تعلیم۔ مسائل و افکار
مصنف: ڈاکٹر سید جعفر احمد
ناشر: فکشن ہاؤس، فرنگ روڈ لاہور
صفحات:272،قیمت: 400 روپے
ڈاکٹر سید جعفر احمد، ماہر تعلیم کی حیثیت سے ممتاز مقام کے حامل ہیں ’’تعلیم۔ مسائل اور افکار، ان کے 39 تعلیمی و ادبی موضوعات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بیشتر ان کے وہ کالم ہیں جو ’’ایکسپریس‘‘ سمیت دو اخبارات میں شایع ہوئے تھے۔
یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ بہ عنوان ’’جنبش و رفتار‘‘ میں 8 مضامین شامل ہیں۔ ان میں سے سندھ میں اسکولوں کی مایوس کن کارکردگی، سندھ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹ، ایک لمحہ فکریہ، علمی و تہذیبی اداروں کا احیاء اور کتابوں کا ترک وطن، خاص طور پر اپنے موضوع اور تحریر کے حوالے سے اہم مضامین ہیں۔ ان تمام تحریروں میں ایک دردمند پاکستانی ایک ماہر تعلیم کا دل دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ بہ عنوان نظری زاویے، 7مضامین پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں المیۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اور چارلس ڈکنز کے حوالے سے تحریریں اہم ہیں۔ تیسرے حصے کا عنوان ’’سیاست کے دریچے‘‘ ہے۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد نے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی کے تعلیمی منشور کا جائزہ بہت باریک بینی سے لیا اور اس پر تفصیلی بحث بھی کی ہے۔ اس حصے کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیمی منشور تمام پارٹیوں نے صرف کاغذوں پر بنائے۔ کسی بھی پارٹی نے تعلیمی منشور کے حوالے سے دس فی صد بھی کام کرنے کے بارے میں پیش قدمی نہیں کی۔ کتاب کے چوتھے حصے میں ڈاکٹر جعفر احمد نے 13 شخصیات پر لکھا ہے۔ ان میں سے پروفیسر غفور احمد، پروفیسر شریف المجاہد، ڈاکٹر منظور الدین احمد، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، اقبال حیدر، ملالہ یوسف زئی اور محمود شام چند نمایاں نام ہیں۔ پانچویں حصے میں کراچی میں ہونے والی تقریبات کے حوالے سے مضامین ملتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ ایک اہم اور معلوماتی کتاب ہے جس میں تعلیم کے فلسفے و فکر کے پس منظر میں لکھی گہری تحریریں قاری کو بھی بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد کا طرز تحریر اتنا پختہ اور گہرا ہے کہ وہ اول تاآخر پڑھنے والے کی دل چسپی موضوع میں برقرار رکھتے ہیں۔ کتاب کی طباعت معیاری ہے۔ مجموعی طور پر یہ اپنے موضوع کے حوالے سے اہم کتاب ہے۔ اس کے مطالعے سے آپ پروفیسر غفور احمد کی سیاسی زندگی کے اہم واقعات، پروفیسر شریف المجاہد کی غیرمعمولی یادداشت، ڈاکٹرز کی حسن کی میڈیسن تعلیم کے زمرے میں خدمات، طارق محمود سے محمود شام تک کا سفر اور دیگر دل چسپ واقعات و معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
آئیے زندگی بچائیں
مصنف: ڈاکٹر محمد سعید منہاس
ناشر: سروسز زون ، کراچی
رابطہ: شعبہ آرتھوپیڈک وارڈ نمبر 17 جناح اسپتال کراچی
صفحات:165،قیمت: 250 روپے
