور زائرین کی بڑی تعداد اس میں سماسکے۔ یاد رہے، ہر سال دنیا بھرسے ڈیڑھ کروڑ مسلمان حج یا عمرہ کرنے سعودیہ آتے ہیں۔
مسجد الحرام خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق نے خانہ کعبہ کے گرد تعمیر کرائی تھی۔ تب سے مسجد کے رقبے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جب رمی جمار میں افسوس ناک سانحے پیش آئے، تو 2007ء میں مسجد الحرام کو وسیع کرنے کے نئے منصوبے پہ کام ہونے لگا۔ یہ مسجد الحرام کی تاریخ میں سب بڑا توسیعی منصوبہ ہے۔ مکہ مکرمہ کی تعمیر و ترقی (ڈویلپمنٹ) بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
دراصل دنیا بھر سے مسلمان چند گھنٹے قیام کرنے کی خاطر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ نہیں آتے، وہ کئی دن بلکہ ہفتوں قیام کرتے ہیں۔ چناں چہ انہیں رہائش، غذا، صفائی اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات درکار ہوتی ہیں۔ انہیں یہ سہولیات مہیا کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ میں ہوٹلوں، مہمان خانوں اور ریستورانوں کا جال بچھ چکا ہے۔12 جنوری 2006ء کو جب رمی جمار میں دوبارہ بھگدڑ مچنے سے ’’346‘‘ مسلمان شہید ہوگئے، تو سعودی فرماں روا، شاہ عبداللہ نے اپنے مشیروں کو طلب کرلیا۔ اس اجلاس میں ہی مسجد الحرام کی توسیع کا فیصلہ ہوا اور یہ بھی کہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ میں بس و ریل سے آمدورفت کا نیا نظام ڈیزائن کیا جائے۔اب سعودی حکومت ایسی ممتاز کمپنیوں کو تلاش کرنے لگی جو نئے منصوبے پر عملدرآمد کرسکیں۔ ’’30 سال‘‘ پر محیط اس منصوبے پر اندازاً ’’230‘‘ ارب ڈالر‘‘ (دو سو تیس کھرب روپے) خرچ ہونے ہیں۔ گویا یہ اپنی وسعت اور مالیت کے اعتبار سے انسانی تاریخ کے چند عظیم ترین توسیعی منصوبوں میں شامل ہو چکا۔
تلاش بسیار کے بعد آخر انہیں کینیڈا کے شہر، ٹورنٹو میں مطلوبہ معیار کی کمپنیاں مل گئیں۔ ہوا یہ کہ 1996ء میں سعودی حکومت سے منسلک انجینئر، حسنی الرحمن ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کینیڈین دارالحکومت، اٹاوہ گئے۔ کانفرنس میں شریک کینیڈین انجینئر ہیوگ او ڈونیل ان کے اچھے دوست بن گئے۔ دونوں نے پھر بذریعہ خط یا ٹیلی فون ایک دوسرے سے رابطہ رکھا۔
2008ء تک حسنی الرحمن سعودی حکومت کے شعبہ منصوبہ بندی میں سیکرٹری بن گئے جبکہ ہیوگ کینیڈا کی مشہور انجینئرنگ کمپنی، ایم ایم گروپ (MMM Group Limited) میں شعبہ انٹرنیشنل آپریشنز کا سربراہ بن چکا تھا۔یہ 25 نومبر 2008ء کی بات ہے، ہیوگ کو حسنی عبدالرحمن کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ اس میں مسجد الحرام، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے توسیعی منصوبے کی تفصیل درج تھی۔ حسنی چاہتے تھے کہ ہیوگ کی کمپنی اس عظیم الشان منصوبے کا ’’روڈ میپ‘‘ تیار کرے یعنی ماہرین کی مدد سے بتائے کہ اسے کیونکر انجام دیا جائے۔
