وادیٔ کشمیر جسے اہل ہند’’جنت نظیر‘‘ کہتے اور اس کے دلفریب قدرتی نظاروں سے حظ اٹھانے دور دراز سے سیاح ا س کا رخ کرتے رہے ہیں، بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں خون کی ہولی سے گزرنے کے بعد آج سیلاب جیسی قیامت خیز قدرتی آفت کا سامنا کر رہی ہے۔
مقبوضہ وادی میں سیلاب کوئی پہلی مرتبہ نہیں آیا بلکہ یہ اس خطے کی ایک پہچان بن چکا ہے، لیکن ہر مشکل کا سامنا کرنے والی جری کشمیری قوم ہر آفت ارضی و سماوی کے بعد باردگر زندگی کی رونقیں بحال کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ البتہ ستمبرکے اوائل میں آنے والے سیلاب نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اچانک ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تو تباہی مچائی تھی مگر رہی سہی کسر بھارت کی مرکزی اور ریاست کی کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنی مبینہ غفلت اور لاپرواہی سے پوری کردی ہے۔
کشمیرمیڈیا واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور آزاد کشمیر میں بارش تین دن رہی لیکن مقبوضہ وادی میں اس کا دورانیہ کم سے کم ایک ہفتے پر محیط ہے، جس سے تباہی اور بربادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی بارش نے مقبوضہ وادی کی فصلوں اور پھلوں کے لہلاتے باغات پر حقیقی معنوں میں پانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔ وادی کے سب سے زیادہ پیداواری شہروں بالخصوص سری نگر، اسلام آباد( اننت ناگ)، بارہ مولا، کپواڑہ، سوپور پونچھ، جموں اور پہل گام میں وہ تباہی مچائی جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔
مجموعی طور سیلاب کے نتیجے میں تین لاکھ کشمیری باشندے براہ راست اور آٹھ لاکھ افراد بالواسطہ طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ بھارت کے مختلف شہروں سے کاروبارکی غرض سے وادی کا رخ کرنے والے سیکڑوں غیرمقامی افراد بھی کچھ اپنی جانوں سے گئے اورہزاروں اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے ہیں۔
دھان کی فصل، زعفران،اخروٹ، سیب، بادام اور مکئی کے بڑے علاقوں پر محیط کھیت پانی میں بہہ گئے۔ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانا ت کا فی الوقت اندازہ لگانا مشکل ہے مگر اب تک نقصانات کے جو تخمینے لگائے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ شہروں میں 90 فی صد فصلات اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوگئے ہیں۔ وادی کشمیر کا سیب، اخروٹ اور زعفران دنیا میں مشہور ہیں لیکن مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ سیلاب نے نہ صرف ان کے پھلوں کے باغات اجاڑ دیے بلکہ زمین کو بھی کھنڈر بنا دیا ہے۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اور باغات اب ریت اور ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں جنہیں دوبارہ آباد کرنے اور قابل کاشت بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر کا سرمایہ درکا ر ہے۔
بھارتی میڈیا اور ماہرین کے مطابق ریاست جمو ں و کشمیر میں اڑھائی لاکھ عمارتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ا ن میں 20 ہزار مکانات اور دیگر عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں کھڑی عمارتوں کے محض ڈھانچے ہی بچے ہیں جو عملًا ناکارہ ہو چکی ہیں۔ چونکہ اب بھی بہت سے نشیبی علاقوں میں پانی موجود ہے اور وقفے وقفے سے ہونے والی بارشوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ایسے میں مکانات کی تباہی کا صحیح تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔
ریاستی حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ مقامی حکومت نے وادی کے اہم مقامات پر 224 ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ چار ارب 30 کروڑ روپے کی رقم بھی سیلاب متاثرین کے یے مختص کی گئی ہے۔ حکومت کا دعوٰی ہے کہ ایک ہفتے کے دوران وادی میں سیلاب میں پھنسے افراد میں 1900 ٹن راشن تقسیم کیا گیا اور سری نگر شہر میں 14 ہزار گیس سلنڈر تقسیم کیے گئے ہیں۔ سیلابی پانی کی نکاسی کے لیے 200 پمپ فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
ریاستی اور مرکزی حکومت کی توجہ منظور نظر افراد تک محدود
