میانمار(برما) میں اقلیتی مسلمان آبادی بدھا بھگشو کے پیروکاروں کے رحم وکرم پرہے اور اقوام متحدہ، اسلام تعاون تنظیم سمیت دنیا کا کوئی ذمہ دار ادارہ مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کی روک تھام میں مسلسل ناکام ہے۔
روہنگیا کے نہتے مسلمانوں کے کشت وخون کا بھیانک سلسلہ ایک بار پھر عروج پرہے۔ اس ضمن میں ہم وہاں پر ہونے والے اجتماعی قتل عام کے محرکات کا جائزہ لیں گے مگراس سے قبل ایک نظر برما کے جغرافیائی، طبعی حالات اور محل وقوع پر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
برما جس کا دوسرا نام ـ میانمار بھی ہے جنوب مشرقی ایشیا کا ایک اہم اور دنیا کا پچاس واں بڑا ملک ہے جس کی سرحدیں بنگلہ دیش، چین، بھارت، تھائی لینڈ اور لائوس تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سمندر، پہاڑ، صحراء،وادیاں برما کے طبعی حالات کو چار چاند لگاتی ہیں ۔ یہ ملک اگر خانہ جنگی کا مسلسل شکار نہ ہوتو جنوب مشرقی ایشیا میں سیاحت کے چوٹی کے ممالک میں شمار کیا جائے۔برما کی کل آبادی چھ کروڑ سے زیادہ ہے جس میں قدیم ’’برمار‘‘ اس کے اصل باشندے کہلاتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہاں پر چین، بھارت، بنگلہ دیش حتیٰ کہ عرب ممالک سے بھی لوگ آتے او رآباد ہوتے رہے ہیں۔گوکہ رقبہ زیادہ نہیں لیکن 1930 مربع کلو میٹر کا علاقہ برما کا شہری علاقہ سمجھا جاتا ہے، کچھ نیم خود مختار ریاستوں کو شامل کرکے کل ایک لاکھ مربع میل تک پہنچ جاتا ہے۔ برما میں ویسے تو ایک درجن سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں مگر بالائی برما میں ’’پیو‘‘ زبان جبکہ زیریں حصے میں ’’مون‘‘ زبان بولی جاتی ہے۔
تاریخی اعتبار سے برما مختلف بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے۔1277ء سے 1301ء تک برما میں منگولیا سے آنے والے تاتاریوں کی حکومت رہی۔ تاتاریوں نے حسب معمول برما میں بھی خوب قتل عام کیا۔ تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ تاتاریوں نے جب ریاست برما پرحملہ کیا تو اس وقت کے بادشاہ نے ان کی مزاحمت نہیں کی بلکہ تاتاری فوج کا استقبال کیا۔ اس کے باجود جب وحشی تاتاری برما میں داخل ہوئے تو انہوں نے ایک لاکھ لوگوں کو تہہ تیغ کیا۔ برما کی تاریخ میں یہ پہلا بڑا قتل عام ہے۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں برما انگلستان(برطانیہ) کے زیرتسلط آگیا۔ برطانوی راج کے دور میں اس کا کچھ حصہ آسام میں شامل تھا ۔ 04 جنوری 1948ء تک یہ ملک برطانیہ کی ایک کالونی رہا ۔ برطانوی دور حکومت میں جو ترقیاتی کام ہوئے تھے وہ آج بھی موجود ہیں۔برطانو ی حکومت نے برمی باشندوں کو زرعی سہولیات فراہم کیں، بند تعمیر کیے، سڑکیں بنائیں اور ریلوے کا نظام متعارف کیا۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد برما میں طویل عرصے تک فوجی آمریت رہی۔
سنہ 1962ء میں پہلی مرتبہ فوج نے مقتدر حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پرقبضہ کیا ، درمیان میں چند برس کے سوا سنہ 2012ء تک فوج ہی ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے۔آج بھی ریاست کی اصل طاقت فوج ہی سمجھی جاتی ہے۔ فوج نے ملکی آئین میں مرضی کی ترامیم کرا رکھی ہیں، جو نہ صرف سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کا جواز پیدا کرتی ہیں بلکہ ملک میں ہونے والی خانہ جنگیوں بالخصوص مسلمانوں کے قتل عام کا بھی موجب ہیں۔
مسلمانوں پرعتاب کا آغاز
میانمار میں مقامی مسلمانوں کی تعداد کل آباد ی کا محض04 فی صد ہے۔ یہ لوگ مرکزی ریاست روہنگیا میں صدیوں سے آباد ہیں۔ مقامی مسلمان آبادی کے علاوہ چین کے صوبہ سنکیانگ ، بنگلہ دیش، بھارت اور دوسرے پڑوسی ملکوں کے مسلمان باشندے بھی موجود ہیں۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد حکومت اور فوج کے درمیان سیاسی رسا کشی نے عوام کو بھی اس جنگ میں دھکیل دیا لیکن مسلمانوں پر عتاب کے کچھ دیگر اسباب بھی ہیں۔
امریکی تھینک ٹینک’’واشنگٹن اسٹڈی سینٹر برائے ایشیا‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق برما میں مسلمانوں پر مظالم نئے نہیں بلکہ صدیوں سے مسلمان مقامی آبادی حکومتوں کے مظالم سہتے چلے آ رہے ہیں لیکن مسلمان آبادی کے اجتماعی قتل عام کا آغاز سنہ 1980ء میں اس وقت ہوا جب برما اور بنگلہ دیش کے درمیان مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حدود میں دھکیلنے پر ایک تنازعہ پیدا ہوا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب بنگلہ دیش تازہ تازہ پاکستان سے جدا ہوا تھا اور وہاں پر شیخ مجیب الرحمان کا طوطی بولتا تھا۔
