(دوسری قسط)
تو ہم اس وقت مستوج میں تھے اور بریانی نوش فرما رہے تھے۔ بقول مستوج والوں کے وہ بریانی تھی مگر ہم پنجابیوں کے لیے وہ تو بریانی نہ تھی اور کراچی والوں کے لیے تو بالکل بھی نہ تھی۔ چکن کو فرائی کر کے سادے تڑکے والے چاولوں میں مکس کر دیا گیا تھا۔ چاول بھی وہ جو خواہ مخواہ کھڑے کھڑے سے تھے مگر مستوج میں یہ بھی غنیمت تھے کیوںکہ یہ لنچ ٹائم تھا اور ٹور آپریٹرز عام طور پر لنچ کو اپنے پیکیج میں شامل نہیں کرتے، مگر نجیب اللہ تاجک صاحب نے لنچ کو اپنے پیکیج میں شامل کیا تھا۔ یہ صرف نام کا ہی لنچ نہیں تھا، پورے کا پورا دوپہر کا کھانا تھا۔ جیسی بریانی وہاں مستوج میں ملتی تھی، ویسی ہی ہمارے سامنے پیش کی گئی۔ چائے تو پھر ہر کھانے کا لازم حصہ ہے ہی۔
غزال نے ایک بار پھر چلنا شروع کردیا۔ پہلے وہ دوڑ رہی تھی مگر اب اس کی رفتار کم ہوچکی تھی۔ وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ چترال تا مستوج سڑک بہت کھلی اور اچھی حالت میں ہے مگر جوں جوں آپ مستوج سے آگے بڑھتے ہیں تو دریائے چترال آپ سے کچھ کچھ ناراض ہونے لگتا ہے۔ دریا کا چوڑا پاٹ نیچے رہ جاتا ہے اور آپ تنگ ہوتی سڑک پر اوپر چڑھتے جاتے ہیں۔ بعض چڑھائیاں تو ایسی ظالم ہیں کہ اچھے خاصے بندے کی بھی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ میں نے تو فیری میڈوز کا جیپ ٹریک نہیں دیکھا مگر میرے ساتھ والے پوٹھوہاری لڑکے بتانے لگے کہ فیری میڈوز کا جیپ ٹریک بھی بالکل ایسا ہی ہے۔
دریائے چترال بے شک ہم سے ناراض ہو کر دور ہو رہا تھا مگر بے حد حسین لگ رہا تھا۔ دریا کا اصل پاٹ بہت کھلا تھا جہاں بڑے بڑے پتھروں کے درمیان کچھ کچھ بڑے درخت تھے۔ پانی انتہائی گدلا تھا مگر پہاڑوں کے نیچے دریا کا وسیع لینڈ اسکیپ بہت ہی دل فریب منظر پیش کر رہا تھا۔
جی خوش ہوا جب اپنے ساتھ ساتھ چند بائیکرز کو بھی سفر کرتا ہوا پایا۔ سیاحت کے دل دادا لوگ مجھے ہمیشہ ہی بہت بھاتے ہیں خاص کر جب سامنے بائیکر ہو۔ بائیک کا سفر ذرا مشکل اور ٹیکنیکل تو ہے مگر یقین مانیں جسے ایک بار بائیک کے سفر کی لت لگ جائے وہ پھر اس سے دور نہیں رہ سکتا۔
شام کے سائے رفتہ رفتہ پھیل رہے تھے۔ بریپ گزر چکا تھا، وادی یار خون کب کی شروع ہو چکی تھی۔ دریا کا وسیع لینڈ اسکیپ آنکھوں کو بہت بھلا لگ رہا تھا۔ میں بالکل چھوٹے بچوں کی مانند باہر بس دریا کو ہی دیکھے جا رہا تھا۔ اصل میں، میں نے ایسا لینڈ اسکیپ کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ سچ کہتے ہیں کہ حُسن کی ایک جھلک اس پوری کتاب پر بھاری ہے جو اس حُسن کو بیان کرنے کے واسطے لکھی جائے۔ دریائے چترال کا جو لینڈ اسکیپ میں وادیِ یار خون میں دیکھ رہا تھا، اسے کیسے بیان کروں۔ دریا کبھی میرے دائیں جانب چلا جاتا اور کبھی میرے بائیں جانب۔ میں غزال کے دائیں جانب تھا۔ جب دریا دائیں جانب ہوتا تو میں کھڑکی سے باہر ہی تکتا رہا مگر جوں ہی دریا میرے بائیں جانب جاتا تو اور کوئی اچھا لینڈ اسکیپ آتا تو میں فوراً چیخ اٹھتا، فوٹو کھینچ اوئے۔ اور اس وقت تک چیختا رہتا جب تک کوئی اس منظر کی فوٹو نہ کھینچ لیتا۔
پیچھے کہیں دریائے مستوج، دریائے چترال میں شامل ہوچکا تھا۔ آگے کہیں دریائے یار خون کو ابھی دریائے چترال میں ملنا تھا۔ ہمارے راستے میں لکڑی کے کئی ایسے پل آ رہے تھے جو زیادہ نہیں تو مگر تھوڑے بہت پل صراط تو تھے اور ان پر جب جیپ چلتی تھی تو میں اکثر کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگتا تھا۔ دریا کے بعض پاٹ ایسے تھے کہ پانیوں کے گرد چٹانوں کا گھیرا تنگ ہوجاتا۔ یوں معلوم ہوتا جیسے وہ احتجاج کر رہے ہوں، شور مچا رہے ہوں، اپنا سر بڑے بڑے پتھروں پر پٹخ رہے ہوں۔ لکڑی کے یہ پل ویسے تو بہت مضبوط تھے مگر سیلاب کے دنوں میں جب دریائے چترال کا پانی ان پُلوں کے اوپر سے گزر رہا ہوتا ہے تو ان پلوں کو لاحق خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آمد و رفت بھی کم ہو جاتی ہے۔ شاید رک ہی جاتی ہے۔ ہم سب ابھی تک تروتازہ تھے۔ مزے سے غزال کی سواری کر رہے تھے۔ مستوج سے بقول مستوج واسیوں کے بریانی کھا کر آئے تھے جس کے ساتھ ان لوگوں نے ہمیں بوتل بھی پلائی تھی۔ چائے تو پھر لازم تھی۔ قبائلی، پٹھان، چترالی لوگوں کے یہاں پہلے روایت تھی کہ سب کھانے کے بعد قہوہ پیتے تھے مگر اب ان میں بھی ذرا جدت آ گئی۔ اب وہ قہوہ کی بجائے زیادہ تر چائے پیتے ہیں۔
