کہنے کو وقت گزرنے کے ساتھ تاریخ کے بڑے سے بڑے گھاؤ بھر ہی جاتے ہیں۔۔۔ لیکن کبھی کبھی بوجوہ کوئی زخم مندمل نہیں ہوپاتا۔۔۔ 1971ء کا ’سقوط ڈھاکا‘ ہماری تاریخ کا ایک ایسا ہی سانحہ ہے کہ جس کا درد آج بھی تازہ محسوس ہوتا ہے۔۔۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں کیمپوں میں پڑے ’محصورین مشرقی پاکستان‘ ہیں، ان کی اکثریت 1947ء میں ’بہار‘ سے ہجرت کر کے وہاں آئی تھی، اس بنا پر انھیں ’بہاری‘ بھی کہا جاتا ہے۔۔۔
انھوں نے 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دیا اور مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے کی تحریک ’مکتی باہنی‘ کی مزاحمت بھی کی، لیکن ہماری ریاست آج نصف صدی کے بعد بھی انھیں مکمل طور پر واپس بلانے سے قاصر ہے۔۔۔ وہ آج تین نسلیں گزارنے کے باوجود بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور بے یارومددگار ہیں۔ ان ’محصورین‘ کے حوالے سے ہماری سیاسی تاریخ میں تعصبات کے کچھ اور پہلو بھی در آتے ہیں، جن میں سے کچھ المیوں کا اظہار آپ کو اگلی سطروں میں مل سکے گا اور یہ ساری گفتگو اِن ’محصورین‘ کے مسئلے کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں احتشام ارشد نظامی کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی ساری جدوجہد کے بنیادی مقاصد 1971ء کے قتل عام کے بارے میں لوگوں تک حقائق پہنچانا ہے کہ اُس وقت بنگالیوں کی نہیں، بلکہ ’غیربنگالیوں‘ کی نسل کشی ہوئی! دوسرا مقصد بنگلادیش کے کیمپوں میں 53 سالوں سے پڑے ہوئے ’محصورین مشرقی پاکستان‘ ہیں، جنھیں 1971ء میں ’علاحدگی پسندوں‘ کے بہ جائے پاکستان کا ساتھ دینے کے ’’جرم‘‘ میں ان کے گھروں سے بے دخل کرکے کیمپوں میں دھکیلا گیا۔ ان کے گھروں کو ’دشمنوں کی املاک‘ قرار دے کر اپنی آزادی کے لیے لڑنے والوں یا پاکستان سے وہاں جانے والے بنگالیوں کو دے دیا گیا۔ وہ بہت کس مَپرسی کی حالت میں ہیں، 350 خاندانوں کے لیے صرف چار یا پانچ بیت الخلا ہیں۔ ہم دنیا اور بالخصوص پاکستان اور پاکستانیوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کا کیا حال ہے۔ اس حوالے سے کینیڈا میں بھی ایک کنونشن کیا، اب امریکا میں کریں گے۔
دو سال پہلے ہندوستانی نژاد امریکی رکن کانگریس نے ایک قرارداد پیش کی کہ ’’1971ء میں پاکستان نے 30 لاکھ ہندو اور بنگالیوں کی نسل کشی کی تھی، اس لیے امریکی صدر ’پاکستان‘ کو مجرم قرار دے‘‘ جب کہ وہاں قتل عام ’غیربنگالیوں‘ کا ہوا۔‘‘
