Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

 سرکاری جامعات میں 40 فی صد بھرتیاں اضافی ہیں، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی

$
0
0

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے یوں تو سائنس پڑھی ہے، لیکن اُن میں دلّی کی تہذیب میں گھلی ہوئی سخن وَری ان کا سب سے پہلا اور نمایاں حوالہ ہے۔۔۔ اور اِسی شاعری کے متوازی ان کی بطور ماہرتعلیم شناخت بھی قابل قدر ہوتی چلی گئی کہ جب دو عشروں قبل وہ ’جامعہ اردو‘ کے بانی شیخ الجامعہ بنے۔۔۔ پھر جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ قرار پائے، اور پھر نذیر حسین یونیورسٹی کے بعد ضیا الدین یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ کے طور پر بھی اپنی بھرپور خدمات انجام دیں۔۔۔

ان کی باغ وبہار شخصیت میں عاجزی اور انکساری تو موجود ہے ہی، لیکن اس میں ’میاں‘ کہہ کر مخاطب کرنے کی شفقت گویا ہمیں نایاب ہوتی ہوئی تہذیب سے جوڑے دیتی ہے۔ ’سنڈے ایکسپریس‘ کے لیے ان سے وقت لینے کے بعد ہم نے وقت مقررہ پر ان کے دولت کدے پر جالیا۔۔۔ اور اپنے بساط بھر سوالات سے ان کی تینوں نمایاں جہتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔ کئی جگہوں پر انھوں نے بے لاگ اظہار بھی کیا، تو بُہتیرے مقامات پر ہمیں وہ کچھ ’احتیاط سے‘ اظہارخیال کرتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔ ہمارا خیال ہے کہ اس ملاقات کے توسط سے آپ پیرزادہ قاسم صاحب کی شخصیت کا اچھا خاصا عکس پاسکیں گے۔۔۔

ہم نے گفتگو کی ابتدا اسی کثیرالجہت شخصیت کے حوالے سے کی، کہ ’آپ بہ یک وقت بطور ماہر تعلیم، شاعری اور سائنس نمایاں ہیں، لیکن آپ خود کو کیا خیال کرتے ہیں؟‘ انھوں نے کہا:’’اس سے ایک تاثر بکھری ہوئی شخصیت کا بھی بنتا ہے، لیکن ہمیں مختلف جگہوں پر فعال کام کرنا چاہیے، تاکہ معاشرے کے لیے مثبت کام ہو۔ درس وتدریس میرا بنیادی شوق تھا، آج اس شعبے میں 57 سال ہوگئے، پھر اس کے انتظامی امور بھی آگئے۔

کلاس روم کی گفتگو مجھے بہت پسند ہے، جامعہ کراچی میں 12، 15 سال ’ڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹس افیئر‘ رہا، جسے ’امور طلبہ‘ بھی کہتے ہیں، 20 برس وائس چانسلر رہا، 2003ء میں مجھے نوقائم شدہ ’اردو یونیورسٹی‘ کے پہلے وائس چانسلر کے طور پر یہ ذمے داری ملی، اسے جامعہ کے حوالے سے ترتیب دیا، انٹر کے طالب علموں کو ان کے علاقوں کے نزدیکی کالج میں منتقل کرایا، ایک دن بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی۔‘‘

’’جامعہ اردو‘ کے ساتھ ’اردو کالج‘ بھی اپنی جگہ رہتا، تاکہ انٹر کی سطح بھی اس کے بینر تلے جاری رہتی؟‘‘ ہمارے اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’اردو یونیورسٹی کے معاملات طے کرتے وقت اگر کچھ مشورہ ہوتا، تو یقیناً کچھ سلسلہ رکھا جاتا، انھوں نے تو اعلامیہ جاری کر دیا کہ یہ اب یونیورسٹی ہے۔‘‘

’جو لوگ اِسے جامعہ بنوانے کی تحریک چلا رہے تھے، انھوں نے اس حوالے سے کچھ کام نہیں کیا؟‘

انھوں نے بتایا کہ ’’دراصل اردو کالج ایک خودمختار ادارہ تھا، جس کی ’وفاق‘ سے فنڈنگ ہوتی تھی۔ ان دونوں کالجوں کو باہم ملایا، پرنسپل کو ڈین بنایا۔ وائس چانسلر کے لیے ابتداً ’ایچ ای سی‘ پھر ’سائنس بلاک‘ میں جگہ بنوائی۔ وفاقی یونیورسٹی ہے اور ’وفاق‘ میں ہی نہیں، اس لیے اسلام آباد کیمپس کھولا۔ اس وقت کے کاغذات میں لکھا ہوا ہے کہ اسلام آباد کے بعد لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں بھی لازماً کیمپس کھولنے ہیں۔ میں تھوڑے عرصے ہی وہاں رہا، پھر جامعہ کراچی میں طالب علموں، اساتذہ اور غیرتدریسی عملے کے مسائل بڑھ رہے تھے، تو جنرل پرویزمشرف نے 2004ء میں اصرار کرکے مجھے جامعہ کراچی بھیجا، آٹھ برس وہاں رہا۔ میں نے چھوٹے سے مسئلے کو بھی فوری طور پر دیکھنے کی پالیسی بنائی۔ اس طرح مسئلے حل ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔‘‘

