امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی ’جیٹ پروپلژن لیب‘ سے برقیاتی سگنل ایک روبوٹ گاڑی تک پہنچتا ہے اور اس پر نصب اسپاٹ لائٹ روشن ہوجاتی ہے۔
یہ روبوٹ گاڑی الاسکا کی منجمد جھیل کی سطح کے نیچے برفیلے پانی میں تیر رہی ہے۔ جھیل کی سطح پر کچھ ہی دور گڑے ہوئے خیمے میں ایک نوجوان انجنیئر موجود ہے۔ اسپاٹ لائٹ کے روشن ہوتے ہی وہ جوش کے عالم میں پکار اٹھتا ہے،’’ہُرّا۔۔۔ بات بن گئی!‘‘ اگرچہ اس تجربے کی کام یابی ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگی، مگر اس پیش رفت کو دوردوراز فاصلے پر واقع ایک چاند کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم ضرور کہا جاسکتا ہے۔
اس مقام سے جنوب کی طرف 4000 میل کے فاصلے پر میکسیکو کے ایک غار میں ارضی خردحیاتیات کی ماہر ( geomicrobiologist ) پینے لوپ’ مٹر گشت ‘ کررہی ہے۔ غار سطح زمین سے 50فٹ کی گہرائی میں ہے اور اس کی تہہ میں بہتا ہوا پانی پینے لوپ کے گھٹنوں تک پہنچ رہا ہے۔ اپنے دیگر ساتھی سائنس دانوں کی طرح پینے لوپ نے آلۂ تنفس پہنا ہوا ہے۔ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسوں سے بچاؤ کے لیے، جو اکثر غاروں میں پائی جاتی ہیں، اس کے پاس آکسیجن کا ایک اضافی سلنڈر بھی موجود ہے۔
سائنس داں کے اردگرد بہتا ہوا پانی سلفیورک ایسڈ سے بھرپور ہے۔ اچانک اس کے ہیڈلیمپ سے پھوٹتی روشنی غار کی دیوار کے ایک حصے پر پڑتی ہے جہاں سے گاڑھا سفید اور نیم شفاف مایع قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے۔ یہ مایع ہیڈلیمپ کی روشنی میں چمک اٹھتا ہے۔ یہ دیکھ کر بے ساختہ پینے لوپ بول پڑتی ہے،’’ارے! کیا زبردست منظر ہے‘‘
یہ دونوں مقامات۔۔۔۔قطب شمالی کی منجمد جھیل اور ایک زہریلا استوائی غار۔۔۔۔ اس قدیم ترین سوال کا جواب ڈھونڈنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں جو سیکڑوں ہزاروں سال سے حضرت انسان کے ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ وہ سوال ہے کہ آیا ہماری زمین کے علاوہ بھی کسی سیارے پر زندگی پائی جاتی ہے؟ دوسری دنیاؤں میں زندگی، چاہے وہ ہمارے نظام شمسی کا حصہ ہوں یا دوسرے ستاروں کے گرد محوگردش ہوں، ممکنہ طور پر منجمد سمندروں یا پھر بند اور گیس سے بھرے ہوئے غاروں ہی میں پائی جاسکتی ہے۔ منجمد سمندر زحل کے چاند یوروپا موجود ہے، جب کہ گیسوں سے بھرے ہوئے غار مشتری پر بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ زمین پر اسی طرح کی جگہوں پر زندگی کی اشکال کو کیسے شناخت اور علیحدہ کیا جائے تو کرۂ ارض سے باہر حیات کی کھوج بہتر طور پر کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ یہ بتانا مشکل ہے کہ کب خلا میں زندگی کی تلاش سائنس فکشن سے نکل کر عملی سائنس کا حصہ بنی، مگر اس ضمن میں ایک اہم سنگ میل نومبر 1961ء میں فلکیات کے موضوع پر ہونے والا اجلاس تھا۔ یہ اجتماع ایک نوجوان ماہرفلکیات فرینک ڈریک کی کوششوں کا رہین منت تھا۔ فرینک دراصل ریڈیائی فلکیات کا ماہر تھا، جسے خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے جانے والے ممکنہ ریڈیائی اشارات پکڑنے کا خیال پُرجوش بنائے ہوئے تھا۔
ڈریک اب عمر کے چوراسی ویں سال میں ہے، مگر اس وقت کی تمام باتیں آج بھی اسے ازبر ہیں۔ اپنی یادداشت کو کھنگالتے ہوئے ڈریک کہتا ہے،’’جن دنوں میں نے وہ اجلاس بلایا تھا۔ اس زمانے میں خلائی مخلوق کی تلاش فلکیات میں ایک ممنوعہ موضوع کی حیثیت رکھتی تھی اور مجھے امید نہیں تھی کہ میں اجلاس کے انعقاد میں کام یاب ہوپاؤں گا۔‘‘ تاہم ڈریک جس تجربہ گاہ سے وابستہ تھا، اس کے ڈائریکٹر کی کوششوں سے وہ ماہرین فلکیات، کیمیا دانوں، ماہرین حیاتیات اور انجنیئروں کی اچھی خاصی تعداد کواجلاس میں بلانے میں کام یاب ہوگیا۔