ڈاکٹر سعید منہاس، بنیادی طور پر سنیئر آرتھوپیڈک سرجن ہیں اور ادب سے گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اسی شوق کے تحت انھوں نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور بحیثیت مسیحا اپنی مخصوص فیلڈ کو منتخب کیا ’’آئیے زندگی بچائیں‘‘ میں ایکسیڈنٹ/ ایمرجینسی کی صورت میں ابتدائی طبی امداد اور بچاؤ کے طریقے درج ہیں۔
یہ ایک انتہائی معلوماتی کتاب ہے جس میں؛ ہوا اور سانس کی رکاوٹ، خون کا بہنا، سانس اور دل کی دھڑکن بحال کرنا، امونیا گیس سے حادثات، زہرخورانی شدید سردی، شدید گرمی اور اس کے اثرات انسانی جسم پر، زلزلہ، صنعتی حادثات، سر، گردن اور کمر کی چوٹ، فالج، جسم میں شوگر کا کم ہوجانا، مرگی، روڈ سیفٹی، شادی سے قبل اسکریننگ کی اہمیت، سمیت 47 موضوعات کو نہ صرف زیربحث لایا گیا ہے بل کہ اپنے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے سعیدمنہاس نے بیش بہا معلومات فراہم کی ہیں۔
کتاب کے آخر میں ایمرجینسی کی صورت میں اہم اداروں کے ٹیلی فون نمبرز بھی درج ہیں، اس ایک کتاب کی مدد سے آپ: ابتدائی طبی امداد کے اصول، صنعتی اور پیشہ ورانہ حادثات کی اقسام، ڈیزاسٹر، زلزلے، سانحات کی مینجمنٹ کے اصول، مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں مکمل طور پر معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف طبی ایمرجینسی سے متعلق اداروں بل کہ عام طبقے کے لیے بھی یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب انتہائی خوب صورت کاغذ پر معیاری پرنٹنگ سے شایع کی گئی ہے۔ ڈاکٹر سعید منہاس کی اس کتاب سے قبل 2کتابیں (1) ابتدائی طبی امداد ٹراما سینٹر (2) وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام (مریض اور ڈاکٹر کی طنز مزاح سے مبنی گفتگو) شایع ہوچکی ہیں۔ ’’آئیے زندگی بچائیں‘‘ میں جا بہ جا موضوع کے حساب سے رنگین تصاویر مضمون کو سمجھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
کتاب کی قیمت انتہائی مناسب رکھی گئی ہے۔ یہ کتاب لکھنے کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ عوام میں ابتدائی طبی امداد اور صحت کے بارے میں شعور پیدا ہو۔ یہ ایک اچھی سماجی و اخلاقی کاوش ہے۔
الحمراء (ادبی جریدہ، اگست 2014)
ایڈیٹر: شاہد علی خان
بانی: مولانا حامد علی خان
صفحات: 152،رابطہ: 24Jبلاک، ماڈل ٹاؤن، لاہور
الحمراء کا شمار ان ادبی جریدوں میں ہوتا ہے جو معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی سفر کو اثر انگیز بنانے میں مسلسل اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مولانا حامد علی خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے جہد مسلسل سے اپنا مقام بنایا اور پھر الحمرا یوں شایع کیا کہ یہ رسالہ ان کی شناخت کا لازمی جزو ہوگیا۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بانی ایڈیٹر کے انتقال کے بعد پرچہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ ہمارے سامنے صہبا لکھنوی کے ’’افکار‘‘ فہیم اعظمی کے ’’جوہر‘‘ شبنم رومانی کے ’’اقدار‘‘ جیسی مثالیں موجود ہیں، تاہم حامد علی خان اور الحمراء کی خوش قسمتی کہ اسے شاہد علی خان جیسا ہونہار ادب پرست ملا جس نے اس پرچے کو جاری رکھنے کی ہر ممکن سعی کی اور آج الحمراء کا شمار معتبر ادبی پرچوں میں کیا جاتا ہے۔