ان دنوں جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ کے ممکنہ طور پر اسلام آباد بیٹھنے کی باتوں پر وہ کہتے ہیں کہ ’’وفاقی جامعہ ہے، تو اس کی سیٹ ’وفاقی‘ ہی ہونی چاہیے، لیکن اسے مدنظر رکھا جائے کہ یہ سلسلہ یہیں سے شروع ہوا اور یہیں موجود ہے، اگر یہاں انتظام وانصرام اسی طرح چلائیں تو کوئی حرج نہیں، اخراجات بچیں گے۔ عام یونیورسٹیوں کی ’سینیٹ‘ عام چیزوں کو نہیں دیکھتیں، لیکن یہاں وائس چانسلر کی تقرری سے لے کر سارے مسائل وہیں آتے ہیں۔ جامعہ اردو میں عام سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح کا نظام بننا چاہیے۔‘‘

وہ ’وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس وٹیکنالوجی‘ جیسے غیرضروری طویل نام کے بہ جائے مختصر ’جامعہ اردو‘ نام رکھنے کے خیال کی تائید کرتے ہیں۔ بطور شیخ الجامعہ جامعہ کراچی کے تجربات ساجھا کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’’تمام سرکاری یونیورسٹیوں کا یہی مسئلہ ہے۔ جامعہ کراچی کی فیس آمدنی کے لیے آرہی ہے اور اخراجات کا چار فی صد ہے، فیس بڑھانے پر بہت ہنگامہ ہوتا ہے، خبریں لگائی جاتی ہیں، یہ نہیں بتا رہے کہ کیا فیس ہے؟ اس کے وسائل وغیرہ کو کوئی نہیں دیکھ رہا۔ 1961-1962ء میں، جب میں طالب علم تھا، تو ساڑھے 17 روپے فیس تھی، اخراجات تو بڑھتے چلے گئے۔ وہاں تنخواہ وقت پر دینے کا بندوبست نہیں، اس کی حکمت عملی انتظامیہ کو دینی چاہیے۔‘‘

’کیا آپ سرکاری جامعات میں فیسیں بڑھنے کو درست سمجھتے ہیں؟‘ ہمارے استفسار پر انھوں نے کہا ’’وہ بڑھائیں، نہ بڑھائیں، اخراجات تو بڑھ ہی رہے ہیں، اگر ایسا ہی کرنا ہے تو آپ مفت کردیجیے۔۔۔! جامعہ کے اخراجات کہیں نہ کہیں سے تو پورے کرنے ہیں کہ سرکار دے گی یا کیا ہوگا۔۔۔؟ پہلے ’سینڈیکیٹ‘ میں یہ بات ہوئی تھی کہ بجٹ کی شرح اور مہنگائی کا تناسب دیکھ کر 15 فی صد تک اضافہ کیجیے، اس سے زیادہ نہیں، تاکہ بوجھ نہ ہو۔ عام والدین کا طالب علم کو یونیورسٹی پڑھانا بہت مشکل ہے، ویسے تو ’فری شپس‘ تو بہت تھیں اور بھی لاسکتے تھے۔‘‘

دیگر مصروفیات کے سبب ’سائنس‘ کا شعبہ پس منظر میں چلے جانے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’سائنس کے اپنے مطالبات ہیں، اس میں جذبات صفر ہیں۔‘‘ جذبات اور عدم جذبات کا ذکر چھڑنے پر ہم نے بے ساختہ پوچھا۔ ’’آپ شاعر پہلے ہیں یا سائنس داں؟‘‘ کہنے لگے کہ ’میری پسند کے حساب سے شاعری زیادہ ہوئی۔‘

پھر شاعر تو جذبات ہی پر زیادہ مرکوز ہوتا ہے؟ اس سوال پر انھوں نے کہا کہ ’’شاعری تو مستقل ایک چیز ہے، سائنس تو یہ کہتی ہے کہ بتائیے کہ کوئی چیز ہے یا نہیں؟ مصروفیات میں سائنس کا وقت نہیں ملا، اس میں ہمہ وقت مصروف رہنا ہوتا ہے، سائنس میں اگر دنیا نہیں جانتی کہ آپ نے کیا کیا اور نئی معلومات اور نظریات کیا بنے، تو فضول ہے۔ آگے لے جانے کے لیے تحقیق شائع ہونی چاہیے، اس کا ’امپیکٹ فیکٹر‘ ہونا چاہیے اور اگر وہ کہیں کام آرہی ہے، تو وہ آپ کی تحقیق کا حوالہ دیں گے۔ دنیا کی جامعات میں تدریس اور تحقیق ساتھ ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں اسے الگ کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ تو پہلے ہی اتنے کورس پڑھا رہا ہے، تحقیق کا وقت کہاں ہے! سرکاری یونیورسٹیوں میں پہلے کی طرح فنڈنگ نہیں ہوپاتی، پہلے جامعہ کراچی کو اپنی تحقیق کے حوالے سے کچھ رقم ملا کرتی تھی۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا کہنا ہے کہ ’’سرکاری جامعات میں 40 فی صد بھرتیاں اضافی ہیں۔۔۔! اگر کسی شعبے میں طالب علم کم ہیں، تو وہاں 20 اساتذہ کی ضرورت کیوں؟ جیسے پہلے عربی اور فارسی وغیرہ پڑھتے تھے، انتظامی طور پر ان کا شعبہ مشترکہ بنادیں۔ ہمارے ہاں دو پروفیسر، تین ایسوسی ایٹ، چار اسسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرر کی ترتیب ہوتی ہے۔ پہلے تو ایک کلاس میں 100، 100 طالب علم بھی ہوتے تھے، اب زبان وغیرہ کی طرف رجحان کم ہے۔‘‘