بنگلہ دیشی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ برما کے مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، لہٰذا برمی مسلمان تارکین وطن واپس اپنے ملک جائیں جبکہ برمی حکومت مسلمانوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ سنہ 1992ء میں دونوں ملکوں کے درمیان اقوام متحدہ کی وساطت سے ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بنگلہ دیش میں موجود تمام مسلمان مہاجرین کو واپس میانمار منتقل کرنے پراتفاق کیا گیا تھا۔اس معاہدے کے وقت بنگلہ دیش میں اڑھائی لاکھ برمی مسلمان پناہ لیے ہوئے تھے۔
برما نے اعتراض کیا کہ ہجرت کرکے بنگلہ دیش آنے والے مہاجرین کے بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے بچے بنگالی شہری ہوں گے جن کا برما سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بہانے کی آڑ میں میانمار حکومت نے 21 ہزار بچوں کو بنگالی شہر ی قرار دے کرانہیں ان کے والدین سمیت لینے سے انکار کردیا۔ اس کے علاوہ ہفتے میں صرف ڈیڑھ سو افراد کو برما داخلے کی اجازت دی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ برمی حکومت مسلمانوں کو حیلوں بہانوں سے تنگ کرنا چاہتی ہے اور انہیں بنگلہ دیش ہی میں روکنے کی کوششیں کررہی ہے۔ برما کی حکومت کے اس غیرمنصفانہ طرز عمل پر ڈھاکہ نے کئی بار احتجاج بھی کیا لیکن سب بے سود ثابت ہوا۔
جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد واپس روہنگیا چلی گئی تو برما کی حکومت ایک بار پھر طیش میں آئی اور سول اور ملٹری ملیشیا کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کردیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق سنہ 2001ء کے بعد سے اب تک برما میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمان نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں خواتین کی سرعام اجتماعی عصمت ریزی کی گئی جبکہ 80 ہزار افراد لاپتا ہیں۔ برما کی جیلیں جو ہمیشہ سیاسی قیدیوں سے بھری رہی ہیں اب برمی مسلمانوں سے اٹی پڑی ہیں۔
برما میں تازہ قتل عام 2013ء کے اوائل میں شرو ع ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ روہنگیا کے لوگوں کا مسلمان ہونا بتایا جا تا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ برما میں بدھا کے پرامن پیروکاروں کو کسی بیرونی اشاروں پر مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا جاتاہے۔ بدقسمتی سے مسلمان دانشور اور نام نہاد صحافی برما میں ہونے والے قتل عام کو فرقہ وارانہ فسادات کہہ کر اصل بات کو فراموش کردیتے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات میں دو یا زیادہ متحارب گروپوں کا برابر نقصان ہوتا ہے لیکن پوری دنیا اور بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ برما میں مسلمانوں کی بدھ مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کسی مقام پر کسی بدھو کے قتل کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو وہ الگ بات ہے لیکن جس منظم طریقے سے مسلمان آبادی کہ تہہ تیغ کیا گیا وہ کسی فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ نہیں بلکہ منظم ریاستی دہشت گردی ہے۔
یہ بات اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ریڈ کراس اور ہیومن رائٹس وچ بھی اپنی رپورٹس میں ثابت کرچکی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق روہنگیا میں روز مرہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو قتل اور گرفتار کیا جاتا ہے۔ قتل عام میں نہ صرف بدھ مذہب کے انتہا پسند شامل ہیں بلکہ فوج، پولیس اور ریاستی ادارے بھی اس جرم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
بعض مبصرین کے خیال میں برما میں مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی میں امریکی سامراج کے معروف خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ وہ برما میں مسلمانوں اور بدھوئوں کے درمیان فسادات کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور وہ جہاں کہیں رہتے ہیں مذہبی تعصب کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو قتل کرتے ہیں۔