الحمرا اگست 2014 کے شمارے میں جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کا اپنے والد محترم علامہ محمد اقبال پر لکھا مضمون ’’بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں‘‘، انور سید کا‘‘ اردو میں ڈائجسٹ صحافت کا میر کارواں (الطاف حسن قریشی) ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ کا ڈاکٹر فرحان فتح پوری پر تحریر کردہ مضمون، جمیل یوسف کی تسنیم کوثر کی شاعری پر سیر حاصل گفتگو، بشریٰ رحمان کی تحریر ’’لکھی کو کون موڑے‘‘، ممتاز مصور اسلم کمال کے واقعات، مستنصر حسین تارڑ اور جمیل یوسف کے سفر نامے، آغا گل کا اپنے مخصوص انداز میں تحریر کردہ افسانہ ’’جادوئی ٹوپی‘‘ اور ظفر اقبال، مشکور حسین یاد، سلطان سکون اور علامہ طالب جوہری کی غزلیں اس شمارے کی نمائندہ تحریریں ہیں۔ یہ تمام وہ تحریریں ہیں جو واقعتاً علم میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ تحقیقی و تنقیدی مضامین کے لیے ایندھن فراہم کرنے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
الحمرا میں شامل خطوط بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوتے بالخصوص انورسدید کی چھیڑ چھاڑ ایک سماں پیدا کرتی ہے۔ اس شمارے میں جمیل یوسف، خالد اقبال یاسر اور نوید سروش نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ادبی جریدوں میں اب اچھے خاصے صفحات خطوط کے لیے مختص کیے جارہے ہیں۔ ’’تخلیق‘‘ ’’فنون‘‘ ’’چہار سو‘‘ اس کی نمائندہ مثالیں ہیں۔ مجھے پروفیسر سحر انصاری کی بات یاد آرہی ہے۔ انھوں نے اسی حوالے سے گفتگو کے دوران مجھ سے کہا تھا کہ یہ بھی (یعنی ادبی پرچوں میں خطوط نویس) ایک موضوع بن سکتا ہے PHD کرنے کا۔ المختصر الحمرا ایک معیاری ادبی پرچہ ہے جس کا مسلسل نکلنا ادب کے لیے خوش آیندوخوش بختی ہے۔
نمِ جاں
شاعر: زیبا ردولوی
ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب، پاکستان، کراچی
صفحات: 295،قیمت: 300
یہ کتاب سید علی حسنین رضوی (مرحوم) کی نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ ادبی دنیا میں انہیں زیبا ردولوی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بھارت کے ضلع بارہ بنکی کے محلہ مخدوم زادہ ردولی سے تعلق رکھنے والے زیبا ردولوی کا انتقال 1968 میں ہوا۔ پاکستان ہجرت کرنے کے بعد وہ محکمۂ اطلاعات میں ملازم ہوئے اور انفارمیشن افسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
ان کے انتقال کے کئی سال بعد ’’گلہائے زیبا‘‘ کے نام سے ان کا مجموعۂ مناقب و مراثی شایع کروایا گیا اور اب نظموں اور غزلوں کا یہ مجموعہ منظرِ عام پر آیا ہے۔ اس کتاب میں غزلوں کی تعداد زیادہ ہے، جو ان کی اس فن پر گرفت اور خیال آفرینی کی مثال ہیں۔ اپنے محسوسات، جذبات اور مشاہدات کو انہوں نے غزل کے سانچے میں نہایت خوبی سے ڈھالا ہے۔ سادگی، شگفتگی اور سوزوگداز ان کے کلام کا حُسن ہے۔
پرچھائیاں (روزنامچے)
مصنف: احمد حماد
ناشر: دی رائٹرز، لاہور
صفحات: 110 ،قیمت: 300 روپے