ان ہی میں سیاریات کا نوجوان ماہر کارل سیگن بھی شامل تھا۔ اپنے اپنے میدان کے یہ ماہرزمین کی حدود سے پرے زندگی کی سائنس پر گفتگو کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے جو اب خلائی یا فلکیاتی حیاتیات کہلاتی ہے۔ ڈریک خاص طور پر چاہتا تھا کہ چند ماہرین یہ تعین کرنے میں مدد کریں کہ ریڈیائی دوربین پر خلائی مخلوق کی جانب سے مبینہ طور پر نشر کیے گئے سگنلز کو سننے کے لیے زیادہ وقت مختص کرنا کتنا سود مند ہوگا اور خلا میں زندگی کی تلاش کے لیے کون سا طریقہ سب سے مؤثر ہوگا۔ وہ یہ سوچ کر حیران تھا کہ خلا میں کتنی تہذیبیں ہوسکتی ہیں۔ چناں چہ اجلاس میں شرکاء کی آمد سے پہلے اس نے تختۂ سیاہ پر جلدی جلدی ایک تحریر گھسیٹ دی۔
یہ تحریر جو اب ’ ڈریک کی مساوات‘ کہلاتی ہے، اس کے سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک طریقہ وضع کرتی ہے۔ آپ ہماری کہکشاں ’مِلکی وے‘ میں سورج جیسے ستاروں کی تشکیل سے شروع کرتے ہیں، پھر انھیں ان ستاروں کی کسر ( fraction) سے ضرب دیتے ہیں، جو ہمارے نظام شمسی کی طرح سیاروں کا باقاعدہ نظام رکھتے ہیں۔ اب ان کے حاصل ضرب کو ہر نظام شمسی میں موجود ان سیاروں کی تعداد سے ضرب دیں جو حیات کی نمو کے لیے موزوں ہیں، یعنی زمین سے مشابہ سیارے جو اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہوں کہ ان کا سطحی درجۂ حرارت زندگی کی بقا کے لیے موزوں ہو۔ اب اس حاصل ضرب کو ان سیاروں کی تعداد سے ضرب دیں جہاں زندگی نظر آتی ہے اور حاصل ضرب کو ایک بار پھر ان سیاروں کی تعداد سے ضرب دیں جہاں حیات سمجھ بوجھ رکھتی ہو۔ بعدازاں حاصل ضرب کو ان سیاروں کی تعداد سے ضرب کریں جہاں زندگی ریڈیائی سگنلز نشر کرنے کے قابل ہو جنھیں ہم وصول کرسکیں۔
اور سب سے آخر میں ریڈیائی سگنلز نشر کرنے کی اہلیت رکھنے والی تہذیبوں کی تعداد کو وقت کی اس مقدار سے ضرب دیں جو وہ ممکنہ طور پر سگنلز نشر کرنے یا اپنی بقا کی جدوجہد میں صرف کرتے ہیں۔
یہ مساوات منطقی لحاظ سے بالکل درست ہے، مگر اس سے ایک مشکل بھی جُڑی تھی۔ کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ سیاروں کی کسر یا تعداد کیا ہے۔ وہ صرف اس مساوات کے ابتدائی متغیر یعنی سورج جیسے ستاروں کے وجود میں آنے کی شرح ہی سے واقف تھے۔ باقی تمام اعدادوشمار خالصتاً اندازوں پر مبنی تھے۔ خلا میں زندگی کی کھوج کرنے والے سائنس داں اگر بیرونی دنیا سے آنے والا کوئی سگنل پکڑنے میں کام یاب ہوجاتے تو پھر ظاہر ہے کہ ان نامعلوم مقداروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ تاآنکہ ایسا ہو ماہرین کو ڈریک کی مساوات کے متغیرات کی قدر معلوم کرنے کے لیے سرگرداں رہنا ہوگا۔
ڈریک کی مساوات وضع ہونے کے ربع صدی بعد سائنس داں اس قابل ہوسکے کہ اس کے متغیرات کی قدریں اندازاً پُر کرسکیں۔ 1995ء میں جنیوا یونی ورسٹی کے مائیکل میئر اور ڈیڈیئرکوئلوز نے ہمارے نظام شمسی کی حدود سے باہر پہلا سیارہ دریافت کیا جو سورج جیسے ستارے کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ نودریافت شدہ دنیا جسے 51 Pegasi b کا نام دیا گیا تھا، ہماری زمین سے پچاس نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس گیسی سیارے کا حجم مشتری کے حجم سے نصف ہے۔ اس کا مدار اتنا چھوٹا ہے کہ یہ محض چار دن میں اپنے سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرلیتا ہے۔ یعنی اس کا سال صرف چار دن پر محیط ہے۔ اپنے سورج سے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے اس کا سطحی درجۂ حرارت انتہائی بلند 1100 ڈگری سیلسیئس ہے۔
