بے چارے، محکوم، بے بس، عورت کے حکم کے پابند مرد!پریشان نہ ہوں۔ ابھی عورت کی حکم رانی اور برتری برازیل کے ایک قصبے تک ہی محدود ہے۔ وہاں گھریلو امور، مذہب، معیشت اور سماج سے متعلق ہر قسم کا اختیار عورت کے پاس ہے۔ اس راج پاٹ میں مردوں کی حیثیت اور ان کا اثر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انہیں وہی کرنا ہوتا ہے، جو عورت چاہتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں مرد اور عورت کے درمیان برابری کا چرچا تو کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہاں بھی گھر اور باہر برتری مرد ہی کی ہے۔
دنیا کے ہر خطے میں مرد اپنی طاقت، دانائی اور سوجھ بوجھ میں عورت سے بڑھ کر ہونے کا گھمنڈ لیے کسی نہ کسی شکل میں عورتوں کا استحصال کررہے ہیں۔ اگر دنیا بھر کی خواتین برازیلی قصبے کی عورتوں کا راستہ اختیار کر لیں تو عجیب اور دل چسپ صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ خیر، اتنے فکرمند اور سنجیدہ بھی نہ ہوں۔ یہ Noiva de Cordeiro نامی برازیلی قصبے کی عورتوں کی دل چسپ اور حیرت انگیز کہانی ہے۔ البتہ اسے عورتوں کی جانب سے اپنے حقوق کی خاطر لڑنے اور جرأت سے ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے تناظر میں دیکھا جائے تو سبھی کے لیے ایک مثال ہے۔
دنیا کے ہر خطے میں مردوں کا راج ہے اور وہ عورت کی برتری تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ نجی و سماجی زندگی، مذہب، معیشت اور دیگر تمام شعبوں پر مردوں نے گویا قبضہ کر رکھا ہے۔ عورت مجبور بھی ہے، محکوم بھی اور اس کا بری طرح استحصال بھی کیا جارہا ہے، لیکن مذکورہ قصبے کی حکم راں وہاں کی عورت ہے۔ فٹ بال کے کھیل کی وجہ سے مشہور ملک برازیل کے جنوب مشرق میں واقع اس قصبے مردوں کا داخلہ قطعی بند ہے۔
وہاں زندگی کا ہر شعبہ عورت کا محتاج ہے۔ وہی اپنے مذہبی معاملات سے لے کر کھیتی باڑی تک ہر قسم کا فیصلہ کرتی ہیں اور مسائل و مشکلات سے نمٹتی ہیں۔ یہ خوب صورت قصبہ ایک بار پھر ذرایع ابلاغ کی نظروں میں آگیا ہے جس کا سبب یہاں کی خوب صورت خواتین کی جانب سے مردوں کے لیے رائج کیا گیا کوئی نیا قانون نہیں بل کہ شوہر اور بوائے فرینڈ کی تلاش کے لیے کی گئی درخواست ہے۔
چھے سو سے زاید خواتین کی آبادی میں مشتمل اس قصبے میں زیادہ تر کی عمریں 20 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ خواتین شادی شدہ ہیں لیکن قواعد کے مطابق ان کے شوہروں کو قصبے سے باہر جا کر ملازمت کرنی پڑتی ہے اور وہ صرف ویک اینڈ پر ہی اپنے گھر آسکتے ہیں۔ جب کے اٹھارہ سال کی عمر پر پہنچنے پر لڑکوں کو بھی یہاں سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ خواتین کی حکم رانی والے اس قصبے میں کسی بالغ مرد کا داخلہ قطعی ممنوع ہے۔
Noiva de Cordeiro کی خواتین نے دنیا بھر کے مردوں کو اپنے قصبے کا دورہ کرنے اور اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنے کی دعوت دی ہے۔ تاہم Noiva de Cordeiro کی خوب صورت لڑکی سے شادی کرنے والے مرد کو ہفتے میں ایک دن ہی اپنی بیوی کے ساتھ گزارنے کی اجازت ہوگی اور باقی پورے ہفتے اُسے قصبے سے دور ہی رہنا پڑے گا۔اس حوالے سے یہاں کی رہائشی23 سالہ نیلما فرنانڈیز کا کہنا ہے،’’یہاں موجود تمام خواتین اپنی صنف کی حکم رانی میں خوش ہیں۔ یہ خطہ بہت خوب صورت ہے، یہاں کی خواتین بہت خوب صورت ہیں، لیکن لڑکیوں کے لیے مناسب بر (رشتے) کی تلاش ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
نیلما کا کہنا ہے کہ اگر یہاں کنواری لڑکیوں کی کسی لڑکے سے ملاقات بھی ہوتی ہے تو وہ یا تو اس کا کزن ہوتا ہے یا کسی کا ہونے والا شوہر۔
نیلما کا کہنا ہے کہ یہ بات حقیقت ہے کہ ہمارے قصبے پر خواتین کی ہی حکم رانی ہے، لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری لڑکیوں کی طرح ہمیں بھی کسی کی محبت میں گرفتار ہونے، کسی کو چاہنے یا کسی کے چاہے جانے اور شادی کے سپنے دیکھنے کا حق حاصل ہے۔