پانی بعض جگہوں پر ان پلوں کے اتنا قریب تھا کہ اگر شیشے کھلے ہوتے تو یقیناً اس کا شور ہمیں سنائی دیتا مگر وہ شور سے زیادہ پانی کی خوب صورتی ہوتی۔ وہ شاید خوب صورتی کا شور ہوتا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے مجھ سے کسی نے پوچھ لیا کہ حارث بھائی خوب صورتی کیا ہے؟ میں نے کہہ دیا کہ مائی ڈیئر اگر دنیا میں دو ارب انسان ہیں تو خوب صورتی کی تعریفیں بھی دو ارب ہی ہیں۔ ہر شخص کی خوب صورتی کا معیار الگ ہے۔ ہوسکتا ہے مجھے جس شے میں خوب صورتی نظر آئے، وہ لوگوں کے لیے عام شے ہو اور لوگوں کے لیے جو خوب صورتی ہو وہ میرے لیے عام شے ہو۔ اس لیے ہر شخص کی اپنی اپنی خوب صورتی ہے۔
مختلف نالے دریائے چترال میں ملتے جا رہے تھے۔ مدہم مدہم سی بارش باہر جاری تھی جس کا ہمیں کوئی ادراک نہ تھا۔ اچانک لینڈ اسکیپ ذرا مزید وسیع ہوا اور میری جانب ہی ایک پہاڑ کے پاس قوسِ قزح بن گئی۔ غزال جوں جوں آگے بڑھتی جا رہی تھی، قوسِ قزح توں توں بڑی اور واضح ہوتی جا رہی تھی۔ بھلے وقتوں میں اسے گڈا گڈی کی پینگ بھی کہا جاتا تھا مگر اب نہ تو بھلا وقت رہا اور نہ ہی گڈا اور گڈی۔ اب تو کوئی اپنے پیارے سے مُنے کو بھی گڈا نہیں کہتا اور نہ ہی کوئی کسی کو گڑیا کہہ کر مخاطب کرتا ہے ورنہ بھلے وقتوں میں سے ہر دوسرے گھر میں ایک گڑیا رہتی تھی۔
میں اس پینگ کو چھونا چاہتا تھا، ایک دوسرے جہان میں جانا چاہتا تھا مگر میرے ساتھی میری اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ سب کو ہی اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی جیسے وہاں نہ جانے کیا ہوگا اور فرض کریں وہاں بہت کچھ تھا بھی تو اس لمحے کو جی لینے میں کیا قباحت تھی، مگر ان خوب صورت لمحات کو میں فقط اندر بیٹھا بیٹھا ہی جی سکتا تھا۔ میں نے غزال کے شیشے کھول دیے۔ دھنک جیسے میری گود میں آ گری ہو۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ان سات رنگوں کو قدرت نے بنایا ہی میرے لیے ہو۔ سات رنگ دھنک کے اور آٹھواں رنگ میرا۔ نہ جانے کس نے، کیا اور کیوں سوچ کر ہم جنس پرستوں کو سات رنگوں والی دھنک کا یہ نشان دے دیا ہے۔ حالاں کہ یہ سات رنگ تو قدرت کے تھے، پوری کائنات کے تھے، ہم سب کے تھے۔ کسی دوسرے کے ہوں یا نہ ہوں کم از کم میرے تو ہیں۔ دھنک میرے ساتھ ساتھ ہی سفر کر رہی تھی۔ وہ چھوٹی سی دھنک اچانک غائب ہوگئی۔ میں کچھ مایوس سا ہوا مگر چند منٹوں کا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد منظر مزید کھل گیا اور منظر کے ساتھ ساتھ وہ دھنک بھی۔ اب آسمان پر ایک نہیں بلکہ دو دو قوس قزح تھیں اور پورے کے پورے پہاڑ پر ہی قوسِ قزح پھیلی ہوئی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پورے پہاڑ نے دھنک کا آنچل بنا کر اوڑھ لیا ہو۔ مجھے پہاڑ اسی لیے پسند ہیں کہ وہ بے زر ہوتے ہیں۔ کسی کی پروا نہیں کرتے۔ کسی کے بارے نہیں سوچتے۔ جب جی چاہے ان رنگوں کو اوڑھ لیتے، ان کے ساتھ کھیل لیتے ہیں۔ یہی رنگ اگر میں اوڑھ لوں تو سو طرح کے فتووں کا مجھے سامنا کرنا پڑے۔ پہاڑوں میں اور مجھ میں کم از کم ایک بات تو مشترک ہے۔ وہ بھی سب سے بے پروا ہیں اور تقریباً تقریباً میں بھی۔
وادیِ یار خون پر شام مکمل طور پر اتر چکی تھی۔ غزال نے ایک دم ایک چھوٹی سی چڑھائی چڑھی اور پھر رک گئی۔ ہم اپنی آج کی منزل پور (power)، یار خون پہنچ چکے تھے۔ دروازے پرfoxy ہمارے انتظار میں پہلے سے ہی کھڑا تھا۔