دراصل ہیوگ ایک خاص ٹیکنالوجی، جی آئی ایس (Geographic Information Systems)کا ماہر ہے۔ اس کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک معین علاقے کا پورا جغرافیائی نقشہ تیار کرنا ممکن ہے۔ مطلب یہ کہ علاقے میں سڑکیں کہاں بنیں گی، سیوریج کے زیر زمین پائپ کہاں بچھیں گے، کون کون سی عمارتیں کہاں تعمیر ہوں گی۔ غرض جی آئی ایس کی مدد سے ماہرین تعمیرات کمپیوٹر کی سکرین پر مستقبل کا شہر آباد کر لیتے ہیں۔
حسنی عبدالرحمن اس ٹیکنالوجی کی افادیت سے خوب واقف تھے کیونکہ سعودیہ میں تیل کے کنوؤں والے علاقوں میں جی آئی ایس کی مدد ہی سے ڈویلپمنٹ انجام پائی تھی۔ اب عبدالرحمن جاننا چاہتے تھے کہ مکہ مکرمہ میں فلاں تیس منزلہ عمارت گرانے سے آمدورفت اور فضائی و ستھرائی کے نظام میں کس قسم کی بہتری آئے گی۔ جی آئی ایس ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ اندازہ لگانا ممکن ہے۔
اس وقت تک ایم ایم گروپ نے مقامی سطح پر ہی پروجیکٹ تیار کیے تھے۔ مثلاً وینکوور شہر میں گولڈن ایرز نامی پل بنایا۔ اب وہ ٹورنٹو کے ہوائی اڈے پر نیا ٹرمنل تعمیر کررہے تھے۔ ظاہر ہے، سعودی حکومت کا عظیم الشان منصوبہ کینیڈین کمپنی کو ملتا، تو اس کے وار ے نیارے ہوجاتے۔ تاہم ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ کرنے کے لیے ایم ایم گروپ کو صرف دو دن ملے۔
ہیوگ سعودی پروجیکٹ کی تفصیل لیے اپنے باس، بروس بوڈن کے پاس پہنچ گیا۔ تب وہ گروپ کا چیئرمین تھا۔ وہ بتاتا ہے ’’شروع میں مجھے اس منصوبے سے دلچسپی محسوس نہ ہوئی۔ پھر سعودی حکومت سے ہمارے تعلقات بھی نہ تھے۔ مجھے شک تھا کہ پسندیدہ تعمیراتی کمپنی کا انتخاب پہلے ہی ہوچکا۔ بہرحال ہم نے ایک شرط پر بولی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘
ایم ایم گروپ چاہتا تھا کہ اس پروجیکٹ میں ایک کینیڈین تعمیراتی کمپنی، موری یاما اینڈ تشیما(Moriyama and Teshima) کو بھی شامل کیا جائے۔ حسن عبدالرحمن اور سعودی شعبہ منصوبہ بندی کے دیگر افسر ایم ایم گروپ کی اعلیٰ مہارت اور فرض شناسی کے مداح تھے۔ لہٰذا انہوں نے گروپ کی شرط منظور کرلی۔
ویسے بھی موری یاما اینڈ تشیما کمپنی سعودیوں کے لیے اجنبی نہ تھی۔ اسی نے 1996ء میں سعودی قومی عجائب گھر ڈیزائن کرکے تعمیر کیا تھا۔ پھر 2004ء میں ریاض میں واقع وادی حنیفہ کی حالت بحال کرکے محیر العقول کارنامہ انجام دیا۔ وادی حنیفہ دراصل 120 کلو میٹر طویل دریائی راستہ ہے۔ جب افتادِ زمانہ سے دریا خشک ہوگیا، تو سعودی دارالحکومت کا گندا پانی وہاں پھینکا جانے لگا۔ اس پانی نے وادی کو گندگی اور بدبو سے بھر دیا۔
2004ء میں سعودی حکومت نے وادی حنیفہ کی حالت سدھارنے کا فیصلہ کیا۔ چناچہ موری یاما اینڈ تشیما سے رابطہ کیا گیا۔ کمپنی کے ماہرین نے پانی میں جگہ جگہ الجی اگائی اور کوڑا کرکٹ کھانے والے جراثیم چھوڑ دیئے۔ ان کی مدد سے پانی صاف کرلیا گیا۔ اب وادی حنفیہ ایک تفریحی و زرعی مقام بن چکا ہے۔ وہاں ریاض کا گندا پانی صاف کرکے باغات اور جھیلوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔
جنوری 2009ء میں دونوں کینیڈین کمپنیوں نے سعودی پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کی بولی جیت لی۔ یہ 15 ملین ڈالر کا پروجیکٹ تھا۔ ایم ایم گروپ کے ماہرین کی ذمے داری یہ بتانا تھا : مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائشیوں اور عارضی مہمانوں کو آنے والے برسوں میں کتنی جگہ بہ غرض رہائش، پانی اور بجلی درکار ہوگی۔ جب یہ طے ہوجاتا تو پھر موری یاما اینڈ کو نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں کی ڈیزائننگ کرنا تھی۔
لیکن پہلے دین اسلام، اسلامی تعلیمات اور تہذیب و ثقافت سے آگاہی دلانے کی خاطر دونوں کینیڈین کمپنیوں کے غیر مسلم اعلیٰ و ادنیٰ ملازمین کو مشہور انگریزی فلم ’’سفر مکہ‘‘ (Journey toMecca) دکھائی گئی۔ مزید براں ٹورنٹو یونیورسٹی کے مسلمان استاد، پروفیسر نعمان اشرف کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ وہ ملازمین کو اسلام کی خصوصیات سے آگاہ کرسکیں۔بروس بوڈن کہتا ہے:
’’میں نے سبھی ملازمین کو بتایا ،آپ سب کے لیے اس عظیم الشان منصوبے سے منسلک ہونا اعزاز کی بات ہے۔ ایسا موقع زندگی میں صرف ایک بار آتا ہے۔‘‘
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کینیڈین ماہرین ان جگہوں کا وژن یا تصّوراتی ڈھانچہ کیونکر تیار کرتے جو انہوں نے دیکھی ہی نہیں تھیں؟ اور نہ ان کو دیکھنے کی اجازت تھی۔ حتیٰ کہ مجوزہ جگہوں پر جو (اسلامی) عبادات کی جانی تھیں، کینیڈین ان کے بارے میں بھی کم ہی جانتے تھے۔
ایم ایم گروپ نے ’’حرمین الشریفین پروجیکٹ‘‘ کا سربراہ مشہور انجینئر، سٹیفن ولز کو بنایا۔ وہ درج بالا مسئلے کی بابت کہتا ہے ’’چونکہ حرمین الشریفین پروجیکٹ سے ملتے جلتے منصوبے پہلے کبھی انجام نہیں پائے، اسی لیے ہم اس کا کسی سے موازنہ نہیں کرسکے۔ دنیا میں اولمپکس ہوتے ہیں اور فٹ بال ورلڈ کپ بھی۔ اسی طرح جب اوباما صدر منتخب ہوئے، تو واشنگٹن مال میں دس لاکھ لوگ جمع تھے۔ مگر یہ سب عارضی و چھوٹے مجمعے ہیں۔ حج نہ صرف ہر سال منعقد ہوتا ہے بلکہ اس موقع پر تیس لاکھ انسان ایک جگہ سمٹ آتے ہیں… ایسا عظیم الشان انسانی مظہر کہیں اور جنم نہیں لیتا۔‘‘
لاکھوں حاجیوں و زائرین آنے کی وجہ سے ہی سعودیہ کے بجلی، پانی اور سیوریج نظاموں پر بے پناہ دباؤ پڑ جاتا ہے۔ کہیں گٹر ابل پڑے، تو پھر اس سڑک پر معطل آمدورفت مسائل کو مزید گھمبیر بنا ڈالتی ہے۔ ایک بار سڑکوں پر اتنا ہجوم تھا کہ پولیس زچگی کا شکار ایک عورت کو تین گھنٹے بعد ہسپتال پہنچا پائی جو کچھ ہی دور تھا۔سعودی حکومت نے ہجوم پر قابو پانے کا یہ طریقہ نکالا کہ وہ حاجیوں کو پرمٹ جاری کرنے لگی۔ مثال کے طور پر پچھلے سال مکہ مکرمہ میں تعمیرات جاری تھیں، سو صرف 20 لاکھ حاجیوں کو مکہ و مدینہ آنے کی اجازت دی گئی۔
مکہ اور مدینہ میں خاص ہوائی اڈے بنائے گئے جو صرف دوران حج استعمال ہوتے ہیں۔ بہ موقع حج وہاں پچیس ہزار ہیلتھ ورکر روزانہ آنے والے ایک لاکھ حاجیوں کو مختلف بیماریوں کے طبی امتحانوں سے گزارتے ہیں۔ جن اسلامی ممالک میں غربت کے باعث امراض پھیلے ہوئے ہوں، وہاں سے آنے والے حاجیوں کو نرسیں مختلف بیماریوں کے قطرے پلاتی ہیں۔
