یہ 26نومبر 1938ء کی بات ہے‘ ممتاز ہندو رہنما،گاندھی جی کے ہفتہ وار رسالے ’’ہریجن‘‘میں انہی کا تحریر کردہ ایک مضمون ’’یہود فلسطین میں‘‘(The Jews in Palestine) شائع ہوا۔ اس میں ہندوؤں کے مہاتما نے لکھا:
’’مجھ سے اکثر عرب۔یہودی مسئلے پر رائے پوچھی جاتی ہے۔ یہود بے شک اس وقت اپنا کوئی ملک نہیں رکھتے‘ مگر انہیں زور زبردستی سے فلسطین پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات انصاف کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی۔ اسی لیے فلسطین میں عربوں کو بے دخل کر کے وہاں یہودی ریاست قائم کرنے کا خیال مجھے نہیں بھاتا۔‘‘
درج بالا مضمون سے عیاں ہے کہ گاندھی جی فلسطین میں یہود کی سازشوں اور اس ظلم و ستم سے آشنا تھے جو فلسطینی عربوں پر ڈھایا گیا۔ عربوں کی حمایت کرنے پر خصوصاً صہیونی رہنماؤں اور امریکا نے خاصی ناک بھنوں چڑھائی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کی تشکیل کے صرف چھ ماہ بعد انتہا پسند ہندوؤں نے گاندھی جی کو قتل کر دیا۔ ممکن ہے کہ انہیںصہیونیوں کی سرپرست ‘ امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ آخر وزیراعظم پاکستان‘ لیاقت علی خان کے قتل میں بھی امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے ملوث پائی گئی ہے۔
یہود پہ گاندھی جی کی تنقید کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم، جواہر لال نہرو نے فلسطینیوں کی حمایت کو سرکاری پالیسی بنا لیا۔ پنڈت نہرو ویسے بھی سیکولر تھے ‘ وہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کے ساتھ چل نہیں سکے۔ اسی لیے بھارت نے 1948ء میں اقوام متحدہ میں قیام اسرائیل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
چنانچہ امریکی دباؤ کے باوجود نہرو حکومت بھارت میں اسرائیلی سفارت خانہ کھولنے سے انکار کرتی رہی۔ جب بھی اسرائیل فلسطینیوں پر حملے کرتا‘ تو بھارت میں خصوصاً مسلمان سرکاری حمایت سے اسرائیلی بہمیت کے خلاف زبردست جلوس نکالتے اور جلسے کرتے۔( بھارتی اپوزیشن جماعتیں کانگریس پہ الزام لگاتی ہیں کہ مسلم ووٹ حاصل کرنے کی خاطر بھی وہ اسرائیل کی مخالف رہی۔)
1974ء میں بھارت یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کو تسلیم کرنے والا پہلا غیر عرب ملک بن گیا۔ اسی زمانے میں اندرا گاندھی اور یاسر عرفات کی پُرجوش ملاقات والی تصویر بھارت میں بہت مقبول ہوئی۔ اس وقت بھارتی حکومت ظاہری طور پر ہی سہی،جنوبی افریقہ کی مانند اسرائیل کو بھی تنقید کا نشانہ بنائے رکھتی تھی۔
تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی
اسرائیل سے متعلق بھارتی ظاہری رویّہ 1991ء کے بعد تبدیل ہونا شروع ہوا جب سویت یونین کے خاتمے سے سرد جنگ بھی اختتام کو پہنچی۔ تب مختلف عوامل کے باعث اسرائیل کی مخالفت بھارتی حکومت کو بے معنی لگنے لگی۔
اول اشتراکیت و اشتمالیت پہ سرمایہ داری کی فتح سے بھارت کو احساس ہوا کہ اب ترقی و خوشحالی کی خاطر یورپ و امریکا سے دوستی ناگزیر ہے۔
دوم بھارتی حکومت کو محسوس ہوتا تھا کہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر پچھلے چالیس برس میں اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد تھے‘ لیکن پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی مخالفت کے باعث وہ اسلامی سربراہ کانفرنس (او آئی سی) کا رکن نہیں بن سکا۔
