کل ہم پاکستان کا یوم آزادی منائیں گے، جو ہماری اس جدوجہد اور قربانیوں کی یاد دلاتا ہے، جو تحریک آزادی کے دوران نہ صرف مردوں بلکہ خواتین نے بھی دی تھیں۔
یہ کہنا کسی طورغلط نہیں ہوگا کہ برصغیر کی خواتین کی فعال شرکت تحریک آزادی میں تیزی لائی تھی۔ بہت سی رکاوٹوں اور سماجی پابندیوں کے باوجود ان مسلم خواتین نے سیاسی میدان میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ انھوں نے اپنے گھروں سے نکل کر الگ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد میں حصہ لیا۔
کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی یا خود سے یہ سوال پوچھا کہ خواتین کے لیے اس آزادی کا کیا مطلب ہے؟ ہم حقوقِ نسواں کی بات تو کرتے ہیں، لیکن پاکستان کی خواتین اپنے ملک میں کس قسم کی تبدیلی اور آزادی کی ضرورت محسوس کرتی ہیں؟ کیا وہ ذاتی طور پر عوامی شعبوں اور پیشہ ورانہ طور پرحقیقی معنوں میں خود مختار اور اپنی ذات کو محفوظ محسوس کرتی ہیں؟
’گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس‘ 2024ء کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر ہے، اس کا اسکور 0.570 ہے۔ جب کہ 2023 میں پاکستان 142 ویں نمبر پر تھا۔ یہ اشاریے پاکستان کی خراب کارکردگی اور اور صنفی برابری کے حصول میں بڑھتے ہوئے چیلنجوں کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں معاشی شراکت، تعلیم کے حصول، صحت اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے جیسے اہم شعبوں میں صنفی فرق کو ختم کرنے میں عالمی ترقی اور مستقل چیلنجوں، دونوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو نمایاں طور پر صنفی امتیاز اورعدم مساوات اور پاکستان میں صنفی مساوات کو بڑھانے کے لیے نئے سرے سے کوششوں کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
گزشتہ 20 سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے, جہاں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماجی نظام کے جیلنجز کے وجہ سے سیاسی اور عوامی عہدوں اور قائدانہ کردار میں کم کم ہی نظر آتی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑتے معاشرے میں اپنی ذمہ مکمل طور پر نبھاتی نظر آتی ہیں۔
پاکستان کو قائم ہوئے آج 77 سال بیت گئے، لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے کسی قسم کی آزادی نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ اگر آپ ایک ورکنگ ویمن ہیں، آپ کام کے لیے باہر نکلتی ہیں، تو آپ کو کبھی نہ کبھی مختلف نوعیت کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہم آج تک اپنی خواتین کو ایسے بیمار رویوں سے آزادی دلا سکے؟
خواتین کے حقوق کی اگر بات کی جائے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ 77سالوں میں خواتین کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا، سوائے اس کے کہ خواتین تعلیم یافتہ ہو چکی ہیں اور اپنے حقوق اور مساویانہ ترقی کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ خود باشعور ہو گئی ہیں۔
اس آزاد ملک میں 10 سے 12 سال کا بچہ آزادانہ طور پر گلی میں کھیل نہیں سکتا، اس کو گھر سے باہر نکلنے، اسکول جانے، دوستوں سے ملنے، یہاں تک کہ قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے مدرسے جانے کے لیے مستقل طور پر ایک سرپرست کی ضرورت ہے، جو کہ اس کو اس ’آزاد‘ ملک میں آزادانہ طور پر گلی محلوں سڑکوں پر گھومنے والے ’بھیڑیوں‘ سے بچا سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین اب ’ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزاد‘ ہیں اور انھیں کام تلاش کرنے اور آگے بڑھنے کی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ ماضی میں لڑکیوں کو گھر سے باہر جانے کی اتنی زیادہ اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اب لوگوں کا خیال ہے کہ اگر آپ باہر نکلیں گے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، باہر نکل کر ہی آپ کچھ حاصل بھی کرسکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود خواتین کے حوالے سے بہت سے معاملات میں ہماری سوچ کو وسیع اور آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔
کچھ حد تک یہ ذمہ داری خواتین پر بھی عائد ہوتی ہے کہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔ ’آزادی‘ ایک سوچ اور ذہنیت ہے۔ اگر خواتین کی سوچ آزاد ہوگی، تبھی وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں۔
آج کی خواتین کو اپنی سوچ کو آزاد کرنے کیے ضرورت ہے، اس کے ساتھ خواتین کی ترقی اور معاشی خودمختاری کے لیے ہمارے خاندان اور حکومت کو خواتین کی مزید مدد کرنے اور ان کو قابل بنانے کی ضرورت ہے۔
اس سب کے لیے میرے خیال میں لوگوں کے نقطۂ نظر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک ان چیزوں کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ہمیں لڑکیوں کو تعلیم دینی چاہیے اور ان کی مکمل حمایت کرنی چاہیے، تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں۔ ہمارا ملک بھی اسی کی وجہ سے ترقی کرے گا۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق مخصوص علاقوں سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین کا خیال ہے کہ پاکستان میں خواتین ’آزاد‘ نہیں ہیں۔ ان کا خیال میں اس پِدرِشاہی معاشرے میں خواتین کو بات کرنے، اپنے خیالات یا پسند کا اظہار کرنے اور کام کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ خواتین کے لیے کام کے مواقع کم اور ہراسانی کے خدشات زیادہ ہیں۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اگرچہ کہ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن چیلنج برقرار ہیں۔ گہرے سماجی سیاسی اصول، صنفی امتیاز، تشدد اور معاشی عدم مساوات پاکستان میں خواتین کو آزاد اور بااختیار بنانے کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ہیں۔
حکومت اور معاشرے کو دقیانوسی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے کے علاوہ موجودہ قوانین کے نفاذ کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے اور خواتین کے حقوق کی حمایت کرنے والے ماحول کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنانا ایک متحرک عمل ہے جس میں ترقی اور چیلنج دونوں شامل ہیں۔ حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں کی اجتماعی کوششوں نے مثبت تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے، جیسا کہ ملک میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں، ریاستی اور غیر ریاستی ادارے صنفی مساوات کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اب تک حاصل کی جانے والی کام یابیوں کو آگے بڑھایا جائے اور ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کیا جائے جہاں وطن عزیز کی ہر عورت اپنی صلاحیتوں کا آزادانہ استعمال کر سکے۔ جہاں اس کے ہراسانی، عدم مساوات اور امتیازی سلوک اور رویوں کی زنجیروں میں قید نہ کیا جائے۔
ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے، جہاں پاکستان کی خواتین اپنے مستقبل کے خواب دیکھنے سے گھبرائیں نہیں اور خود کو مکمل طور پر خود مختار محسوس کر سکیں اور ملک کی خوش حالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
The post آزادی کے 77سال اور پاکستانی خواتین کے خواب appeared first on ایکسپریس اردو.