ایک کلاس میں طلبہ کی نارمل تعداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’’ضابطے کے تحت ہر طالب علم کی فی اسکوائر فٹ کے حساب سے جگہ متعین ہے، اب تو 30 کی جگہ پانچ طلبہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سے شعبے تبدیلیوں کے متقاضی ہیں۔ منصوبہ بندی سے چلیے کہ اگر کم اساتذہ میں چل سکتا ہے، تو وہ اسامی کسی اور شعبے میں بڑھا دیجیے۔‘‘

اپنے زمانہ طالب علمی کی جامعہ کراچی کے ذکر پر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم بتاتے ہیں کہ اس وقت کی پرانی عمارتوں کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں، جس کی وجہ سے پنکھے کی ضرورت ہی نہ تھی، ہمارے زمانے میں کہیں پنکھے نہیں تھے، نہ ہی واٹر کولر۔ طلبہ یونین کے تذکرے پر پر انھوں نے بتایا کہ ’’اس وقت کی طلبہ قیادت کو بہت تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ ’طالب علم راہ نما‘ فتح یاب علی خاں جیسے تھے، ان سے کسی بھی موضوع پر بات کرلیجیے، ان کا تجزیہ عالمانہ ہوتا تھا، دنیا میں کیا ہو رہا ہے، وہ سب جانتے تھے۔‘‘

پیرزادہ قاسم اس زمانے میں جاوید جبار (سابق وفاقی وزیر) کی بنائی ہوئی کچھ سماجی تنظیموں میں متحرک رہے۔ کہتے ہیں سیاست میں زیادہ تر ’این ایس ایف‘ اور ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ تھیں، لیکن ’جمعیت‘ کا یہ تھا کہ یونیورسٹی میں ان کے حلقے کے دو، ڈھائی سو لوگ مشترکہ امیدوار کو ووٹ دیتے، بعد میں انتخابی سیاست میں حصہ بھی لینے لگے۔ منور حسن (سابق امیر جماعت اسلامی) ہمارے سامنے تھے، ہمارے طالب علمی کے زمانے میں دوسرے ’ماسٹرز‘ میں داخلہ لیا تھا، وہ پہلے ’این ایس ایف‘ میں تھے، بعد میں ’جماعت‘ میں آئے۔ نفیس صدیقی پہلے ’جمعیت‘ میں تھے، پھر ’این ایس ایف‘ میں گئے۔ یہ دو مثالیں ہیں، دونوں بڑے اچھے لیڈر تھے۔ منور نے جمعیت طلبہ کو منظم کرنے کی کوشش کی۔

جامعہ کراچی میں تشدد شروع ہونے کے استفسار پر وہ گویا ہوئے: ’’جہاں طالب علم ہوں تو جھگڑے وغیرہ تو ہوتے رہتے ہیں، ہمارے سیاسی عناصر نے طالب علموں کو استعمال کرنا شروع کردیا، بعد میں تو ’ایم کیو ایم‘ اور دیگر بھی شامل ہوگئیں، ہمارا کام سمجھانا تھا، ان کو سمجھایا کہ آپ طالب علموں کو کم از کم ’اسٹریٹ پاور‘ میں تو شریک نہ کریں ان کا مقصد تعلیم ہے، اس کے لیے آپ انھیں ضرور رکھیں۔ اسلحہ وغیرہ بعد کی بات ہے، تب 1970ء کی دہائی شروع ہوگئی تھی۔ ضرورت یہ ہوتی ہے کہ جامعہ کراچی شعبہ امور طلبہ فعال رہے۔ ایک مرتبہ ’’جیے سندھ‘‘ والے، کوئی 25 طالب علم ہوں گے۔

ان کا ہاسٹل میں ’جمعیت‘ سے جھگڑا ہوگیا۔ وہ ’این ای ڈی‘ یونیورسٹی کے ہاسٹل جاکر بیٹھ گئے اور جواب دینے کے لیے آتشیں اسلحے کا انتظار کرنے لگے، میں نے انھیں سمجھایا کہ ساتھ رہتے، کھاتے پیتے ہو یہ بہت بری بات ہے۔ یہ 1980ء سے پہلے کی بات ہے۔ ’این ای ڈی‘ ہاسٹل گیا، تو دیکھا کہ وہاں ہتھیار رکھے ہوئے تھے کہ جس سے شام کو حملہ کرنا تھا، پوچھا یہ کیا ہے، کلاشنکوف ہے، یہ فلاں بندوق اور راکٹ ہے۔ پوچھا کہ یہ مل جاتا ہے، کہنے لگے کہ ہاں مل جاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب جامعہ کراچی میں رینجرز موجود نہیں تھی اور پولیس بغیر اجازت کے داخل نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘

پیرزادہ قاسم جامعہ کراچی میں پولیس کی پہلی دفعہ آمد کا زمانہ اندازاً 1980ء بتاتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ ’پہلی دفعہ آتشیں ہتھیار کب نکلا اور اس سے پہلے کتنا اسلحہ تھا، یا جامعہ کراچی میں اسلحہ موجود تھا؟ وغیرہ‘ اس حوالے سے ان کے ذہن میں زمانہ محفوظ نہیں، کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہاسٹل سے ایک ’ڈی ایس پی‘ کی بندوق چھین لی گئی، میں نے بلوایا۔ انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ یہ اندر نہ گھسیں۔ پھر اس سے کہا کہ اچھا تم یہ ہاسٹل کی دیورا سے باہر پھینک دو، بات مانتے تھے، اب کون مانتا ہے، ادھر پولیس کو کہہ دیا کہ اتنے بجے دیوار کے پار سے اپنی بندوق اٹھا لینا۔ یہ واقعہ کس سن کا ہے، یہ یاد نہیں۔

