گلی کوچوں میں کھیلے جانے والے ماضی کے مشہور مقامی کھیلوں کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے، بل کہ پچھلی دو دہائیوں تک بھی محلے کے بچوں بڑوں میں یہ کھیل بے حد مقبول ہوا کرتے تھے۔
ایک طرف ان کھیلوں پر کچھ خرچ نہیں ہوتا تھا یا بہت کم خرچ ہوتا تھا، دوسری طرف ان کھیلوں سے ایک مقابلے کی فضاء پیدا ہوتی تھی۔ یہ بچوں میں میل جول اور اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ یہ کھیل جسمانی ورزش کا بھی باعث بنتے تھے اور ذہنوں پر مثبت اثرات بھی چھوڑتے تھے۔
اسکولوں کی تعطیلات کے دنوں میں یہ کھیل اپنے عروج پر ہوتے تھے ۔ مائیں گھروں کا کام کاج اور کھانے پکانے میں مصروف رہتیں اور بچے اپنا تمام وقت ان کھیلوں میں صرف کرتے تھے۔ ایسے ہی چند مشہور کھیلوں کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے:
پہل دوج : پہل دوج کا کھیل آج سے کوئی ڈیڑھ دہائی قبل تک ایک مقبول کھیل ہوا کرتا تھا، جو کہ عموماً لڑکیاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ یا تنہا بھی کھیلا کرتی تھیں۔ اس کھیل کے کل لوازمات میں صرف ایک چاک، کٹم اور زمین کا چھوٹا سے چھے سے آٹھ فٹ لمبا مستطیل قطعہ درکا ہوتا تھا۔
لڑکیاں پہلے اس زمینی قطعہ کو اس طرح جھاڑو لگاکر صاف کیا کرتیں کہ چمک اٹھتا اور پھر چاک کی مدد سے اس کھیل کی لمبی مستطیل کی شکل میں آؤٹ لائن بنایا کرتیں، جس میں ایک سے آٹھ عدد تک کے لیے دو ایک، دو ایک اور دو خانے بنایا کرتیں۔ ساتھ ہی لوہے کا کوئی چھوٹا سا جیومیٹریائی اشکال نما ٹکڑا، جو کہ کٹم کہلایا کرتا تھا، اسے ان خانوں میں باری باری اچھالا یا پھینکا کرتیں، جسے ان خانوں میں ایک ننگے پیر اچھل کود کرتے اٹھایا جاتا تھا اور واپسی نقطۂ آغاز پر اچھل کود کرتے جایا جاتا، تاکہ اگلے عدد تک رسائی کی جاسکے۔
اس مقصد کے لیے انگریزی میں ایک جامع لفظ ’’Hop‘‘ کا استعمال کیا جاتا۔ یہ اچھالے جانے والا کٹم یا کھیلنے والے کا پیر ان چاک سے بنے خانوں کی آؤٹ لائن کو چھوجاتا یا کٹم کہیں باہر جا گرتا تو وہ کھلاڑی اپنی باری ہار جاتا تھا۔
پٹو گرم: یہ دیہات اور شہروں کے گلی کوچوں میں بہت مقبول کھیل ہوا کرتا تھا، جسے عموماً مختلف لڑکوں پر مشتمل دو ٹیمیں آپس میں کھیلا کرتی تھیں۔ ویسے لڑکوں کی تعداد کوئی مخصوص نہیں ہوتی تھی۔ اس کھیل کے کل لوازمات میں ایک ٹینس یا ربڑ کی گیند اور مٹی کے برتنوں اور مٹکوں وغیرہ کے ایسے چھوٹے چھوٹے ٹھیکرے ہوتے تھے جو ایک دوسرے کے اوپر اس طرز پر رکھے جاسکیں کہ وہ ایک چھوٹا سا مینارہ دکھائی دیں۔ گیند دست یاب نہ ہونے کی صورت میں لڑکے ربڑ بینڈ کی مدد سے کاغذ کی گیند بنالیا کرتے تھے۔