بھارتی حکمران طبقے کو عرب ممالک سے یہ بھی شکایت تھی کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرتے ہیں… نیز پاکستانی حکومت پہ یہ دباؤ نہیں ڈالتے کہ وہ (مقبوضہ) کشمیر میں ’’دُراندازی‘‘ بند کر دے۔
مزید برآں 1991ء میں فلسطینیوں اور اسرائیلی کے مابین میڈرڈ امن معاہدہ بھی بھارتی طرز فکر پر اثر انداز ہوا… بھارتی حکومت سوچنے لگی کہ دنیائے عرب اور پی ایل او اب اسرائیل سے مفاہمت چاہتے ہیں‘ سو اسے بھی اسرائیلی حکومت کے خلاف معاندانہ رویہ ترک کر دینا چاہے۔
درج بالا عوامل کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1992ء میں نرسیہما راؤ کی کانگریسی حکومت ہی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ اس کے بعد تو عسکری‘ سائنسی‘ معاشی اور زرعی شعبوں میں اسرائیلی۔ بھارتی روابط تیزی سے بڑھتے چلے گئے۔
1997ء میں اسرائیلی صدر‘ ایزر ویزمان نے بھارت کا دورہ کیا۔ تب بھارتی فوج کے شدید دباؤ پہ سیکولروزیراعظم‘ ڈیوی گاؤڈے نے اسرائیل سے میزائیل خریدنے کا معاہدہ کر لیا۔ تاہم اسرائیلی بھارتی قربت اگلے سال زور شور سے بڑھی جب بھارتی قوم پرست جماعت‘ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی)برسراقتدار آئی۔
ہندوسپرمیسی قبول کرو
بی جے پی بظاہر قوم پرست جماعت ہے‘ مگر اس کے بیشتر رہنما انتہا پسند ہندو تنظیم’’ آر ایس ایس‘‘ (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تنظیم کے بانی مثلاً دمودر ساورکر‘ ڈاکٹر مونجے‘ ڈاکٹر کیشوہیڈ گوار‘ ایم ایس گوالکر وغیرہ ان یہودی رہنماؤں کے خیالات و نظریات سے متاثر تھے جنہوںنے صہیونیت کی بنیاد رکھی۔ ان یہودی رہنماوں میں موسی ہیس (Moses hess) یہودا الکالی‘ لیون پنسکر‘ تھیوڈور ہرزل اور ولادمیر جابوتینسکی نمایاں ہیں۔
جس طرح صہیونیت کے بانیوں نے یہ وکالت کی کہ فلسطین صرف یہود کا ہے‘ چنانچہ عربوں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ اسی طرح آر ایس ایس کے رہنماؤں کی بھی خواہش چلی آ رہی ہے کہ مسلمان بھارت سے نکل جائیں یا ’’ہندوسپرمیسی‘‘ قبول کر لیں۔ یہی نظریاتی مطابقت اسرائیلی اور بی جے پی حکومتوں کو قریب لے آئی۔
کارگل جنگ(1999ء) میں بھارتی توپوں کو گولے فراہم کرنے سے اسرائیلیوں نے بھارتی عوام خصوصاً فوج کے دل جیت لیے۔ لہٰذا 2000ء میں بھارتی وزیر خارجہ ،جسونت سنگھ نے اسرائیل کا دورہ کیا۔یہ کسی ہائی پروفائل بھارتی لیڈر کا پہلا دورہ ِاسرائیل تھا۔ تین سال بعد 2003میں ہزار ہا فلسطینیوں کے قاتل‘ اسرائیلی وزیراعظم اریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا۔ اس طرح عالم اسلام میں واحد ایٹمی قوت، پاکستان کی مخالفت نے نظریاتی طور پہ قربت رکھنے والے دونوں ملکوں کو مزید قریب کر دیا۔
اسرائیل اور بھارت کے تعلقات نہایت کم مدت میں اتنے زیادہ مستحکم ہوئے کہ 2004ء میں برسراقتدار آنے والی کانگریسی حکومت بھی ارادتاً (یا مجبوراً) انہیں توانا کرتی رہی۔گو اس نے اندرا گاندھی والی پالیسی اپنائی …یعنی ظاہر میں اسرائیل پہ تنقید،مگر خفیہ طور پہ وہاں کے حکمران طبقے سے میل ملاپ رکھنا۔ چنانچہ 2001 میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت صرف ایک ارب ڈالر تھی‘ تو وہ 2012ء میں بڑھ کر ساڑھے چار ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ اب نئے بھارتی وزیراعظم،نریندر مودی باہمی تجارت کی مالیت ’’دس ارب ڈالر‘‘ تک لے جانا چاہتے ہیں۔