کسی کے لیے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں تھا زندگی اتنے بلند ترین درجۂ حرارت پر نمو پاسکتی ہے، مگر اس سیارے کی دریافت بہت اہم پیش رفت تھی۔ اگلے برس کے اوائل میں سان فرانسسکو اسٹیٹ یونی ورسٹی کے جیفری مرسی اور ان کی ٹیم نے نظام شمسی سے باہر دوسرا اور پھر تیسرا سیارہ دریافت کرلیا۔ اس کے بعد تو جیسے لائن ہی لگ گئی۔ ماہرین فلکیات اب تک ایسے قریباً دوہزا سیاروں کی موجودگی کی تصدیق کرچکے ہیں۔ ان میں زمین سے چھوٹے اور مشتری سے بڑے، ہر طرح کی جسامت رکھنے والے سیارے شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر سیارے کیپلر دوربین کی مدد سے دریافت کیے گئے ہیں جو 2009ء میں ارضی مدار میں پہنچائی گئی تھی۔ ان کے علاوہ بھی ماہرین فلکیات ہزاروں دیگر سیاروں کا سراغ لگا چکے ہیں مگر ان کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
ان سیاروں میں سے کوئی بھی اپنی خصوصیات میں زمین کے بالکل مشابہ نہیں ہے مگر سائنس داں پُراعتماد ہیں کہ بہت جلد وہ زمین کا جڑواں سیارہ دریافت کرلیں گے۔ اب تک دریافت ہونے والے بڑی جسامت کے سیاروں سے متعلق حاصل کردہ تفصیلات کا جائزہ لینے سے ماہرین فلکیات کے علم میں یہ بات آئی کہ سورج جیسے 20 فی صد ستاروں کے گرد زمین سے ملتے جُلتے سیارے موجود ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ان میں سے قریب ترین سیارہ ہم سے بارہ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ فلکیاتی اصطلاح میں یہ فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے، اور ہم اسے اپنا پڑوسی سیارہ کہہ سکتے ہیں۔
یہ خلائی حیاتیات کے ماہرین کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں سیاروں کے کھوجیوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے کہ انھیں اپنی تلاش صرف سورج جیسے ستاروں تک محدود نہیں رکھنی چاہیے۔ ہارورڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات ڈیوڈ چار بونے کہتا ہے،’’اسکول کے زمانے میں ہم سمجھتے تھے کہ زمین ایک درمیانی جسامت کے ستارے گرد ہی گردش کرسکتی ہے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بات درست نہیں تھی۔‘‘ درحقیقت ’’ملکی وے‘‘ کے 80 فی صد سے زاید ستارے جسامت میں بہت چھوٹے، ٹھنڈے، مدھم اور سرخی مائل ہیں، جنھیں M dwarfs کہا جاتا ہے۔ اگر زمین جیسا کوئی سیارہ ایک M dwarf ستارے کے گرد مناسب فاصلے پر رہتے ہوئے گردش کرتا ہے تو اس پر زندگی کے آغاز اور نمو کے لیے موزوں ماحول پایا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سیارے کا ستارے سے فاصلہ زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے سے کم ہو تاکہ اسے مناسب تپش حاصل ہوتی رہے۔
مزید برآں اب سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ کسی سیارے پر حیات کی موجودگی کے لیے اس کی جسامت کا زمین کے مساوی ہونا ضروری نہیں جیسا کہ ڈریک اور کانفرنس کے شرکاء نے 1961ء میں فرض کرلیا تھا۔ علاوہ ازیں درجۂ حرارت اور کیمیائی فضا کی حد یا رینج بھی ڈریک اور اس کے ساتھیوں کی تصور کردہ رینج سے زیادہ ہوسکتی ہے جس میں نامیاتی عضویے پرورش پاسکیں۔
1970ء کی دہائی میں بحری جغرافیہ دانوں جیسے نیشنل جیوگرافک کے رابرٹ بیلارڈ، نے سمندر کی تہہ میں انتہائی گرم سوراخ یا گڑھے دریافت کیے تھے جہاں بیکٹیریا پرورش پارہے تھے۔ پانی میں شامل ہائیڈروجن سلفائیڈ اور دوسرے کیمیکلز پر زندہ رہتے ہوئے یہ بیکٹیریا کثیرالخلوی نامیوں کی خوراک بنتے ہیں۔ سائنس دانوں کے علم میں زندگی کی ایسی اشکال بھی آئی ہیں جو گرم اُبلتے ہوئے چشموں، قطب شمالی میں بچھی برف کی دبیز تہہ سے ہزاروں فٹ کی گہرائی میں، انتہائی تیزابی یا انتہائی اساسی اور بہت زیادہ نمکین یا تاب کار جگہوں ہر، اور سطح ارض سے ایک میل کی گہرائی میں موجود ٹھوس چٹانوں میں پڑے ہوئے رخنوں میں زندہ تھیں۔