ہم وادیِ یار خون کے ایک چھوٹے مگر اچھے قصبے پاور میں پہنچ چکے تھے جہاں ہمیں پوری ایک رات گزارنی تھی۔ غزال سے اترے تو آگے ایک جَنتی ماحول تھا۔ ایک چھوٹا سا میدان تھا جس میں کچھ کچھ فاصلے پر درخت لگے تھے اور نیچے سبزہ ہی سبزہ۔ درمیان میں ایک ٹیبل اور چند کرسیاں پڑی تھیں۔ منظر تو پہلی نظر میں کچھ اچھا ہی لگا مگر یہ پوری طرح اگلی صبح کُھلا جب میں یہاں ان کرسیوں پر تنہا بیٹھا تھا۔ غزال سے سامان نیچے اتارا تو چھوٹے چھوٹے بچے ہمارے پاس جمع ہونے لگے۔ بچے تو ہوتے ہی معصوم ہیں مگر یہ پہاڑی بچے کچھ زیادہ ہی معصوم ہوتے ہیں۔ انھیں دنیا کا زیادہ کیا بالکل بھی پتا نہیں ہوتا۔ عام طور پر میں نے جتنے بھی پہاڑی بچے دیکھے ہیں، ان کو دیکھ کر زیادہ تر ان پر ترس ہی آیا ہے مگر وادیِ یارخون کے یہ پہاڑی بچے سچ مچ کے پھول تھے۔ بچے ہمارے پاس تو جمع ہوگئے مگر یہ ہم سے کچھ فاصلے پر تھے جیسے تھوڑی لاج دکھا رہے ہوں۔ میں نے سب بچوں کو زبردستی جمع کیا اور ان کے درمیان میں جا کر بیٹھ گیا۔
حیدر سے کہا کہ وہ کچھ تصاویر بنا دے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب لوگ وہاں جمع ہوگئے اور لگے تصاویر بنوانے۔ ایسے میں فوکسی پیچھے کیوں رہتا۔ وہ بھی ہمارے پاس آ گیا۔ فوکسی ان لوگوں کا گھریلو کتا تھا۔ چپ چاپ سارے حکم بجا لاتا تھا۔ اگرچہ کہ میں کتوں سے دور رہتا ہوں، خاص کر خاموش کتوں سے مگر فوکسی بالکل ہی الگ تھا۔ نہ بھونکتا تھا، نہ کاٹتا تھا اور نہ ہی اتنی دم ہلاتا تھا۔ یہ کتا ہمارے کتوں کی طرح نہ تھا بلکہ ایک شریف کتا تھا۔
ہمارے یہاں کے کتے تو اتنے شدید کتے ہوتے ہیں کہ چلتی بائیک پر اگر پیچھے پڑ جائیں تو ہمیں ہمارے ہی گھر تک چھوڑنے پہنچ جاتے ہیں جیسے ہم اپنے ہی گھر کا راستہ بھول چکے ہوں یا پھر ہمارا مقصد ان کتوں کے گھر جانا ہو۔ اب ایسے میں ان کتوں کو کون سمجھائے کہ بھائی لوگوں، کتے ہم نہیں بلکہ تم لوگ ہو۔ خدا لگتی ہے کہ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر کتوں کو زبان مل جاتی تو وہ بھی شاید ہمیں یہی کہتے کہ بھائی کتے تو ہم لوگ ہیں، مگر تو کیوں کتوں جیسی حرکتیں کر رہا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی فوکسی کی جو کتا تو تھا مگر اتنا کتا بھی نہ تھا۔ یعنی کچھ کچھ شریف کتا تھا۔ میں نے جو چند گھنٹے اس گھر میں گزارے تو کبھی بھی فوکسی کو بھونکتے ہوئے نہیں سنا۔ فوکسی اتنا کیوٹ تھا کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اسے گود لے لوں۔
یہ گھر بھی نجیب اللہ تاجک صاحب کے کسی اپنے کا ہی تھا۔ انتہائی صاف ستھرا گھر اور صاف ستھرے لوگ۔ دروازے سے داخل ہوئے تو اندر ایک مزید لان تھا۔ گھر کی اصل حدود شروع ہوتے ہی سامنے کی طرف ایک ہال نما کمرا تھا جہاں بیٹھ کر آپ گپ شپ کر سکتے ہیں، چائے ناشتہ کرسکتے ہیں۔ دائیں ہاتھ واش روم تھا جس کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ یہاں وافر مقدار میں گرم پانی تھا۔ بڑے سے نیلے ڈرم میں راڈ پڑی ہوئی تھا جو ہر وقت چلتا رہتا تھا۔ پانی کی ویسے ہی ان علاقوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ شمیپو کے چھوٹے چھوٹے ساشے میں نے پیر ودھائی اڈے سے پہلے ہی لے رکھے تھے۔ میں چپکے سے واش روم میں گیا اور سر دھو کر باہر آ گیا۔ مکمل نہانے کی ہمت نہیں تھی۔ شام تو چھوڑیے، رات مکمل طور پر وادیِ یارخون میں اتر چکی تھی اور میں ویسے ہی سردی کا مریض ہوں۔ ایسے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ سر دھو کر میں مکمل طور پر ترو تازہ ہوگیا۔
سب ہی حسبِ توفیق تازہ دم ہوچکے تو ہمیں چائے پیش کی گئی۔ نوید صاحب اپنے ہمراہ کھانے پینے کا وافر سامان لائے تھے، حسبِ توقع اس پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا۔ اتنے میں رات کا کھانا تیار ہوچکا تو پیچھے والے بڑے کمرے میں دسترخوان پر کھانا چُن دیا گیا۔ کھانے میں کیا تھا؟ یارخون کے ساگ کی سبزی، سادی روٹی جس کے اندر پینر کا اچھی طرح لیپ کیا گیا تھا۔ سادے ابلے ہوئے چاول اور مرغی کا سالن جسے بے انتہاء محبت اور خلوص سے بنایا گیا۔ مرغی کو تڑکا لگاتے ہوئے گھی سے زیادہ محبت کو شامل کیا گیا تھا جب کہ مجھے شک ہے کہ ان روٹیوں میں بھی جو پنیر تھا وہ کسی عام گائے کے دودھ سے کشید نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ تو محبت کی کسی ایسی وادی سے آئی ہوئی گائے کے دودھ سے بنا تھا جس نے گھاس کے نام پر صرف اور صرف لوگوں کی محبت اپنے پیٹ میں اتاری ہو۔ ان سب لوازمات میں محبت ہی تو تھی جس میں خلوص کی آمیزش شامل تھی۔
