یہ پچھلے سال ماہ جون کی بات ہے، پاکستانیوں نے عالم حیرت و پریشانی میں یہ خبر سنی کہ امریکی حکومت دنیائے نیٹ پر وسیع پیمانے پر ان کی جاسوسی کررہی ہے۔جو پاکستانی گوگل، سکائی پی، ایم ایس این براؤزر، یاہو، ایپل وغیرہ استعمال کرتا، وہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ریڈار میں آجاتا۔ تب ایجنسیاں مسلسل باخبر رہتیں کہ فلاں پاکستانی نیٹ یا موبائل پر کس سے ملاقاتیں اور باتیں کررہا ہے،کن ویب سائٹوں پر جارہا ہے اور اس کی کیا سرگرمیاں ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستانیوں ہی نہیں بھارتیوں، ایرانیوں، روسیوں درحقیقت دنیائے نیٹ پر ہر قومیت کے باشندوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں اور کسی کو علم نہ تھا کہ ’’بگ برادر‘‘ خفیہ طور پر اس کی سرگرمیاں نوٹ کررہا ہے۔ تقریباً 1949ء میں مشہور امریکی ادیب، جارج اورویل نے اپنے ناول ’’1984‘‘ میں جس عالمی آمرانہ و استبدانہ حکومت کا تصور پیش کیا تھا، دور حاضر میں امریکی حکمران طبقہ اسے شدومد سے اپنا چکا ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں عوام و خواص کی ٹوہ میں لگی امریکی حکومت کے ’’کارنامے‘‘ گھر کے بھیدی ایڈورڈ سنوڈن ہی نے افشا کیے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں… سنوڈن کا شمار دنیا کے بہادر ترین انسانوں میں ہونا چاہیے۔مئی 2013ء تک سنوڈن سی آئی اے کی نہایت پُرکشش اور مراعات سے بھر پور ملازمت کررہا تھا۔
اسے دنیا کی ہر آسائش میسر تھی۔ لیکن جب ضمیر نے تہیہ کرلیا کہ وہ اپنی حکومت کا ظلم و ستم سامنے لائے گا، تو سنوڈن نے عیش و عشرت والی اپنی زندگی کو لات مار دی۔ پاکستانیوں سمیت امریکی چیرہ دستیوں کا شکار ہر قوم کو سنوڈن کی قربانیوں پر اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ آمروں سے ٹکر ہر کوئی نہیں لے سکتا، اس کے لیے ہمت و قربانی دینے کا جذبہ درکار ہوتا ہے۔
اب بیچارا اسنوڈن پچھلے ایک برس سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا ہے۔ روس نے اسے پناہ دے رکھی ہے، مگر امریکی جاسوس شکاری کتوں کی مانند اس کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ بعید نہیںکہ اسرائیلی جاسوس جس طرح 1960ء میں جرمن فوجی افسر، ایڈلف ایخمان کو ارجنٹائن سے اغوا کر لائے تھے، اسی طرح سی آئی اے بھی سنوڈن کو روس میں دبوچے اور امریکا لے آئے۔ امریکی حکومت اسے ’’غدار‘‘ قرار دے چکی اور غداری کی سزا موت ہے۔
ایڈورڈ سنوڈن ایک شرمیلا، بھیڑبھاڑ سے دور رہنے والا نوجوان ہے۔ اسے اپنی تشہیر بھی پسند نہیں، اسی لیے دنیا والے کم ہی جانتے ہیں کہ سنوڈن نے دنیا کی اکلوتی سپرپاور سے کیوں ٹکر لی اور اپنی جان خطرے میں ڈال دی؟ یہی اہم سوالات جاننے کی خاطر اس ماہ اگست میں مشہور امریکی انویسٹیگیٹو صحافی، جیمز بامفورڈ ماسکو پہنچا۔ وہ پچھلے نو ماہ سے کوششیں کررہا تھا کہ کسی طرح سنوڈن سے انٹرویو ہوسکے۔وہ لکھتا ہے :
’’ جب سنوڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ قومی راز چرا کر فرار ہوا اور روسیوں نے اسے پناہ دی، تو امریکا میں اکثر لوگ یہی سمجھنے لگے کہ وہ روس کا ایجنٹ تھا۔ تاہم یہ الزام محض افواہ ہے۔آج ایڈورڈ سنوڈن کسی ملک کا شہری نہیں اور صرف میڈیا میں ہی اس کا چرچا سننے کو ملتا ہے… بہت کم لوگ اس سے ملاقات کرپاتے ہیں ۔ اس سے بھی کم لوگوں کو علم ہے کہ وہ رہتا کہاں ہے۔ تاہم وہ دنیا بھر میں جمہوریت، شخصی آزادی اور امن سے محبت کرنے والے کروڑوں انسانوں کا محبوب ہیرو بن چکا ہے۔‘‘
حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی ’’سنوڈن سیل‘‘ قائم ہوچکا ہے۔ اس خفیہ سیل سے سی آئی اے، ایف بی اے، این ایس اے اور دیگر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ افسر وابستہ ہیں۔ یہ افسر روزانہ میٹنگیں کرتے اور ایسی راہیں ڈھونڈتے ہیں جن سے سنوڈن کو قابو کیا جاسکے۔