بہت کم کتابیں خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتی ہیں، ’’پرچھائیاں‘‘ ان میں سے ایک۔ ممکن ہے، آپ ایک ہی نشست میں اِسے پڑھ ڈالیں۔صحافت کے پیشے سے وابستہ احمد حماد کی شہرت کا بنیادی حوالہ شاعری ہے۔ تین مجموعے ’’شام بے چین ہے‘‘، ’’ترے خیال کا چاند‘‘ اور ’’محبت بھیگتا جنگل‘‘ شایع ہوچکے ہیں، مگر زیرتبصرہ کتاب شعری مجموعہ نہیں۔ یہ تو نثری ٹکڑے ہیں۔ روزنامچہ نما۔ ادبی اور فکری رنگ میں رنگے۔ اور یہ امر اُن کی اہمیت دو چند کردیتا ہے۔
یہ روزنامچے دل چسپ ہیں۔ کہیں چند الفاظ پر مشتمل، کہیں کئی صفحات پر پھیلے۔ ان واقعات، نظریات اور ادب پاروں سے متعلق، جو حماد کی دل چسپیوں کا محور ہے۔ کہیں مصنف نے سوالات اٹھائے ہیں، کہیں سوالات کا اپنی فکر کے مطابق جواب دیا ہے۔ کہیں کوئی مختصر کہانی، کہیں نثر میں بولتی نظم۔ سیاسی اور مذہبی موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ پیش لفظ وہ میں لکھتے ہیں:’’اس کتاب میں خیال کی وہی پرچھائیاں ہیں، جو مشاہدے کے سورج کے سامنے خیال کے گھنگور بادل کے بجائے ٹکڑیاں بن کر آئیں، اور اظہار کی زمین پر پرچھائیاں بن کر رقص کرنے لگیں۔‘‘
کتاب کا ٹائٹل خوب صورت اور بامعنی۔ کتاب طباعت اور اشاعت کے معیارات پر پوری اتری ہے۔ قیمت کچھ زیادہ ہے۔ مصنف کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، جنھوں نے مطالعے کے گھٹتے رجحان کے باوجود ایک دل چسپ تجربہ کیا۔
اقلیم
شاعر: احمد شہریار
زیراہتمام: مہردر، انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن، پی او باکس26، کوئٹہ، بلوچستان
صفحات:144،قیمت:220
احمد شہریار اپنی شاعری کے قبول و رد سے متعلق تو فکرمند نظر نہیں آتے، لیکن یہ اندیشہ دامن گیر ہے کہ عابد میر اور ان کے ادارے مہر در کو ان کا شعری مجموعہ شایع کرنے پر کہیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اپنے پیش لفظ میں انہوں نے کتاب کی اشاعت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے خود کو اس سلسلے میں خوف زدہ بھی بتایا ہے۔
اگر ان کے کلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کی وجہ احمد شہریار کی منکسرالمزاجی اور اُن کا حد درجہ محتاط رویہ ہے، لیکن واقعی وہ کسی اندیشے میں مبتلا ہیں تو غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے شعری مجموعے کم ہی دست یاب ہیں۔ احمد شہریار اپنی شاعری اور ادارہ مہر در اِن کے کلام کو کتابی شکل دینے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ امید ہے کہ اس مجموعے کو صاحبانِ فن کی توجہ اور ادبی حلقوں میں ضرور پزیرائی حاصل ہو گی کہ احمد شہریار نے اس کے ذریعے اپنے پختہ کار اور کہنہ مشق شاعر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ مجموعہ شاعر کے احساسات اور مشاہدات کے خوش سلیقہ برتاؤ کا عمدہ نمونہ ہے۔
غزل کی صنف میں روایت کی پاس داری کے ساتھ اس فن کے تقاضوں کا حق ادا کرتے شعری مجموعے تو بے شمار ہیں، لیکن اس صنف میں اب تخیل کی زرخیزی اور تازگی کا احساس بہت کم ہوتا ہے۔ بلند خیالی کے ساتھ قافیہ و ردیف کی انفرادیت اور الفاظ کی خوب صورت بندش بھی احمد شہریار کے کلام کی ایک خوبی ہے۔ خوب صورت تراکیب، تشبیہات اور استعارے، جہاں اشعار کے حُسن و معانی کا سبب ہیں، وہیں شاعر کی زبان پر گرفت، خصوصاً فارسی سے گہرے شغف کا ثبوت ہے۔ شہریار، جونؔ ایلیا سے بھی متأثر نظر آتے ہیں۔ یہ اشعار پڑھیے:
؎ حقیقت ایک ایسا دائرہ ہے جس کے اندر