کھانے کے بعد چائے کا دور تو چلنا ہی تھا۔ یہ ہم سب کی پہلی باقاعدہ رات تھی جس میں ہم سب اکھٹے تھے اور گپ شپ کر رہے تھے۔ ہماری گپ شپ میں گھر والے بھی ساتھ شامل ہوگئے۔ بچے ہمارے پاس ہی بیٹھے تھے اور خوشی خوشی ہمیں دیکھ رہے تھے۔ وادیِ یار خون کی طرف لوگ بھی تو کم جاتے ہیں۔ یہ گندمی رنگت والے لوگ ان گورے گورے بچوں کو کم ہی دیکھنا نصیب ہوتے ہیں۔ آپ یقین کریں یہ بچے بھی ہماری خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ہمیں ہمارا ہی بوجھ اٹھانے نہ دیتے تھے۔ گاڑی سے جو سامان نکلا تو سب بچوں نے ایک ایک بیگ اٹھا لیا اور ترتیب سے ایک طرف رکھ دیا۔ سب بچے ہی پڑھنے والے تھے اور قابل بھی۔
ان میں سب سے بڑا شایان تھا جس نے حال ہی میں ابھی میٹرک کے پیپر دیے تھے۔ نویں جماعت میں شہزادہ 490 نمبر حاصل کرچکا تھا۔ ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ چکا ہے۔ خدا اس کی سب خواہشات کو پورا کرے۔ اس طرف آغا خان فاؤنڈیشن والے کافی سرگرم ہیں۔ ان دوردراز علاقوں میں آغا خان فاؤنڈیشن کی بدولت ہی لوگ کسی نہ کسی حد تک اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ چلو وادی یار خون تک تو پھر بھی سرکاری اسکول ہیں مگر اس سے آگے صرف اور صرف آغا خان فاؤنڈیشن نے ہی ایک ایک کمرے کے اسکول بنا رکھے ہیں جو لوگوں کو پرائمری سطح تک کی تعلیم دے رہے ہیں۔
سب ہی تھکے ہوئے تھے۔ پورا دن ہم جیپ پر سفر کرتے رہے تھے۔ مناسب یہی سمجھا گیا کہ سب سو جائیں۔ جلد ہی سب وادیِ یارخون سے نیند کی وادی میں چلے گئے۔ میں اپنے گیسٹ ہاؤس کے بڑے سے کمرے میں سو رہا تھا جہاں دیوار کے ساتھ ساتھ گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔ آگے چھوٹے چھوٹے گدے لگے تھے۔ نیند کی وادی سے میں کب خوابوں کی وادی میں چلا گیا، مجھے پتا ہی نہیں چلا۔
میں اسی جگہ بیٹھا تھا جہاں ہماری غزال آ کر رکی تھی۔ درختوں سے گھرا ہوا وہ میدان، میدان میں پڑی ہوئی کرسیاں اور کرسیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا فوکسی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق اپنے پاؤں دوسری کرسی پر رکھے ہوئے تھے۔ ساتھ مدھم مدھم سی آواز میں نصرت اور عابدہ دونوں ایک دوسرے کے بعد اپنی آواز کا رَس میرے اور فوکسی کے کانوں میں نچوڑ رہے تھے کہ اچانک سے فوکسی نے اوپر کی طرف دیکھا۔ فوکسی جس کو کبھی کسی نے بھونکتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، وہ اچانک سے بھونکنے لگا تھا۔
میں نے پہلے حیرت سے فوکسی کو دیکھا اور پھر اوپر اس جانب دیکھا جہاں فوکسی دیکھ رہا تھا۔ اوپر ایک بڑا سا ’’سی مرغ‘‘ تھا جس پر ایک سے زیادہ بندے سوار تھے۔ شاید وہ تین تھے۔ سی مرغ اپنے بڑے بڑے پنکھوں کی بدولت بلند پرواز کر رہا تھا۔ سی مرغ پر شاید دو مرد اور ایک عورت سوار تھی۔ ایک مرد میں شاید میری بھی شبیہہ تھی۔ جلد ہی سی مرغ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ سب اسی طرف جا رہے تھے، جس طرف ہمیں کل جانا تھا۔ فوکسی نے بھونکنا بند کردیا۔ میں نے گردن نیچے کی اور فوکسی کو دیکھنے لگا۔ فوکسی نے نظریں گراتے ہوئے اپنی گردن زمین کے ساتھ لگا لی۔ فوکسی مجھے مسلسل حیران کر رہا تھا۔
نہ جانے کس کا الام بجا اور میری آنکھ کھل گئی۔ دور کہیں سے مؤذن سوئے ہوئے لوگوں کو کام یابی کی جانب بھلا رہا تھا۔
…………
صبح اٹھے تو ہمارے لیے عربی قسم کا ناشتہ بالکل تیار تھا۔ پراٹھے، چائے، انڈے تو تھے ہی تھے مگر ساتھ میں دیسی پنیر اور دیسی مکھن بھی تھا۔ نوید صاحب نے اپنا کھجوروں والا ڈبہ بھی کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا۔ ایسے اعلیٰ اور طاقت سے بھر پور ناشتے نے ہماری سارا دن تروتاز رہنے میں بہت مدد کی۔
