اسامہ بن لادن کی قائم کردہ عسکری و جہاد ی تنظیم ’القاعدہ‘ اور اس سے وابستہ جہادی اپنی شدت پسندی اور طاقت آزمائی کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی طویل جنگ کا سامنا کرنے والی یہ تنظیم اب جہاں اہم قائدین سے محروم ہو چکی ہے وہیں یہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہے۔ تنظیم کے موجودہ مصری نژاد سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری بچے کچھے ساتھیوں سے مل کر تنظیم کو از سر نو منظم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کی یہ مساعی کس حد تک کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوں گی، اس پر کوئی رائے زنی قبل از وقت ہے ۔
تاہم اس سے یہ ضرورثابت ہوگیا ہے کہ القاعدہ اپنی طاقت وسطوت کافی حد تک کھو چکی ہے۔ القاعدہ کے فکرو فلسفے سے متاثر ہونے والے دنیا کے مخصوص علاقوں میں اپنے مخصوص ناموں کے ساتھ سرگرم ہیں اور وہ دانستہ طور پر القاعدہ کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔ مثلا عراق اور شام میں ڈرامائی انداز میں فتوحات کے جھنڈے گاڑھنے والی تنظیم’’دولت اسلامی عراق وشام‘‘داعش اور القاعدہ نے گزشتہ فروری میں اپنے راستے جدا کر لیے تھے۔
صومالیہ کی الشباب، نائیجیریا میں بوکو حرام اور دوسرے خطوں میں عسکری کارروائیوں میں مصروف عمل گروپ اپنا تعارف الگ سے کراتے ہیں ۔ گوکہ یہ تمام تنظیمیں القاعدہ ہی کے بطن سے پھوٹی ہیں ۔ جزوی اور فروعی یا تنظیمی نوعیت کے اختلافات کے بعد یہ گروپ الگ ہوتے چلے گئے۔ البتہ شام میں سرگرم النصرہ فرنٹ، پاکستان اور افغانستان کی تحریک طالبان ، احرار الہنداور یمن کی القاعدہ تنظیم میں مکمل ہم آہنگی اب بھی موجود ہے۔
طویل جنگ کے نتیجے میں القاعدہ کے بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی شکست و ریخت تنظیم کے ’’بڑوں‘‘ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ القاعدہ اپنی ساکھ اور وجود کی بقاء کے لیے ایک بار پھر منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کوشش کے تحت القاعدہ سے منحرف ہونے والے گروپوں سے دوبارہ رابطوں کا بھی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی فورم پریہ تمام گروپ ایک بار پھر القاعدہ کے ساتھ وابستگی اختیار کرلیں، تاہم عسکری تنظیموں کے امور کے ماہرین اس امکان کو بھی رد نہیں کرتے کہ خود القاعدہ کسی دوسرے ابھرتے عسکری گروپ سے الحاق کرتے ہوئے اس میں شامل ہو جائے۔
اس باب میں ـ’’داعش‘‘ کا نام لیا جاتا ہے، کیونکہ یہ گروپ اس وقت عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پرعملاً نہ صرف قابض ہے بلکہ اس نے خود ساختہ اسلامی ریاست بھی قائم کر رکھی ہے۔ چونکہ تمام تنظیمیں اپنی قیادت پرکوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس لیے القاعدہ ایمن الظواہری اور دولت اسلامی سید ابو بکرالبغدادی القرشی ہی میں سے کسی ایک کو پیچھے ہٹانے کو قبول نہیں کریں گی۔
شائد یہی وجہ ہے کہ ایمن الظواہری نے القاعدہ کے تنظیمی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے خطہ بھارت کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماضی میں بھی جہادی اور عسکری تنظیمیں برصغیر بالخصوص بھارت کو نہایت اہمیت کی حامل سمجھتی رہی ہیں، اس ضمن میں ’’غزوہ ہند‘‘ کا خاص طورپر حوالہ دیا جاتا ہے۔ غزوہ ہند سے متعلق ایک حدیث ہی ان لوگوں کو بھارت کی طرف موڑنے کی بنیادی وجہ سمجھی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ بھارت میں تیس کروڑ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں جو القاعدہ کے لیے مضبوط نفری مہیا کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان نئے تو نہیں آج تک القاعدہ کو ہندوستان کے مسلمانوں کی جانب سے کوئی پذیرائی کیوں نہ ملی۔ سارا زور افغانستان اور عرب ممالک تک ہی کیوں محدود رہا ہے؟۔ اس کی بنیادی وجہ صاف ظاہر ہے کہ بھارتی مسلمان کسی جہادی گروپ کی طرف اس طرح میلان اور رجحان نہیں رکھتے جیسا کہ عرب اور دوسرے مسلمان ملکوں میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج تک القاعدہ کی دال نہیں گل سکی ہے۔
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے بھارت کے خلاء کو پر کرنے کے لیے مولانا عاصم عمر نامی ایک پاکستانی کمانڈر کو برصغیر پاک و ہند کی القاعدہ برانچ کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ ہندوستان میں خصوصی طورپر القاعدہ کی شاخ کے قیام کے بعد عالمی ابلاغی حلقوں کو بھی ایک اچھا موضوع سخن ہاتھ آیا ہے ۔ جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق القاعدہ کی بھارتی شاخ کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