جمو ں و کشمیر ہائی کورٹ میں دو مقامی وکلاء کی طرف سے سیلاب متاثرین کی مدد میں دانستہ کوتاہی برتنے کے الزام میں ایک رٹ بھی دائر کی گئی ہے۔ امدادی کاموں سے متعلق حکومت کے مذکورہ بالا دعوے دراصل اسی رٹ کے جواب میں عدالت میں پیش کیے گئے ہیں۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ مگر عملًا سیلاب متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں کم سے کم پانچ سو افراد بپھرے طوفانی سیلاب کی موجوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ لٹے پٹے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کمر سیدھی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حسب روایت بھارتی مرکزی اور کٹھ پتلی حکومتوں نے ملک کے طول وعرض میں فلاحی خدمات انجام دینے والے مقامی اور غیر ملکی اداروں کو بھی کھلے عام متاثرین کی مدد سے روک دیا ہے۔ حکومت خود بھی کچھ کرنے سے معذور رہی لیکن یہ سب سے بڑا ظلم ہے کہ این جی اوز کو بھی مدد کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ چند روز قبل نئی دہلی میں موجود کشمیری طلباء کے ایک گروپ نے اپنے طور پر ریلیف سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ دہلی کے مسلمانوں اوردیگر کمیونٹیز نے طلبہ کو نقد امداد کے ساتھ خوراک ، کپڑے اور خیمے بھی فراہم کیے۔
وہ کئی ٹرک سامان جمع کرکے بیٹھ گئے مگر بھارتی حکومت نے انہیں سامان وادی میں منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے سے انکار کردیا، جس کے نتیجے میں خوراک کا بہت سا سامان بارش کی وجہ سے ضائع ہوگیا ہے۔ مقامی باشندوں کو سب سے زیادہ شکایت عمرعبداللہ کی کٹھ پتلی حکومت سے ہے جو متاثرین کی مدد کے بلند بانگ دعووں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سیلاب متاثرین کے پہلے اوردوسرے مرحلے میں حکومتی امدادی ٹیموں کی تمام تر توجہ سیاحوں کو بچانے، حکومت کے منظور نظر افراد اور وی آئی پیز کو بچانے پر مرکوز رہی۔ اننت ناگ (اسلام آباد) سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے ہمراہ تین دن تک ایک درخت پر رہے۔
ان کے سامنے بھارتی فوج کے ہیلی کاپٹر آتے اور اہم حکومتی شخصیات کو ان میں سوار کرکے محفوظ مقامات پر منتقل کرتے رہے۔ اس نے کئی بار سرخ کپڑا لہرا کر ان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر سب بے سود۔ آخر بارش تھمی اور وہ خود ہی اتر کر اونچائی پر موجود ایک پہاڑی علاقے میں اپنے دیگر عزیزوں تک پہنچے۔ یوں بھارتی حکومت اور فوج کی تمام توجہ صرف مخصوص افراد تک محدود رہی جب انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تو اس کے بعد بھارتی فوج ہر طرف بندوقیں لہراتی اور شہریوں پر اپنی رعونت اور خوف طاری کرتی دکھائی دیتی ہے کیو نکہ ریاستی حکمراں نئی دہلی کی طویل یاترا پر ہیں انہیں پرتعیش تقریبات سے فرصت ملے گی تو وہ متاثرین کے پاس آسکیں گے، مقامی آبادی کا یہ سب سے بڑا سوال ہے۔
بھارتی حکومت کی لاپرواہی اور کھلی غفلت کے بعد ریاست کے سیلاب زدگان سخت غم وغصے میں ہیں۔ حال ہی میں مرکزی حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے بھیجا گیا اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف سامان شہریوں نے اٹھا کر دریا برد کردیا۔ اس طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ متاثرہ شہریوں میں اب تک ایک ایک لاکھ روپے کی امداد فی خاندان تقسیم کی جا چکی ہے۔ تلاش کے باوجود کہیں سے اس کی تصدیق اور گواہی نہیں مل سکی ۔ عین ممکن ہے یہ امداد بھی انہی لوگوں کو دی گئی ہوگی جنہیں سیلاب سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج نے ایمرجنسی ہیلی کاپٹرسروس دن رات چلا رکھی تھی۔
مہاجرین اپنے پیارں کے غم میں نڈھال
خونی لکیر نے خطہ جنت نظیر کو دو حصوں میں پہلے ہی تقسیم کر رکھا ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں ہزاروں خاندان محض چند فرلانگ کے فاصلے پر موجود اپنے پیاروں سے ملنے سے محروم ہیں۔ بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں کشمیری ھجرت کرکے آزاد خطے میںآباد ہوئے۔ حالیہ قدرتی آفت میں ان کے دکھوں پر مرہم رکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کو اپنے دیگر کھیل تماشوں سے اتنی فرصت کہاں کہ وہ ان مظلوموں کی حالت زار بھی بیان کرے۔