میری آنکھ چوں کہ ذرا جلدی کھل گئی تھی، اس لیے میں باہر اسی میدان میں جا کر بیٹھ گیا۔ رات کا خواب مجھے عجیب طرح سے پریشان کر رہا تھا۔ میں لاشعوری طور پر اسی حالت میں دوسری کرسی پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گیا۔ اچانک سے میں نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو وہاں فوکسی زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے گمان گزرا کہ رات کا خواب تنہا میں نے ہی نہیں دیکھا، فوکسی نے بھی وہ خواب دیکھا تھا۔ فوکسی کا میرے اس قدر قریب ہو کر بیٹھ جانا سمجھ سے باہر تھا۔ جلد ہی چھوٹا سا بچہ مجھے بلانے آ گیا کہ ناشتہ لگ چکا ہے۔ میرے پہچنے تک وہ عربی نسل کا ناشتہ لگ چکا تھا۔ سارا سامان غزال پر لاد دیا تھا۔ سب گھر والوں نے ہمیں الوداع کہا اور غزال لشکر گاہز کی جانب روانہ ہو گئی۔ بالکل اسی سمت میں جہاں کل وہ سی مرغ روانہ ہوا تھا۔ غزال نے وادیِ یار خون کے اس ریسٹ ہاؤس کو چھوڑا تو فوکسی زور سے بھونکا۔ تمام گھر والے غزال کو چھوڑ کر فوکسی کو دیکھنے لگے۔
دوسرے دن کے مقابلے میں پہلے دن کا جیپ ٹریک بالکل حلوہ تھا۔ اپر چترال کا جیپ ٹریک زیادہ تر آف روڈ ہی ہے۔ سڑک نہیں ہے اور زیادہ تر آپ کو سیلابی راستوں سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ بڑے بڑے پتھر ہیں۔ فی الحال یہ راستے بالکل حالی تھے۔ یہاں پانی نہیں تھا مگر ہر سال سیلاب انہی راستوں سے گزرتا ہے اور ٹھیک شدت کے ساتھ گزرتا ہے۔ ہر کچھ دیر کے بعد حکومتِ خیبرپختونخوا کی طرف سے یہاں پیغام درج ہے کہ اگر آپ بادلوں کے گرجنے کی آواز یا پتھروں کی آواز سنیں تو راستے سے فوراً ہٹ جائیں کیوں کہ یہ آوازیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب بس پانی پتھروں کے ساتھ آیا سو آیا۔ بعض موڑ اس قدر تنگ ہیں کہ لاہور کی تنگ گلیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ایک وقت میں فقط ایک شخص گزر سکتا ہے اور یہاں ایک وقت میں فقط ایک جیپ۔ دوسری جیپ اگر سامنے سے آ جائے تو ’’وختہ‘‘ پڑجاتا ہے اور ایک جیپ کو کونے میں لگنا پڑتا ہے۔
آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک جیپ دوسری جیپ کو کونے میں لگاتی ہے، پھر گزر پاتی ہے اور اگر ایسے ہی کسی تنگ راستے پر جیپ خراب ہوجائے تو بس پھر رہے نام اللہ کا۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ ایک تنگ سی گزرگاہ پر سامنے سے آنے والی جیپ خراب ہو گئی تو اس کے ٹھیک ہونے تک ہمیں بھی وہاں رہنا پڑا۔ ہماری بری قسمت کہ پہلے والی گاڑی عین ایک چھوٹے سے موڑ پر ہی خراب ہو گئی۔ ہمارے والے ڈرائیور نے بھی عین اسی جیپ کے منہ کے ساتھ منہ لگا کر ہماری غزال کو کھڑا کر دیا۔ ہماری غزال شریف تھی، اس لئے ذرا شرما گئی۔ بھلا ہو قدرت کا کہ پہلی والی جیپ جلد ہی ٹھیک ہو گئی ورنہ ہماری غزال تو ہاتھ سے جانے والی تھی۔
ایک اہم بات میں آپ کو بتانا بھول گیا۔ اگر آپ نقشے میں کرومبر کو دیکھیں تو یہ آپ کو بالکل اوپر چترال اور گلگت بلتستان کے بارڈر پر ملے گی مگر یہ جھیل گلگت بلتستان کا حصہ ہے۔ اگرچہ کہ ہم وادی چترال کی طرف سے جاتے ہیں جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ یہاں سے راستہ لمبا تو ہے مگر یہ بالکل سیدھا سیدھا ہے جب کہ گلگت بلتستان کی طرف سے جانے کی صرف میں آپ کو درہ درکُوت پار کرنا پڑے گا جو کہ مکمل طور پر ایک ٹیکنیکل درہ ہے۔ یہاں کے لوازمات اور ہیں۔ قدرتی طور پر کرومبر کے پانیوں کا بہاؤ بھی دریائے گلگت کی طرف ہی ہے۔
کرمبر یا کرومبر اصل میں ’’واخی‘‘ زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’آسمانوں کی چٹانیں‘‘ ہے۔ کرم واخی زبان میں چٹان ہے اور امبر مطلب آسمان۔ غالباً جھیل کا نام جھیل کی بجائے اردگرد ہوشربا پہاڑوں کے باعث ہے۔ لفظ Karakoram میں جزو ’’کرم‘‘ کا مطلب بھی چٹان ہے کیوںکہ یہ بھی ایغور واخی لفظ ہے۔
عموماً شمال کی جھیلوں کے نام میں ہی جھیل کا لفظ شامل ہوتا ہے۔ جہازڈنڈ یا مہوڈنڈ میں ڈنڈ کا مطلب جھیل ہے۔ یا لولوسر اور شیوسر یا دودی پت سر میں سر کا مطلب بھی جھیل ہے، مگر یہ فارمولا ہر جھیل کے ساتھ نہیں۔ کرمبر کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ واخی میں جھیل کا لفظ کچھ اور ہے جو دست یاب نہیں، لیکن وہ لفظ کرمبر میں شامل نہیں۔ مگر شینا زبان میں بر کا مطلب پانی ہی ہے۔ اسی لیے میرے مطابق کرومبر کے ساتھ بھی لفظ جھیل اضافی ہوگا۔ اصل لفظ کرامبر ہے، بعد میں کرمبر، کرومبر وغیرہ مشہور ہوئے۔