تاہم امریکی پہلے کی مانند اتنے طاقتور نہیں رہے کہ روس میں اس کی سن گن لیتے پھریں… خصوصاً ایسے وقت میں کہ روس اور امریکا کے درمیان دوبارہ سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔
ایڈورڈ سنوڈن ماسکو میں ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بھیس بدل کر دکانوں میں خریداری کرتا اور گھومتا پھرتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی روسی بول لیتا ہے۔ بہت کم سیل فون اور کمپیوٹر استعمال کرتا ہے کیونکہ امریکی خفیہ ایجنسی، این ایس اے(National Security Agency) کے ماہرین ایسے جدید آلات ایجاد کرچکے جو بند کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون کے مائیکروفون بھی آن کر دیتے ہیں۔
جب سنوڈن نے پاکستانیوں کو خبردار کیا کہ ان کی پرائیویسی ملیامیٹ ہورہی ہے، تو وہ صرف 29 سال کا تھا۔ اب وہ 31 سال کا ہوچکا اور اس کے نظریات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ کہتا ہے: ’’میں نے جب دیکھا کہ میری حکومت شخصی آزادی پامال کررہی ہے، تو میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ اگر غلط کام کی نشاندہی کرنا جرم ہے، تو میں اس کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ مجھے اپنے سے زیادہ ملک و قوم کی پرواہ ہے۔ لیکن میں یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتا کہ حکومت قانون کو سیاسی ہتھیار بنالے اور اس سے عوام کو ڈرائے دھمکائے تاکہ وہ اپنے حقوق کی خاطر کھڑے نہ ہوسکیں۔ میں اس جرم میں شریک کار نہیں بن سکتا۔‘‘
سنوڈن نے امریکی حکومت کے جو قومی راز انٹیلی جنس خزانے سے اڑائے، اب اس کے پاس نہیں، وہ انہیں روس نہیں لاسکا۔ یہ راز اب تین گروہوں کے پاس ہیں: اول لُک میڈیا جس کے کرتا دھرتا امریکی صحافی گلین گرین اور لارا پوئٹرس ہیں۔ دوم برطانوی اخبار گارڈین اور سوم امریکی صحافی بارٹن گیلمان۔ تاہم امریکا میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کے ذریعے امریکی حکومت ان گروہوں سے زبردستی اپنے راز واپس لے سکے۔
یہی وجہ ہے، امریکی حکمران طبقہ مسلسل متوحش رہتا ہے۔ خوف کے مارے اس کے بال کھڑے رہتے ہیں، اسے کچھ خبر نہیں کہ کب اگلے انکشافات کا سلسلہ شروع ہوجائے جو اقوام عالم میں امریکی حکومت کی مزید جگ ہنسائی و بے عزتی کر ڈالے۔ چنانچہ وہ حملے کا سامنے کرنے کی خاطر ہر لمحہ چوکنا رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنوڈن کی یہ خواہش ہرگز نہیں تھی کہ اس کی وجہ سے امریکی حکومت ٹینشن میں آجائے۔ سنوڈن نے دراصل جس خفیہ دستاویز کی نقول حاصل کیں، وہاں ڈیجیٹل نشان چھوڑ دیئے۔ مدعا امریکی حکومت کو یہ بتانا تھا کہ فلاں فائل اس نے نقل کی ہے اور اسے چوم کر چھوڑ دیا۔
یوں سنوڈن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ محض وسل بلوئر ہے…خلاف قانون و اخلاق کام ہونے پر انتباہی گھنٹی بجانے والا ایک باضمیر انسان! وہ کسی غیر ملک کا گماشتہ یا جاسوس نہیں۔
یوں امریکی حکومت بھی خبردار ہوجاتی ہے۔ وہ پھر مناسب اقدامات کرتی تاکہ مستقبل میں کوئی اور شخص قومی راز پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ سنوڈن کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسی، این ایس اے نے اس واقعے سے کوئی سبق نہیں لیا۔ بس یہ خبر منظر عام پر لے آئی کہ سنوڈن سترہ لاکھ دستاویز لے کر بھاگ گیا۔ حالانکہ سنوڈن نے بہت کم کی نقول بنائی تھیں۔ایڈورڈ سنوڈن کو شک ہے کہ دستاویزی نقول میں ایسا مواد بھی شامل ہے جسے امریکی حکومت اپنے لیے تباہ کن اور خطرناک سمجھتی ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’میرا خیال ہے، ان نقول میں ایسی شُرلی (Smoking Gun) چھپی ہے جو چلی تو سیاسی طور پر پوری حکومت کو جلا ڈالے گی۔ لیکن یہ شرلی وہ لوگ بھی نہیں ڈھونڈ پائے جن کے پاس نقول موجود ہیں۔ انہیں اسے تلاش کرنا چاہیے۔‘‘
