کچھ لوگ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں، لیکن اگر بھارت میں گاندھی خاندان کے چشم و چراغ اور سونیا گاندھی کے ہونہار سپوت راہول گاندھی کا ذکر ہو تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاست ان کی گھٹی میں پڑی ہے، انھوں نے معروف سیاسی خاندان میں جنم لیا اور ان کی زندگی کا سفر سیاسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔
19جون 1970کو سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی اور کانگریس کی موجودہ سربراہ سونیا گاندھی کے گھر آنکھ کھولنے والے راہول گاندھی کو سیاست ورثے میں ملی ہے۔ سابق بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور اندر گاندھی کا پوتا ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ راہول کی پرورش کی کتاب میں سیاسی سوجھ بوجھ کا سبق سب سے اہمیت کا حامل رہا ہوگا۔
راہول نے 1984میں اپنی دادی (اندراگاندھی) اور 1991میں اپنے والد (راجیو گاندھی) کے قتل کے بعد ذاتی زندگی اور سیاسی سفر میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ دونوں شخصیات وزیراعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے نشانہ بنائی گئیں، جس کی وجہ سے راہول کی زندگی کو بھی شدید سیکیوریٹی خطرات لاحق ہوئے اور انھیں اپنے تحفظ کے لیے بار بار تعلیمی ادارے بھی تبدیل کرنا پڑے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ سونیا گاندھی نہیں چاہتی تھیں کہ شوہر کے بعد ان کے بیٹے کو بھی کوئی نقصان پہنچے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ سونیا گاندھی نے اپنے بچوں کے تحفظ اور کسی بڑے خطرے میں نہ پڑنے کے لیے تمام تر اندازوں کے برعکس وزارت عظمیٰ کی مسند پر اس وقت بیٹھنے سے انکار کردیا تھا جب ہر کوئی سونیا گاندھی کو بطور وزیراعظم دیکھ رہا تھا۔ کانگریس، سونیا اور راہول گاندھی کے حامی اور پرستار آج تک اس معمے کو نہیں سلجھا پائے کہ ایسی کون سی بات تھی جس کی وجہ سے سونیا گاندھی نے طشتری میں پیش کی جانے والی وزارت عظمیٰ کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا؟ اب بھارتی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے ذہنوں میں اسی قسم کا سوال راہول گاندھی کے حوالے سے اٹھ رہا ہے کہ کیا راہول گاندھی آگے چل کر بھارتی حکومت کی باگ ڈور بہ حیثیت وزیراعظم سنبھال پائیں گے؟ اور کیا ان کے نصیب میں وزیراعظم بننا لکھا ہے؟
سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل راہول گاندھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بین الاقوامی تعلقات اور فلسفے جیسے موضوعات پر غیرملکی اداروں سے ڈگریاں ان کی قابلیت کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست کے داؤ پیچ، حکمت عملیاں اور سیاسی سمجھ تو ان کے خاندان کے ذریعے انھیں وراثت میں ملی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد قومی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے سے قبل راہول نے لندن کی ایک کنسلٹنٹ فرم میں کچھ عرصے کام بھی کیا ہے، بعدازاں 2004 میں انھوں نے ممبئی میں اپنی کمپنی قائم کرلی۔
قومی سیاست میں پیش قدمی راہول نے اترپردیش کے علاقے امیٹھی کے اسی حلقے سے کی، جہاں سے ماضی میں ان کے والد راجیو گاندھی انتخابات جیتے رہے تھے۔2007 میں راہول کے سیاسی کیریر کو اس وقت مزید استحکام ملا جب انھیں کانگریس کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ اس عہدے پر راہول کے دادا اور والد نے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی قومی سطح پر پارٹی کے لیے راہول گاندھی نے مختلف ذمے داریاں سرانجام دی ہیں۔
