ادویہ سازی کی عالمی صنعت کھربوں ڈالر پر مشتمل ہے۔ ایشیائی سپر پاور چین اس انتہائی منافع بخش صنعت پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا خواہاں ہے ، اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی تاریخ سے مدد لے رہا ہے۔
چین میں ایلوپیتھک دواؤں پر روایتی چینی ادویات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پچھلے 300 برسوں کے دوران چین نے اس امر کو قابل غور نہیں سمجھا کہ یورپ اور شمالی امریکا میں اس کی روایتی ادویات کو قبول کیا جاتا ہے یا نہیں۔ لندن میں قائم ویسٹ منسٹر یونی ورسٹی میں مشرقی ایشیائی ادویہ کے مضمون پر دسترس رکھنے والے پروفیسر وولکر شیڈ کہتے ہیں کہ چینی ڈاکٹر مغربی ادویات سے واقف ضرور تھے مگر وہ انھیں برتر نہیں سمجھتے تھے۔
اس کے نتیجے میں، اینٹی بایوٹکس (جنھیں ’’جدید ادویات ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ) کی ایجاد کے بعد سے چین ادویہ سازی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ دنیا کی پچاس سب سے بڑی فارماسیوٹیکل اور بایوٹیک کمپنیوں میں سے صرف ایک ’’سائنو فارم ‘‘ چینی ہے۔ تاہم چین نے اب اس انتہائی اہم (اور بے حد نفع بخش) صنعت پر اپنی حکم رانی قائم کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کردی ہے جس پر تاحال مغرب کا اجارہ ہے۔
اس انقلاب کی شروعات چینی شہر تالیان سے ہوئی ہے۔ اگر ڈالیان امریکا میں ہوتا تو نیویارک اور لاس اینجلس کے بعد بہ لحاظ آبادی یہ تیسرا بڑا شہر کہلاتا۔ تاہم دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں37 لاکھ نفوس پر مشتمل یہ شہر 20 گنجان ترین شہروں کی فہرست میں بھی بہ مشکل جگہ بنانے میں کام یاب ہوا ہے۔ بتیجنگ اور شنگھائی کے رہائشی تالیان کو چین کا ’’رومانوی شہر‘‘ کہتے ہیں، کیوں کہ اس شہر کے پارک اور عمارتیں صاف ستھری ہیں۔ خوب صورت ساحل کے کنارے سیروتفریح اور چہل قدمی کرنے کے لیے بے شمار مقامات ہیں۔
یہ تفریحی مقامات اس حقیقت کی نفی کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ شہر گلوبل ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے نمایاں ترین مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ شہر کے مضافات میں تالیان انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل فزکس (ڈی آئی سی پی ) قائم ہے جس میں پندرہ سالہ ’’ہربلوم پروجیکٹ‘‘ پر کام ہورہا ہے۔
یہ پروجیکٹ 2008 میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد چین کے روایتی طریقۂ علاج میں استعمال ہونے والی طبی جڑی بوٹیوں میں موجود تمام مرکبات کو کشید کرنا اور پھر ادویہ سازی کے جدید طریقوں کے ذریعے ان پودوں سے مزید مؤثر اور قابل فروخت ادویہ تیار کرنا ہے۔
روایتی چینی ادویہ کی دنیا بھر میں دست یابی عوامی تعلقات کے فروغ کے ضمن میں چین کے لیے ایک اہم کام یابی ہوگی مگر اس پروجیکٹ کا مقصد اس سے بھی زیادہ اہم ہے: اگر ’’ہربلوم پروجیکٹ ‘‘ اور اس سے ملتے جلتے دوسرے منصوبے کام یاب ہوجاتے ہیں تو ان سے چین کی خام قومی پیداوار میں اربوں ڈالر کا اضافہ ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں ان منصوبوں کی کام یابی عالمی ادویہ سازی کے مرکز کی مغرب سے مشرقی ایشیا میں منتقلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اگر چین نے ایک بار ادویہ کی عالمی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کرلیا تو پھر سارا کھیل بدل سکتا ہے اور سستی ادویہ کا مفہوم بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔
چن میاؤ لی یانگ کو یاد ہے کہ بچپن میں وہ روایتی دوائیں کیسے بُرے بُرے منہ بنا کر کھاتا تھا۔ بیشتر چینی دوائیں جڑی بوٹیوں کو سکھا کر اور پھر گھنٹوں تک پانی میں ابال کر بنائی جاتی ہیں، جن کا رنگ کافی کی طرح مگر بُو انتہائی ناگوار ہوتی ہے۔ اس وقت چن کے ذہن میں یہ خیال آتا تھا کہ کاش وہ وقت بھی آئے جب چینی ادویہ بھی مغربی دواؤں کی طرح استعمال میں آسان او رمؤثر ہوجائیں۔
آج لی یانگ کے ’’ہربلوم پروجیکٹ‘‘ میں یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے بیس سائنس دانوں کی ٹیم کام کررہی ہے۔ یہ بہت سنجیدہ اور محنت طلب کام ہے۔ ماہرین کے مطابق چینی دواؤں میں دس ہزار مختلف اقسام کی جری بوٹیاں استعمال ہوتی ہیں اور ہر جڑی بوٹی سے سیکڑوں اور بعض اوقات ہزاروں مرکبات تیار کیے جاسکتے ہیں۔ لی یانگ کا کہنا ہے کہ سائنس داں روزانہ پانچ سو کے لگ بھگ نمونوں کی جانچ کررہے ہیں اور اب تک وہ ساڑھے سات لاکھ مرکبات کا جائزہ لے چکے ہیں۔
لی یانگ سے ملاقات سے قبل سیولی نے اپنی عملی زندگی کا بیشتر حصہ نیوروٹرانسمیٹرز کی تلاش میں صرف کیا تھا۔ نیوروٹرانسمیٹرز دماغی خلیوں کے مابین پیغام رسانی کرنے والے خلیے ہوتے ہیں۔ ہر نیوروٹرانسمیٹر کا اپنا ریسیپٹر ہوتا ہے، اور ہر ٹرانسمیٹر ریسیپٹر کا سیٹ دماغ کو یہ بتا سکتا ہے کہ جسم کو کیا کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر جب ڈوپامائن (ایک نیوروٹرانسمیٹر) اپنے ریسیپٹر کے ساتھ تعامل کرتا ہے تو اس سے دماغ میں مثبت خیالات جنم لیتے ہیں۔
سائنس داں بے شمار ریسیپٹرز کے بارے میں جانتے ہیں، تاہم وہ نسبتاً کم نیوروٹرانسمیٹرز دریافت کرسکے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم پیانوں کی تمام کلیدوں (کیز) کے بارے میں جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہیں، مگر ان میں سے چند ایک ہی کو دباسکے ہوں۔ سویلی جاننا چاہتا تھا کہ بقیہ کلیدوں کو کیسے دبایا جائے۔ بعدازاں باز دواشناسی ( reverse pharmacology) کے طریقے کے ذریعے مزید ایک درجن نیوروٹرانسمیٹر دریافت ہوئے۔
تاہم 2004ء میں یہ سلسلہ تھم گیا۔ اگرچہ اب کئی ریسیپٹرز ایسے تھے جن کے نیوروٹرانسمیٹرز سائنس دانوں کے علم میں نہیں آئے تھے۔ 2008ء میں سویلی نے ہمت ہار دی۔ اسی دوران لی یانگ کے ایک شاگرد یانگ ژینگ نے اسے تالیان میں قائم ایک تجربہ گاہ میں کام کرنے کی دعوت دی۔ یہاں سویلی کو پتا چلا کہ روایتی چینی ادویہ کی مدد سے باقی رہ جانے والے نیوروٹرانسمیٹرز کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
کئی برس کے بعد سویلی اور یانگ ژینگ نے ایک تحقیق شائع کی کہ corydalis نامی پودے میں ایک مرکب پایا جاتا ہے جو عضلات کی تباہی سے ہونے والی تکلیف کو رفع کرتا ہے۔ عام دردکش ادویہ کے برعکس اس مرکب کی اثرانگیزی میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ا س مرکب کی مدد سے ایسی دافع درد ادویہ بنائی جاسکتی ہیں جو شدید تکلیف کو دائمی طور پر رفع کرسکتی ہیں۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوگی۔ صحت سے متعلق معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں شدید تکلیف سے عارضی نجات بخشنے والی ادویہ کی مارکیٹ کا حجم 635 ارب ڈالر ہے۔ اگر ’’ہربلوم پروجیکٹ ‘‘ کی corydalis کے پودے سے تیارشدہ ادویہ امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظوری حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتی ہیں تو یہ انقلابی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اربوں ڈالرز کا منافع مغرب سے واپس ایشیا میں منتقل ہورہا ہوگا۔