’’امریکا میں ایک ہندوستانی نژاد شہری پاکستان کو ملزم قرار دینے کے لیے کوشش کر رہا ہے، تو یہ تو پھر براہِ راست ریاست کا مسئلہ ہے؟‘‘ ہمارے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’’یہاں سے کوئی کچھ نہیں کر رہا، اقوام متحدہ کی ایک نمائش میں 1971ء کی ’بنگالی نسل کشی‘ دکھائی گئی، ہم نے اسلام آباد آکر کہا کہ آپ پر یہ الزام لگ رہا ہے، آپ بات کیو ں نہیں کر رہے، لیکن آج تک حکومت پاکستان نے کہیں بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ شاید اس لیے کہ اس سے ’محصورین مشرقی پاکستان‘ بھی نمایاں ہوں گے، پھر سوال ہوگا کہ جو لوگ پاکستان کے لیے مارے گئے، ان کی نسلیں وہاں کیمپوں میں کیوں پڑی ہوئی ہیں؟ یہ تعصب کی علامت تو ہے کہ 30 لاکھ افغانی بھائی چارے کے نام پر رکھ رہے ہیں، لیکن یہاں ’محصورین‘ کے لیے کوئی گنجائش نہیں! افغانی بے شک پڑوسی، لیکن وہ تو ہمارے شہری ہیں۔ یہ تو اس ملک کو بنانے اور چلانے والے ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمان ہیں۔‘‘
احتشام ارشد نظامی بتاتے ہیں ’’جب یکم مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا، تو پورے مشرقی پاکستان میں ہنگامے اور قتل وغارت شروع ہوگئی، پاکستان کی فوج 25 مارچ تک ’چھاؤنیوں‘ تک محدود تھی اور شیخ مجیب الرحمٰن کی بغاوت کے بعد وہاں بنگلادیش کا اعلان کردیا گیا تھا، نتیجتاً اُنھی کا حکم چل رہا تھا اور وہ غیربنگالیوں کا قتل عام کر رہے تھے، جب آپریشن شروع ہوا تو ’مکتی باہنی‘ اور سارے مسلح کارکنان ہندوستان بھاگ چکے تھے اور فوج کو بھی شیخ مجیب اور کمال حسین کے سوا عوامی لیگ کا کوئی آدمی نہ ملا، تاج الدین احمد اور نذرالاسلام وغیرہ سب جاچکے تھے۔ ’ایسٹ پاکستان رائفلز‘ (پیرا ملٹری) اور ’ایسٹ بنگال رجمنٹ‘ میں 65 فی صد بنگالی تھے، فوجی آپریشن سے پہلے انھوں نے بغاوت کردی اور وہ بھی اپنے اسلحے کے ساتھ فرار تھے، جب وہ بھاگے تو سرحدی علاقوں سنتھار، میمن سنگھ، بوگرہ اور بہرم بازار وغیرہ میں ریلوے وغیرہ میں کام کرنے والے غیربنگالیوں کا صفایا کرتے ہوئے گئے۔ کہیں 25 اور کہیں 30 ہزار کی آبادی تھی۔۔۔ ڈھاکا میں بھی تین ہفتے تک ’مکتی باہنی‘ والے لوگوں کو مزاحمت اور شک کی بنیاد پر مارتے رہے۔ ڈھاکا سے میمن سنگھ تین گھنٹے کی مسافت ہے، فوج تین ہفتے میں پہنچ سکی، جب پہنچے تو وہاں لاشیں ہی لاشیں تھیں، میرے پاس اس کے چشم دید گواہ ہیں، مسجدوں میں پناہ لینے والوں تک لوگ مرے پڑے تھے، وہاں خون کی تہیں جمی ہوئی تھیں، اس طرح ’سنتھار‘ اور ’بہرم بازار‘ میں ڈیڑھ ہفتے بعد کُمک پہنچی، کہیں سوا اور کہیں ڈیڑھ مہینے بعد پہنچ سکے۔ ’سنتھار‘ میں 30 سے 36 ہزار غیربنگالی تھے، جن میں سے صرف 15 افراد زندہ ملے، جن میں کوئی عورت اور بچہ نہ تھا!‘‘