ان دستاویز میں کس نوعیت کے راز پوشیدہ ہیں، یہ سنوڈن بھی نہیں جانتا۔ سنوڈن نے آج تک یہ بھی نہیں بتایا کہ اس نے قومی راز کیسے چرائے تاہم ماہرین کمپیوٹر بتاتے ہیں، اس نے ایک خاص قسم کا سافٹ ویئر ’’ویب کرالر(Web crawler) استعمال کیا۔ اس سافٹ ویئر کی مدد سے کمپیوٹر ڈسک یا ڈسکوں میں مخصوص الفاظ و جملوں والی کوئی بھی فائل یا فائلیں ڈھونڈنا ممکن ہے۔
حال ہی میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا۔ یہ کہ سنوڈن کے نام پر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کمین گاہوں میں چھپا کوئی اور شخص بھی اس کے نام سے خفیہ دستاویزات افشا کررہا ہے۔ سنوڈن اس متعلق کوئی بات کرنے سے انکاری ہے، مگر مغربی میڈیا یہ حقیقت جان چکا۔
وسط اگست میں مشہور جرمن رسالے،دیر اسپیگل نے ایک خصوصی رپورٹ میں افشا کیا کہ این ایس اے جرمنی میں بھی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں اور اسے جرمن انٹیلی جنس ایجنسی، بی این ڈی کا تعاون حاصل ہے۔ رپورٹ میں وہ ٹاپ سیکرٹ ’’معاہدہ دوستی‘‘ بھی شائع ہواجو این ایس اے اور بی این ڈی کے مابین 2002ء میں انجام پایا تھا۔ دیر اسپیگل نے رپورٹ کے آخر میں بتایا کہ یہ مواد اسے ایڈورڈ سنوڈن سے حاصل نہیں ہوا۔
یہ سچائی عیاں کرتی ہے کہ سنوڈن کی جرأت و حق پرستی نے امریکی انٹیلی جنس طبقے میں موجود دوسرے لوگوں کے ضمیر بھی جگا دیئے۔ سنوڈن امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خرابیاں کچھ یوں اجاگر کرتا ہے:’’ان میں کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس یا حساب کتاب موجود نہیں۔ افسران بالا کو علم ہی نہیں کہ کیا کچھ اندر آتا اور باہر جاتا ہے۔ اگر یہ بات ہے تو امریکی عوام خصوصاً این ایس اے پہ کیونکہ اعتماد کرسکتی ہے جو ان کا نجی و ذاتی ریکارڈ محفوظ کرنے میں محو ہے۔‘‘
امریکی عوام کے زبردست احتجاج نے آخر سیاستدانوں کو بیدار کر ہی دیا۔ 19 جون کو امریکی قومی اسمبلی (ایوان نمائندگان) میں ارکان نے یہ بل پیش کیا کہ این ایس اے سے یہ اختیار چھین لیا جائے کہ وہ وارنٹ کے بغیر امریکیوں کی ای میلوں اور فون کالوں کا ریکارڈ جمع کرتی پھرے۔ یہ بل 293 ارکان نے منظور کرلیا، صرف 123 نے مخالفت میں ووٹ ڈالے۔
اس موقع پر ارکان ایوان نمائندگان نے ایک بیان میں کہا: امریکی عوام یہ دیکھ کر بجا طور پر پریشان ہیں کہ انہی کی حکومت ان کی ٹوہ میں لگی ہے اور نجی ڈیٹا محفوظ کررہی ہے۔ وسیع پیمانے پر عوام کی جاسوسی اب مزید نہیں چل سکتی۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ اگر عام سا نوجوان، ایڈورڈ سنوڈن بہادری نہ دکھاتا، تو امریکی حکومت اپنی عوام اور مخالف اقوام کی جاسوسی کرنے پر زور و شور سے جتی رہتی اور اسے کسی قسم کا احساس ِگناہ نہ ہوتا۔سنوڈن قومی دستاویز لیے 20 مئی 2013ء کو ہوائی سے ہانگ کانگ روانہ ہوا۔ تب اسے قطعاً احساس نہ تھا کہ یہ دستاویزات دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیں گی۔ وہ کہتا ہے:
’’تب میرا خیال یہی تھا کہ لوگ ایک نظر دستاویز دیکھ کر اپنے کاموں پر لگ جائیں گے۔‘‘
مگر ان دستاویزات نے امریکا سے لے کر پاکستان تک کئی ممالک کو ہلا ڈالا۔ خصوصاً دنیائے انٹرنیٹ میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جاسوسی عالمی بحث مباحثے کا مرکز بن گئیں۔ تب لاطینی امریکا کے کئی ممالک نے امریکا کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُدھر یورپ میں بھی امریکیوں کے خلاف شور مچا، نتیجتاً صدر اوباما اور کانگریس کو معذرت خواہانہ رویّہ اپنانا پڑا۔
رفتہ رفتہ امریکا میں سنوڈن کے متعلق بھی رویّہ تبدیل ہوگیا۔ پہلے امریکی عوام کی اکثریت اسے روس کا جاسوس، غدار اور بزدل سمجھتی تھی جس نے ملک و قوم کو دھوکا دیا۔ لیکن اب لاکھوں امریکی جان چکے کہ سنوڈن نے درحقیقت انہیں ایک آمرانہ و سفاکانہ حکومت کے پنجوں سے رہائی دلوائی… وہ حکومت جو چھپ کر ان پر نظر رکھے ہوئے تھی۔