چین میں ظاہر ہے کہ معالجین صدیوں سے جانتے ہیں کہ اگر آپ corydalis کے پودے کو پیس کر (جو مقامی زبان میں یان ہو سُو) کہلاتا ہے، سرکے میں ابالیں تو اس سے بننے والی دوا شدید درد اور عورتوں کو ایام حیض کے دوران ہونے والی تکلیف سے نجات دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کمردرد اور دیگر قسم کے درد میں بھی فوری آرام پہنچاتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ روایتی چینی ادویہ کی مدد سے ایسی دوا بنائی گئی ہو جو بایومیڈیسن کے کڑے معیارات پر پوری اترتی ہوں اور نہ ہی یہ وہ اولین موقع ہے جب منافع کمانے کے لیے روایتی چینی ادویہ کا سہارا لیا گیا ہو۔
1805ء میں اکیس سالہ زیرتربیت دواساز فریڈرک سرٹرنر پوست کے پودے پر تجربات کررہا تھا، جو ایشیا اور یورپ میں اپنے دافع درد خواص کے لیے جانا جاتا ہے اور صدیوں سے چینی طب کا حصہ ہے۔ تجربات کے دوران فریڈرک نے اس پودے سے دس گنا طاقت ور مرکب تیار کرلیا اور اسے مارفین کا نام دیا۔ یہ مرکب آج بھی دافع درد دوا کے طور پر مستعمل ہے۔ فریڈرک کی تحقیق ادویہ کی ایک پوری قسم کی بنیاد بنی جو opioids کہلاتی ہے۔ 2012ء میں صرف امریکا میں opioids کی فروخت 8.34 ارب ڈالر تھی۔
1967ء چینی صدر میں ماؤزے تنگ کے حکم پر ’’پروجیکٹ 23‘‘ کے نام سے ایک خفیہ منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس کا مقصد ملیریا کا علاج دریافت کرنا تھا۔ اس پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے 1972ء میں مروا کے پودے سے artemisinin نامی ایک مرکب حاصل کیا ، جو ملیریا کے جراثیم کے خلاف مزاحمت رکھتا تھا۔ ماؤزے تنگ کی دریافت کی بنیاد پر تیار کی گئی ادویہ ملیریا کے علاج کے لیے دنیا بھر میں استعمال کی جارہی ہیں۔ چینی ادویہ پر کی گئی تحقیق سے چین کے بجائے مغربی ادویہ ساز کمپنیاں فائدہ اٹھاتی رہی ہیں، مگر اب یہ صورت حال تبدیل ہونے والی ہے۔
ادویہ سازی پر تحقیق میں چین کی دل چسپی دراصل اس عالمی تحریک کا حصہ ہے جس کے تحت چین کے علاوہ انڈیا اور برازیل جیسے ممالک نے اپنی روایتی ادویات کی پیداوار بڑھادی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد مغربی دوا ساز کمپنیوں پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی سطح پر سستی ادویہ تیار کرنا ہے۔ بایومیڈیسن پر تحقیق اور ان کی تیاری پر سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ ایک حالیہ تحقیقی مطالعے (اسٹڈی) کے مطابق چین نے 2012ء میں بایومیڈیسن کے شعبے میں ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر 160 ارب ڈالر خرچ کیے، اور اس رقم میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ 2007 سے 2012 کے دوران چین نے بایومیڈیسن پر تحقیق کے شعبے میں خرچ ہونے والی رقم میں ہر سال 33 فی صد اضافہ کیا۔
روایتی ادویہ پر تحقیق پر سرمایہ کاری ہر طرح سے چین کے لیے نفع بخش ہے۔ چینی سرزمین پر اُگنے والے پودوں سے تیار کی گئی نت نئی ادویات عوام کے علاج معالجے میں معاون ہوں گی اور انھیں بیرون ممالک کو فروخت کرکے بھاری زرمبادلہ بھی کمایا جاسکے گا۔ غیرملکی کمپنیوں کو بھی روایتی چینی ادویہ پر سرمایہ کاری میں منافع نظر آرہا ہے، اس لیے وہ بھی شنگھائی میں قائم ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر میں بھاری سرمایہ لگارہی ہیں۔