حرمین الشریفین پروجیکٹ کی بے پناہ اہمیت کے پیش نظر دونوں کینیڈین کمپنیوں کے پچاس اعلیٰ افسر جدہ اور ریاض آئے۔ انہوں نے سعودی سرکاری افسروں کے علاوہ علماء، ادبا، اساتذہ اور معاشرے کے دیگر معززین سے ملاقاتیں کیں۔ ان کا مدعا سعودی اسلامی تہذیب و ثقافت کی خصوصیات جاننا تھا۔
اسی دوران کمپنیوں کے درجن بھر مسلمان نمائندوں نے مکہ و مدینہ کا دورہ کیا۔ وہ بھی ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے سعودی باشندوں سے ملے۔ بوڑھے سعودیوں نے بچپن کی یادیں تازہ کیں جب دونوں شہروں میں آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ تب وہ شہر کے باہر واقع تالابوں میں نہایا کرتے تھے۔ ان کی آپ بیتیاں سن کر ہی کینیڈین ماہرین نے فیصلہ کیا کہ حرمین الشریفین کے نزدیک قدرتی مظاہر و خوبصورتی محفوظ رکھنے والے خصوصی علاقے بھی بنائے جائیں۔
موری یاما اینڈ تشیما کے چیف ماہر تعمیرات (آرکیٹیکٹ)، جین فلپی نے جدہ کے علاقے، البلاد میں ایک ہفتہ گزارا۔ دراصل اس قدیم علاقے کی گلیاں اور عمارتیں پرانے مکہ مکرمہ سے ملتی جلتی ہیں۔ یعنی پتھر سے بنی گلیاں، ساتھ ملے ہوئے گھر، گلیوں میں چیزیں بیچتے پھیری والے اور تھڑوں پر بیٹھے محو گفتگو لوگ !البلاد میں ایک ہفتہ گزارنے سے جین فلپی کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ مکہ اور مدینہ میں رہائشی سہولیات کیونکر بہتر بنائی جائیں۔ مثلاً طے پایا کہ گلیوں کا رخ شمال سے جنوب کی طرف ہو، تاکہ چلتے حاجیوں و زائرین پر عمارتوں کا سایہ آجائے اور دوپہر کی گرمی انہیں پریشان نہ کرے۔ مگر سڑکیں چوڑی نہیں رکھی گئیں ورنہ سایہ کام نہ دیتا۔ اسی طرح عمارتیں بھی زیادہ بلند نہیں ہونی چاہئیں ورنہ گلیوں میں ہوا کی آمدورفت رک جاتی۔
سعودی باشندوں کے لیے شہری منصوبہ بندی بہرحال ایک نئی چیزتھی۔ 1932ء میں جب سعودی مملکت کی بنیاد پڑی، تو لاہور کی مانند دارالحکومت ریاض بھی چاروں طرف قلعہ نما دیوار رکھتا تھا۔ شہر میں سبھی سڑکیں مٹی یا پتھر سے بنی تھیں اور گاڑیوں کا نام و نشان نہ تھا۔ (اس وقت کینیڈا میں دس لاکھ رجسٹرڈ گاڑیاں چل رہی تھیں)۔ چنانچہ ساحل سمندر سے ریاض بذریعہ اونٹ آنے پر تین دن لگ جاتے۔
1938ء میں تیل دریافت ہوا، تو اس سیاہ دولت نے حکمرانوں کو امیر بنا دیا، تاہم ملک کی حالت میں انقلاب نہ آسکا۔ حتیٰ کہ 1950ء میں بھی 85 فیصد سعودی دیہات میں آباد تھے…آج 80 فیصد سعودی باشندے شہروں میں بستے ہیں۔مکہ مکرمہ کا رہائشی ماہر تعمیرات، طارق علی بتاتا ہے :’’1950ء کے بعد غیر ممالک سے پروازیں سعودیہ آنے لگیں۔ مگر عام طور پر وہ گھنٹوں لیٹ ہوتیں۔ اس زمانے میں مکہ کے بیشتر گھروں میں بجلی تھی نہ پانی کا نلکا۔‘‘