جب ہماری گفتگو کا رخ ان کی سخن وَری کی جانب ہوا، تو پیرزادہ قاسم نے کہا ’’میرا تو خیال ہے کہ شاعری کا شوق تو بچپن ہی سے ہے، یہی ماحول دیکھا، میرے چار بڑے بھائی تھے، سب شعر کہہ سکتے تھے، لیکن میرے سوا کسی نے باقاعدہ شعر نہیں کہا۔ جیکب لائن اسکول اور ’ڈی جے کالج‘ کے رسالوں میں میرا یہ سلسلہ رہا۔ اسکول میں بڑے شعرا جیسے زاہد فتح پوری پڑھاتے تھے۔ سب سے پہلے شعر انھیں ہی دکھائے، وہ شعر کیا تھے؟ اب یاد نہیں، پھر کالج کے رسالے میں غزل چھپوائی۔ ریڈیو پاکستان اور جہاں جہاں مشاعرے ہوتے، وہاں سے ہم اپنی کاپیوں میں اشعار لکھ لیتے۔ 1961ء سے ریڈیو کے پروگرام ’بزم طلبہ‘ سے مشاعرے پڑھنے شروع کیے، جو اس وقت ’یونیورسٹی میگزین‘ کے نام سے نشر ہوتا تھا۔‘‘

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم شعرا میں گروہ بندیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم خیال لوگوں کے حلقے ہوتے، جیسے مولانا ماہرالقادری، ان کے ساتھ تابش دہلوی، محشر بدایونی اور شاعر لکھنوی وغیرہ تھے۔ دوسرا حلقہ ’نقش‘ رسالے کے شمس زبیری کا تھا، ان کے دفتر میں ہی میری پہلی ملاقات خالد علیگ سے ہوئی، عابد حشری بھی وہیں تھے۔ پھر یہ ہوتا کہ مشاعروں کے لیے ایک سے کہا جاتا، وہ اپنے حلقے کے لوگوں کو لے جاتے، غالباً میں واحد ایسا تھا کہ دونوں جگہ سے بلایا جاتا تھا۔ پہلا باقاعدہ مشاعرہ 1964ء کے زمانے میں ’برنس روڈ‘ پر پڑھا، جو شامیانہ لگا کر منعقد کیا گیا، جس کی صدارت غالباً رئیس امروہوی کی تھی۔ اس وقت ’برنس روڈ‘ بڑا مرکز تھا، وہیں ’جنگ‘ کا دفتر تھا۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ترنم سے کلام پڑھنے کے ذکر پر کہتے ہیں کہ ’’پہلے تو یہ رواج تھا، جو ترنم سے پڑھ سکتا تھا، وہ ترنم ہی سے پڑھتا۔ محشر صاحب بھی پہلے ترنم سے پڑھتے اور زہرا نگاہ بھی، ان کی پیش کش بہت اچھی تھی۔‘‘ ہم نے جاننا چاہا کہ ’تحت اللفظ‘ میں شعر پڑھنے کا سلسلہ کب سے شروع ہوا؟ تو انھوں نے بتایا کہ میں تو ’تحت اللفظ‘ سے بھی پڑھتا تھا، پہلے کلام سنانے سے پہلے ایک قطعہ سناتے اور اس کے بعد غزل، اگر پسند کی گئی تو ایک اور غزل۔‘‘

اپنے معروف شعر ’’صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو۔۔۔!‘‘ کے محرک کے حوالے سے پیرزادہ قاسم کہتے ہیں کہ ماحول اور اس وقت کے نشیب وفراز آپ سے یہ سب کہلواتے ہیں۔ یہ غزل کہنے کا زمانہ اندازاً 1970ء یا اس کے بعد کا بتاتے ہیں۔

’’مسلسل قتل ہونے میں بھی ایک وقفہ ضروری ہے!‘‘ ہم نے ایک اور معروف غزل کا ذکر کیا تو گویا ہوئے: ’’میری تو شاعری میں یہ سب چیزیں ملتی چلی جائیں گی، اس کا محرک اس وقت کی چیزیں ہوتی ہیں، لیکن جو کچھ دیکھا ہے بیان کردیا، تو کیا بات ختم ہوگئی؟ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ ہوگیا، لیکن اس پر اظہار دو تین ماہ بعد ہوگا، کبھی فوراً بھی ہوجاتا ہے۔ شعر میں ایک تو احساس اور طرزِاحساس ہوتا ہے اور پھر اظہار اور طرزِاظہار۔ شعر میں حقیقت ہونی چاہیے، ایک حصہ شعریات کا ہے، جو ماورا میں دیکھتا ہے، کیوں کہ شاعر تو ان چیزوں کو بھی دیکھتا ہے، جو بہ ظاہر نظر نہیں آرہیں، کسی بڑے شخص کا قول ہے کہ اگر تم صرف وہی دیکھتے ہو جو تمھیں نظر آرہا ہے اور وہی سنتے ہو جو تمھیں سنائی دے رہا ہے، تو دراصل نہ تم دیکھ رہے ہو اور نہ سن رہے ہو۔ ’ماورائے سخن بھی ہے ایک بات!‘ میں کہتا ہوں کہ شعر کو زندگی کی تصویر نہیں تفسیر بھی ہونی چاہیے۔‘‘