بنگالیوں کے قتل کے حوالے سے احتشام ارشد نظامی کا کہنا ہے کہ ’’فوجی آپریشن میں جب مخالف فریق اسلحہ لائے گا، تو مارا تو جائے گا، باقی وہاں جتنی اجتماعی قبریں نکلیں، وہ سب غیربنگالیوں کی ہیں اور ’سقوط ڈھاکا‘ کے بعد انھیں بنگالیوں کی قبریں کہہ کر عالمی برادری کو دکھایا گیا۔ آج بھی کراچی میں اس کے چشم دید گواہ موجود ہیں کہ وہاں کیسے غیربنگالیوں کو مارا گیا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے 1970ء کے زمانے میں ایک کتاب ’پاکستان کیوں ٹوٹا‘ لکھی، جس میں لکھا کہ ’’بہرم بازار میں سارے غیربنگالی مردوں کو مار دیا گیا اور وہاں برہنہ خواتین کا جلوس نکالا گیا۔‘‘ ہم لوگ پڑھنا اور تحقیق کرنا نہیں چاہتے، بس ہندوستانی موقف کہ 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور بنگالیوں کی نسل کشی کی گئی‘ کو ہی درست سمجھتے ہیں، جب کہ پاکستانی فوجی صرف 30 سے 35 ہزار تھے، باقی عملے کے لوگ اور عام شہری، طالب علم، اساتذہ اور ملازمین وغیرہ ملا کر 90 ہزار قیدی ہوئے تھے۔ آرمی آپریشن ہوا، تو بنگالیوں نے ’سیکریٹریٹ‘ اور پولیس سے لے کر دیگر سرکاری کاموں پر سے ہڑتال کردی تھی، ٹریفک کنٹرول سے لے کر یہ سارے ضروری کام فوجی کرتے تھے، سیکریٹریٹ میں ’بہاری‘ شہریوں کو لا کر کام کراتے۔ دوسری طرف ہندوستان سے حملے اور مکتی باہنی کے گوریلے حملوں کا سامنا بھی کر رہے تھے۔ کرنل فرخ کی کتاب ’بچھڑ گئے‘ ڈاکٹر احمد جنید کی کتاب “CREATION OF BANGLADESH: MYTHS EXPLODED”، ایس ایم حالی کی کتاب “Tormented Truth 1971 & Beyond”، سرمیلا بوس کی کتاب “Dead Reckoning”اور بنگالی مصنف جے ڈبلیو چوہدری کی کتاب ’تھری ملین مِتھ‘ میں بھی یہ حقائق موجود ہیں۔
احتشام ارشد کہتے ہیں کہ ’’بنگلادیش میں 30 لاکھ بنگالیوں کو مارنے کا کوئی آفیشل ریکارڈ نہیں، شیخ مجیب الرحمٰن نے اس حوالے سے ایک کمیشن بنایا کہ متاثرین رجسٹریشن کرائیں، تو بہ مشکل 23، 24 ہزار ہی سامنے آسکے، وہ پہلے ہی 30 لاکھ کا دعویٰ کرچکے تھے، اس لیے انھوں نے اس کی فائل اٹھا کر ایک طرف کر دی اور یہ کمیشن بند ہوگیا۔ دوسری طرف ’سنتھار‘ میں غیربنگالیوں کا ریکارڈ بنگلادیش کے ریلوے میں درج ہوگا۔ وہ مار دیے گئے، یا کیمپوں میں ہوں گے۔‘‘
’’یا پھر پاکستان آگئے؟‘‘ ہم نے ایک اور ممکنہ راستے کی طرف اشارہ کیا، جس پر انھوں نے کہا ’’1974ء میں ایک لاکھ 73 ہزار محصورین کو لایا گیا۔‘‘
ہم نے کہا مگر مختلف راستوں سے جان بچا کر آنے والوں کا تو ریکارڈ نہیں ہوگا، تو وہ تائید کرتے ہیں، کہتے ہیں جب کیمپ بنا، تو ’ریڈ کراس‘ نے ایک سروے کیا کہ کتنے لوگ پاکستان جانا چاہتے ہیں؟ تو تمام پانچ لاکھ 40 ہزار نے پاکستان کا انتخاب کیا۔ پھر 1973ء میں دلی میں سہ فریقی معاہدہ ہوا، تو یہ طے پایا کہ جنگی قیدی ہندوستان سے پاکستان چلے جائیں گے اور اسلام آباد میں تین، چار ہزار بنگالیوں کو بنگلا دیش بھیج دیا جائے گا۔ ہندوستان اور بنگلادیش نے ’محصورین‘ کا مسئلہ اٹھایا، تو مذاکرات میں تعطل پیدا ہوگیا، ہمارے وفد کے سربراہ عزیزاحمد نے کہا کہ ’محصورین‘ نے ہندوستان سے ’مشرقی پاکستان‘ ہجرت کی تھی، اس لیے اب وہ بنگلادیش کے شہری ہیں! پھر ذوالفقار بھٹو نے تعداد کا ذکر کیے بغیر چار زمروں میں ’محصورین‘ کو واپس لینے کا کہا۔ یہیں سے ان کی بدنیتی کا اندازہ لگا لیجیے۔ اول مغربی پاکستان کے شہری، جن کے پاس مغربی پاکستان کا ’ڈومیسائل‘ ہو، وہ تو شاذ ونادر ہی کسی کے پاس تھا، دوم، مرکزی حکومت کے ملازمین، اس میں کچھ تھوڑے بہت آگئے ہوں گے۔ تیسرا زمرہ منقسم خاندان تھا اور اس کی تعریف بھی یہ تھی کہ صرف میاں، بیوی الگ ہیں، تو مانیں گے، جیسے میں یہاں پڑھ رہا تھا، لیکن میرے والدین وہاں تھے، لیکن ہمیں منقسم تصور نہیں کیا گیا، چوتھا زمرہ انسانی ہم دردی کا تھا، جس پر سب سے بعد میں عمل کیا گیا، اس طرح انھوں نے رکاوٹیں کیں۔ انسانی ہم دردی والے زمرے کو بہت بعد میں لیا اور پر یہاں سے اقوام متحدہ کے چارٹرڈ پروازیں بنگالیوں کو لے کر جاتیں اور وہاں سے ’محصورین‘ کو یہاں لاتی تھیں۔
1974ء میں ایک لاکھ 73ہزار محصورین کو واپس لانے کے بعد رک گئے، یہاں سے لوگوں نے دباؤ ڈالا تو پھر بنگلادیش سے مزید 25 ہزار لوگوں کا معاہدہ کیا، لیکن اس پر عمل سے پہلے ہی بھٹو کی حکومت چلی گئی، پھر جنرل ضیا الحق آئے، انھوں نے اس تعداد کو سات، آٹھ ہزار تک محدود کردیا، یہ لوگ مجید کالونی، لانڈھی وغیرہ میں آباد کیے گئے، پھر وزیراعظم نواز شریف نے کچھ ’محصورین‘ پنجاب میں بسائے، تب بھی یہ 25 ہزار کی تعداد پوری نہیں ہو سکی۔‘‘
ہم نے پنجاب میں ’محصورین‘ کی تعداد پوچھی تو احتشام نظامی نے بتایا کہ ’’لاہور میں دو بہاری کالونیاں ہیں، دونوں جگہ دیکھا ہے، وہ لوگ اب پنجابی بولتے ہیں۔ میاں چُنوں میں 63 خاندان (350 افراد) بسے۔ پنڈی، گجرانوالہ، لیہ، لالہ موسیٰ اور پشاور میں بھی آباد ہوئے، ضیا اور نوازشریف کے زمانے میں آئے۔ پنجاب میں بسائے جانے کے باوجود سندھ میں مخالفت ہوئی کہ وہاں سے لوگ پھر کراچی آجاتے ہیں، لیکن یہ بات سراسر غلط ہے، میں نے تو خود دیکھا ہے، وہ لوگ وہیں رہ رہے ہیں، ان کے بچے وہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
احتشام ارشد نظامی بتاتے ہیں کہ ’’پنجاب میں آباد ’محصورین‘ میں بہت سوں کی رشتہ داریاں کراچی میں ضرور ہیں، لیکن وہ وہاں خوش حال ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’محصورین‘ دوسرے ذرایع سے بھی آئے، کیوں کہ معاہدہ ہونے تک صورت حال واضح نہ تھی، خوف وہراس تھا، لوگ جان بچا کر ہندوستان کے راستے بہ ذریعہ نیپال آئے، اس میں کئی راستوں میں مارے گئے۔ میرے حساب سے سقوط کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان سے مجموعی طور پر سوا دو لاکھ سے زیادہ لوگ آئے ہوں گے، اس میں ظاہر ہے پنجاب کے باشندے بھی ہیں۔‘‘ ہم نے بنگلادیش سے پنجاب کے رہنے والوں کے اعدادوشمار پوچھے تو انھوں نے کہا ’وہ تو سب اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے ہوں گے۔ تاہم ’پنجابی ‘ محصورین کی معلومات کیبنٹ ڈویژن سے مل سکتی ہیں۔