2014ء میں مودی حکومت برسراقتدار آئی تو اسرائیلی حکمران طبقہ خوشی سے کھل اٹھا۔ وجہ یہی کہ کانگریس کی بہ نسبت بی جے پی اسرائیلی حکومت کے زیادہ قریب ہے۔ اس قربت کا عیاں مظاہرہ حالیہ غزہ جنگ کے دوران ملا۔
کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں فلسطینیوں پہ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف پارلیمنٹ میں قرارداد لانا چاہتی تھیں، مگر بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر نے اجازت نہ دی۔ پچھلے 63 برس میں یہ پہلا موقع تھا کہ بھارتی حکمران طبقہ ظاہری طور پر بھی مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی نہ کرسکا۔
یہی نہیں، بی جے پی کی شہ پر ہندو قوم پرستوں نے کلکتہ میں اسرائیل کی حمایت میں جلوس نکالا۔ یوں مودی حکومت کے عمل سے ثابت ہوگیا کہ دنیا میں امریکا کے بعد بھارت ہی اسرائیل کا قریب ترین دوست ہے۔ مگر پاکستان کے لیے یہ قربت خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ دونوں ملک ارض پاک کے خلاف پوشیدہ سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔
دوستی کی پینگیں
سچ یہ ہے کہ اپنی 67 سالہ تاریخ میں فلسطینیوں سے اظہار دوستی و ہمدردی بھارتی حکومت کا محض ڈرامہ رہا۔ حقیقتاً چوری چھپے بھارت اور اسرائیل دوستی کی پینگیں جھولتے رہے ہیں اور اسرائیلی حکومت نے ہر بُرے وقت میں بھارت کا ساتھ دیا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ جب 1969ء میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی، را کی بنیاد رکھی گئی تو اندرا گاندھی نے اس کے چیف، رامشوار ناتھ کاؤ کو حکم دیا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد سے رابطہ کریں۔ بھارتی وزیراعظم کی خواہش تھی کہ بھارتی جاسوسی کے شعبے میں موساد کے تجربات سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔
اسرائیل چاروں طرف سے دشمنوں (اسلامی ممالک) میں گھرا ہوا ہے۔ اسی لیے اسرائیلی حکومت شروع سے دفاع اور جاسوسی کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) کرانے لگی۔ان دونوں شعبوں پہ اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔
نتیجتاً آج اسرائیل چوٹی کے سائنس دان و دیگر ہنرمند رکھتا ہے جو رات دن جدید ترین اسلحہ بنانے میں منہمک رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی ماہرین عسکریات بھی نت نئے ہتھیار بنانے میں اسرائیلیوں سے مدد لیتے ہیں۔ دور جدید کا مہلک ترین ہتھیار، ڈرون بنیادی طور پر اسرائیلی ایجاد ہی ہے۔
1971ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران اسرائیلی باقاعدہ طور پہ بھارتی حکومت کی مدد کو آپہنچے۔ انہوں نے بھارتی فوج کو جدید اسلحہ فراہم کیا جو مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کے خلاف استعمال ہوا۔ 1992ء میں سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد دونوں ممالک کے عسکری تعاون میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوئی اور اب بھارتی اپنا بیشتر جدید اسلحہ اسرائیل ہی سے خریدتے ہیں۔
ہتھیاروں کی خریداری