پسندیدہ شعرا کے سوال پر پیرزادہ قاسم فرماتے ہیں کہ ’’اب تو کوئی اساتذہ کو نہیں پڑھتا، وہ تو خود استاد بنے ہوئے ہیں۔ ہم اساتذہ کو پڑھتے اور اپنے وقت میں دیکھتے تھے کہ کون ہے، کیسا ہے۔ میرا زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ شاید صدیوں میں ایسا ہوتا ہو۔ کچھ ہم عصر، کچھ مجھ سے پہلے اور کچھ بعد کے۔ شاعری اور نثر کے بہ یک وقت پانچ پانچ دس، دس سال کے وقفے سے عظیم نام موجود تھے۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ان کے ساتھ ذاتی تعلق رہا، سیکھا۔ علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، اختر الایمان ان سے ذاتی رابطے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ نثر میں بھی بڑے لوگ مل گئے۔ فیض کے بعد احمد فراز نے بھی عمدہ اشعار کہے ہیں، احتجاج اور رومان، دونوں بنیادی عناصر جیسے فراز کے ہاں ہیں، ایسے کہیں نہیں ملتے۔ منیر نیازی کی شعر کی فضا بالکل الگ ہے۔

ابن انشا بہت پسند رہے، ان کی شاعری ’ٹَچنگ‘ ہے، ان کی لفظیات بڑی خاص ہیں۔ ویسے زبان، ترکیب اور پیش کش وغیرہ سیکھنا چاہیں، تو تو تابش دہلوی کو پڑھیں۔ میں جن سے قریب اور متاثر رہا، وہ محشر بدایونی ہیں۔ وہ پرانی روایت سے جڑے ہوئے تھے، لیکن انھوں نے غزل کی نئی تہذیب کو بھی اپنایا، نئے کہنے والوں کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملا کر چلنے کی سکت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ آج کے زمانے میں سحرانصاری کی فکری سطح بہت اچھی ہے۔ خواجہ رضی حیدر بہت اچھے سلیقے کے شاعر ہیں، جاوید صبا بہت اچھی شاعری کہہ رہے ہیں، ان کی غزل میں کوئی قابل توجہ بات ضرور ہوتی ہے۔ سلیم کوثر ہمارے وقت کا سرفہرست شاعر ہے۔ نصیر ترابی کے شعر کمال کے ہیں، افتخار عارف ہمارے ساتھ کے ہیں، جنھوں نے شاید شعر کہنے تو پہلے سے شروع کیے ہوں، لیکن پڑھے ہمارے ساتھ ساتھ۔ اندر سے لگتا تھا کہ یہ آدمی شعر وادب کے ساتھ ہے۔ ہم سے سنیئر انورشعور، وہ مانتے نہیں، وہ ہم پہلے سے شعر کہہ رہے ہیں، اس کی وضع الگ اور اپنا ہی ’ڈکشن‘ ہے۔‘‘

’مشاعروں کے آداب‘ کا ذکر ہوا کہ جیسے تالیوں کے بہ جائے داد دی جاتی تھی، وہ کہتے ہیں کہ ’’پہلے تالیاں بجانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں کوئی چیز اچھی لگتی ہے، تو تالی بجاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، داد بھی دیجیے۔‘‘

فنکشن کی طرز کے مشاعروں پر انھوں نے کہا ’’ہم نئے لوگ جب مشاعرے کے اسٹیج پر جاتے، تو جہاں جوتے اتار کر لوگ آگے جاتے، وہیں بیٹھ جاتے تھے۔ اب تو شاعر اسٹیج پر آنے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ کیمرا کہاں ہے، زیادہ سے زیادہ کیمرے میں کس طرح آئیں گے؟ پرانے وقتوں میں اسٹیج پر بیٹھتے، تو پہلو بدلنا، نیم دراز ہو جانا اور ٹیک لگا لینا عیوب میں سے تھا اور سگریٹ نہیں پینا۔ یہ تہذیب کی بات تھی کہ فیض صاحب بھی چائے کی پیالی میں ’پیتے‘ تھے، اگر وہ گلاس میں بھی پیتے، تو کون منع کرنے والا تھا، لیکن یہ تہذیب تھی۔ پان سامنے پیش کیے جاتے تھے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔‘‘

خود کو ملنے والی خاص داد کا ذکر ہوا تو گویا ہوئے: ’’میرا تو کوئی خیال نہیں تھا کہ میں مشاعروں میں جاؤں۔ 1964ء میں ’بزم طلبہ‘ کے مشاعرے میں، صدرِمشاعرہ زیڈ اے بخاری نے میری غزل ’’مجھ پہ تلقین صبر ورضا، خود آسماں ہوگئے!‘‘ پر جو اس وقت انھوں نے داد دی، وہ قابل قدر ہے۔ پھر بخاری صاحب کہلوا کر مجھے مشاعروں میں مدعو کراتے۔ اس طرح باقاعدہ بلایا جانے لگا، ورنہ شاید میں بس شاعری کی کتاب وتاب ہی لکھ لیتا۔ پہلا مجموعہ 1990ء کے زمانے میں آیا، اس کے بعد دو اورکتابیں آچکی ہیں۔‘‘