’’وہاں بنگالیوں کو ’بہاریوں‘ کی املاک دے دی گئیں، لیکن یہاں بنگالیوں کی املاک کا کیا ہوا؟ یا پھر وہ فروخت کرکے گئے؟‘‘ ہمارے اس استفسار پر وہ کہتے ہیں ’’ان کو بھی ایسے ہی نکلنا پڑا، چوں کہ وہاں ہمارے لوگ اسیر تھے، اس لیے انھیں باقاعدہ یہاں روکا گیا تھا۔ یہاں بنگالیوں کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹ حکومت کی تحویل میں ہیں، وہاں کے ’بہاریوں‘ کی جائیدادیں بنگالیوں کو دے دی گئیں، لیکن یہ املاک بہاریوں کو نہیں ملیں، قانون سازی تک انھیں فروخت بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ہم نے بنگلادیشی شہریوں کی املاک کی تفصیل پوچھی تو وہ کہتے ہیں کہ ’’کراچی، لاہور سے اسلام آباد تک بے شمار جائیدادیں موجود ہیں، اور پارلیمانی کمیٹی نے ان کی مبینہ فروخت رکوائی بھی تھی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ محصورین کا حق ہے، انھیں واپس لائیں اور یہ املاک انھیں دیں۔‘‘
احتشام نظامی کے بقول 1988ء میں ایک سروے میں ’محصورین مشرقی پاکستان‘ کی تعداد دو لاکھ 38 ہزار اور 1992ء میں تین لاکھ تعداد آئی۔ اس کے بعد کوئی سروے نہیں ہوا، سرو ے کی کوشش کی بھی، تو حکومت نے رکوا دیا، اب یہ تعداد چار لاکھ تک ہوگی۔ ’محصورین‘ کے کیمپوں میں 25 فی صد لوگ منقسم خاندانوں کے ہیں۔ وہاں کیمپوں کو آگ بھی لگائی، مسمار بھی کیے گئے، ڈھاکا میں کیمپ یہ کہہ کر ہٹایا کہ یہاں ہائی وے بنے گی۔ انھیں ایک جگہ سے نکالا جاتا ہے، تو کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پہلے 66 کیمپ تھے اب یہ تعداد 100سے بھی زیادہ ہے۔
’’کیا کچھ ’محصورین‘ کیمپوں سے ازخود بھی نکلے ہیں؟‘‘
ہمارے اس سوال پر انھوں نے بتایا کہ ’’30 سال تک ان پر تعلیم کے دروازے بند تھے، اس لیے ان پڑھ رہ جانے والے چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں، اگر چند ایک فی صد لوگ کرایہ برداشت کرنے کے قابل ہوگئے ہوں گے، تو وہ ضرور نکلے ہوں گے۔ کچھ امریکا میں قائم غیرسرکاری تنظیمیں ان کی تعلیم اور صاف پانی وغیرہ کے لیے کام کر رہی ہیں۔‘‘
’’انھیں شہریت کی پیش کش کی گئی تھی؟‘‘ ہم نے ایک زبانِ زدِعام تاثر کے حوالے سے کھوجا، تو وہ بولے: ’’یہ بہت اہم موضوع ہے، حکومت پاکستان بھی یہ کہتی ہے کہ انھیں وہاں کی شہریت دے دی گئی ہے۔ وہاں لینڈ مافیا بہت فعال ہوئی اور مقامی سیاست دانوں نے نے ڈھاکا کے کیمپ سے لوگوں کو لے جا کر عدالت میں پٹیشن دائر کرائی کہ ہم یہاں پیدا ہوئے، ہمیں ووٹ کا حق دیا جائے۔ 2008ء میں اس کا بڑا مضحکہ خیز فیصلہ آیا کہ جو لوگ 1971ء کے بعد کیمپ میں پیدا ہوئے، انھیں شہریت نہیں، صرف ’حقِ رائے دہی‘ دے دیا جائے، لیکن ان کی ’شناختی دستاویز‘ پر پتا کیمپ کا ہے اور بنگلادیش میں اسے کوئی بھی معتبر نہیں مانتا، وہ صرف ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