اس کھیل کا آغاز یوں ہوتا کہ کچھ فاصلے سے گیند کے نشانے سے اس مینارے کو گرایا جاتا اور پھر اسے دوبارہ کھڑا کیا جاتا۔ لیکن دوبارہ بنائے جانے کے عمل میں دونوں ٹیمیں گیند مار کر ایک دوسرے پر شدید ضرب لگانے اور اس ضرب سے بچنے کا سلسلہ جاری رکھتیں اور کسی کو بھی یہ مینارہ دوبارہ بنانے کا موقع نہ دیا جاتا۔ جب کوئی کھلاڑی مینارہ بنانے کی کوشش کرتا تو اسے مخالف ٹیم کے کھلاڑی اس گیند سے شدید ضرب لگاتے تا وقتے کہ وہ بھاگ کھڑا ہوتا۔ آخرکار مینارہ بنانے والی ٹیم جیت جاتی۔
کوڑا جمال شاہی: کوڑا جمال شاہی کا کھیل ایک بہت ہی مقبول گروپ کھیل ہوتا تھا۔ اس کھیل کے شرکاء ایک گول حلقہ بناکر اکڑوں بیٹھتے تھے اور اپنا سر اپنے گھٹنوں میں دبالیتے تھے۔ اس کھیل کے کل لوازمات میں صرف ایک لمبا کپڑا یا دوپٹہ درکار ہوتا تھا، جوکہ چوٹی یا پراندے کی طرز سا ہوتا تھااور وہ کوڑا یا چابک کہلاتا تھا۔
ایک کھلاڑی ہاتھوں میں کوڑا لہراتا اس حلقے کے گرد گھوما کرتا تھا۔ اکڑوں بیٹھے کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کے پیچھے یہ چپکے سے رکھ دیا جاتا اور اگلا چکر مکمل کیا جاتا تھا۔ اس دوران اگر وہ کھلاڑی اپنے پیچھے رکھے کوڑے کو نہ دیکھتا تو اسے ایک کوڑا لگایا جاتا۔
گِلّی ڈنڈا:دیگر کھیلوں کی طرح گلی ڈنڈا بھی ایک بہت مشہور کھیل ہوا کرتا تھا، جوکہ شہروں اور دیہات دونوں میں یکساں مقبولیت رکھتا تھا۔ یہ کھیل دو یا دو سے زاید کھلاڑیوں کے درمیان کھیلا جاتا تھا۔
اس کھیل کے لوازمات میں ایک گلِّی جو ایک چھوٹی سی درمیان سے موٹی اور کناروں سے نوک دار لکڑی سے بنی ہوتی تھی، اور ڈنڈا ہوتا تھا۔ کھلاڑی اس ڈنڈے کی مدد سے گلِی کو پہلے ہوا میں اچھالتا اور پھر ڈنڈا گھماتے ہوئے ایک شدید ضرب لگاکر جتنا دور ممکن ہوسکے گلی پھینکنا تھا۔ اسی اثناء میں کھلاڑی کو دوڑ لگا کر متعین جگہ کو چھونا ہوتا تھا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کھلاڑی گلی ڈھونڈ لے گلی پھینکنے والے کو دوڑ لگا کر ایک متعین جگہ چھونا ہوتی تھی۔
کنچے: کنچے، بنٹے اور گولیاں بھی کہلاتے تھے۔ یہ شیشے سے بنی سخت، چھوٹی سی گول اور خوب صورت رنگ برنگی گولیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس کھیل کے لیے کچھ گولیاں اور زمین پر ایک چھوٹا سا ہول درکار ہوتا تھا۔
یہ کھیل اس طرح سے کھیلا جاتا تھا کہ کھلاڑی سب سے پہلے گولیوں کو زمین پر بکھیر دیتا تھا اور پھر باری باری زمین پر انگوٹھا رکھ کر کچھ فاصلے پر پڑی دوسری گولی پر نظریں مرتکز کرتے ہوئے، نشانہ لیتا تھا اور پھر اپنی درمیانی انگلی اور دوسرے ہاتھ کی کی انگلی مدد سے اسے یوں ضرب لگاتا تھا کہ وہ گولی زمین پر کیے گئے سوراخ میں چلی جائے۔ یوں وہ کھلاڑی گولیاں سمیٹتا جاتا تھا۔ دیگر کھیلوں کی طرح یہ بھی دو یا دو سے زاید کھلاڑیوں میں کے درمیان کھیلا جاتا تھا۔