لیکن اب خصوصاً مکہ و مدینہ کے آسمان پرجابجا کرنیں استادہ نظر آتی ہیں۔ سعودی حکومت مملکت میں ’’چھ نئے شہر‘‘ تعمیر کروارہی ہے جن پر کل ’’پانچ سو ارب ڈالر‘‘ (پانچ سو کھرب روپے) لاگت آئے گی۔ یہ شہر 2020ء تک مکمل ہوجائیں گے۔ وہاں ’’پچاس لاکھ‘‘ لوگ رہ سکیں گے جبکہ مزید دس لاکھ نئی ملازمتیں جنم لیں گی۔درج بالا شہروں میں ’’شاہ عبداللہ اکنامک سٹی‘‘ (مدینہ الملک عبداللہ اقتصادیہ) بھی شامل ہے۔ مکہ مکرمہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع اس زیر تعمیر سحر انگیز شہر کی جھلکیاں سائنس فکشن فلم ’’مائینیرٹی رپورٹ‘‘ (Minority Report) میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
اُدھر جدہ میں اکثر سڑکوں پر کارکن فولاد، اسٹیل اور پتھروں کے انباروں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جابجا جاری تعمیراتی کاموں کی وجہ سے جدہ کا ٹریفک خاصا متاثر ہوا۔ چناں چہ ہر بڑے شہر کی طرح جدہ کی سڑکوں پر بھی صبح اور شام، جب لوگوں کی اکثریت باہر نکلتی ہے،گاڑیوں کا زبردست ہجوم رہتا ہے۔
ترقیاتی منصوبے شروع ہونے کے علاوہ سعودی شہری معاشرہ بھی انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ جدہ اور ریاض میں ایسے کئی گروسری اسٹور اور مال کھل چکے جہاں خواتین ملازم ہیں۔ صرف تین سال قبل مرد ہی ان اسٹوروں میں کام کرسکتے تھے۔
جب کینیڈین کمپنیاں سعودی منصوبے سے منسلک ہوئیں تو کچھ عرصے بعد انہیں پتا چلا، اندرون و بیرون ممالک یہ پروجیکٹ تنقید کا نشانہ بھی بن چکا۔ ناقدوں کا کہنا ہے کہ توسیعی منصوبوں کی وجہ سے خصوصاً مکہ مکرمہ میں کئی تاریخی عمارات منہدم ہوچکیں۔ ان میں ایسی عمارتیں بھی شامل ہیں جنہیں بہت سے مسلمان مقدس و متبرک سمجھتے ہیں۔
تاہم سعودی حکومت نے کینیڈین ماہرین کو تلقین کی کہ وہ تنقید پر توجہ دیئے بغیر اپنا کام کرتے رہیں۔ سعودیوں نے انہیں بتایا کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے علاوہ کسی اور عمارت سے عقیدت رکھنا ان کی نظر میں شرک ہے۔بہرحال کینیڈین کمپنیاں شروع میں مخمصے کا شکار رہیں۔ ولز بتاتا ہے:
’’ہم نے اپنے مسلمان دوستوں سے سنا کہ توسیعی پروجیکٹ کی خاطر حضرت محمد ﷺکی پہلی زوجہ محترمہ، ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا مکان ڈھایا جاچکا اور وہ مکان (دارالارقم) بھی جہاں نبی ﷺلوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔چناں چہ ہمیں یہی محسوس ہوا کہ ہم کو کہا جارہاہے، روم پہنچ کر سینٹ پیٹر (کیتھریڈل) کا فلاں حصہ منہدم کردو۔ مگر ہمیں سعودی حکومت کے احکامات پر عمل کرنا پڑا۔‘‘
کینیڈین ماہرین نے گوگل ارتھ کی مدد سے مکہ مکرمہ کا دورہ کیا اور شہری جغرافیہ سمجھنے کی کوششیں کیں۔ دراصل سعودی حکومت نے پروجیکٹ سے متعلق جو معلومات کینیڈین کمپنیوں کو فراہم کیں، ان کا 90 فیصد حصہ عربی زبان میں تھا۔ چناں چہ منصوبے سے وابستہ مختلف معلومات حاصل کرنے کی خاطر کینیڈینوں کو خاصی تگ و دو کرنا پڑی۔
سعودی حکومت چاہتی تھی کہ جو کینیڈین ماہرین پروجیکٹ سے براہ راست منسلک ہیں، وہ اہل خانہ سمیت جدہ آجائیں۔ یوں وہ مکہ مکرمہ میں جاری سرگرمیوں کو بہ احسن سپروائز کرسکتے تھے۔ مگر اس تجویز کو کینیڈینوں نے مسترد کردیا۔ دراصل انہیں خطرہ تھا کہ سعودی عرب پہنچ کر ان کی آزادیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