پاسپورٹ یا سرکاری ملازمت کے اہل نہیں۔ دنیا میں شہریوں کو جائیداد کا حق ہوتا ہے۔ 2016ء میں وہاں کے وزیرتجارت غلام قادر نے کہا تھا کہ سچی بات یہ ہے کہ جس دن انھیں شہریت دے دی، اسی دن یہ اپنی جائیداد کا دعویٰ کریں گے اور دنیا کی کوئی طاقت انھیں روک نہیں سکے گی، اور اگر ایسا ہوا تو بنگالی اس حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیں گے! اسی لیے فیصلے میں ’1971ء کے بعد پیدا ہونے والے‘ کہا گیا ہے۔ غلام قادر اور کچھ دیگر لوگ ہم دردی رکھتے ہیں، لیکن انھوں نے صاف کہا تھا کہ ’کوئی بنگلا حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کرے گی، بس انھیں پڑھاؤ اور پاکستانی حکومت پر واپسی کے لیے دباؤ ڈالو۔‘
’’اگر ایسا خوف ہے تو ان سے دستخط کرالیں کہ وہ اس جائیداد سے دست بردار ہوتے ہیں؟‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ’’اس میں قانونی پیچیدگی ہوگی، یہ کہہ دیا جائے گا کہ دباؤ پر ہوا۔ 2015ء میں شیخ حسینہ واجد کی کابینہ نے قانون منظور کیا کہ اگر کسی نے یا اس کے والدین نے بنگلادیش کے قیام اور وجود کے خلاف کسی قسم کا ساتھ دیا ہو، تو اسے شہریت نہیں ملے گی اور اگر ملی، تو منسوخ کردی جائے گی۔ اب دنیا میں کس کو معلوم نہیں کہ کس نے ساتھ دیا؟ بنگلادیش بننے کے بعد بہت نفرت بھری گئی، کالجوں میں دیواروں پر پاکستانی فوج کے خلاف بڑی بڑی تصاویر بنائی گئی ہیں۔ وہاں نفرت کی تین علامات ہیں، پاکستان، اردو اور بہاری۔ ہر سال 25 مارچ کو بنگلادیشی میڈیا یہی کہتا ہے کہ 30 لاکھ بنگالیوں کو مارا گیا ہے اور یہ ’بہاری‘ (محصورین) ان کے ساتھ تھے۔ نصاب میں بھی ان نام نہاد ’مظالم‘ کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ ہمارے ہاں سچائی کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ میں نے تو ’جی ایچ کیو‘ تک میں یہ کہا کہ ’’ہمارے نصاب میں تو اصل حقائق لکھیے۔۔۔‘‘ یہاں وزرا اور فوجی حکام تک کو محصورین کے مسئلے اور اس کے رابطہ اسلامی کے ’ٹرسٹ‘ اور اس کے فنڈز تک کا علم نہیں ہے!
ایک سال پہلے جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ میں ایک وفاقی وزیر سے ’محصورین مشرقی پاکستان‘ کی واپسی کا سوال ہوا، تو انھوں نے کہا یہاں تو سعودی عرب تین لاکھ ’برمی‘ شہریوں کو پاکستان بھیجنا چاہتا ہے کہ جو کسی طرح پاکستانی پاسپورٹ بنوا کر وہاں آچکے ہیں، یہ حال ہے ہمارا!