لیکن ہم لڑکیاں شادی کے لیے اپنے اس پیارے سے قصبے کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتیں، ہمیں یہاں رہنا پسند ہے۔ لیکن ان کے ہونے والے شوہر پر ’’ویمنز ورلڈ‘‘ کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کرنا لازم ہوگا۔ نیلما کا کہنا ہے،’’ہم سب ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہیں جو اپنی زندگی ترک کرکے ہمارے طرزِ زندگی کا حصہ بن سکے۔ لیکن پہلے اُسے ہمارے قوانین اور زندگی کے گزارنے کے ڈھنگ پر متفق ہونا پڑے گا۔‘‘
نیلما بتاتی ہیں کہ حال ہی میں ہم سب نے اپنے کمیونٹی سینٹر کے لیے مل کر ایک بڑی اسکرین والا ٹیلی ویژن خریدا ہے، جہاں سب مل کر ڈرامے، فلمیں اور کھیل کے مقابلے دیکھتے ہیں۔ اور رہی بات خواتین کی مخصوص عادت کی تو وہ بھی ہماری زندگی کا ایک ہم جُزو ہے، ہم ایک دوسرے کی زندگی کے نجی گوشوں سے کپڑوں، بالوں اور ناخنوں تک کی باتیں کرنے کے لیے اچھا خاصا وقت نکال لیتی ہیں۔
اس قصبے میں اپنی زندگی کی 49 بہاریں دیکھنے والی روزالی فرنانڈیز کا کہنا ہے کہ اس قصبے کی بنیاد 1890میں اُس وقت پڑی جب کیتھولک چرچ نے Maria Senhorinha de Limaنامی ایک نوجوان خاتون پر بدکاری کا الزام عاید کرتے ہوئے اُس کی شادی زبردستی ایک مرد سے کرکے برادری سے باہر نکال دیا اور اس کی پانچ نسلوں کے برادری میں داخلے پر پابندی عاید کردی گئی۔ برادری سے بے دخل ہونے کے بعد Maria Senhorinha نے بیلو ویل کے نزدیک پہاڑی علاقے کو اپنا مسکن بنالیا۔ Limaکے ساتھ مردوں کے اس بُرے برتاؤ نے برادری کی دوسری خواتین کو بہت دل گرفتہ کردیا اور رفتہ رفتہ مزید خواتین نے لیما کے گھر کے قریب رہائش اختیار کرنا شروع کردی۔
ابتدا میں مقامی آبادی کی طرف سے لیما اور اُس کے ساتھ رہنے والی دیگر خواتین کو طوائف اور جسم فروش عورتوں کا نام دیا گیا۔ ان خواتین کو دنیا سے الگ تھلگ کرکے بہت بُرا سلوک روا رکھا گیا۔ 1940میں ایک پادری Anisio Pereira نےNoiva do Cordeiro کی ایک 16سالہ لڑکی سے شادی کی اور یہاں ایک چرچ کی بنیاد رکھی۔ Anisio نے قصبے میں مذہب کو جبری طور پر نافذ کرتے ہوئے خواتین کے مے نوشی، موسیقی سننے، بال کٹوانے اور مانع حمل طریقے استعمال کرنے پر پابندی عاید کردی۔1995میں Pereira کے انتقال کے بعد قصبے کی خواتین نے متفقہ طور پر فیصلہ کرلیا کہ اب وہ اس قصبے میں کسی مرد کو یہ حق نہیں دیں گی کہ وہ ان پر حکم چلائے کہ اُنہیں کس طرح جینا ہے۔
روزالی نے بتایا،’’خدا ہمارے دل میں ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتی کہ ہمیں شادی کرنے یا بچے کو baptise (عیسائی بنانے کے لیے پاک پانی میں غوطہ دینے کی رسم) کرنے کے لیے پادری کے سامنے جانے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے پہلے مرحلے میں ان خواتین نے Anisio کے بنائے گئے اُن تمام مذہبی قوانین کو ختم کیا جو مردوں کے لیے بنائے گئے تھے۔روزالی کا کہنا ہے کہ ہم نے خواتین پر مشتمل اس ْقصبے میں مردوں کا داخلہ قطعی طور پر بند کرانے کے لیے ’’نو میل‘‘ پالیسی رائج کی۔
گزشتہ دہائیوں میں مردوں کی طرف سے Noiva do Cordeiro میں قائم خواتین کی حکم رانی ختم کرنے کے لیے مداخلت کی کوششیں کی گئیں ہیں۔ تاہم ہر بار اُنہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج اس دیہی قصبے میں’’گرل پاور‘‘ رائج ہے۔ اس قصبے کی باسی خواتین کا کہنا ہے،’’نہ صرف مذہبی فرائض بل کہ بہت سے ایسے کام ہیں جو ہم خواتین مردوں سے زیادہ بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتی ہیں۔ ہمارا قصبہ زیادہ خوب صورت، زیادہ مُنَظّم ہے۔ ہمارے قصبے میں کھیتی باڑی سے ٹاؤن پلاننگ تک کے تمام کام خواتین سر انجام دیتی ہیں۔‘‘
ہمارے ہاں بھی خواتین کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، جنہیں ہم خواتین کے طریقے سے ہی مزید تنارعہ پیدا کیے بنا حل کر لیتی ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے اپنی ہر شے میں شراکت کرتی ہیں، یہاں تک کہ وہ زمین بھی جس پر ہم کام کرتے ہیں۔ یہاں کسی کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہ سب صرف ایک کا ہے اور یہ ایک ہم سب کا ہے۔