یہ تو ظاہر ہے کہ مغربی باشندے سعودی عرب پہنچ کر اپنی مادر پدر آزاد طرز زندگی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مثلاً سعودیہ میں شاہراہ عام پر خاتون کی تصویر اتارنا منع ہے۔ مذہبی پولیس (مطوعین) کا کوئی افسر یا کارکن دیکھ لے، تو وہ فوراً یہ کارروائی روک دیتا ہے۔ اسی طرح مملکت میں اخبارات و رسائل کی سنسر شپ بہت سخت ہے۔ اسی باعث بہت سے مغربی باشندے سعودیہ آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
وسط 2009ء میں کینیڈین کمپنیوں کو شاہی سیاست کے پیچ وخم کا مزہ بھی چکھنا پڑا۔ ہوا یہ کہ شاہ عبداللہ نے اپنے چھوٹے بیٹے، شہزادہ نائف کو ولی عہد مقرر کردیا۔ اس پر بڑے بیٹے، شہزادہ متصب ناراض ہوکر بیرون ملک چلے گئے۔ تب وہی توسیعی پروجیکٹ کو دیکھ رہے تھے۔ شہزادہ متصب کی عدم موجودگی میں ان کے فرزند، شہزادہ منصور کو وزارت دیہی و شہری امور سونپ دی گئی۔
مگر شہزادہ منصور عمر میں گورنر مکہ، شہزادہ خالد سے چھوٹے تھے جنھوں نے پروجیکٹ کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ یہ تبدیلی کینیڈین کمپنیوں کو آفت میں گرفتار کراگئی۔ کیونکہ کینیڈین ماہرین اگلے ایک سال تک نئے سعودی منتظمین کو سمجھاتے بتاتے رہے کہ انہوں نے پچھلے چودہ ماہ میں پروجیکٹ سے متعلق کیا کام کیے اور کیوں! اس دوران کمپنیوں کو بطور تنخواہ ایک دھیلا نہیں ملا۔
بہرحال نئی سعودی انتظامیہ کینیڈین کمپنیوں کے کام سے مطمئن ہوگئی۔ چناں چہ کمپنیوں کے ماہرین نے پھیلاؤ پروجیکٹ کے سلسلے میں 41 بھاری بھرکم رپورٹیں تیار کیں جنہیں اب عربی میں منتقل کیا جارہا ہے۔ انہی رپورٹوں کی بنیاد پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں وسیع پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے۔ گویا آنے والے عشروں میں حرمین الشریفین کی کایا پلٹ جائے گی اور ماضی کی نسبت ان کا نقشہ بالکل بدل جائے گا۔
کینیڈین رپورٹوں کی بنیاد پہ 2011ء سے مسجد الحرام کا توسیعی منصوبہ شروع ہوا۔اس کے ذریعے مطاف(خانہ کعبہ کے صحن )کا رقبہ ساڑھے تین لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے سات لاکھ مربع میٹر ہو جائے گا۔پورا منصوبہ 2020ء میں ختم ہو گا۔تکمیل پہ بیس لاکھ فرزندانِ توحید میں حج کر سکیں گے۔ 2012ء سے مسجد نبویﷺ کی توسیع بھی شروع ہو چکی۔اس کی تکمیل کے بعد سولہ لاکھ عاشقان ِرسولﷺ مسجد مبارک میں سما سکیں گے۔
تصویر کا دوسرا رخ
مکہ مکرمہ توسیعی پروجیکٹ کچھ تنقید کا بھی نشانہ بنا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ اس کے باعث پچھلے تیس برس میں بہت سی اہم عمارات منہدم کی جاچکیں۔ مثال کے طور پر دارالارقم جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہؓ سے ملاقات کرتے تھے۔ وہاں اب ایک پنج ستارہ ہوٹل بن چکا۔ اسی طرح ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا مکان ڈھا دیا گیا۔ وہاں اب عوامی بیت الخلا قائم ہیں۔
دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ سے منسلک آثار کو مقدس و متبرک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے جب بھی سعودی حکمران کسی بھی وجہ سے انہیں نابود کردیں، تو بہت سے مسلمانوں کو دکھ ہوتا ہے۔
قدیم عمارات کے انہدام سے متعلق سعودی علمائے کرام کا کہنا ہے:’’ اول یہ عمارتیں بہت کمزور ہوچکی تھیں، لہٰذا وہ کسی بھی وقت ڈھے کر قیمتی انسانی زندگیاں ضائع کرنے کا سبب بن جاتیں۔ دوم اکثر جگہوں کو مسلمانوں نے عبادت گاہ کی حیثیت دے ڈالی تھی جو شرک ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر انہیں منہدم کرنے کے بعد ہی مسجد الحرام کا پھیلاؤ ممکن تھا جو تمام عمارات پہ مقدم حیثیت رکھتی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر راستے میں آنے والی ہر عمارت کو گرانا پڑا۔‘‘
تاہم کئی غیر سعودی علماء درج بالا دلائل سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد الحرام کو ایسی سمتوں کی طرف وسعت دینی چاہیے تھی جہاں قدیم عمارتیں واقع نہ ہوتیں۔ اب تو یہ عمارات ڈھا کر اسلامی تاریخ اور ہماری تہذیب و ثقافت کا خزانہ برباد کردیا گیا۔
ڈاکٹر عرفان علوی لندن کی تنظیم، اسلامک ہیریٹیج ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔ اس تنظیم نے مقامات مقدسہ کو تحفظ دینے کی مہم چلا رکھی ہے۔ ڈاکٹر عرفان کا دعویٰ ہے کہ سعودیہ میں مذہبی پولیس (مطوعین) بہت طاقتور ہوچکی اور وہی عمارتیں و مقامات منہدم کررہی ہے کیونکہ انہیں مراکزِ شرک سمجھا جاتا ہے۔ اسی نظریے کے باعث مطوعین پچھلے 80 برس میں سیکڑوں مقامات ِمقدسہ ڈھا چکی۔
بعض غیر سعودی علماء و دانشور مکہ مکرمہ کی کمرشلائزیشن سے بھی دل گرفتہ و ناراض ہیں۔ مثال کے طور پر آج خانہ کعبہ سے چند میٹر دور ہی بلند و بالا ہوٹل، شاپنگ سینٹر اور مال واقع ہیں۔ اور یہ ساری کمرشلائزیشن امرا کی خاطر ہوئی۔ مثلاً خانہ کعبہ کے قریب واقع ہوٹلوں میں ایک کمرے کا کرایہ فی رات 500 ڈالر سے 6500 ڈالر ہے۔ یہ چکا چوند اور شان و شوکت تعلیمات اسلامی اور فلسفہِ حج کے برعکس ہے جو تقویٰ، سادگی، بھائی چارے، اخوت، متانت اور دیگر اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج کرتا ہے۔
ایک سو سال قبل کے مسلمان اگر آج مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ آنکلیں، تو حرمین الشریفین کا نیا رنگ و روپ دیکھ کر دنگ رہ جائیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بدلتے وقت و زمانے میں ہر شے کو ہو بہو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ ممکن ہے کہ پانچ چھ سو برس بعد خانہ کعبہ کے سامنے نصب کلاک ٹاور بھی لوگوں کا پسندیدہ بن جائے جسے کئی مسلمان غلط نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
کینیڈین ماہرین کی تجاویز