رواں سال 2013 ہی میں قومی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے ہی راہول کو کانگریس کا نائب صدر بنادیا گیا۔ کانگریس کے نائب صدر بنائے جانے کے بعد راہول کے پرستاروں اور ووٹروں کو یقین ہوچلا ہے کہ وہ بہت جلد اپنے پسندیدہ لیڈر کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر دیکھ سکیں گے۔ یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ کچھ عرصے قبل تک ایسا دکھائی دیتا تھا کہ راہول کی بہن پریانکا گاندھی اپنے والدین کی سیاسی وارث ہوں گی، کیوں کہ تجزیہ نگاروں کی رائے میں وہ راہول سے زیادہ کرشماتی شخصیت کی حامل ہیں، لیکن راہول کو جب ذمے داریاں ملیں تو انھوں نے عوام کی نظروں میں اور اپنی پارٹی کے راہ نماؤں کے سامنے خود کو ہر منصب کا اہل ثابت کیا۔
2004 وہ سال تھا جب راہول نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا۔ امیٹھی کے انتخابی حلقے سے جس وقت راہول نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان دنوں اترپردیش میں کانگریس کی پارٹی پوزیشن بہت خراب تھی، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اترپردیش کی 80 میں سے صرف 10 نشستیں کانگریس نے جیتی تھیں۔ ایسے میں سونیا گاندھی کی جانب سے امیٹھی سے راہول کو الیکشن لڑنے کا موقع دینے کا فیصلہ بہت سے لوگوں کے لیے سرپرائز سے کم نہیں تھا۔ گو کہ راہول کی موجودگی کے باوجود کانگریس الیکشن میں کوئی بڑی کام یابی حاصل نہیں کرسکی، تاہم راہول نے اپنے حلقے کے ساتھ پرستاروں کے دل ضرور جیت لیے۔
قومی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد غیرملکی میڈیا کو اپنے پہلے انٹرویو میں راہول گاندھی نے ذات پات اور مذہب کی سیاست کو ختم کرنے اور مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ اُن کے عزائم اور انقلابی تقاریر نے ووٹروں خاص طور پر پر نوجوان طبقے کو کانگریس کی جانب مائل کیا۔ لوگ ان کی باتوں اور اقدامات کو پسند کرنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ راہول نے بھاری اکثریت سے فتح اپنے نام کی۔ کانگریس نے بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ انتخابی فتوحات سمیٹیں اور اپنی روایتی حریف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھی شکست سے ہم کنار کیا۔2008 میں کانگریس کے راہ نما رویراپا موئلی کی جانب سے راہول گاندھی کا نام وزیراعظم کے طور پر پیش کیا گیا۔ 2013 میں اس وقت کے وزیر قانون اور موجودہ بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید نے ایک بیان میں کہا کہ راہول گاندھی اپنے خیالات اور نظریات کے ذریعے کانگریس کو درپیش مسائل و مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔
قومی سیاست میں اہم عہدوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ راہول نے نوجوانی میں بھی سیاسی افق پر کافی سرگرمی سے کام کیا ہے۔ کئی اہم عہدے انھیں دیے گئے، جن میں انڈین یوتھ کانگریس اور نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا کی ذمے داریاں بھی شامل ہیں۔ مختلف تنظیموں کے لیے کام کرتے ہوئے پارٹی کی تنظیم سازی اور اس کے استحکام کے لیے راہول نے کئی تھنک ٹینک بنائے، مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا اور کانگریس کی رکنیت سازی کی شرح کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔2009 کے انتخابات میں امیٹھی کی نشست راہول گاندھی نے تقریباً سوا 3 لاکھ ووٹوں کے واضح فرق سے جیتی۔
٭ناخوش گوار واقعہ
جیل جانا یا گرفتار ہونا کسی بھی سیاست داں کی پہچان اور اس کے سیاسی سفر کا اہم پڑاؤ سمجھا جاتا ہے، سیاسی سفر میں راہول گاندھی نے بھی ایک بار گرفتاری کا تجربہ حاصل کیا، جب مئی 2011 میں کسانوں کے ساتھ احتجاج کرنے کی پاداش میں اترپردیش پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا۔
٭مخالفین اور تنازعات