ایڈورڈ سنوڈن آج عالمی شہرت یافتہ شخصیت بن چکا، مگر وہ بوجوہ اپنی ذات کے متعلق زیادہ باتیں نہیں بتاتا۔ اول وہ قدرتاً شرمیلا اور بھیڑ بھاڑ سے دور رہنے والا انسان ہے۔ پھر وہ اپنے خاندان کو تنازعات میں نہیں گھسیٹنا چاہتا۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ شہرت اور تعریفوں کے پل اسے مغرور و متکبر نہ بنادیں۔ یوں ظلم و جبر کے خلاف اس کی چلائی تحریک کو بھی نقصان پہنچے گا۔بہرحال سنوڈن کی آپ بیتی عیاں کرتی ہے کہ ایک منکسرالمزاج اور خاموش طبع نوجوان رفتہ رفتہ اپنی حکومت سے کیونکہ برگشتہ ہوا اور آخر ایسا فیصلہ کیا جسے کم ہی انسان اپنا پاتے ہیں۔
21 جون 1983ء کو پیدا ہونے والے سنوڈن کا بچپن امریکی شہر، میری لینڈ کے مضافاتی علاقے میں گزرا جس کے قریب ہی این ایس اے کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔ اس کا باپ، لونی کوسٹ گارڈ میں وارنٹ آفیسر تھا اور ماں مقامی عدالت میں کلرک! بہن جیسکا وکیل بن کر ایک سرکاری ادارے میں کام کررہی تھی۔ غرض سنوڈن کا پورا خاندان حکومت سے وابستہ تھا۔
فطرتاً والدین یہی چاتے تھے کہ ’’ایڈ‘‘ بھی پڑھ لکھ کر سرکاری ملازمت اختیار کرلے۔ ویسے بھی سنوڈن بچپن سے بہت ذہین اور پڑھاکو بچہ تھا۔ حتیٰ کہ دو آئی کیو ٹیسٹوں میں اس نے 145 سے زیادہ نمبر لے کر والدین کا سر فخر سے اونچا کردیا۔
عام بچے تو ٹی وی دیکھتے یا کھیلتے، سنوڈن مطالعہ کتب میں کھویا رہتا۔ اسے خصوصاً دیو مالا اور طلسمات پر لکھی کتابیں بہت بھاتیں، وہ گھنٹوں کتب پڑھنے میں محو رہتا۔ سنوڈن بتاتا ہے ’’مطالعے کے ذریعے ہی مجھے سمجھ آئی کہ چیلنجوں کا کیونکر مقابلہ کیا جائے اور یہ کہ جب شر اور خیر کی جنگ ہو، تو کس کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘
سنوڈن جیسے ہی امریکی حکومت کا کچا چٹھا کھولنے لگا، امریکی میڈیا تبھی اس سرتوڑ کوشش میں لگ گیا کہ کسی طرح ’’غدار‘‘ کی خامیاں و برائیاں سامنے لاسکے۔ چناں چہ میڈیا نے یہ بات خوب اچھالی کہ سنوڈن صرف میٹرک پاس ہے۔ یعنی وہ جاہل و ناخواندہ ہے، محض اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ترقی کرتا چلا گیا۔ یہ امر امریکی میڈیا کی منافقت اجاگر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بیچارا سنوڈن ایک وبائی بیماری کا نشانہ بن گیا۔ وہ پھر نو ماہ تک صاحب فراش رہا۔ جب صحت یاب ہوا، تو مقامی کالج میں داخلہ لے لیا۔
سنوڈن کو بچپن سے کمپیوٹر پر کام کرنا پسند تھا۔ اس کا ایک ہم جماعت سافٹ ویئر کمپنی چلاتا تھا۔ سنوڈن نے بل گیٹس، سرگئی برن، لیری پیچ، مائیکل ڈیل وغیرہ کے مانند تعلیم ادھوری چھوڑی اور سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرنے لگا۔ یہ 1998ء کی بات ہے۔
11 ستمبر 2001ء کو سنوڈن دفتر جارہا تھا کہ گاڑی کے ریڈیو پر اس نے سنا، طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گئے۔ سبھی امریکیوں کے مانند وہ بھی اس حادثے سے بہت متاثر ہوا۔ حتیٰ کہ جب 2004ء میں امریکی افواج نے فلوجہ، عراق پر حملہ کیا، تو سنوڈن رضا کارانہ طور پر اس میں شامل ہوگیا، وہ کہتا ہے:
’’تب مجھے بھی امریکی حکومت کے اس پروپیگنڈے پر یقین آگیا کہ عراق خطرناک ہتھیار بناکر امریکیوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ امریکی حکومت سچ بول رہی ہے۔ لہٰذا جذبہ حب الوطنی کے تحت میں بھی فوج میں جا شامل ہوا۔‘‘