عرب ذرائع ابلاغ نے بھی اس حوالے سے حصہ بقدر جثہ اپنا حصہ ڈالا ہے۔ عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ کی القاعدہ کے حوالے سے کوئی بھی رپورٹ کافی حد تک اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے، کیونکہ القاعدہ کی اکثریت عرب ممالک ہی کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے عرب دانشور القاعدہ کو دنیا کے کسی دوسرے خطے کے ماہرین سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
اس حوالے سے قطری ٹی وی الجزیرہ کی ایک طویل رپورٹ میں القاعدہ کی بھارتی شاخ اور اس کے سربراہ مولوی عاصم عمرکے حوالے سے اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ عسکری ماہرین اور انٹیلی جنس اداروں کی رہ نمائی کی روشنی میں تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کی بھارتی شاخ کے سربراہ عاصم عمر جنگجو کمانڈر سے زیادہ ایک مبلغ، مناظر، محقق اور ایک معتبر فکری رہ نما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
عمر کے حوالے سے چالیس کے پیٹے میں ہیں۔ انہوں نے مشہور عالم دین مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کے کراچی میں موجود مدرسے دارالعلوم کراچی سے سند فراغت حاصل کی۔ مولوی عاصم عمر کی القاعدہ اور طالبان کے ساتھ تعلق داری بھی ان کے کراچی میں طالب علمی کے دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اس وقت امریکا نے افغانستان اور عراق پر جنگ کا آغاز کیا تھا اور پاکستان میں ان جنگوں کے حوالے سے مذہبی حلقوں خصوصاً دینی مدارس کے طلباء میں سخت اشتعال پایا جا رہا تھا۔ عاصم عمر بھی ان جذبات سے مغلوب تھے اور انہوں نے آخر کار اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر غائبانہ بیعت کر لی تھی۔
بعد ازاں عاصم عمر اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے جامعہ حقانیہ میں بھی زیرتعلیم رہے، جہاں مولوی عاصم کو مولانا سمیع الحق کی براہ راست شاگردی کا بھی شرف حاصل رہا۔ دونوں مدارس سے فراغت کے بعد وہ طالبان کی صفوں میں شامل ہو گئے لیکن ان کا شمار کسی جنگجو کے بجائے ایک مبلغ اور جہادی مناظر کے طورپر ہوتا رہا۔
رپورٹ کے مطابق جب ایمن الظواہری کی جانب سے عاصم عمر کی بھارتی شاخ کے بہ طور سربراہ تقرری کا اعلان ہوا تو القاعدہ کے بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے یہ اعلان کافی حیرت کا باعث تھا کیونکہ القاعدہ کی کسی بھی علاقائی شاخ کی قیادت کے لیے کسی عالم دین کی نہیں بلکہ ماہر جنگجو کمانڈر کی ضرورت ہے۔ ماضی میں بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا۔ علم و فن کے دیوانے عسکری میدان میںکارآمد نہیں سمجھے گئے، لہٰذا انہیں زیادہ سے زیادہ مناظرہ باز ی کے مقاصد ہی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
مولوی عاصم کا تعلق بھی انہی لوگوں سے ہے جو میدان کارزار کے نہیں بلکہ تقریر و خطابت کے میدان میںمتحرک رہے ہیں۔ بلا کے مقرر ہیں اور لکھنے لکھانے سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔ وہ عسکریت سے زیادہ تبلیغ کے قائل ہیں۔ موصوف چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
ان چاروں کتب میں انہوں نے جہاد، فلسفہ ء جہاداد اور کفار کے خلاف مسلمانوں کی جنگ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔’’لشکر مسیح الدجال‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں انہوں نے عراق، افغانستان، پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک میں سرگرم امریکی سکیورٹی ایجنسی ’’بلیک واٹر‘‘ کے مکروہ کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں ان واقعات کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے جن میں بلیک واٹرکے عناصر کے ہاتھوں عراق اور افغانستان میں معصوم شہریوں کا اجتماعی قتل عام کیا گیا تھا۔
مولوی عاصم عمر کا القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے ساتھ کوئی رابطہ یا ملاقات ثابت نہیں ہوتی ۔ تاہم مبصرین کے مطابق وہ ایمن الظواہری سے متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ الظواہری عاصم کی خطابت اور علمی وجاہت کے قائل ہیں اور وقتا فوقتاً ان سے مذہبی معاملات میں صلاح مشورے بھی لیتے رہتے ہیں۔