کرومبر چوں کہ عین پاک افغان سرحد پر واقعی ہے، اسی لیے یہاں تک آنے کے لیے آپ کو این او سی درکار ہوگا، جس کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ آپ اے سی آفس چترال یا ڈی آفس بونی میں سادہ کاغذ پر ایک درخواست لکھیں گے۔ اپنے اس علاقے تک جانے کا مقصد بیان کریں گے، آپ کتنے دنوں تک اس علاقے میں قیام کریں گے اور کچھ ضروری معلومات اور اپنے شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ آپ یہ درخواست جمع کروا دیں گے۔ وہ ضروری معلومات کیا ہوں گی؟ دفتر والے آپ کی مکمل راہ نمائی کریں گے۔
وہ چترال ہے بھائی، پنجاب پولیس تھوڑی ہے جو خواہ مخواہ آپ کو پریشان کرے گی۔ درخواست دینے کے کچھ دیر تک آپ اسی دفتر میں انتظار کریں گے اور آپ کو ایک این او سی لیٹر جاری کردیا جائے گا جس کی آپ کم از کم پندرہ سے بیس کاپیاں کروا لیں کیوں کہ آگے آنے والی ہر چترال اسکاؤٹس کی چیک پوسٹ پر آپ کو این او سی کی ایک کاپی جمع کروانی ہے اور اصل اپنے پاس رکھنی ہے۔ آپ جوں ہی این او سی حاصل کریں گے تو بذریعہ ٹیلی فون آگے آنے والی ہر چترال اسکاؤٹس کی چیک پوسٹ پر مطلع کردیا جائے گا کہ بادشاہ سلامت تشریف لا رہے ہیں یعنی کہ آپ کے جھیل تک جانے سے پہلے آپ کی بدنامی کے قصے جھیل تک پہنچ چکے ہوں گے۔ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں شاید اسی کو کہتے ہیں۔
دوسرے دن جب غزال نے چلنا شروع کیا تو ہمیں چترال اسکاؤٹس کی پہلی چیک پوسٹ ’’دوبار گر‘‘ میں ملی۔ گاڑی یہاں کچھ دیر کے لیے رک گئی۔ ہم سب کو جیپ سے نیچے اتار دیا گیا۔ خدا نخواستہ چترال اسکاؤٹس کی طرف سے ایسا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا بلکہ ہمیں ٹانگیں سیدھی کرنے کے لیے یہاں دس منٹ کا بریک دیا گیا تھا۔ میں نیچے اترا تو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہماری غزال کے پاس کھڑے تھے۔ میں عادت سے مجبور ہو کر بچوں کے ساتھ فوٹوز بنانے لگا۔ سب بچے میرے پاس جمع ہو گئے۔ معلوم پڑا کہ نیچے قریب ہی ان کا سکول ہے اور فی الحال بچوں کا اسکول بریک ہے۔ بریک میں بچوں کو اسکول سے باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
وہاں بچے آزادی سے کسی بھی وقت گھوم سکتے ہیں۔ وہ معصوم لوگ ہیں جن کی نظروں میں حیا ہے۔ وہاں نہ تو آپ کو چوری چکاری کا ڈر ہے اور نہ بچوں کے کھو جانے کا۔ بچے شوق سے مجھے اپنے اسکول لے گئے۔ میں بنا کسی کو بتائے ان کے اسکول جا پہنچا جہاں بچوں کے اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر نے خوش دلی سے استقبال کیا۔ تھوڑی بہت گپ شپ ہوئی۔ ان کی طرف سے چائے کی آفر نہ چاہتے ہوئے بھی ٹھکرانا پڑی کہ ہمیں بریک صرف اور صرف دس منٹ کی ملی تھی۔ میں نے چھوٹے مگر پیارے سے اسکول کا وزٹ کیا، ایک دو تصاویر بنوائیں اور ان سب دوستوں کا شکریہ ادا کرکے اسکول سے باہر نکل آیا۔ باہر نکلا تو بچے بھی مجھ سے مانوس سے لگنے لگے تھے۔ میں غزال کے پاس پہنچا تو سب ہاتھ ہلانے لگے۔ غزال چل پڑی۔ میں نے شیشے کی مدد سے پیچھے دیکھا تو کچھ بچے ابھی تک ہاتھ ہلا رہے تھے۔ میں نے بھی ان بچوں کو ہاتھ ہلا کر ایک الوداعی پیار کیا اور پھر سیدھا ہوگیا۔
ذرا آگے کو ہوئے تو ہلکی پھلکی پھوار شروع ہوگئی۔ پہاڑوں پر یہ معمول کی بات ہے۔ میرے دائیں جانب ایک خوب صورت پہاڑ نمودار ہوا جو کہ کوہ زوم تھا۔ کوہ زوم اصل میں سلسلہ ہندو راج کا ایک پہاڑ ہے جو چترال اور گلگت بلتستان کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ پر کوہ پیمائی پہلی بار 1968 میں آسٹریا کے کوہ پیماؤں نے کی تھی۔ کوہ زوم ایک ایسا برف سے ڈھکا ہوا پہاڑ تھا جس میں شاید کوئی طلسم تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے قدرت نے اپنے ہاتھوں سے اسے برف کا لباس پہنا دیا ہو۔ اوپر بھی بیان کیا ہے کہ اپر چترال میں سیلاب ہی اتنے آتے ہیں کہ یہاں کوئی سڑک نہیں بلکہ پتھروں اور مٹی پر آپ کو چلنا پڑتا ہے۔