ہم نے ’خود نوشت‘ کا پوچھا تو بتایا کہ ایسی گفتگو کا ایک سلسلہ ریکارڈ ہورہا ہے، گفتگو میں بات سے بات نکلتی ہے، خود سے لکھنے میں وہ بات نہیں۔ لوگوں کی تحریر سے دوری کے ذکر پر پیرزادہ قاسم کہتے ہیں کہ ’’اس میں آسانی ہے کہ ہر ایک کے پاس موبائل ہے، وقت بدل رہا ہے۔ اب آواز کے ذریعے ’خودکار‘ طریقے سے تحریر لکھی جا رہی ہے۔ اس سے شاید آسانی ہوجائے۔ انٹرنیٹ سے یہ نقصان تو ضرور ہوا کہ سب کچا پکا اٹھا کر ڈال دیتے ہیں، لیکن ترویج ہو رہی ہے۔‘‘

’’کوئی کھلونا بھی ڈھونڈو تو کتابیں ملتی تھیں!‘‘

بچپن کے ذکر پر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے بتایا کہ ’’آٹھ فروری 1943ء کو دلی میں پیدا ہوا، ہم پانچ بھائی اور ایک بہن تھے، بھائیوں میں، میں سب سے چھوٹا تھا۔ ہوش سنبھالا تو ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں تھیں، کوئی کھلونا بھی ڈھونڈو، تو کتابیں ملتیں۔ دوسری چیز موسیقی تھی، جس کا ذریعہ ’ریکارڈ‘ یا ریڈیو ہوا کرتے تھے۔ ایک جاننے والوں کے ہاں ’ریکارڈ‘ بج رہا ہوتا تھا، تو وہاں چلا جاتا، ایک مرتبہ سارا دن ہوگیا، گھر میں ڈھونڈا گیا، تو پتا چلا کہ میں وہاں ہوں۔ میری والدہ کی آواز اچھی تھی، وہ لوریاں اور بیگم اختر کے گیت سناتی تھیں۔ ایک اور عنصر ’تصوف‘ کا بھی ہے، گھر میں شروع ہی سے اس کے حلقے، موسیقی، سماع اور نذر ونیاز ہوتی تھی۔ یہاں بھی یہ سلسلہ رہا ہے۔ وہ آج کل کے ’سماع‘ سے بالکل مختلف ہوتی تھیں۔ کراچی آکر بھی اس سے شغف رہا کیماڑی میں ہمارے ساتھ کبیر نواز ستار نواز، سارنگی پر حبیب خاں، طبلے پر اللہ رکھا ہوتے تھے۔ اس میں غزل کی گائیکی تھی۔ عبدالقادر پیا رنگ غزلوں کو ان کی اپنی تہذیب کے ساتھ گاتے تھے۔‘‘

ہم نے ہجرت کی یادیں ٹٹولیں تو وہ کچھ گویا ہوئے ’’تب سال 1948ء لگ رہا تھا، عمر کا پانچواں برس، میرے والد ضیا صدیقی کا تجربہ پرنٹنگ کا تھا، صحافت بھی سمجھ لیجیے کہ کبھی کچھ کمی ہوتی، تو لکھتے اور ایڈیٹنگ بھی کردیتے۔ وہ 1920ء سے اس شعبے میں تھے۔ ’الجمعیت‘ کا سارا نظام بھی والد کے سپرد تھا، جب مولانا مودودی اس کے ایڈیٹر تھے۔ مولوی مظہرالدین کے ’الامان‘ اخبار میں بھی کام کیا، ’ریاست‘ اخبار میں دیوان سنگھ مفتون کے ساتھ بھی رہے۔

’مسلم لیگ‘ سرگرم ہوئی، قائداعظم اس میں اپنی جگہ، لیکن اس کی فنڈنگ اور چھپائی وغیرہ کے سارے معاملات لیاقت علی خان کی نگرانی میں ہوتے اور ان کے قریبی آدمی میرے والد ہوتے تھے۔ ’مسلم لیگ‘ کے پمفلٹ اور اس کا سارا مواد میرے والد کے پاس ہوتا، ’مسلم لیگ‘ نے جب صحافت میں پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے ’ڈان‘ شروع کیا، تو اس کی طباعت واشاعت کا انتظام وانصرام بھی میرے والد ضیا صدیقی ہی کرتے تھے۔ شاید اس وقت تقسیم وغیرہ کا خیال نہیں تھا۔ کراچی میں ’ڈان‘ کے اخراجات ’ہارون فیملی‘ نے اٹھا لیے، ورنہ یہ ’مسلم لیگ ٹرسٹ‘ کا اخبار تھا، اس وقت یہ خیال تھا کہ ’ڈان‘ دہلی سے پہلے کی طرح نکلتا رہے گا۔ ’دریا گنج‘ میں اس کے دفتر کو سردارپٹیل کے جلوس نے آگ لگا دی۔ میرے والد وہاں عملے کے آخری لوگوں میں سے تھے، انھوں نے چھتوں پر سے پیچھے کود کر جان بچائی، ان کے وارنٹ گرفتاری نکال دیے گئے۔