1997ء میں بھارت نے اسرائیل سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ’’بارک اول‘‘(Barak 1) خریدے۔ مدعا یہ تھا کہ پاکستان کے بحری جہاز شکن میزائل، ہارپون(Harpoon) کو ناکارہ بنایا جاسکے۔ بارک اول اس پاکستانی میزائل کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج بھارت کے دونوں طیارہ بردار جہازوں سمیت سولہ جنگی بحری جہاز بارک اول سے لیس ہیں۔
اس کے بعد بھارتی افواج اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں سے مختلف اقسام کا جدید ترین اسلحہ خریدنے لگیں۔ ان میں ڈرون، توپوں کے گولے، لیزر گائیڈڈ بم، الیکٹرونک سینسر اور دیگر جدید آلات شامل ہیں۔
2004ء میں اسرائیل کے سب سے بڑے اسلحہ ساز سرکاری ادارے، اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز نے بھارت کو تین اواکس (Airborne Warning And Control System) طیارے فروخت کرنے کی ہامی بھرلی۔ جدید ترین ریڈار سے لیس یہ طیارے فضائی دفاع اور دشمن کی جاسوسی کرنے میں بہت کام آتے ہیں۔
2009ء میں اسرائیل نے تین اواکس طیارے بھارتی فضائیہ کو فراہم کردیئے۔ بھارت نے مزید تین اسرائیلی اواکس طیاروں کا آرڈر دے رکھا ہے۔ یاد رہے، پاکستان کے پاس بھی سات اواکس طیارے موجود ہیں۔ ان میں سے تین پہ سویڈن ساختہ ریڈار نصب ہیں جبکہ چار ریڈار چینی ساختہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی اواکس طیاروں پر نصب اسرائیلی ریڈار (EL/W-2090) دنیا کا جدید ترین ایئربورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول نظام ہے۔
2007ء میں بھارت اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز بھارتی تحقیقی ادارے، ڈرڈو ( Defence Research and Development Organisation)، بھارتی بحریہ اور بھارتی فضائیہ کے ساتھ مل کر ’’ بارک 8 ‘‘نامی میزائل بنارہی ہے۔ بارک8 زمین سے فضا میں مار کرنے والا جدید ترین میزائل ہے۔ یہ ہوائی جہاز، میزائل اور ڈرون مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسرائیلی اسے اپنے بحری جہازوں میں فٹ کرچکے کیونکہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ شامی افواج روس سے تیز رفتار بحری جہاز شکن میزائل’’ یاکونت‘‘ (Yakhont) خرید چکیں۔
بھارتی بحریہ اور فضائیہ کے زیر استعمال آنے والا بارک 8 میزائل ابھی تجربات سے گزر رہا ہے۔ یہ جب بھی بھارتی افواج میں شامل ہوا، فضائی دفاع کرنے والا ان کا بنیادی ہتھیار بن جائے گا۔ بھارتیوں نے اسے ’’لرسما‘‘ ( LRSAM )یعنی لانگ رینج سرفس ٹوائیر میزائل کا نام دے رکھا ہے۔
بارک آٹھ 275 کلو وزنی میزائل ہے جس میں 60 کلو وزنی بم لدسکتا ہے۔ یہ 70 کلو میٹر دور تک اپنے شکار کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس کی رفتار تقریباً 1350 میل فی گھنٹہ۔
میزائلوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے رفتار کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ میزائل جتنا زیادہ تیز رفتار ہوگا، نہ صرف اتنی ہی جلد نشانہ پر لگے گا، بلکہ کوئی دوسرا ہتھیار اس کا راستہ بھی نہیں روک سکتا۔
مثال کے طور پر اس وقت افواج پاکستان کے پاس ایسا کوئی میزائل نہیں جو میک 2 سے زیادہ تیز سفر کرسکے۔ چناں چہ بھارتی بارک 8 کے سامنے سبھی پاکستانی میزائل بے اثر ثابت ہوں گے۔