ہم نے پوچھا کہ پاکستان سے نفرت انگیزی کی لہر میں ’محصورین‘ پر تو کوئی مقدمہ نہیں چلا؟‘‘ جس پر انھوں نے یہ خبر دی کہ ’’مقدمہ تو نہیں چلا، لیکن اب خوف کا یہ عالم ہے کہ آج وہ پاکستان کا نام نہیں لیتے۔۔۔!‘‘
’’کیا ان کے کیمپوں پر پاکستان کا جھنڈا نہیں لگا ہوا؟‘‘
’’اب نہیں لگا ہوا۔۔۔!‘‘
ہم نے پوچھا کہ کب سے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ 2009ء کے بعد سے انھیں ڈر ہے کہ پاکستان کا جھنڈا لگایا تو اٹھا لیا جائے گا، اب وہ اپنا الگ جھنڈا لگاتے ہیں، جس میں چاند تارے کی جگہ سرخ دائرہ ہے۔ اب خوف کے مارے پاکستان جانے کا نام بھی نہیں لیتے بس ڈھکے چھپے الفاظ میں کہتے ہیں کہ ’کیا کریں پاکستان واپس نہیں لے رہا‘ اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے، پہلے ’محصورین‘ جلوس نکالتے تھے کہ پاکستان ہمیں واپس لے! پاکستانی ہائی کمیشن جا کر مطالبہ کرتے تھے۔ اب خوف کی وجہ سے نہیں کرتے کہ ان کی جان کو خطرہ ہوگا۔‘‘
بنگلا دیشی شہریت رکھنے والے ’غیربنگالیوں‘ کے تناسب کے حوالے سے احتشام ارشد نظامی کا خیال ہے کہ 14 کروڑ میں بہ مشکل ایک لاکھ ہوں گے۔ تاہم ان میں میرے بچپن کا ایک بہاری دوست ہے، وہ وہاں سائیکل رکشے کے ٹائروں کا بھرپور کاروبار کرتا ہے، میں جب وہاں جاتا ہوں، اسی کے ہاں ٹھیرتا ہوں۔ احتشام ارشد ماضی میں مشرقی پاکستان سے روا رکھے جانے والے رویوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’حسین شہید سہروردی 1948ء تک پاکستان نہیں آئے تھے، وہ گاندھی کے ساتھ مغربی بنگال میں قتل وغارت روک رہے تھے، جب وہ پہلی بار ڈھاکا آئے، تو چار دن میں انھیں واپس کردیا گیا۔ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے بھائی کو انھیں لینا تھا، وہ ڈھاکا ایئرپورٹ پر ان کا انتظار کرتے رہے، آخر ٹیکسی کرکے آئے۔ لیاقت علی نے انھیں جلسے میں ’گاندھی کا کتا‘ کہا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب وہ وہاں تھے، تو خود جناح صاحب نے ابو الحسن اصفہانی کے ذریعے انھیں پیغام بھیجا کہ تم مصر میں پاکستان کے سفیر بن جاؤ! اندازہ لگائیے کہ مسلم لیگ کی چوٹی کا راہ نما، وہ شخصیت جس نے بنگال نے مسلم لیگ کو متحرک کیا، اس کے لیے یہ بے عزتی کی انتہا ہے کہ انھیں یہ کہا جائے۔‘‘
1971ء میں پاکستان حامی تنظیمیں ’البدر‘ اور ’الشمس‘ کے حوالے سے احتشام نظامی کا موقف ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں بنگالیوں ہی پر مشتمل تھیں، اور بہت سے ’مکتی باہنی‘ کے لوگ بھی اس میں پناہ لے لیتے تھے، رات میں وہی ’مکتی باہنی‘ بن جاتے تھے، اس طرح انھیں خیر خبریں بھی مل جاتی تھیں کہ کون ’بہاری‘ اس میں ہے اور یہ لوگ کیا کر رہا ہے وغیرہ۔
بنگلادیش میں طلبہ تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد کے حکومت کے خاتمے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’اب عوامی لیگ کے عقوبت خانے نکل رہے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس جماعت کی ’مکتی باہنی‘ نے بہاریوں کے لیے کتنے عقوبت خانے بنائے ہوں گے!‘‘
The post ’’1971ء کی ساری اجتماعی قبریں غیربنگالیوں کی تھیں‘‘ ، احتشام ارشد نظامی appeared first on ایکسپریس اردو.