’تحریک کے دوران کیا تاثر تھا کہ پاکستان کہاں بنے گا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے سوچ بچار کرنے والے بہت تھے، چوہدری رحمت علی نے یہ دیکھا تھا کہ جہاں جہاں اکثریت ہے وہاں بنے، دوسرا تصور یہ تھا کہ پاکستان الگ بن جائے۔ میرے رشتے کے ماموں تفضل حسین مہر ’اینگلو عربک اسکول‘ میں پڑھاتے تھے، انھوں نے ایک کتاب چہ ’راہ نمائے آزادی‘ نام لکھا، جس میں مجھے یاد ہے ایک آدمی سبز ہلالی پرچم لیے ایک سڑک پر رواں ہے، تو گویا یہ ایک جانے کا تصور تھا۔ اس میں انھوں نے سردارپٹیل اور دیگر کے خلاف بڑا سخت لکھا، ان کے بھی وارنٹ گرفتاری نکالے گئے۔ اس طرح سے ہم وہاں ’پرانے قلعے‘ چلے گئے، وہاں کتنے عرصے رہے، یہ یاد نہیں، لیکن پھر ٹرین میں جتنے بیٹھ سکے نکلے، پھر اگلی ٹرین میں، اس طرح لاہور پہنچے، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘

بَلوے کے ذکر پر وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ تو ہو رہے تھے، مسلمان بھی لڑ رہے تھے اور فوج بھی بلا لی گئی تھی، میں تو بہت چھوٹا تھا۔ اس وقت جو ٹرینیں دلی سے آرہی تھیں، تو جو لوگ یہاں پہلے پہنچ گئے، وہ روز اسٹیشن پر آکر کھڑے ہوتے تھے کہ کوئی ملنے والا نظر آئے یا کوئی مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کر دیں۔ جب ہماری ٹرین لاہور پہنچی، تو میرے بڑے بھائی اسلم پیرزادہ کے دوست موجود تھے، وہ فوراً ہمیں ’کرشن نگر‘ لے گئے، وہاں چھوڑ کر جانے والوں کے گھر خالی تھے، وہاں کوئی سامان نہیں تھا، لے گئے ہوں گے، پہلی رات وہیں چٹائی بچھا کر گزاری۔ بڑے بھائی مصباح علی گڑھ میں تھے، وہ بعد میں پہنچے۔ ہجرت کے بعد کی پہلی رات، سوتے کیا، نیند کیا آتی! صبح سب سے پہلی آواز ’نوائے وقت‘ اخبار بیچنے والے کی سنی! تب ’ہاکر‘ آوازیں لگا لگا کر اخبار بیچتے تھے۔

ہمارا لیاقت علی خان سے رابطہ ہوا، انھوں نے فوراً 500 روپے لاہور بھجوا دیے، جو بہت تھے۔ پھر ٹرین میں کراچی آئے۔ کراچی رخ کرنے کا سبب وہ یہاں دارالحکومت ہونا بتاتے ہیں کہ اگر لاہور ہوتا، تو پھر وہیں رکتے۔ میرے بڑے بھائی کے ’ہم جماعت‘ عبدالرحمٰن کے رشتے دار پہلے ہی چاکیواڑہ (کراچی) آچکے تھے، ہم کراچی پہنچے، تو وہ ہمیں مل گئے۔ ’چاکیواڑہ‘ اور پھر کیماڑی پر ’کاؤس جی‘ کی بڑی بلڈنگ میں رہے، جہاں اس وقت کے بڑے صحافی ایم اے زبیری، شمیم احمد، ایم اے شکور وغیرہ رہتے تھے، وہاں صحافی احمد علی خاں کی والدہ نے تو مجھے قرآن پڑھایا۔

’’اردو کا مستقبل؟‘‘
اردو کے مستقبل کے سوال پر پیرزادہ قاسم کہتے ہیں کہ ’’اردو زبان قائم ودائم رہنے والی ہے، لیکن یہ اپنی ضرورتوں کے ساتھ رہے گی، بس جو ہمارے استعمال میں آرہی ہے۔ ’متحدہ عرب امارات‘ میں بھی اردو بول رہے ہیں، تو وہاں بھی آپ کا کام نکل جائے گا۔ علمیت میں اتنی گنجائشیں نہیں رہیں گی، نثر میں ناول بہت کم ہوگئے، سال میں بس ایک دو آتے ہیں۔ شاعری کچھ چل رہی ہے۔ اردو بولی جانے والی زبان کی حیثیت سے ہے۔‘‘

’’رسم الخط کا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اردو تین رسم الخط میں تو لکھی جا رہی ہے، رسم الخط بدلنے سے فرق تو پڑتا ہے۔ تلفظ وہ رہتا نہیں۔ میں تو تلفظ سمجھ لیتا ہوں، لیکن عام آدمی نہیں سمجھ پائے گا۔ اس وقت تلفظ کا جو حال ہے سامنے ہے، مفاہیم بھی بدل دیے ہیں۔ جیسے ٹی وی پر کہتے ہیں ’تعیُنات‘ اس کا مطلب ہے محدود کرنا، ’تعینات‘ درست ہے۔ پہلے ریڈیو میں تلفظ کا پورا شعبہ تھا، وہاں بخاری صاحب تھے، تو لرزہ طاری رہتا تھا کہ اگر وہ سن لیں گے تو پکڑ ہوگی۔ بعد میں تابش صاحب جیسے کچھ لوگوں کو رکھا، جو تلفظ اور آواز کی جانچ کرتے تھے، اب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، کیسی بھی آواز ہو، اسے ٹھیک کرلیا جائے گا۔