وطن عزیز کے سائنس داں ’’بابر کروز میزائل‘‘ تیار کرچکے جس کی رفتار میک 0.8 (550 میل فی گھنٹہ) ہے۔ لہٰذا اب ضروری ہوگیا ہے کہ بارک 8 کا مقابلہ کرنے کی خاطر زیادہ تیز رفتار سام (زمین سے ہوا میں مار کرنے والا) میزائل تیار کیا جائے۔
آئرن ڈوم
بھارتی حکومت اسرائیل کے فضائی دفاع میزائل نظام ’’آئرن ڈوم‘‘ (Iron Dome) میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ نظام ایک اور بڑے اسرائیلی اسلحہ ساز ادارے، رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز کی تخلیق ہے۔ پچھلے تین برس میں یہ دفاعی نظام لبنانی جنگجو تنظیم،حزب اللہ اور حماس کی جانب سے چھوڑے گئے ہزارہا راکٹ فضا ہی میں تباہ کرچکا۔
بھارتیوں کی خواہش ہے کہ پاکستان اور چین کے میزائل حملوں سے بچنے کی خاطر وہ بھی اسرائیلوں سے ’’آئرن ڈوم‘‘ جیسا فضائی دفاعی میزائل نظام حاصل کرلیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کا رقبہ بہت بڑا ہے۔ پھر اس کا مقابلہ حزب اللہ سے نہیں دنیا کی بہترین افواج سے ہے۔ اس لیے بھارت میں کھربوں روپے کی لاگت سے ہی وسیع و عریض ’’آئرن ڈوم‘‘ نظام لگ سکے گا۔
بہرحال اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کی خاطر ہی مودی حکومت ایک اہم قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ فی الوقت بھارتی قانون یہ ہے کہ جو غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنی کسی بھارتی منصوبے میں 26 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری کرے، اسے بھارت میں مشترکہ مینوفیکچرنگ کمپنی کھولنا پڑے گی۔
درج بالا شرط کے باعث بہت سی غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنیاں بھارتی اداروں کے ساتھ ہتھیار بنانے والے منصوبے شروع نہیں کرپاتیں۔ اب موجودہ حکومت سرمایہ کاری کی حد 26 سے بڑھا کر 49 فیصد کرنا چاہتی ہے۔ یوں غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے لیے یہ ضروری نہیں رہے گا کہ وہ بھارت میں اپنا مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کریں۔
پاکستان کے خلاف محاذ
یہ یاد رہے کہ آج دنیا میں بھارت ہی سب سے زیادہ اسرائیلی اسلحہ خریدنے والا ملک بن چکا۔ بھارتی ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر (ڈیرھ کھرب روپے) کا اسرائیلی اسلحہ خریدتے ہیں۔ مودی حکومت چونکہ بھارتی افواج کو اگلے دس برس میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنا چاہتی ہے، لہٰذا آنے والے برسوں میں اسرائیلی کئی ارب ڈالر کا اسلحہ بھارتیوں کو فروخت کرکے خوب پیسہ کمائیں گے۔
بھارتی برّی فوج بھی اسرائیلی اسلحے کی بہت چاہ رکھتی ہے۔بھارتی فوجیوں میں اسرائیل ساختہ اسلحہ بہت مقبول ہے۔ اس کی بری فوج کے ایلیٹ یونٹ، پیرا کمانڈوز (Para Commandos) میں وسیع پیمانے پر اسرائیلی اسلحہ مثلاً گلیل سنائپر رائفل، ٹافور رائفل اور اوزی سب مشین گن استعمال ہوتی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مودی حکومت مدھیہ پردیش ریاست میں اوزی (UZI) سب مشین گنیں بنانے والا پلانٹ لگانا چاہتی ہے۔ وہاں اسرائیلی اور بھارتی ٹیکنالوجی کے اشتراک سے جدید ترین اوزی گنیں تیار ہوں گی۔
یاد رہے، بھارتی افواج بارہ لاکھ باقاعدہ فوجیوں، تیرہ لاکھ نیم فوجی دستوں پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی تعداد دیکھ کر ہی اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کی رال ٹپکنے لگتی ہے ۔ بھارتی جرنیلوں کو کمیشن (رشوت) دینا بھی معمول ہے۔ اسی لیے ماضی میں بعض اسرائیلی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا جاچکا ۔
