خواتین کو کم تر سمجھنا صرف ایک براہِ راست رکھا جانے والا رویہ نہیں ہے، بلکہ اس کے مختلف مظاہردیکھنے میں آتے ہیں، جس کی ایک شکل داماد کا رشتہ ہے، یعنی آپ نے جس شخص سے اپنی بیٹی بیاہی ہے، اس کا رویہ اور اس کا مرتبہ۔ سسرال میں داماد کا رشتہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہوتا ہے۔
خصوصاً ساس صاحبہ کو اس رشتے کو خوش گوار اور با وقار بنانے میں کافی لچک اور مصلحت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگر داماد صاحب ناراض ہو جائیں، تو پھر اس کا براہ راست اثر ان کی بیٹی کی زندگی پر پڑتا ہے۔ بہت سے گھرانوں میں ساس اور داماد کے درمیان ایک تلخی سی گھلی ہوئی محسوس ہوتی ہے، زیادہ تر اس کی وجہ بار بار بیٹی کو سکھانا پڑھانا بتایا جاتا ہے۔ دامادوں کی عام شکایت یہ ہے کہ ان کی ساس اپنی بیٹی کو زندگی کے طور طریقے سکھانے کے بہ جائے انھیں مختلف چیزوں کے لیے اکساتی رہتی ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو ماں کو بیٹی سے بات ضرور کرنی چاہیے، لیکن روزانہ گھنٹوں فون پر منہمک رہنا مناسب امر نہیں ہے۔ کچھ نا عاقبت اندیش مائیں اپنی بیٹیوں کو رخصت کرنے سے پہلے ہی یہ سبق پڑھانا شروع کر دیتی ہیں کہ تمھیں کس طرح اپنے سسرال پہنچ کر سکہ جمانا ہے۔ ایک مثل مشہور ہے کہ شادی کے لیے لڑکی تلاش کرتے وقت اس کی ماں کو دیکھو اور پرکھو، کیوں کہ ایک بیٹی کی پرورش میں اس کی ماں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اگر ماں سلجھی ہوئی اور سمجھ دار ہوگی، تو یقیناً اس نے اپنی بیٹی کی تربیت بھی احسن انداز سے کی ہوگی اور وہ گھریلو معاملات کو خوب سمجھ داری سے چلائے گی۔
اکثر مائیں بیٹی کو رخصت کرتے ہی اپنے داماد پر یہ جتانے لگتی ہیں کہ ’’بیٹا، میری بچی بہت نازوں میں پلی ہے، اسے کوئی تکلیف مت دینا وغیرہ بار بار اس طرح کی باتوں سے داماد چڑ جاتے ہیں، جب کہ دوسری جانب لڑکی بھی اپنی ماں کی شہ پر شوہر کے سامنے نخرے دکھانا شروع کر دیتی ہے، جس کی بنا پر دامادوں کو اپنی ساسوں سے پرخاش ہو جاتی ہے۔ اکثر لڑکیوںکی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے سسرال اور شوہر کی باتیں اپنی ماں کو ضرور بتاتی ہے۔
روزانہ اپنی امی کو فون کر کے معمولات کی تمام رپورٹ دینا ہوتی ہے اور پھر اسی کی روشنی میں ’’ہدایات‘‘ لینا ہوتی ہیں۔ شادی کے اوائل کے دنوں میں یہ روش انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ بہت سے گھرانے صرف اسی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ مائیں بیٹی کو شوہر کے دل میں راج کرنے اور سسرال میں اس کی حکمرانی قائم کرنے کی خواہش میں بیٹی کی زندگی ہی برباد کر دیتی ہیں اور پھر پچھتاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی خواتین بھی موجود ہیں، جو اپنے اور داماد کے مابین اس رشتے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انتہائی سمجھ داری سے اسے نبھانے کی کوشش کرتی ہیں، مگر بسا اوقات ہم ایسی صورت حال بھی دیکھتے ہیں کہ ساس تو داماد سے ہر طرح سے لحاظ و مروت برت رہی ہے، مگر داماد خواہ مخواہ اپنی ساس کو ’’آخر، میں داماد ہوں‘‘ والا روپ دکھا رہے ہیں۔ بعض مرد حضرات جن کی ساسیں سادہ لوح اور نرم خو ہوتی ہیں۔
وہ ان سے اپنے داماد ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ساس کی طرف سے داماد کی آؤبھگت میں کوئی کوتاہی سرزد ہو جائے، تو وہ بہت زیادہ برا مان جاتے ہیں۔ بہت سے داماد بیویوں کی اچھی خاصی کلاس لینے کے بعد وہ اپنی ساس کو بھی دو چار طنزیہ باتیں سنا دیتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال بیویوں کے لیے بہت کٹھن اور جاں گسل ہوتی ہے۔ ایک طرف تو وہ اپنے شوہر کی زبان سے اپنی ماں کی برائیاں اور کوتاہیاں سننے پر مجبور ہوتی ہیں اور دوسری جانب اپنی ماں کی غلطی کی سزا بھی انہیں ہی بھگتنی پڑتی ہے۔