سنوڈن عراق اس لیے بھی گیا تاکہ عربی زبان سیکھ سکے۔ اسے نئی زبانیں سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ وہ تمام داخلہ امتحانات میں پاس ہوگیا مگر جب عسکری تربیت کا مرحلہ آیا، تو اس کی کمزور جسمانی ساخت آڑے آگئی۔ ایک حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور اسے مجبوراً فوج سے رخصت ہونا پڑا۔وہ کچھ ہی عرصے فارغ رہا۔ اسے ایک ٹاپ سیکرٹ سرکاری ادارے میں بحیثیت سکیورٹی گارڈ ملازمت مل گئی۔ وہ جھوٹ پکڑنے کے امتحان (پولی گراف ٹیسٹ) میں کامیاب رہا۔ اس کا ماضی بھی اچھی طرح کنگھالا گیا۔ یوں سنوڈن عالم بے خبری میں انٹیلی جنس کی خفیہ دنیا کا حصہ بن گیا۔
جب افسران بالا کو علم ہوا کہ وہ معاملات کمپیوٹر میں طاق ہے، تو سی آئی اے نے اسے اپنے گلوبل کمیونیکیشنز ڈویژن میں بھرتی کرلیا۔ ایلیٹ امریکی خفیہ ایجنسی کے صدر دفتر (لینگلے، ورجینا) میں واقع یہ ڈویژن کمپیوٹر سے متعلق معاملے و مسائل حل کرتا ہے۔
سنوڈن بتاتا ہے: میں سولہ برس سے کمپیوٹر کی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر انجینئرنگ کررہا تھا۔ سو مجھے کام سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ دنیائے نیٹ میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جتنی بھی پوشیدہ و عیاں ویب سائٹس واقع ہیں، ان سب کی نیٹ ورکنگ سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر میں ہی ہوتی ہے۔‘‘ لیکن سنوڈن کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ جدید ترین خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی پھوں پھاں ظاہری ہے، حقیقت میں وہ آؤٹ آف ڈیٹ ٹیکنالوجی بھی رکھتی ہے۔
بہرحال سنوڈن کے کام سے افسران بالا بہت خوش ہوئے۔ چناں چہ اسے سی آئی اے کے خفیہ تربیتی سکول بھجوا دیا گیا۔ وہاں ماہرین کمپیوٹروں کے ذریعے جاسوسی و چھان بین کرنے کے مختلف طریقے سیکھتے تھے۔ اس کی تربیت چھ ماہ جاری رہی اور مارچ 2007ء میں ختم ہوئی۔
سنوڈن کو پھر جنیوا، سوئٹزر لینڈ بھجوا دیا گیا۔ وہاں سی آئی اے جاننا چاہتی تھی کہ سوئس بینک امیر کبیر امریکیوں کو کس طرح پھانستے اور امریکی سرمایہ اپنے ہاں لاتے ہیں۔ سنوڈن اقوام متحدہ کے اہل کار کی حیثیت سے جنیوا پہنچا۔ اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اور جھیل کنارے عمدہ رہائش!
جنیوا ہی میں پہلی بار سنوڈن نے جانا کہ سی آئی اے کے ایجنٹ مقصد براری کی خاطر اخلاقیات و قانون بھی پامال کر ڈالتے ہیں۔ آج کی طرح تب بھی انہی ایجنٹوں کو ترقی ملتی تھی جو زیادہ سے زیادہ مردوزن کو اپنا نائب بنالیں۔ یہ مقامی ایجنٹ اصطلاحاً سی آئی اے کے ’’آپریٹیو‘‘ کہلاتے ہیں۔
یہ آپریٹیو بھی کامیابی کی خاطر اخلاقی اقدار ملیامیٹ کر ڈالتے ہیں۔ مثلاً جنیوا میں ان کا چلن تھاکہ وہ شکار کو اتنی شراب پلاتے کہ نشے میں دھت ہوکر جیل پہنچ جاتا۔ آپریٹیو پھر اس کی ضمانت کراتے اور یوں اسے اپنے دام میں پھانس کر اس سے راز اگلوالیتے۔ مگر اس روش نے امریکیوں کو سوئٹزر لینڈ میں بدنام کر ڈالا۔ وہاں مشہور ہوگیا کہ امریکی اپنی غرض کی خاطر گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔
جینوا میں سنوڈن کی ملاقات ایسے کئی ایجنٹوں اور جاسوسوں سے ہوئی جو عراق جنگ اور امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ امریکا کس جہنم میں جا پھنسا ہے۔
چونکہ سنوڈن کمپیوٹر سسٹمز اور نیٹ آپریشنز کے کام سے متعلق تھا، لہٰذا وہ دوسروں کی نسبت زیادہ جانتا کہ امریکی حکومت کیونکر افغان و عراقی جنگیں چلا رہی ہیں۔ عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ حقائق جان کر سنوڈن پریشان ہوگیا۔ کہتا ہے:
’’وہ صدر بش کا زمانہ تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تاریک دور شروع ہوچکا تھا۔ انسانوں پر تشدد ہوا اور بغیر وارنٹ فون کالیں سنی جانے لگیں۔‘‘
سنوڈن نے فیصلہ کیا کہ وہ وسل بلوئر بن کر تلخ حقائق دنیا والوں کے سامنے لے آئے۔ مگر اسی دوران امید و تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے بارک اوباما امریکی افق پر نمودار ہوگئے۔ وہ بتاتا ہے:’’اوباما جو خیالات و نظریات سامنے لے کر آئے، ان سے ناقدین بھی متاثر ہوئے، وہ اخلاقیات اور قانون کی بالادستی چاہتے تھے۔‘‘