بھارتی افواج اسرائیلی ڈرونوں کی خریداری میں بھی پیش پیش ہیں۔ فی الوقت بھارتی بری فوج اور بحریہ پچاس سے زیادہ ہیرون (IAI Heron-1) اسرائیلی ڈرون استعمال کررہی ہیں۔ یہ ڈرون مقبوضہ کشمیر، ماؤ تحریک سے متاثرہ ریاستوں، چین۔ بھارتی سرحد اور دیگر سرحدی علاقوں میں اڑائے جاتے ہیں۔
ہیرون ڈرون مسلسل باون گھنٹے تک 35 ہزار فٹ کی بلندی پر محو پرواز رہ کے جاسوسی کرسکتا ہے۔ حالیہ غزہ جنگ میں اسرائیلی ایک نیا ڈرون، ایتان (IAI Eitan ) سامنے لائے۔ یہ ڈرون ستر گھنٹے سے زیادہ محو پرواز رہتا اور 45 ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر جاتا ہے۔ اس پر میزائل بھی فٹ ہوسکتے ہیں۔ بھارتی حکومت کی سعی ہے کہ اسرائیل سے ایتان بھی خرید لیے جائیں۔
بھارت اور اسرائیل کی بڑھتی قربت عیاں کرتی ہے کہ پاکستان کے یہ دونوں دشمن چپکے چپکے، چوری چھپے جنوبی ایشیا میں ہمارے خلاف محاذ کھڑا کررہے ہیں۔ افواج پاکستان اور حکومت کو اس خفیہ اکٹھ پر کڑی و گہری نظر رکھنی چاہیے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(مفہوم) ’’دشمنوں سے لڑنے کے لیے فوجی لحاظ سے ہر وقت تیار رہو تاکہ ظاہری اور خفیہ دشمنوں پر تمہارا رعب جما رہے۔ ‘‘(الانفال۔60)
ہندو انتہا پسند اور صہیونیت
وینائک دمودر ساورکر جدید ہندو قوم پرستی کے بانیوں میں شامل ہے۔ اسی نے ’’ہندتوا‘‘ (Hindutva) کی اصلاح ایجاد کی جس سے ہندو قوم پرستی مراد ہے۔ 1923ء میں ساورکر نے ایک کتاب ’’ہندتوا ہندو کون ہے؟‘‘ (Hindutva: Who Is a Hindu?) لکھی۔ اسی میں موصوف نے ہندو قوم پرستی کے وہ نظریات بیان کیے جن کی بنیاد پر آگے چل کر بی جے پی کا قیام عمل میں آیا۔
دمودر ساورکر صہیونی تحریک سے بہت متاثر تھا۔ وہ ہندوؤں کی طرح یہود کو بھی مظلوم سمجھتا تھا جو گزشتہ کئی صدیوں سے بقول اس کے مسلمانوں کے مظالم برداشت کررہے تھے۔ چناں چہ اس کا خیال تھا کہ یہود اور ہندوؤں کو اب مسلمانوں سے لڑنا چاہیے۔ ساورکر اپنی درج بالاکتاب میں لکھتا ہے:
’’اسلام کی آمد سے قبل فلسطین کے سارے علاقے پر یہود بستے تھے۔ وہ ان کا قومی وطن تھا۔ اس لیے اب فلسطین میں یہود کی قومی ریاست بننی چاہیے۔ جب بھی ایسا ہوا، تو مجھے یہود کے مانند ازحد خوشی ہوگی۔‘‘
ساورکر بیسویں صدی کی ہندو سیاست میں مسلح و پرتشدد تحریک چلانے والے لیڈروں میں شامل تھا۔ وہ انتہا پسند جماعت، ہندو مہاسبھا کا سربراہ رہا۔ نیز گاندھی جی کے قتل میں حصہ لیا۔موجودہ بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی ساورکر کو اپنا روحانی رہنما مانتے ہیں۔ اس سے ان کے طرز فکر کو جاننا آسان ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل سے بھر پور تعلقات کیوں چاہتے ہیں۔
جب پاک بھارت جنگ میں اسارئیلی اسلحہ استعمال ہوا
بھارت اور اسرائیل نے 1947ء اور 1948ء میں یکے بعد دیگرے جنم لیا۔ ان دونوں مملکتوں کے قیام اور استحکام میں انگریزوں کا خاص کردار رہا اور یہ دونوں نام نہاد جمہوری ملک دنیا کے واحد ملک ہیں جو گزشتہ سڑسٹھ برس میں تقریباً دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کرچکے ۔ اس قتل عام میں انہیں عالمی قوتوں کی پشت پناہی اور مدد حاصل رہی۔