جن کے آدھے خاندان آزاد اور آدھے مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ مظفرآباد میں مقیم ایک کشمیری پناہ گزین نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیلاب کے بعد اس کی سوپور میں موجود والدہ اور ایک بھائی سے بات ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب کے باعث ان کی 95 فی صد فصلات، باغات اور مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ وہ مسلسل چار روز تک ایک ویران علاقے میں بھوکے پیاسے رہے اور بھوک سے بچے نڈھال تھے۔ ان چار دنوں میں ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا۔ یہ دکھڑا کسی ایک کشمیری خاندان کا نہیں بلکہ خونی لکیر میں بٹے ہزاروں کنبے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے یہی سوال کرتے ہیں کہ یہ خونی لکیر آخر کب مٹے گی۔
ایک معمر خاتون جس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا وادی میں اور ایک بیٹا آزاد کشمیر میں ہے نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت سے ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں لیکن تقسیم کشمیر کی سرخ لکیر کو مٹانے میں پاکستانی حکومتوں نے بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ اس نے بتایا کہ جب سے وہ لوگ ہجرت کرکے آزاد خطے میں داخل ہوئے تو بھارتی فوج نے کارروائی کرکے ان کی تمام جائیداد اور اراضی پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے بچوں کو وہاں سے نکال دیا گیا اور ان کے کئی ایکڑ زرعی کھیتوں کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا گیا ہے۔ معمر کشمیری خاتون کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلا ب میں اس کے آٹھ قریبی عزیز پانی میں ڈوب کرجاں بحق ہوئے۔ ان میں سے صرف تین کی لاشیں مل سکیں باقی پانچ کا کوئی نام و نشان تک نہیں ۔
حریت کانفرنس سے وابستہ توقعات
مقبوضہ وادی میں سیلاب زدگان کی مدد کے حوالے سے بھارتی اور کشمیری سرکار کی لاپرواہی نے عوام کی توجہ حریت قیادت کی جانب مبذول کردی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے جہاں ریاستی مشینری مکمل طورپر ٖغیر فعال دکھائی دی وہیں حریت کانفرنس اتنی ہی سرگرم رہی ہے۔
حریت رہ نما جو خود بھی براہ ر است سیلاب سے متاثرتھے اپنی مشکلات بھول کر کشمیر کے دورافتادہ علاقوں تک پہنچے اور متاثرین کی ہرممکن مدد میں ان کا ساتھ دیا ہے۔ گوکہ بھارتی میڈیا اپنے روایتی بخل سے کام لیتے ہوئے حریت قیادت کی مساعی کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کر رہا ہے۔ ماضی میں کسی بھی قدرتی آفت بالخصوص سنہ 2005 ء کے زلزلے کے دوران بھی بھارتی حکومت ہاتھ پے ہاتھ رکھے بیٹھی رہی اور متاثرین تک پہنچنے میں پہل حریت قیادت نے کی تھی ۔ بعد ازاں خود بھارتی حکومت نے بھی حریت کانفرنس کی کوششوں کو تسلیم کیا تھا۔
حریت قیادت ان دنوں ایک دوسرے حوالے سے بھی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو حق رائے دہی کے استعمال کا موقع دیا گیا۔ اسکاٹ لینڈ میں حق خود ارادیت کے حوالے سے ہونے والی رائے شماری نے بھارتی حکومت کو چوکنا کردیا ہے۔ چونکہ کشمیر کے معاملے پر برطانیہ ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے اور سنہ 1947ء کی تقسیم برصغیر کے تحت ریاست جمو ں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنا برطانوی حکومت کی اخلاقی اور آئینی ذمہ داری تھی جو کہ ادا نہیں کی گئی اور کشمیر کے مسلمان اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔
اسکاٹ لینڈ میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد کشمیر کی حریت قیادت میں ایک نئی جان پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ساتھ ہی بھارتی کٹھ پتلی رہ نماؤں اور سیاست دانوں کے ارادوں پر اوس پڑ چکی ہے۔ سیلاب متاثرین کی بروقت خبر گیری اور اسکاٹ لینڈ میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد کشمیر ی عوام کا حریت کانفرنس کی قیادت پر اعتماد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ گوکہ کشمیری اس وقت ایک سانحے سے گزر رہے ہیں مگرجہاں کہیں سماجی رابطوں کا سلسلہ بحال ہوا ہے سوشل میڈیا پر یہ بحث پورے زور و شور سے جاری ہے کہ برطانیہ اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کرا سکتا ہے تو اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا اور برطانیہ مل کر کشمیری عوام کو یہ حق کیوں نہیں دے سکتے ہیں۔