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو وسعت دینے، خوبصورت بنانے اور اور زائرین و شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کی خاطر ایم ایم ایم گروپ اور موری یاما اینڈ تشیما نے ڈھائی برس میں ’’41‘‘ ضخیم رپورٹیں تیار کیں۔ ان میں سے اہم نکات درج ذیل ہیں:
خانہ کعبہ:حاجی خانہ کعبہ میں سات بار طواف کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ طواف ختم کرنے کے بعد وہ باہر جانے لگیں، تو ان کا آنے والوں سے تصادم ہوجاتا ہے اور کسی جگہ ہجوم جمع ہوجائے، تو وہاں بوڑھے ایک طرف، طاقتور جوان بھی منٹوں میں پیروں تلے آ کر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کینیڈین ماہرین تعمیرات نے تجویز دی کہ ایک زیر زمین رستہ(Ramp) بنایا جائے جو خانہ کعبہ کے قریب آکر کھلے۔ حاجی وہاں سے برآمد ہوکر طواف کریں اور ہر چکر پر کعبہ سے دور ہوتے جائیں یہاں تک کہ مقامِ سعی پر جانکلیں۔ اس راستے کی بدولت خانہ کعبہ میں 52 کے بجائے 60 ہزار حاجی بیک وقت حج ادا کرسکیں گے۔
ماحول:سعودی عرب میں پانی نایاب ہے۔ بارش بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے حکومت نے بحیرہ احمر میں سمندری پانی صاف کرنے والے پلانٹ لگا رکھے ہیں جہاں پینے کا پانی تیار ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پلانٹ میں جمع شدہ نمک واپس سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ یوں سمندر مزید نمکین ہورہا ہے۔ماہرین تعمیرات نے تجویز کیا کہ مضافاتِ مکہ میں جدہ کے راستے پر زیر زمین مصنوعی جھیل بنائی جائے۔ جھیل میں جمع بارش کے پانی کو قابل استعمال بنایا جائے گا۔ جبکہ جھیل کے اوپر گرین بیلٹ یا درختوں کی قطار بنے گی۔ یوں حاجی مکہ آمد پر فرحت و انبساط محسوس کریں گے۔
نقل و حمل (ٹرانسپورٹیشن):مکہ میں صرف دو رنگ روڈ واقع ہیں اور ان میں سے بھی ایک نامکمل ہے۔ کینیڈین ماہرین کا مشورہ ہے کہ نامکمل رنگ روڈ کو زیر زمین تعمیر ہوتی شاہراہ سے ملا دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ مکہ مکرمہ میں تین جبکہ مدینہ منورہ میں دو نئی رنگ روڈ تعمیر کی جائیں ۔زمین سے اوپر ایک ریل سسٹم بھی بنانے کی تجویز ہے۔ یہ ریلوے نظام خانہ کعبہ سے شروع ہوکر پورے مکہ میں پھیل جائے گا۔ اسی کے 50 اسٹیشن ہوں گے۔مسجد الحرام کے اردگرد واقع کئی عمارتیں 40 منزلہ یا زیادہ بلند ہیں۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ انھیں 9 منزلہ کر دیا جائے۔اس کے بدلے ڈویلپر اسٹیشنوں کے گرد بلند عمارات تعمیر کرلیں۔کینیڈینوں کی ایک تجویز یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اردگرد جتنے بھی ہوٹل و دفاتر ہیں، دوران حج ان کی نچلی منزلوں کو عوامی مقامات بنا دیا جائے۔
تعمیر مکانات: ’’عرب بہار‘‘ سے قبل سعودی حکومت کو شہریوں کے لیے مکانات کی تعمیر سے دلچسپی نہیں تھی مگر جب بے گھر سعودیوں نے مظاہرے کیے، تو حکومت کو ہوش آیا۔ سعودی حکومت کی فرمائش پر کینیڈین ماہرین نے تجویز دی کہ مضافات مکہ میں سوا لاکھ کم قیمت مکان تعمیر کیے جائیں۔ ان میں سے 25 ہزار غیر ملکی کارکنوں کے لیے مخصوص ہوں گے۔