اسرائیل اور بھارت کے مابین پہلا عسکری رابطہ 1962ء میں ہوا۔ تب اسرائیلی حکومت نے بھارت کو پیش کش کی کہ وہ چین کے خلاف جنگ میں اس کی عسکری مدد کرنے کو تیار ہے۔ 1965ء میں پاکستان بھارت جنگ کے دوران بھی اسرائیلی بھارتیوں کی کھلی حمایت کرتے رہے۔ آخر پاک بھارت جنگ 1971ء میں بھارتی حکومت نے اسرائیلی اسلحہ قبول کرلیا۔ اسلحے کی اس خفیہ ترسیل کی داستان خاصی ڈرامائی ہے۔
سری ناتھ رگھوان(Srinath Raghavan ) نئی دہلی میں مشہور بھارتی تھنک ٹینک، سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے وابستہ محقق ہیں۔نیزکنگز کالج، لندن میں دفاعی سائنس پر لیکچر دیتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل سانحہ مشرقی پاکستان پر ان کی کتاب ’’1971ء‘‘ (1971: A Global History of the Creation of Bangladesh)شائع ہوئی۔
کتاب لکھنے کے دوران سری ناتھ کو پرمشوار نارائن ہکسار کے ذاتی کاغذات دیکھنے کا موقع ملا جو نہرو میموریل میوزیم و لائبریری (دہلی) میں محفوظ ہیں۔ انہی کاغذات سے اسرائیلی اسلحے کی بھارت کو ترسیل کا انکشاف ہوا۔ یاد رہے، پرمشوار ہکسار معروف بھارتی سفارت کار تھے جو 1967ء تا 1973ء وزیراعظم اندرا گاندھی کے پرنسپل سیکرٹری رہے۔ بھارتی مورخین لکھتے ہیں کہ قیام بنگلہ دیش میں پرمشوار ہکسار نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔
درج بالا کاغذات افشا کرتے ہیں کہ جون 1971ء میں اسرائیلی حکومت نے فرانس میں متعین بھارتی سفیر، ڈی این چٹرجی سے رابطہ کیا۔ چٹرجی کو بتایا گیا کہ بھارتی حکومت چاہے تو پاکستان سے متوقع جنگ کے واسطے اسرائیلی اسلحہ حاصل کرسکتی ہے۔ چٹرجی نے ٹاپ سیکرٹ خط کے ذریعے یہ اطلاع اندرا گاندھی کو بھجوائی جو انھیں 6 جولائی کو موصول ہوا۔
اندرا گاندھی نے یہ اسرائیلی پیش کش قبول کرلی۔ اسرائیلی وزیراعظم، گولڈا میئر نے فوراً شلومو زبلودوکز (Shlomo Zabludowicz) سے رابطہ کیا۔ لکسمبرگ میں رجسٹرڈ اس یہودی صنعت کار کی کمپنی، سولتام (Soltam) اسرائیلی فوج کو توپیں، بکتر بند گاڑیاں، مارٹر اور متعلقہ گولہ بارود فراہم کرتی تھی۔
طے پایا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی، را اور اسرائیلی موساد کے تعاون سے سولتام قریبی مملکت،لیختینستائن کے راستے اسرائیلی ساختہ توپیں، مارٹر اور گولے بھارت بھجوائے۔ یہ سارا جدید ترین اسرائیلی اسلحہ اگست 1971ء تک بھارت پہنچ گیا۔
سری ناتھ نے اپنی کتاب میں را کے سربراہ، آراین کاؤ کا ایک نوٹ بھی شامل کیا ہے۔ وہ انکشاف کرتا ہے کہ اسرائیلی مارٹر اور متعلقہ گولے مکتی باہنی کے گوریلوں کو دیئے گئے جبکہ توپیں اس بھارتی فوج کو دی گئیں جسے مشرقی پاکستان میں پاک افواج سے نبرد آزما ہونا تھا۔ گویا پاک بھارت جنگ 1971ء میں ہمارے خلاف وسیع پیمانے پر اسرائیلی اسلحہ استعمال ہوا۔
اسرائیلی وزیراعظم، گولڈا میئر نے شلومو زبلودوکز کی وساطت سے اندرا گاندھی کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ اسلحہ فراہم کرنے کے بدلے بھارت میں اسے سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم بھارت ابھی عرب و اسلامی دنیا کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ بہرحال اسرائیلیوں کو یوں خوش کیا گیا کہ انہیں بھارت میں دو ایٹمی تجربات کرنے کی اجازت مل گئی۔