چور پولیس: چور پولیس کا کھیل دیگر کھیلوں کی طرح بہت دل چسپ ہوتا تھا۔ اس کھیل کے لیے بچے دو ٹیموں میں تقسیم ہوجاتے تھے۔ ایک ٹیم پولیس کی ہوتی تھی اور دوسری چوروں کی۔ اس کھیل کے لیے کسی قسم کی کوئی چیز درکار نہیں ہوتی تھی۔
اس کھیل میں ایک فرضی جیل میں بند چور جیل توڑ کر بھاگ جاتے تھے اور پولیس ٹیم کا کام یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ لازمی ان چوروں کو پکڑے اور انہیں واپس اسی جیل میں لائے، جہاں سے وہ فرار ہوئے تھے۔ چوروں کا کام یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے پکڑے گئے ساتھیوں کو چھڑا لے جائیں۔ یہ کھیل اس وقت اختتام پذیر ہوتا تھا جب تمام فرضی چور دھر لیے جائیں یا دوسری ٹیم ہار مان لے۔
آنکھ مچولی: شرارتوں سے بھرے اس کھیل کو گھریلو کھیل کا نام بھی دیا جاسکتا ہے، جسے گھر کے سبھی بچے اور بڑے ایک ساتھ گھر میں کھیل سکتے تھے۔ اس کھیل کا طریقۂ کار یہ ہوتا تھا کہ کھیلنے والے اپنے درمیان سے ایک فرد کو چن لیتے تھے، جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی تھی۔ اسے دیگر کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کو پکڑنا ہوتا تھا۔ دیگر شرکاء اس کھلاڑی کے اردگرد رہتے ہوئے اپنا بچاؤ کیا کرتے تھے اور طرح طرح کی شرارتیں بھی کرتے جاتے تھے۔
کھو کھو: دراصل یہ انگریزوں کا بنایا کھیل ہے جسے وہ گو گو کہتے تھے۔ لڑکیوں میں یہ کھیل بے حد مقبول تھا، جسے دیگر کھیلوں کی طرح وہ اپنے گھر، اسکول کے صحن اور گلی کوچوں میں دو ٹیمیں بناکر کھیلتی تھیں۔ اس کھیل میں چاک کی مدد سے ایک لمبی افقی لکیر کھینچی جاتی تھی، جس کے دونوں کناروں پر اور درمیان میں کھلاڑیوں کے کھڑے رہنے کے لیے گول دائرے بنائے جاتے تھے۔ مثلاً اگر ٹیم میں پانچ کھلاڑی ہیں تو چاردائرے بنائے جائیں گے اور صرف پانچواں کھلاڑی مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگا سکتا ہے۔
ان گول دائروں میں کھلاڑی ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھڑے رہتے تھے، یعنی ایک کا رخ مغرب کی طرف اور دوسرے کا رخ مشرق کی طرف ہوتا تھا، مگر اس پانچویں کھلاڑی کو یہ اجازت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس افقی لکیر کو پار کرے۔
اس مقصد کے لیے اسے گول چکر کاٹنا پڑتا تھا، مگر مخالف ٹیم کے کھلاڑی خود کو بچانے کی غرض سے اس افقی لکیر کو پار کرکے دوسری طرف جاسکتے تھے، جنھیں پکڑنے کے لیے پانچواں کھلاڑی ان حلقوں میں کھڑے کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کو کھو کر کے مخالف ٹیم کے کھلاڑی کے پیچھے لگا سکتا تھا، مگر اسے خود اس دائرے میں کھڑا رہنا پڑتا تھا۔