ان دنوں عاصم عمر کہاں ہیں، اس کی کوئی مصدقہ رپورٹ نہیں تاہم غالب امکان یہ ہے کہ وہ پاکستان سے متصل افغان صوبوں پکتیا ، پکتیکا یا کنٹر میں ہیں۔ عاصم عمر کی کوئٹہ میں موجودگی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عاصم عمر افغان تحریک طالبان کے سربراہ ملا عمر کے بھی مقرب خاص ہیں اور ان کا زیادہ وقت ملا عمر ہی کی قربت میں گزرتا ہے۔
آزادی کشمیر کیلئے القاعدہ کا اعلان جہاد؟
عرب میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں القاعدہ کی شاخ کے قیام کی ایک اہم وجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک بھی ہے۔ القاعدہ نے اس میدان کو خالی دیکھا اور اس خلاء کو پر کرنے کے لیے بھارت میں نئی تنظیم کی بناء ڈالی ہے۔
القاعدہ کی برصغیر پاک وہند تنظیم کے قیام کا مقصد ایک ایسے گروہ کو منظم کرنا ہے جو بھارتی تسلط میں موجود کشمیر میں عسکری کارروائیوں کا آغاز کرے، تاہم القاعدہ کی عسکری کارروائیوں کا مرکز صرف کشمیر تک محدود نہیں ہوگا بلکہ ہندوستان کے تمام شہر ، حساس مراکز اور تنصیبات اس کے نشانے پر ہوں گی۔ اسی جذبہ محرکہ کے تحت القاعدہ کشمیری نوجوانوں کو اپنی صفوں میںشامل کرے گی۔ چونکہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں سرگرم دوسرے عسکری گروپ القاعدہ کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ القاعدہ کشمیر کی تحریک میں شامل ہوکر ان دوسرے عسکری عناصر کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، یوں القاعدہ کو اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے کا ایک نیا موقع مل جائے گا۔
اگر القاعدہ کی بھارتی شاخ کے قیام کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو ایک نئے انداز میں اٹھانا ہے تو اس کے منفی اثرات بھی پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ بھارت میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کا نزلہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان پر گرایا جائے گا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے گا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب تک القاعدہ کی زیادہ توجہ عراق ، شام اور افغانستان تک محدود رہی ہے اس لیے بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں القاعدہ کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ مقامی مسلمان آبادی القاعدہ عناصر کا کسی صورت میں ساتھ نہیں دے گی۔ البتہ کشمیر کی تحریک آزادی میںشامل ہوکر القاعدہ اپنے بارے میں برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں نرم گوشہ ضرور پیدا کرے گی۔
القاعدہ اخوان کی راہ پر؟
عسکری تنظیموں کے امور اور ان کے طریقہ کار پر نظر رکھنے والے عرب ماہرین القاعدہ میں آنے والی تبدیلیوں کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھتے ہیں۔ ا ن کا خیال ہے کہ القاعدہ طویل جنگ وجدل کے بعد تاریخ کے ایک نئے موڑ میں داخل ہو رہی ہے اور القاعدہ اپنی شدت پسندانہ ساکھ اور تشخص کو ختم کرنے کے لیے مصر اور عرب ممالک کی اعتدال پسند مذہبی جماعت اخوان المسلمون کی راہ پر چل نکلی ہے۔گوکہ القاعدہ کے سربراہ اور کسی دوسرے رہ نما کی جانب سے ایسا کوئی بیان تو سامنے نہیں آیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے، تاہم مبصرین کہتے ہیں کہ آغاز کار میں اخوان المسلمون نے بھی طاقت کی زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔
جس پر تنظیم کو نہ صرف مخالفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بری طرح کچل دیا گیا۔ جس کے بعد اخوان کی قیادت نے اپنے منشور میں جہاد کا فلسفہ تو قائم رکھا مگر عملًا مقاصد کے حصول کے لیے طاقت آزمائی کا راستہ ترک کرتے ہوئے سیاسی جدو جہد کی راہ اپنائی ۔ اس کے نتیجے میں آج اخوان المسلمون مختلف ناموں کے اختلاف کے ساتھ ترکی، مصر، اردن، شام، یمن، عراق، فلسطین، لیبیا، تیونس، مراکش اور مالی سمیت کئی دوسرے عرب اور مسلمان ملکوں کی پارلیمان کا حصہ ہے۔
القاعدہ نے بھی اخوان المسلمون کا راستہ اپنایا اور پہلے مرحلے سے گزرنے کے بعد اب تبدیلی کے ایک نئے دور میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ دوسرا دور بھی کئی مراحل کے بعد طے ہوگا مگر القاعدہ کی بھارتی شاخ کے سربراہ کے لیے مولوی عاصم جیسے غیر عسکری رہ نما کی تقرری سے اس طویل سفر کا نقطہ آغاز ہو چکا ہے۔