مئی 1974ء میں جب بھارت نے اپنا ’’مسکراتا بدھا‘‘ ایٹمی دھماکہ کیا، تو اسی وقت اسرائیلی ایٹمی تجربات بھی انجام پائے تھے۔ مگر مغربی میڈیا نے بوجوہ انہیں رپورٹ نہیں کیا۔ ایٹمی تجربات کا سامان دو ہفتے قبل اسرائیلی سی۔ 130 طیارے کے ذریعے راجستھان لایا گیا تھا۔
پاکستان کے خلاف اسرائیلی۔ بھارتی تعاون کا اگلا مظاہرہ کارگل جنگ (1999ء) میں دیکھنے کو ملا۔ تب اسرائیلی حکومت نے فی الفور لیزر گائیڈڈ میزائل بھارت بھجوا دئیے۔ یہ میزائل کنکریٹ سے بنے بنکر (Bunker) یا زیرزمین مورچے بھی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہی اسرائیلی میزائلوں نے پہاڑوں میں بنے مجاہدین کے بنکر تباہ کرڈالے اور ان کے مشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
کارگل جنگ کے دوران ہی اسرائیل نے بھارتی افواج کو ریڈار، توپوں کے گولے اور ڈرون بھی فراہم کیے۔ ڈرونوں کی مدد سے بھارتیوں نے مجاہدین کے ٹھکانے تلاش کیے اور انہیں تباہ کرڈالا۔
اس کے بعد مختلف اقسام کا اسرائیلی اسلحہ دھڑا دھڑ بھارت پہنچے لگا۔ ایک رپورٹ کی رو سے 1999ء تا 2009ء اسرائیل نے بھارت کو 30 ارب ڈالر (تیس کھرب روپے) کی خطیر رقم کا اسلحہ فروخت کیا۔ یوں اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں نے صرف ایک عشرے میں اربوں ڈالر کماکر خود کو مستحکم کرلیا۔
یہ اسرائیلی ہی ہیں جنہوں نے 2009ء میں بھارت کو جاسوس مصنوعی سیارہ (سیٹلائٹ) فراہم کیا۔ ریساٹ2- (RISAT-2)نامی یہ سپائی سیٹلائٹ اپریل 2009ء میں چھوڑا گیا جسے اسرائیل اپردیش انڈسٹریز نے تیار کیا تھا۔ اس مصنوعی سیارے کے ذریعے بھارتی پاکستان جبکہ اسرائیلی ایران کی جاسوسی کرنے میں مصروف ہیں۔
پاکستان کو کمزور بلکہ خدانخواستہ نیست و نابود کرنے میں اسرائیل کے کئی مفاد وابستہ ہیں۔ اول ایٹمی پاکستان اسرائیلی حکومت کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتا ہے۔پاکستانیوں کے ہوتے ہوئے اسرائیلی کبھی عالم اسلام پہ غالب نہیں آ سکتے۔
مذید براں پاکستانی سائنس داں و انجینئر بہ سرعت اپنے میزائل پروگرام کو ترقی دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کو خطرہ ہے کہ مستقبل میں پاکستانی میزائل ٹیکنالوجی ایران، لیبیا، سعودی عرب، شام اور متحدہ عرب امارات تک پہنچ سکتی ہے۔ یوں پاکستانی میزائل مملکت اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ بن جائیں گے۔
سوم بھارت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اسرائیلی حکومت کی سعی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیاں بھارت سے معاہدے کریں۔ یوں اسرائیلی دفاعی صنعت کو مستحکم ہونے میں مدد ملے گی۔
چہارم را اور موساد سی آئی اے کے ساتھ مل کر عالم اسلام میں مسلمانوں کو مذہبی، لسانی اور نسلی فرقوں میں تقسیم کرنے کی نہایت گہری سازش پہ عمل پیرا ہیں۔ پاکستانی ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ افغان و پاکستانی طالبان میں را اور موساد کے ایجنٹ داخل ہوچکے۔ یہ ایجنٹ مملکت پاکستان کے خلاف خفیہ جنگ لڑنے میں مصروف ہیں تاکہ اسے تین چار چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر سکیں۔ ظاہر ہے، کٹا پھٹا پاکستان پھر بھارت یا اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں رہے گا۔