بعض شوہر حضرات یہ بھی کرتے ہیں کہ اگر ان کو اپنی بیوی کی کوئی بات بری لگے یا پھر کسی بات پر جھگڑا ہو جائے، تو باقاعدہ اپنی ساس کو گھر بلاتے ہیں اور پھر ان کی بیٹی کی شکایتیں کرتے ہیں۔ مجبور اور بے بس مائیں اپنی بیٹی کے گھر اور اس کی خوشیوں کی بقا کی خاطر داماد کی خوشامد کرتی ہیں، ان سے معافیاں مانگتی ہیں۔
قصور نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کو داماد کے سامنے ڈانٹتے ہوئے داماد کو انتہائی لجاجت سے آئندہ ایسا نہ ہونے کا یقین دلاتی ہیں، نہ جانے کیوں ایسا کرتے ہوئے داماد یہ بات کیوں فراموش کر جاتے ہیں کہ ساس ان کی ماں کی جگہ ہے۔ وہ ساسیں جو اپنی بیٹیوں کے گھر اور اس کے سسرال کے معاملات میں دخل دے کر اپنے دامادوں سے باز پرس کر کے میاں بیوی کے درمیان تعلقات خراب کرتی ہیں، انھیں اپنے اس عمل سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ عمل ان کا قطعاً درست نہیں ہے اور وہ داماد جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو جواز بنا کر اپنی ساسوں سے روٹھ جاتے ہیں یا ان سے بدزبانی کرتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر مناسب فعل ہے۔
داماد اور ساس دونوں فریقین کو اپنے رشتے میں بہتری لانے کے لیے اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر آپ اپنی بیٹی کو حقیقی و دائمی خوشیاں دینا چاہتے ہیں، تو اس کے سسرال والوں کے معاملات میں مداخلت سے حتی الامکان گریز کریں۔ اگر وہ اپنے سسرال کے کسی فریق یا شوہر سے نالاں ہے، تو بہ جائے اپنی بچی کی طرف داری کرنے کے، اسے چھوٹی چھوٹی باتوں کو در گزر کرنے کی ہدایت دیں۔
کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان کبھی کوئی تیسرا فریق نہ بولے کیوں کہ اس طرح دونوں کا تعلق خراب ہوتا ہے لڑکے اور لڑکی دونوں کی مائیں معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔ سیانے کہتے ہیں کہ بیٹی کے گھر میں اپنی زبان بند رکھو، کیوں کہ اس عمل سے تلخیوں کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں لڑکی پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سمجھ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ اپنے گھر اور شوہر کی ہر بات اپنی ماں کو نہ بتائے اور شوہر کے سامنے ہر وقت میری ماں، میرے میکے کی تکرار نہ کرے۔ ایسا کرنے سے شوہر حضرات کو اپنے سسرال یا ساس سے چڑ ہونے لگتی ہے۔
دوسری طرف دامادوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اور اپنی بیوی کے معاملات میں ساس کو شامل مت کریں۔ یہ درست ہے کہ وہ ان کی بیٹی ہے، مگر اب آپ کی شریک حیات بھی ہے۔ اگر آپ کو اپنی بیوی سے شکایات ہیں، تو اپنی ساس کو بیچ میں لانا درست نہیں، کوشش کرنی چاہیے کہ باہمی طور پر معاملات حل کیے جائیں۔
البتہ اگر کسی معاملے میں اپنی ساس کو شامل کرنا بھی پڑے ، تو بہ صد احترام ان سے مخاطب ہوں اور یہ خیال رکھیں کہ ساس آپ کی ماں کی جگہ ہے، جب کہ بعض مرد حضرات ایسا بھی کرتے ہیں کہ ساس کے سامنے اپنی ماں کو فراموش کر کے اپنی ساس کے ہی بیٹے بن جاتے ہیں۔ ساسوں کو چاہیے کہ وہ بیٹی کی ساس کے رتبے پر بھی فرق نہ آنے دیں، کیوں کہ دونوں انتہائیں ہی درست نہیں۔ ہر سمت توازن اور میانہ روی ضروری ہے۔
The post بیٹی سے جڑا ایک نازک رشتہ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.