سیاست کے پیچیدہ سفر کے دوران جہاں لاکھوں لوگ راہول کے پرستار بنے، وہیں اندرا گاندھی کے پوتے کے مخالفین کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2010 میں ایک تقریب کے دوران راہول گاندھی کا یہ بیان سامنے آیا کہ،’’ہندو انتہا پسند مسلمان عسکریت پسندوں کے مقابلے میں بھارت کے لیے زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘ راہول گاندھی کا اشارہ انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف تھا۔ اس بیان نے پورے ملک میں ہلچل مچادی اور ہندو انتہا پسندوں کی تنقید اور مخالفت کا رخ راہول کی طرف ہوگیا۔
راہول کا یہ بیان بھی بھارت اور دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا کہ ’’ہمارے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ لشکر طیبہ اور دیگر مجاہدین کو بھارت ہی میں موجود کچھ مسلمان عناصر کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ ان بیانات کے علاوہ راہول گاندھی نے انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ 2011میں ممبئی بم دھماکوں کے بعد راہول نے کانگریس کے اہم راہ نما کی حیثیت سے یہ بیان دیا تھا کہ ’’دہشت گردی کے ہر واقعے کو روکنا بہت مشکل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مقامی سطح پر بھی اپنی کم زوریوں کو بھی دور کریں۔‘‘
٭ناقدین کی نظر میں
اپنے سیاسی کیریر میں جہاں راہول گاندھی نے اپنے ووٹروں اور حامیوں کی زبردست پسندیدگی کا مزہ لیا ہے، وہیں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر راہول گاندھی کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی کے سپوت میں قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہے۔ وکی لیکس نے انڈیا میں سابق امریکی سفیر ڈیوڈ ملفورڈ کے حوالے سے یہ بات بھی افشا کی تھی کہ کانگریس کے بہت سے راہ نما اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ راہول گاندھی بہت سی وجوہات کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ راہول جذباتی طبیعت کے مالک ہیں اور یہی بات ان کے وزیراعظم بننے میں بڑی رکاوٹ ہے۔دوسری جانب کانگریس کے بھی کچھ راہ نماؤں کی رائے ہے کہ راہول گاندھی اپنے والد (راجیو گاندھی) کی سیاسی قابلیت سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔
٭مثبت تجزیے
تنقیدی تجزیوں اور آراء کے ساتھ کچھ حلقے پارٹی کی تنظیم سازی، کارکنوں اور عوام کو متحرک کرنے میں کردار اور ذات پات کی قید سے نکل کر سیاسی پیش قدمی کی حکمت عملی پر راہول کو سراہتے یہیں۔ راہول کی حمایت میں مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی کی پارٹی کے لیے خدمات ظاہر کرتی ہیں کہ وہ آگے چل کر وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے بھی مضبوط امیدوار بن سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں نے ان کی فیصلہ سازی کو بھی سراہا ہے اور تنظیمی سطح پر کیے گئے اقدامات کو مستقبل میں کانگریس کی سیاسی زندگی کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
عالمی اور قومی سطح پر راہول گاندھی کے حوالے سے مثبت آراء سامنے آئیں یا ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے، راہول کی پالیسیوں کو پسند کیا جائے یا مسترد کیا جائے، یہ بات حقیقت ہے کہ راہول گاندھی بھارتی سیاست میں رفتہ رفتہ اہم حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگر آئندہ الیکشن میں راہول کی سیاسی محنت کا صلہ کانگریس کی جیت کی صورت میں ملا تو راہول گاندھی یقینی طور پر وزیراعظم بننے کی مضبوط پوزیشن میں ہوں گے، لیکن بھارتی سیاست شطرنج کی اس بساط کی مانند ہے جہاں بادشاہ سے لے کر پیادے تک کسی کو آخری وقت تک پتا نہیں چلتا کہ کون سی چال سامنے آنے والی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا گاندھی خاندان میں ایک بار پھر وزارت عظمیٰ آتی ہے یا راہول گاندھی بھی اپنی والدہ سونیا گاندھی کی طرح ’’ناگزیر وجوہات‘‘ کی وجہ سے وزیراعظم بننے سے محروم رہ جائیں گے۔