مگر صدر بن کر بارک اوباما اپنے تمام دعوے و نعرے بھول گئے۔ تبدیلی تو کیا آتی، وہ سابقہ بش حکومت کی پالیسیوں کو زیادہ زور و شور سے عملی جامہ پہنانے لگے۔ اس امر نے سنوڈن کو مزید بھڑکا دیا۔ تاہم اپنی حکومت کے خلاف لاوا اندر ہی اندر ابلتا رہا اور اسے باہر نکلنے میں کچھ وقت لگا۔
2010ء میں افسروں نے سنوڈن کو سی آئی اے سے این ایس اے بھجوا دیا۔ ڈیل کمپنی اس انٹیلی جنس ایجنسی کی اہم کنٹریکٹر تھی، وہاں اسے بہ حیثیت ٹیکنیکل ایکسپرٹ ملازمت مل گئی۔ حادثہ 9/11 کے بعد جب این ایس اے کو وافر پیسہ ملا، تو وہ اپنے کام ٹھیکے داروں کے سپرد کرنے لگی تھی۔
سنوڈن کی نئی تقرری ٹوکیو، جاپان میں ہوئی۔ وہاں اس نے جاپانی حکومت اور افواج کے اعلیٰ افسروں کو سکھایا کہ چینی ہیکر حملہ کریں تو وہ اپنے نیٹ ورک کیونکر محفوظ بنائیں۔ مگر سنوڈن کا ضمیر اسے مسلسل کچوکے دیتا رہا۔
این ایس اے آکر اس پر نئے انکشاف ہوئے۔ اول یہ کہ امریکی حکومت ڈرون اور ایجنٹوں کے ذریعے افغانستان، پاکستان ،یمن وغیرہ میں’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ میں ملوث ہے۔ دوم یہ کہ این ایس اے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں پر نظر رکھتی ہے۔ وہ محیر العقول قدرت رکھتی ہے کہ شہر میں کسی کی بھی حرکات نوٹ کرسکے۔دراصل ہر موبائل، کمپیوٹر اور برقی سگنل خارج کرنے والی الیکٹرونک شے ایک مخصوص شناختی نشان بھی چھوڑتی ہے۔یہ ’’ایم اے سی ایڈریس‘‘(MAC address) کہلاتا ہے۔ اسی شناختی نشان کی بنیاد پر این ایس اے آپ کی سرگرمیاں اور نقل و حرکت پر بھی نظر رکھ سکتی ہے۔
مارچ 2012ء میں سنوڈن کو جزیرہ ہوائی بھجوا یا گیا۔ وہاں ڈھائی لاکھ مربع فٹ رقبے پر پھیلے وسیع و عریض زیر زمین بینکر میں امریکی حکومت نے ’’انفارمیشن شیئرنگ سینٹر‘‘ قائم کررکھا تھا۔ اس ادارے میں تمام امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ڈیٹا ہم آہنگ کیا جاتا ۔ وہاں سنوڈن سینئر ٹیکنالوجسٹ کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اسی ٹاپ سیکرٹ ادارے میں مصروف کار رہ کر سنوڈن پر حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔
ایک انکشاف یہ ہوا کہ این ایس اے کے سربراہ، کیتھ الیگزینڈر نے ایجنٹوں کو حکم دے رکھا ہے کہ امریکا مخالف رہنماؤں کی نیٹ سرچنگ پر نظر رکھیں۔کوئی پورنو گرافی میں ملوث ہو تو اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ سنوڈن بتاتا ہے:
’’ذاتی خامیوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا امریکی حکومت کا پرانا حربہ ہے۔ مثلاً ایف بی آئی نے مارٹن لوتھر کنگ کے معاشقوں کو بہت اچھالا تاکہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں۔‘‘
ہوائی میں سنوڈن کو بیشتر ٹاپ سیکرٹ دستاویزات تک رسائی حاصل تھی لیکن وہ سبھی فائلوں کو کنگھالنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس نے بہ حیثیت انفراسٹرکچر اینالسٹ این ایس اے کے سب سے بڑے کنٹریکٹر، بوز ایلن (Booz Allen)میں ملازمت کرلی۔
بوز ایلن میں کام کرتے ہوئے ہی سنوڈن پر اگلا انکشاف ہوا۔ یہ کہ این ایس اسے دنیا بھر میں مطلوبہ انفرادی یا سرکاری کمپیوٹر میں ڈیٹا چرانے والا پروگرام داخل کرتی اور اس سے سینکڑوں گیگابائٹ پر مشتمل ڈیٹا چرالیتی ہے اور یہ دن دیہاڑے چوری اتنے خفیہ انداز میں ہوتی ہے کہ شکار کو پتا ہی نہیں چلتا قابل ذکر یہ کہ این ایس اے اس چوری میں کسی قسم کا احساس جرم یا ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں کرتی۔
بوزایلن میں سنوڈن کا بنیادی کام چین سے ہونے والے سائبر حملوں کا تجزیہ کرنا تھا۔ اسی کام کے دوران نوجوان پر اگلا انکشاف ہوا۔ یہ کہ امریکی حکومت چینی یونیورسٹی، ہسپتالوں اور دیگر سویلین اداروں کو بھی سائبر حملوں کا نشانہ بناتی ہے۔ سرکاری اور عسکری ٹارگٹ اس کے علاوہ تھے۔ اس انکشاف نے بھی سنوڈن کو امریکی حکومت سے مزید متنفر کردیا۔