کوئی وائس چانسلر دو مدت سے زیادہ نہ لے
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کے بقول 12 برس ’مشیر امور طلبہ‘ رہ کر وائس چانسلر ڈاکٹر ارتفاق علی کے زمانے میں یہ منصب چھوڑا۔ کہتے ہیں کہ چیزوں کو ازخود چھوڑ دینے کی مثالیں آپ کو شاید ہی ملیں۔ پورے سندھ کے وائس چانسلر کے لیے 2004ء میں ’سرچ کمیٹی‘ بنی، مجھے اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ اس کے ضابطے وقاعدے بنائے کہ اگر ایک ’وائس چانسلر‘ کو آٹھ سال یعنی دو مدتوں کے بعد منصب چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر کسی نے اتنے عرصے میں بھی کام نہیں کیا، تو اس کے بعد اس سے توقع نہ رکھیں۔ البتہ استثنائی صورت ہو تو اور بات ہے، جیسے ’این ای ڈی‘ کے وائس چانسلر ابوالکلام تھے۔ لہٰذا جامعہ کراچی میں بطور وائس چانسلر جب آٹھ برس مکمل ہوگئے، تو میں نے سفارش کے باوجود توسیع قبول نہ کی۔ 2012ء میں، میں ضیا الدین یونیورسٹی آگیا۔

ہمارے نذیر حسین یونیورسٹی کے ’وائس چانسلر‘ رہنے کے ذکر پر بتایا کہ وہ اس کے پہلے ’چانسلر‘ کے طور پر جامعہ کراچی کے زمانے میں ہی رہے، پھر میں نے کہا کہ ’وائس چانسلر‘ بنائیں، وہ اسے چلائے۔ چانسلر ضیا الدین یونیورسٹی ڈاکٹر عاصم حسین کے حوالے سے پیرزادہ قاسم کہتے ہیں کہ ’’وہ بہت بریلینٹ آدمی ہیں، ان کا وژن، کمپلائن اور اینی شیٹیو اینڈ ڈرائیو ایکسٹرا آرڈنری ہے، جو میں نے اور کسی میں نہیں دیکھا، مگر نجی جامعات کا الگ سلسلہ ہوتا ہے۔ میرا بطور وائس چانسلر یہاں 10 سال کا عرصہ ہوگیا، تو کہا آپ اپنا بندوبست کرلیں، نظام ایسے ہی آگے بڑھتا ہے، لیکن انھوں نے مجھے تین سال سے بطور ’ایمریٹس‘ رکھا ہوا ہے۔ نجی جامعات میں بھی ایک نظام ہونا چاہیے، مثال کے طور پر ڈاکٹر عاصم اگر کسی کو رکھنا چاہتے ہیں تو رکھ لیں، لیکن طریقہ یہ ہے کہ وہ ’رجسٹرار‘ کو بلا کر کہیں ، بات تو وہی ہوگی، لیکن یہ ایک نظام کے تحت ہوگا۔

سردار عبدالرب نشتر کے بچوں کو گاڑی دور اتارتی تھی!
باضابطہ تعلیم کے حوالے سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم بتاتے ہیں کہ نویں کلاس میں لائنز ایریا کے بیرکس میں بنے ہوئے سرکاری اسکول میں داخلہ لیا، یہیں ایک سیکشن میں ’ٹیکنیکل ہائی اسکول‘ بھی کھل گیا تھا۔ اس وقت تک کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں کہ ایک چھوٹا بچہ کیماڑی سے لائنز ایریا جا رہا ہے، ٹرام چلتی تھی یا دو بسیں بدل کر جاتا۔ ہمارے دو بڑے بھائی یہیں سے پڑھے۔ اس زمانے میں گیارہ سال کا میٹرک ہوتا تھا، اسی بیرکس میں سردار عبدالرب نشتر کے بچے بھی پڑھتے تھے، وہ بعد میں گورنر بھی ہوئے، ان کے گھر سے گاڑی اسکول کے لیے بچوں کو لاتی تو اسے ہدایت تھی کہ انھیں ایمپریس مارکیٹ پر اتار دیا کرو، تاکہ گاڑی اسکول کے سامنے جاکر کھڑی نہ ہو۔

اب کہاں ہیں ایسے لوگ۔۔۔! حبیب جالب میرے بڑے بھائی کے ساتھ وہیں پڑھتے تھے۔ اساتذہ بھی وہیں کے تھے، بتاتے ہیں کہ ایسے جاں نثار کہ مٹی کو ہاتھ لگائیں، تو سونا بن جائے، دو شیروانیاں ہیں، بس ایک سردی کی ایک گرمی کی۔ یہ اسکول پاکستان بننے کے بعد بیرکس میں تھوڑے اخراجات کے ساتھ کھل رہے تھے۔ اس وقت طالب علم زیادہ اور اسکول کم تھے، میں نے 1959-1960ء میں میٹرک کیا، پھر ڈی جے کالج چلا گیا۔ پہلے یہ بمبئی یونیورسٹی سے الحاق شدہ تھا، پاکستان بننے سے چھے مہینے پہلے یہاں ’سندھ یونیورسٹی‘ بنی، تو پھر یہ اس سے منسلک ہوگیا۔ انٹر کے بعد جامعہ کراچی سے آنرز کے بعد 1966ء میں ’ایم ایس سی‘ کیا اور اسی برس سے پڑھانا بھی شروع کردیا۔

The post  سرکاری جامعات میں 40 فی صد بھرتیاں اضافی ہیں، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>