ترکی میں قوم نے بھاری اکثریت سے وزیراعظم طیب اردگان کو وزیراعظم ہاؤس سے ایوان صدر میں پہنچادیاہے۔
ان انتخابات میں گزشتہ بارہ برس سے حکمران جماعت کے سربراہ اور اب تک ملک کے وزیراعظم طیب اردگان کی بڑی اکثریت سے کامیابی نے ان کے ملکی اور بین الاقوامی مخالفین کو شدیدمایوسی کا شکارکیا ہے۔ ترک سیکولر حلقوں کو امید تھی کہ وہ کم ازکم اس بار صدارتی انتخابات میں طیب اردگان کو شکست سے دوچارکریں گے لیکن ان کی یہ کوشش بھی ناکام رہی۔
اگر 10اگست کو منعقدہ انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو 50 فی صد ووٹ حاصل نہ ہوتے تو پھر دوسرے مرحلے کا انتخاب 24 اگست کو ہوناتھا لیکن قوم نے طیب اردگان کو 52فیصد ووٹ دے کرمعاملے کو پہلے مرحلے میں ہی نمٹادیاہے۔ ان کے حریف امیدواروں میں سے اکمل الدین احسان اوگلو کو 38.4 فیصد اور صلاح الدین دیمیرتاس کو 9.8 فیصد ووٹ ملے۔
اس بار ایوان صدر کی طرف دوڑ میں یہی تین امیدوار میدان میں تھے۔ ترکی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب عوام براہ راست صدارتی انتخاب کا حصہ تھے اور اس کے لیے ووٹ ڈالا۔ اس سے پہلے ترک پارلیمان ہی صدرمنتخب کرتی تھی۔ 71سالہ اکمل الدین کو حزب اختلاف کی دو جماعتوں ریپبلیکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) اور قومی موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کی حمایت حاصل تھی۔ یادرہے کہ ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے بانی کمال اتاترک تھے۔ اس جماعت کو طیب اردگان کی حکمرانی سے پہلے نسبتاً زیادہ مقبولیت حاصل تھی لیکن اردگان کے اقتدارمیں آنے کے بعد یہ جماعت ہرگزرتے دن کے ساتھ سکڑتی چلی گئی۔
اکمل الدین احسان اگلو نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کے طور پر دس سال( 2004 ء سے 2014ء) تک خدمات سرانجام دیں۔ وہ صدر کے روایتی کردار کو برقرار رکھنے کا نعرہ لگارہے تھے کیونکہ ان کے مطابق سربراہ مملکت کو ملک کے روز مرہ کے امور میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ بہرحال قوم نے فیصلہ سنادیا کہ طیب اردگان جو بھی نظام دیں گے، وہ ملک وقوم کی بہتری ہی میں ہوگا۔ دوسرے حریف 41 سالہ صلاح الدین دمیرتاس بائیں بازو کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے رہنما ہیں اور کرد اقلیت کے مقبول رہنما ہیں۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا مرکز غریب، مزدور، نوجوان اور دبے کچلے افراد کو بنایا ہے۔
طیب اردگان کو ملک کے سوا پانچ کروڑ سے زیادہ اہل ووٹرز نے اپنا 12 واں صدر منتخب کیاہے۔ یادرہے کہ 60 سالہ اردگان 2003ء سے ترکی کے وزیر اعظم تھے۔ آئین کے مطابق اگلی ٹرم کے لئے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔
انھوں نے قوم سے وعدہ کیاتھا کہ وہ اس انتخاب میں کامیاب رہے تو وہ آئین میں ترمیم کر کے صدر کے رسمی عہدے کو عملی طور پر بااختیار قوت کا محور بنائیں گے۔ قونیہ میں اپنی آخری انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اردگان نے ترکی کے جمہوری اور اقتصادی معیار کو بلند کرنے اور ترکی کو ’عالمی قوت‘ بنانے اور ’عالمی قیادت‘ فراہم کرنے کی بات کہی۔ یادرہے کہ عراق، شام اور یوکرین کی شورش کے درمیان ترکی مغربی دنیا کا ایک اہم اتحادی ہے اور ہمارے نمائندے کے مطابق جو بھی اس ملک کا سربراہ ہوگا اس کے پاس اس اہم جغرافیائی اور سیاسی خطے کی چابی ہوگی۔
دارالحکومت انقرہ میں اپنی جماعت کے مرکزی دفتر کے باہر جمع اپنے حامیوں کے سامنے فتح کا اعلان کرتے ہوئے اردگان نے کہا کہ وہ ملک میں سماجی مفاہمت کا ایک نیا دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ’سماجی مفاہمت کا دور ہے، پرانے ترکی میں پرانی باتوں کو چھوڑیں، آج جو ہمیں پیار کرتے ہیں اور وہ جو جیت نہیں سکے، آج ترکی کی فتح ہوئی ہے۔‘
ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے وابستہ مارک لوئن کا کہنا ہے کہ اردگان فیصلہ کن شخصیت کے مالک ہیں۔ ترکی کی معیشت کا رخ بدل ڈالنے کیلئے ان کے حامی ان سے محبت کرتے ہیں جبکہ ان کے ناقدین ان کے سخت رویے اور اسلامی میلان کے لیے انھیں ناپسند کرتے ہیں۔
برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم ایک تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس سے منسلک ماہر Fadi Hakura کے مطابق یہ انتخابی نتیجہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ الیکشن سے قبل ہی رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ اردگان 54 تا 58 فیصد ووٹ حاصل کر کے یہ انتخابات جیت سکتے۔ انہوں نے کہا، ’’رجب طیب اردگان اس انتخابی نتیجے کو صدر کے عہدے کو زیادہ با اختیار بنانے کے اپنے منصوبوں کے حوالے سے فیصلہ کن مینڈیٹ کے طور پر دیکھیں گے۔‘‘
بارہ برسوں سے طیب اردگان کا کچھ بھی نہ بگاڑسکنے والی بڑی اپوزیشن جماعت ری پبلیکن پیپلزپارٹی کا کہناہے کہ اب اردگان باقاعدہ آمرمطلق بن جائیں گے۔ سب سے زیادہ خطرہ اس بات کاہے کہ چیک اینڈ بیلنس کاپورا نظام کمزور پڑجائے گا۔ وہ سارے ریاستی معاملات صدارتی محل سے چلائیں گے۔
دوسری جانب نیشنلسٹ ایکشن پارٹی کے رہنما دولت باچیلی نے اردگان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے صدر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے دھوکہ دہی اور چالاکی سے کام لیا۔ باچیلی کے بقول اردگان بطور صدر دیکھے جانے کے حوالے سے ’مشکوک اور متنازعہ‘ ہیں۔ نیشنلسٹ ایکشن پارٹی کی طرف سے ان انتخابات میں موجودہ وزیر اعظم کے مرکزی حریف امیدوار اکمل الدین احسان اوگلو کی حمایت کی گئی تھی۔
رجب طیب اردگان گزشتہ 10 سال سے ترکی کے وزیراعظم ہیں ان کے دور حکومت میں ترکی نے بہت تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جبکہ انہوں نے 1923 میں قائم ہونے والے مصطفی کمال اتا ترک کے سیکولر ترکی میں اسلامی اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اردگان کے صدر بننے سے انقرہ اتا ترک کے سیکولر خیالات سے مزید دور ہو جائے گا، ترکی اس وقت نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کا ممبر بننے کا بھی امیدوار ہے۔
واضح رہے کہ رجب طیب اردگان کی حکمران جماعت کی جانب سے پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ملک میں صدارتی نظام کے قیام کے آئینی اصلاحات کی جائیں گی جس سے تمام انتظامی اختیارات صدر کو مل جائیں گے۔ ترکی کا موجودہ آئین 1980 کے فوجی دور میں بنایا گیا تھا جس کی رو سے صدر کے پاس کابینہ کی صدارت، وزیراعظم و دیگر وزراء ، آئین سازی کے اداروں کے ارکان اور اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کا اختیار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ رجب طیب اردوان کی جماعت اے کے پی نے مارچ میں بلدیاتی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی تھی۔
1954ء میں استنبول کے نواحی علاقے ’قاسم پاشا‘ میں پیدا ہونے والے طیب اردگان1976ء میں ترکی کی اسلامی تحریک نیشنل سالویشن پارٹی کے نوجوانوں کے ونگ کے مقامی صدرمنتخب ہوئے۔1994ء میں استنبول کے مئیرمنتخب ہوئے اور1998ء تک اسی ذمہ داری پر رہے۔
اسی سال طیب اردگان کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔ فوج کی حمایت یافتہ سیکولر عدالت نے دس ماہ قید کے لئے جیل بھیج دیا۔ ان کا ’’جرم‘‘ ایک نظم پڑھناتھا۔1999ء میں وہ ایک دوسرے مقدمے میں چارماہ کے لئے قید ہوئے۔2001ء میں طیب اردگان نے ’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘ قائم کی۔ یہ روایتی اسلامی جماعتوں کی نسبت ماڈریٹ تھی۔
یوں اس جماعت نے لبرل اور سنٹررائٹ کے مایوس ووٹرز کو اپنی طرف کھینچا۔2002ء میں اس نوزائیدہ پارٹی نے 35فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومت قائم کرلی۔2003ء میں طیب اردگان پر دس سالہ پابندی ختم ہوئی، یوں انھوں نے ضمنی الیکشن لڑ کر وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ پارٹی نے اس وقت تک عبداللہ گل کو وزیراعظم بنا رکھا تھا۔ 2011ء میں پارٹی نے عام انتخابات میں مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی۔ اس بار اسے 50فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ مارچ 2014ء میں ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تو جسٹس پارٹی نے بھاری کامیابی حاصل کی۔ 12سال تک وزیراعظم رہنے کے بعد جولائی2014ء میں طیب اردگان نے اعلان کیاکہ وہ صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے۔
تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ طیب اردگان جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد ملک کے سب سے مضبوط سیاستدان بن چکے ہیں۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ اب ایک آمر بنتے جارہے ہیں اور ملک کو تقسیم کردیں گے۔ اردگان کے مخالفین مختلف اندازمیں اردگان کی فتح کو دھندلانے کی کوشش کر رہے ہیں مثلاً گولن تحریک کے ایک حامی اخبار ’ٹوڈے زمان‘ کا کہنا ہے کہ ایک ایسے فرد کیلئے جو ترک میڈیا کے 60فیصد حصہ پر کنٹرول رکھتاہو اور حکومت میں ہونے کا فائدہ اٹھارہاہو، اس کے لئے 51.7فیصد ووٹ حاصل کرنا غیرمعمولی کامیابی نہیں ہے‘‘۔ یہ اور اس طرح کی دوسری باتیں کہنا اور لکھنا اب سعی لاحاصل ہے۔ حکمران جسٹس پارٹی کے گزشتہ بارہ برس کے سفرکا جائزہ لیاجائے تو وہ پارلیمانی ، بلدیاتی اور صدارتی انتخاب میں پہلے کی نسبت زیادہ شرح سے لوگوں کا اعتماد حاصل کررہی ہے۔
بارہ سال تک بطوروزیراعظم اقتدارمیں رہنے کے بعد صدر اردگان وہ ایک نیا ترکی قائم کرنے کی طرف جارہے ہیں جس میں ایک دوسرے سے نفرت کی بجائے مصالحت ہوگی۔ یہ کمال اتاترک کے دور سے بالکل مختلف ترکی ہوگا۔ طیب اردگان نے بطور وزیراعظم اپنے مصالحتی ایجنڈے پر عمل کا ایک ثبوت قوم کو دے دیاہے کہ انھوں نے کردوں کو قومی دھارے میں شامل کرلیا ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں تیسرا امیدوار کرد ہی تو ہے۔
اگرچہ نومنتخب صدر اردگان نے کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں مصالحت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے مخالفین کو باور کرادیاکہ وہ ان کی مخالفت اور سازشوں سے پوری طرح باخبر ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیا ترکی، عظیم ترکی، قیادت کرنے والا ترکی آج کامیاب ہوچکاہے۔ ہم ایک دور کے دروازے بند کررہے ہیں۔ اور اب ہم اپنا پہلا قدم اگلے دور میں رکھ رہے ہیں۔ ہم ہراس فرد کا سرنیچا کردیں گے جو ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرہ بنے گا۔
گزشتہ پارلیمانی انتخابات سے پیشتربعض تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ طیب اردگان معروف ترک سکالرفتح اللہ گلن کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں۔ دونوں کے درمیان شدید اختلافات کا نقصان اردگان کو انتخابات میں شکست یا اکثریت کم ہونے کی صورت میں ہوسکتاہے لیکن ان تجزیہ نگاروں کے اندازے مکمل طورپر غلط ثابت ہوئے۔ اس قدر غلط ثابت ہوئے کہ اس بار صدارتی انتخابات سے ’گولن فیکٹر‘ کا ذکر ہی گول ہو گیا۔
طیب اردگان کو ملک کے راسخ العقیدہ مسلمان طبقہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اپنی وزارت عظمی کے ادورارمیں طیب اردگان نے سرکاری تعلیمی اداروں اور دفاتر میں لڑکیوں اور خواتین کیلئے سکارف اوڑھنے کی اجازت دیدی۔ حالانکہ سیکولرز نے اپنے ادوار حکومت میں اس معاملے میں سخت رویہ اختیارکیا۔
طیب اردگان کے ایوان صدر جانے کے بعد تجزیہ نگار اس سوال پر غورکررہے ہیںکہ اب وزیراعظم کون ہوگا؟ اردگان 28اگست تک وزیراعظم کے طورپر ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد معاملات قائمقام وزیراعظم سنبھالے گا۔ اصل وزیراعظم کون ہوگا، اس کا فیصلہ جسٹس پارٹی کی 50رکنی ایگزیکٹوکمیٹی ہی کو کرناہے جو فیصلہ سازی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔
طیب اردگان کی مسلسل نویں کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہ وہی کچھ کررہے ہیں، جس کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ 26سالہ عائشہ نورسالک اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’ آج تک اردگان میری توقعات پر پورے اترے ہیں۔ ان کا وژن، ان کی فکر میرے وژن اور فکر سے قریب تر ہے۔ انھوں نے اس ملک وقوم کو جو کچھ دیا، میں اس پر بہت خوش ہوں۔‘‘ عائشہ نور فیشن ڈیزائنر ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں: ’’میں اردگان کو اس وقت تک ووٹ دیتی رہوں گی، جب تک ان کی پارٹی میری توقعات پر پورا اترتی رہے گی۔‘‘