یہ خفیہ ادارے اپنے من پسند گروپوں پر ڈالر پانی کی طرح بہاتے ہیں اور انہیں مسلسل کشیدگی پیدا کرنے پر اکساتے رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں عراق، افغانستان ، شام اور لیبیا میں دیکھی جاسکتی ہیں۔عراق میں صدام حسین، لیبیا میں کرنل معمزقذافی اور شام میں صدر بشار الاسد کی ’’ناپسندیدہ‘‘ حکومتوں کے خاتمے کے لیے امریکی ڈالر نے کام دکھایا ۔ ان خانہ جنگیوں کا مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا یہ تو ظاہر ہے البتہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور اسلام کی امن پسندی کی ساکھ ضروری متاثر ہوئی ہے۔
برما میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے حوالے سے اس امرکی باریک بینی سے تحقیقات کی بھی ضرورت ہے کہ آخر بدھا جیسے ایک امن پسند مذہبی رہ نما کے پیروکار قتل انسانیت کے جرم میں کیوں کر ملوث ہو رہے ہیں۔بدھا کی تعلیمات تو امن، بھائی چارے ، اخوت و مساوات اور احترام آدمیت پر مبنی ہیں۔بدھا بھگشو گھر گھر امن وآشتی کا پیغام پھیلانے والے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ گھر گھر بھیک ما نگ کر گزارہ کرنے والی یہ قوم اس قدر شدت پسند کیوں ہوگئی ہے۔ کیا بدھوں کے روپ میں برما کی ریاست کی مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش تو نہیں۔
مسلمان اور بدھ صدیوں سے برما میں ایک برادری کے طورپر رہتے چلے آرہے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بدھوئوں کی صفوں میں ایسے لوگ داخل کردیے گئے ہیں جو برما سے مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔ یا کہ مسلمانوں کی خون ریزی کی وجہ بدھ مذہب کو اپنے مٹ جانے کا خوف ہے۔ عالمی ابلاغی ادارے اس تاثر کا جواب بھی اثبات میں دیتے ہیں کہ برما کے بدھ مذہب کے پیروکاروں کے کانوں میں ’’غیر مرئی‘‘ طاقتوں نے یہ وہم بٹھا دیا ہے کہ و ہ مسلمانوں کا قتل عام نہیں کریں گے تو مسلمان ان کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ اس لیے یہ تاثر بھی موجودہے کہ برما میں غیرملکی ہاتھ مسلمانوں کی نسل کشی کرا رہا ہے۔
برما میں مسلمانوں میں خون سے کھیلی جانے والی ہولی ہی سب سے سنگین جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ زندہ انسانوں کو پکڑ کر آ گ کے الائو میں پھینکنا، خواتین اور بچوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ دریائوں میں کو دجانے پر مجبور کرنا، اجتماعی قبروں میں زندہ درگور کرنا اور زخموںسے چور تڑپتے لاشوں پر رقص کرنا کسی بھی مہذب دنیا یا تہذیب میں روا نہیں ہوسکتا لیکن برما میں مسلمانوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بدترین صورت ماضی میں بھی کبھی تسلی بخش نہیں رہی لیکن جو کھیل اب جاری ہے، اس کی مثال بھی کہیں اور نہیں ملتی۔
برما میںانسانی اسمگلنگ کے منظم گروہ کام کررہے ہیں اور مسلمان بالخصوص نابالغ بچے ان کا سب سے آسان شکارہیں۔ وحشی صفت لوگ مسلمانوں کے گھروں پر بلوہ بولتے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ بعد ازاں انہیں مرضی کی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ مسلمان بچوں کی خریدو فروخت کے باقاعدہ اڈے کام کررہے ہیں۔ بعض اوقات ایک مسلمان بچے کو ایک تھیلا چاول یا ڈیزل کے ایک گیلن کے عوض سماج دشمن گروپوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔
یہ مکروہ دھندہ سرعام جاری ہے اور عالمی ادارے اس کی روک تھام میں مکمل طورپر ناکام ہیں۔ شاید اس لیے بھی مظلوم قوم کا تعلق مسلمانوں سے ہے ۔ ویسے بھی دنیا بھر میں مسلمان ہی اس نوعیت کے مظالم سہتے چلے آرہے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، چیچنیا، سنکیانگ اور روہنگیا کے مسلمانوں کی ایک ہی جیسی داستان الم ہے۔ ہرطرف مسلمانوں کا خون ارزاں ہے۔ کشمیر میں 80 ہزار لوگ کالاپتا ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ فلسطین میں اسرائیل نے ایک ماہ میں 2200 معصوم شہری شہید کردیے لیکن عالمی برادری شاباش اسرائیل ہی کو دے رہی ہے، لیکن برما نے جنگی جرائم میں صہیونی ریاست کو بھی ما ت دے دی ہے۔