میں نے شور مچایا کہ کچھ دیر کے واسطے ہی غزال کو روک دیا جائے کہ کوہ زوم سے آنکھوں کو ٹھنڈا کیا جا سکے مگر تسلی ملی کہ یہاں سے کوہ زوم کا نظارہ اتنا اچھا نہیں۔ ہم جوں جوں اگلے چلتے جائیں گے، کوہ زوم کا نظارہ صاف اور واضح ہوتا چلا جائے گا اور پھر ایک ایسی جگہ غزال کو روکا جائے گا کہ آپ کی طبعیت خوش ہوجائے گی۔ میں من ہی من میں خوش ہوگیا کہ ابھی جی بھر کر کوہ زوم کا دیدار کیا جائے گا مگر میں نے کوہ زوم کے اس نظارے سے بھی نظریں نہیں ہٹائیں۔ تھوڑی دیر بعد کوہ زوم کہیں کھوگیا۔ میں نے شور مچایا کہ غزال کوہ زوم کے لیے کب رکے گی؟ آگے سے جٹ صاحب بولے، ’’او جگر! آگے نظارے بہت ہیں، بس چپ چاپ بیٹھا رہ۔۔۔‘‘ مجھے تب اندازہ ہوا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ کوہ زوم چلا گیا ہے۔ یہ اب مڑ کر واپس نہیں آئے گا اور یہی سچ ثابت ہوا۔ کوہ زوم کو نہ آنا تھا، نہ وہ آیا مگر میرے دل پر ہمیشہ کے لیے اپنی ایک چھاپ چھوڑ گیا۔ ہائے کوہِ زوم۔
کوہ زوم جاچکا تھا، اب پتھر پر سر پیٹنے کا فائدہ کوئی نہ تھا۔ ہماری گھڑیوں اور پیٹ کے مطابق تو دوپہر ہوچکی تھی۔ غزال شاہراہِ عام سے ہٹی اور اس نے یہاں کے قصبہ گرم چشمہ پر بریک لگا دی۔ وجہ تسمیہ یہی تھی کہ یہاں ایک گرم چشمہ تھا جہاں فی الوقت دو عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں۔ یہاں کھیتوں میں سرسوں پھولی ہوئی تھی، جس کے ساتھ ایک قریبی پہاڑ کا نظارہ دل فریب تھا۔ احباب تو دور سے ہی کھڑے اس پہاڑ کی تصاویر لیتے رہے مگر میں ذرا سرسوں کے قریب چلا گیا۔ یہاں ایک بوڑھی اماں جی سرسوں کے کھیت میں کام کر رہی تھیں۔ اصل میں ایک گائے کا بچہ ان کے قابو میں نہ آ رہا تھا۔ اماں جی اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگتیں اور وہ سرسوں میں گھس جاتا۔ آخر وہ گائے کا بچہ قابو میں آیا۔ میں نے اماں جی سے پوچھ کر ان کی تصویر بنائی اور واپس چلا گیا۔
سڑک اب عجیب سے عجیب ہوتی جا رہی تھی۔ ریتلی سطع، پتھر اور بہت سے راستے کے پانی۔ غزال اب سست روی سے چل رہی تھی۔ پتھریلی سڑک اسے رفتار تیز کرنے نہ دیتی تھی۔ آسمان پر بادل گہرے سے گہرے ہوتے جا رہے تھے مگر یہ بھی شکر کہ وہ برسے نہیں۔ غزال نے اچانک سے عمودی چڑھائی چڑھنا شروع کردی اور ہمارے دائیں جانب برف کی ایک دنیا سی نکل آئی۔ معلوم پڑا کہ چٹی بوئی گلیشیر تھا جس کی برفیلی رگوں میں یخ بستہ سفید خون دوڑ رہا تھا۔ یہ اتنا دہشت زدہ تھا کہ ہمارے جسموں میں بھی ایک سرد لہر دوڑا گیا۔
چٹی بوئی۔۔۔ جس کا مطلب ہے بڑے سوراخوں یا دراڑوں والا گلیشیئر۔ چٹی بوئی گلیشیئر بنیادی طور پر دو عظیم ترین سلسلہ ہائے کوہ کا سنگم ہے۔ دائیں جانب کوہ ہندوکش ہے جب کہ بائیں جانب کوہ پامیر کی سخت چٹانیں ہیں۔ ہندوکش میں بلندیاں ہیں، اونچائیاں ہیں جب کہ پامیر میں ثقافت ہے اور دونوں کے درمیان چٹی بوئی ہے۔ چٹی بوئی ہمارے سامنے سے شروع ہورہا تھا۔ یہ ختم کہاں ہوتا تھا، یہ ہمیں معلوم نہ تھا۔ جس گلیشیئر کا نام ہی بڑے سوراخوں والا یا بڑی دراڑوں والا گلیشیئر ہو تو وہ اصل میں کیسا ہوگا، آپ اندازہ لگا ہی سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے چٹی بوئی تھا اور ہم اس کے سامنے احترامً سر جھکائے کھڑے تھے۔ اس کی عظمت کا اقرار کر رہے تھے۔ ہمارے سامنے برف ہی برف تھی۔ میں نے زندگی میں ہلکے پھلکے گلیشیئر تو بہت دیکھے تھے اور ان پر چلا بھی تھا۔
مجھے یاد ہے دودھی پت سر جاتے ہوئے بھی ہمارے راستے میں دو گلیشیئر آئے تھے۔ ایک بچہ گلیشیئر تھا اور ایک ذرا بڑا گلیشیئر تھا اور ان دونوں کو ہم نے بہت اختیاط سے پار کیا تھا۔ خاص کر اس بڑے گلیشیئر کو، جہاں ہم ایک ایک قدم بہت پھونک پھونک کر رکھتے تھے۔ چلتے تو ہرگز نہ تھے بلکہ رینگتے تھے۔ ان گلیشیئروں پر رینگ پانا بھی غنیمت ہے، مگر یہ چٹی بوئی کوئی ایسا گلیشیئر نہ تھا جس پر کھڑا بھی ہوا جاسکے۔ آپ صرف اس کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اس سے ذرا دور کھڑے ہو سکتے ہیں کہ مرکزی شاہراہ اور گلیشیئر کے درمیان بہت سی اونچی نیچی چٹانیں حائل ہیں جو آپ کو چٹی بوئی کو چھونے سے روکتی ہیں۔