این ایس اے کی دستاویز کے مطالعے سے سنوڈن کو ایک اور راز معلوم ہوا۔ پتا چلا کہ ایلیٹ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے بلف ڈیل نامی قصبے میں ایک وسیع و عریض اور انتہائی خفیہ ڈیٹا سینٹر بنا رکھا ہے۔ وہاں کھربوں صفحات جتنا ڈیٹا محفوظ کرنا ممکن ہے۔ اس سینٹر میں امریکیوں اور غیر ملکیوں کی کالوں، فیکسوں، ای میلوں اور دیگر مواد پر مبنی ڈیٹا جمع ہوتا ہے۔
امریکی حکومت کے ’’سیاہ کارناموں‘‘ سے واقف ہوکر سنوڈن نے تہیہ کرلیا کہ وہ انہیں دنیا والوں کے سامنے لائے گا۔ سوال یہ تھا کہ کب؟ آخر مارچ 2013ء کو یہ موقع آپہنچا۔ اسی دن این ایس اے کے سربراہ نے بائبل پر قسم کھا کر ایک سینٹ کمیٹی کو بتایا ’’این ایس اے لاکھوں امریکیوں کی نجی معلومات ہرگز اکٹھی نہیں کررہی۔ یہ محض افواہ ہے۔‘‘
اس سفید جھوٹ پر باضمیر نوجوان کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ اس نے یو ایس بی پکڑی اور وہ دستاویز اس میں منتقل کرنے لگا جو ’’جمہوریت پسند‘‘ اور انسانی حقوق کی ’’چیمپئن‘‘ امریکی حکومت کا حقیقی مکروہ چہرہ دکھاتی ہیں۔ دوماہ بعد بذریعہ ہوائی جہاز سنوڈن ہانگ کانگ روانہ ہوگیا۔ اس کی جیب یو ایس بیوں سے بھری ہوئی تھی۔
اسلام میں پرائیویسی
دین اسلام پہلا مذہب ہے جس میں ایک فرد کی پرائیویسی یا ذاتی زندگی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ذرا دیکھیے، قرآن پاک میں کن الفاظ میں پرائیویسی پامال کرنے والوں کو ڈانٹا گیا ہے:
’’اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کرو اور نہ کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم پسند کرو گے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاؤ؟ (سورۃ الحجرات:12)
ممتاز مفسر، ابن کثیر اپنی تفسیر میں درج بالا آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اے مسلمانو! تجسّس کرو نہ تحسّس، نفرت کرو اور نہ ہی تدابر، اور بھائیوں کی طرح مل کے رہو۔‘علامہ اوزاعی کا کہنا ہے ’’تجسّس سے مراد ہے، کوئی چیز ڈھونڈنا۔ تحسّس کے معنی ہیں، بغیر اجازت لوگوں کی گفتگو سننا اور ان کے گھروں میں جھانکنا جبکہ تدابر کا مطلب ہے، ایک دوسرے سے کٹ جانا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر جلد نہم، صفحہ 201)
اسلام میں نجی و ذاتی زندگی گزارنے کا حق کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا ثبوت ایک حدیث سے ملتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت اللعالمین اور خیر البشر ہیں۔ مگر آپؐ نے فرما رکھا ہے:’’اگر کوئی تمہارے گھر میں جھانکے، اور تم پتھر مار کے اس کی آنکھ پھوڑ دو تو یہ گناہ نہیں ہوگا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسرائیل۔۔۔ موجاں ای موجاں
جزیرہ ہوائی پہنچ کر سنوڈن پہ پہلا انکشاف یہ ہوا کہ دنیائے انٹرنیٹ میں کروڑوں انسانوں کی جاسوسی سے این ایس اے کو جو ڈیٹا حاصل ہوا، وہ اسے من و عن اسرائیل کو فراہم کررہی ہے۔ اس ڈیٹا میں امریکا میں مقیم ان لاکھوں عربوں اور فلسطینیوں کی ای میلیں اور فون کالیں بھی شامل تھیں جن کے رشتے دار مقبوضہ فلسطین میں مقیم تھے۔ سنوڈن کہتا ہے:
’’میں امریکی و اسرائیلی حکومتوں کا تعاون دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسرائیلی اس ڈیٹا کے ذریعے باآسانی فلسطینیوں کو ٹارگٹ کرسکتے تھے۔ میں اسے انفرادی آزادی کی پامالی کے بدترین واقعات میں شامل سمجھتا ہوں۔‘‘
حکومت کرپٹ کیسے ہوتی ہے؟
ایڈورڈ سنوڈن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ این ایس اے کے افسر اور حکومتی اہلکار دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عوام کی کالیں و ای میلیں ٹیپ نہیں ہورہیں۔ یہ صریح جھوٹ چھوٹے انٹیلی جنس اہلکار ایک کان سے سنتے دوسرے سے نکال دیتے۔ وہ کہتا ہے:
’’یوں میرے ساتھیوں نے فرد کی آزادی پامال کرنے والی حکومتی کارروائی کو معمولی بدی سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ انسان اسی طرح چھوٹی چھوٹی برائیوں، قانون توڑنے کے واقعات، جھوٹوں اور دھوکہ بازی کو نظر انداز کرنے لگے، تو وہ اسے زندگی کا چلن سمجھنے لگتا ہے۔
’’پندرہ، بیس، پچیس سال بعد انسان برائیوں کا ایسا عادی ہوجاتا ہے کہ پھر بڑی سے بڑی برائی بھی اسے حیرت زدہ اور متاثر نہیں کرتی اور یہی خطرناک بات ہے۔ تب انسان کے لیے تمام اخلاقیات اور اصول ضابطے بے معنی بن جاتے ہیں اور وہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والے انتہائی نامعقول نظریے کو درست سمجھنے لگتا ہے۔ تب حکومت اور سرکاری اہل کار عوام کو دھوکا دیتے اور برائی کرتے ہوئے یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ یوں سارا نظام حکومت ہی کرپٹ ہوجاتا ہے۔ امریکی حکومت کا سسٹم بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔
شام جب دنیائے نیٹ سے کٹا
2012ء میں این ایس اے کے ہیکروں نے کوشش کی کہ شام میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کے بنیادی روسٹر میں اپنا پروگرام چھوڑ دے۔ یوں این ایس اے کو موقع مل جاتا کہ وہ شام میں بیشتر انٹرنیٹ ٹریفک کو ریکارڈ کرسکے۔
شام تب پوری طرح خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا لیکن کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پروگرام روسٹر میں انسٹال نہیں ہوسکا۔ یہی نہیں، اس نے روسٹر کو ناقابل استعمال بنا ڈالا۔ چنانچہ شام کے بیشتر علاقوں کا انٹرنیٹ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ مگر شامی حکومت اور عوام، کسی کو علم نہ تھا کہ اس خرابی کی ذمے دار امریکی حکومت ہے۔
اُدھر این ایس اے کے ہیکروں میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف ’’ارے مروادیا‘‘ کے جملے سنائی دیئے۔ اب انہوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ روسٹر درست کردیں۔ انہیں خوف تھا کہ شامی حکومت جدید ترین سافٹ ویئر تک پہنچ سکتی ہے لیکن روسٹر مرمت نہ ہوسکا۔
این ایس اے کی خوش قسمتی کہ شامی حکومت کے ماہرین کمپیوٹر اسی تگ و دو میں لگے رہے کہ دنیائے انٹرنیٹ سے رابطہ بحال ہوجائے۔ انہیں یہ جستجو نہیں تھی کہ خرابی کے منبع تک پہنچا جائے۔ تبھی امریکی سرکاری ہیکروں میں درج ذیل لطیفہ مشہور ہوا جو کسی حد تک سچائی بھی رکھتا ہے: ’’اگر ہم پکڑے جاتے، تو پریشانی کی کوئی بات نہ تھی، ہم فوراً اسرائیل کی طرف انگلی اٹھا دیتے۔‘‘
انتہائی خطرناک سافٹ ویئر : مونسٹر مائنڈ
سنوڈن یہ جان کر حیرت زدہ ہوا کہ امریکی ماہرین کمپیوٹر ایک مہلک اور تباہ کن سافٹ ویئر ’’مونسٹر مائنڈ‘‘ (MonsterMind)ایجاد کرچکے۔ یہ پروگرام دنیائے انٹرنیٹ میں امریکی تنصیبات کی نگرانی کرتا اور ان پر سائبر حملے روکتا ہے۔
مونسٹر مائنڈ کی جدت و ہلاکت آفریں خصوصیت یہ ہے کہ جس جگہ سے سائبر حملہ آئے، وہ اس پر جوابی وار کرتا اور کمپیوٹر کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ سنوڈن کے مطابق مونسٹر مائنڈ کی یہی خاصیت بہت خطرناک ہے۔
وجہ یہ ہے کہ سائبر حملے عموماً چھپ کر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ہیکر چین میں بیٹھا ہے، مگر اس نے حملہ روس میں موجود کمپیوٹر سے کیا۔ ایسی صورت میں مونسٹر مائنڈ نہ صرف غلط طور پر روس پر حملہ آور ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ شکار ہونے والا کمپیوٹر کسی سکول کالج یا ہسپتال میں ہو اور اس کی خرابی سے سارا نظام تلپٹ ہو جائے۔
اس صورت حا ل میں روس نے جوابی وار کیا، تو دونوں سپر طاقتوں کے مابین جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسی لیے سنوڈن نے مونسٹر مائنڈ کو بنی نوع انسان کے خلاف سرگرم عمل ابلیس قرار دیا۔