خیال و خواب کی منظر نگاری ہو رہی ہے
؎ وسعتِ قطرہ کا احساس دلانا پڑ جائے
دیکھیے کب ہمیں دریا نظر آنا پڑ جائے
؎ رزق کے باب میں بدعت بھی تو ہو سکتی ہے
کچھ نہ ہونے پہ قناعت بھی تو ہو سکتی ہے
اس نوجوان شاعر نے عام روایت کا ’قتل‘ کرتے ہوئے اپنی کتاب کا مسودہ کسی ’بڑے‘ کے سپرد بھی نہیں کیا کہ چند ستائشی جملے ہی پزیرائی کا سہارا بن جائیں اور یہ بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ شہریار کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسا ہے۔
احمد شہریار کا تعلق اُسی بلوچستان سے ہے، جس کا وجود پسماندہ اور ان گنت مسائل میں جکڑا ہوا ہے۔ غربت اور ناخواندگی کا عفریت ترقی اور خوش حالی کے امکانات کو نگل رہا ہے، لیکن محنت اور مستقل مزاجی سے اپنا مقصد حاصل کرنے اور منزل کی تگ و دو کرنے والوں کی بھی کمی نہیں اور احمد شہریار انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ بلوچستان میں کم عمر، لیکن باصلاحیت شاعر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور یہ مجموعہ انہیں ملکی سطح پر منفرد شاعر کی حیثیت سے متعارف کرانے کا ذریعہ ثابت ہو گا۔ مہر در نے حسبِ روایت اس مجموعے کی طباعت اور اشاعت میں بھی معیار اور سلیقہ برتا ہے۔
(عارف عزیز)
دل کا کیا رنگ کروں(شعری مجموعہ)
شاعر: انور شعور، ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
صفحات: 207 ،قیمت: 300 روپے
یہ مت پوچھو کہ کیسا آدمی ہوں
کرو گے یاد ایسا آدمی ہوں
انور شعور تو واقعی ایسے آدمی ہیں۔ غزل اور وہ ایک جاں دو قالب۔ اور غزل کا ذوق رکھنے والوں کے لیے اُن کا تازہ مجموعہ ایک تحفہ۔ عالی جی کا کہنا درست ہے کہ جس نے انور شعور کی غزل نہیں پڑھی، وہ بہت بڑے خزانے سے محروم رہا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کے بہ قول: انور شعور شاعر عصر ہیں، غزل کہتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا عہد اپنا احوال بیان کرنے میں محو ہے۔
اسناد اور بھی مل جائیں گی؛ ناقدین اُن کی غزل کو مکمل غزل قرار دیتے ہیں، منفرد اسلوب اور لب و لہجے کا تذکرہ کرتے ہیں، مکالماتی ڈھنگ زیر بحث آتا ہے، سنجیدگی اور شگفتگی کے ملاپ پر بات ہوتی ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ اِس قادر الکلام شاعر کو کسی سند کی ضرورت نہیں۔ اشعار ہی کافی ہیں:
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، تم ہوجاتا ہوں
یا پھر:
وہ کبھی آگ سے لگتے ہیں کبھی پانی سے
آج تک دیکھ رہا ہوں انھیں حیرانی سے
یہ انورشعور کا چوتھا مجموعہ ہے، اِس سے قبل ’’اندوختہ‘‘، ’’مشق سخن‘‘ اور ’’می رقصم‘‘ ناقدین سے داد اور قارئین کی محبتیں سمیٹ چکے ہیں۔ قطعہ نگاری میں انھیں کمال حاصل ہے۔ نثر عمدہ لکھتے ہیں۔ برسوں سب رنگ ’’ایڈٹ‘‘ کرتے رہے۔ مجموعے میں ’’آگہی اور خواب کے دوراہے پر‘‘ کے زیرعنوان ڈاکٹر فاطمہ حسن کا مضمون شامل۔ طباعت اور کاغذ اچھا، مگر ترتیب اور سرورق میں بہتری کی گنجایش۔
آخر میں چند اشعار:
چمن میں آپ کی طرح گلاب ایک بھی نہیں
حضور ایک بھی نہیں، جناب ایک بھی نہیں
مباحثوں کا ماحصل فقط خلش، فقط خلل
سوال ہی سوال ہیں جواب ایک بھی نہیں
ہماری سرگزشت میں ہزار واقعات ہیں
مگر جو دیکھتے رہے وہ خواب ایک بھی نہیں