سخت برف کے چند ٹکڑے اپنے گلیشیئر سے الگ ہوکر پانی میں تیرنے لگے تھے۔ یہ گلیشیئر یہاں کب سے تھا، ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ برف بہت سخت اور کالی ہوچکی تھی۔ جہاں سے برف ٹوٹ کر گری ہوئی تھی، وہاں سے برف کا رنگ بالکل کرسٹل کی طرح تھا۔ ہمارے سامنے تاحدِ نگاہ چٹی بوئی ہی پھیلا ہوا تھا۔ دو پہاڑوں کے درمیان برف کا ایک درہ سا بنا ہوا تھا جس پر صرف دو چیزیں تھیں، برف اور بادل۔ کہتے ہیں کہ برف کی ایک الگ دنیا ہوتی ہے جس میں اگر آپ گم ہوجائیں تو موت آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ چٹی بوئی گلیشیر کو دیکھ کر یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آ رہی تھی۔ چٹی بوئی کے سامنے کھڑے ہو کر کسی نے مجھ سے پوچھا کہ اس گلیشیئر کے نیچے کیا ہوگا۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔ موت۔
یہ کوئی بہت قدیم گلیشیئر نہیں، کتابوں میں پڑھا ہے کہ 1905 میں آنے والے سیلاب کو یہاں کی چٹانوں نے روک لیا۔ موسم کی سختیوں اور موسمِ سرما کی برف باری نے اس پانی کو جما دیا۔ اب ہر گرمیوں میں گلیشیئر کچھ نہ کچھ پگھل جاتا ہے مگر ساتھ ہی سرما کی برف باری اس میں آنے والی کمی کو پورا کر دیتی ہے۔
وہ زمانے چلے گئے جب لوگ گلگت سے واخان کوریڈور جانے کے لیے چٹی بوئی گلیشیئر اور درہ درکُوت کو پار کرتے تھے۔ پہلے زمانے میں جب سرحدیں نہ تو دلوں میں تھیں اور نہ کاغذوں میں تو یہاں سے لوگ واخان سے ہوتے ہوئے روس (موجودہ تاجکستان) جاتے تھے۔ آج بھی وادی بروغل میں ایسے بہت سے لوگ آباد ہیں جن کے آباؤ اجداد تاجکستان سے یہاں آکر آباد ہوئے۔ اسی لیے وہ آج بھی اپنے نام کے ساتھ تاجک لگاتے ہیں۔
چٹی بوئی پر پہلی نظر ڈالتے ہی آپ کو گلیشیئر کے اردگرد بہت سی ریت پڑی نظر آتی ہے جو کہ اصل میں برف ہے۔ سخت اور گرد سے اَٹی ہوئی برف۔ ہمارے سامنے جو گلیشیئر تھا، اس کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہی ہمیں نظر آرہا تھا۔ اصل لامتناہی گلیشیئر تو اس درے سے پیچھے کی جانب تھا جو ہمیں نظر نہ آتا تھا۔ ہمارے اور چٹی بوئی کے درمیان ایک حجاب تھا۔ اچھا ہوا کہ یہ حجاب قائم رہا، ورنہ ہمیں کوہ ہندوکش تک پھیلے اس گلیشیئر کی وسعت دیکھنے کی بالکل بھی تمنا نہ تھی۔ میں نے کوشش کی کہ چٹی بوئی کے ذرا قریب ہوا جائے۔ اس کے لیے ایک دو بڑی چٹانوں کو پار بھی کیا مگر گلیشیئر کی بڑی اور گہری داڈروں میں سے ایک سیاہ شے کو ہلتے ہوئے محسوس کیا۔
میں انہی چٹانوں پر رک گیا اور آگے جانے کا ارادہ فوراً ترک کردیا۔ جب یہی سیاہ شے مجھے وادیِ سون کی ایک عام سی جھیل کے کنارے ملی تھی تو میں ہنسا تھا کہ وہ مجھے یہاں کیسے مل سکتی تھی مگر یہاں چٹی بوئی گلیشیئر کے پاس کھڑے ہوکر میں نے اسے فوراً پہنچان لیا تھا۔ یہ وہی تھی، اور مجھے یہاں مل سکتی تھی۔ میں نے فی الحال سیاہ لبادے میں لپٹی ہوئی گلیشیئر کی گہری داڈروں میں سوئی ہوئی موت سے دور رہنا ہی بہتر سمجھا جسے میرے چند قدم اٹھانے پر ہی میری وہاں موجودگی کا احساس ہوگیا تھا۔ یہاں سیاہ لباس میں لپٹی موت نے ذرا کروٹ لی، وہیں میں پیچھے ہٹ گیا۔
سب غزال میں سوار ہونے لگے۔ ہم نے چٹی بوئی کو آخری سلام کیا اور بروغل کی آخری چیک پوسٹ کی طرف بڑھنے لگے۔ غزال چلتی گئی، بلند ہوتی چلی گئی۔ وادیِ یارخون ختم ہوچکی تھی، وادیِ بروغل شروع ہوچکی تھی۔ کہیں بلندیوں پر چلتے ہوئے ایک پولو گراؤنڈ بھی آیا۔ معلوم ہوا کہ یہاں بروغل اور شندور والوں کے درمیان پولو میچز بھی ہوتے ہیں۔ جلدی ہی غزال نے بریک لگا دی۔ ہم سب کو نیچے اترنے کا حکم صادر ہوا، شناختی کارڈ ضبط کر لیے گئے اور ہمیں دس منٹ کی بریک دے دی گئی مگر شناختی کارڈ واپس نہ کئے گئے۔ وجہ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ یہ وادیِ بروغل کی آخری چیک پوسٹ ہے۔ اس کے بعد ہمیں تنگ نہ کیا جائے گا۔ ہمارے شناختی کارڈ امانت کے طور پر یہیں رہیں گئے جو چار دنوں کے اندر اندر ہمیں یہاں سے واپس لینے ہیں۔ اگر چار دنوں کے ختم ہونے تک آپ واپس نہیں آتے تو متعلقہ ادارے حرکت میں آ جائیں گے۔
(جاری ہے)
The post کرومبر کنارے ایک سرد رات appeared first on ایکسپریس اردو.