ماہرین حیاتیات وجودِحیات کے لیے ضروری جس عامل پر زیادہ بحث کرتے ہیں وہ پانی ہے۔ یہ طاقت ور محلل حل شدہ نمکیات اور اجزا کو ایک نامیاتی جسم کے تمام حصوں تک پہنچاتا ہے۔ 1971ء میں مریخ کی جانب روبوٹ خلائی مشن Mariner 9 روانہ کیا تھا۔ اس وقت سے ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں ’ سُرخ سیارے ‘ پر پانی روانی سے بہتا تھا۔ لہٰذا ممکنہ طور پر وہاں زندگی ، کم از کم جراثیم کی صورت میں وجود رکھتی تھی۔ اور یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس جراثیمی زندگی کی باقیات زیرزمین موجود ہوں، جہاں پانی اب بھی بہتا ہو۔ مشتری کے چاند ’یوروپا‘ کی برف سے ڈھکی سطح پر دراڑیں نظر آتی ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ برف کے نیچے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ سورج سے نصف ارب میل دور ہونے کی وجہ سے یوروپا پر پانی منجمد شکل ہی میں ہونا چاہیے، لیکن اس فلکیاتی جسم پر مشتری اور اس کے کئی دوسرے چاند کی تجاذبی قوتیں مستقل اثرانداز ہورہی ہیں۔ اس کھینچا تانی کے نتیجے میں یوروپا پر حرارت پیدا ہورہی ہے، جس کی وجہ سے برف کی دبیز تہہ کے نیچے پانی مایع شکل میں پایا جاسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس پانی میں زندگی بھی موجود ہوسکتی ہے۔
2005ء میں ناسا کے خلائی جہاز Cassini نے زحل کے چاند Enceladus کی سطح سے دھار کی صورت میں نکلتے پانی کی نشان دہی کی تھی۔ رواں برس اپریل میں مذکورہ خلائی جہاز کی تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ اس چاند پر زیرزمین پانی کا منبع موجود ہے۔ سائنس دانوں کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہے کہ زحل کے چاند کی سطح پر بچھی برف کی دبیز تہہ کے نیچے پانی کتنی مقدار میں ہوسکتا ہے۔ اور کیا پانی کا یہ ذخیرہ اتنی مدت سے موجود ہے کہ اس میں زندگی پنپ رہی ہو؟ زحل کے سب سے بڑے چاند Titan کی سطح پر دریا اور جھیلیں موجود ہیں یہاں تک کہ وہاں بارش بھی ہوتی ہے، مگر یہ بارش مایع ہائیڈروکاربنز جیسے میتھین اور ایتھین کی ہوتی ہے، پانی کی نہیں۔ وہاں وجود حیات پایا جاسکتا ہے مگر اس کی ہیئت کیا ہوگی، اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہوگا۔
مریخ ان دورافتادہ چاند کے مقابلے میں بڑی حد تک زمین سے مشابہ ہے۔ یہ سیارہ زمین سے باہر حیات کی تلاش کے لیے بھیجے جانے والے ہر مشن کی منزل چلا آرہا ہے۔ ناسا کی خلائی تحقیقی گاڑی Curiosity ان دنوں سرخ سیارے کے Gale crater نامی حصے کو کھنگالنے میں مصروف ہے۔ یہاں اربوں سال قدیم ایک جھیل موجود ہے۔ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کسی زمانے میں یہاں کی کیمیائی فضا جراثیم کی پرورش کے لیے سازگار تھی۔
ظاہر ہے کہ میکسیکو کا ایک غار مریخ نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی شمالی الاسکا میں واقع جھیل یوروپا ہوسکتی ہے، مگر یہ خلا میں زندگی کی تلاش کی جستجو تھی جس نے جیٹ پروپلژن لیب کے ماہر خلائی حیاتیات کیون ہینڈ اور اس کی ٹیم کے دوسرے ارکان کو الاسکا کے سب سے بڑے شہر بارو سے بیس میل دور واقع جھیل سکوک تک آنے پر مجبور کیا۔ اور یہی جستجو پینے لوپ بوسٹن اور اس کے ساتھیوں کو کئی بار میکسیکو کے اس زہریلے غار میں لے آئی جو Cueva de Villa Luz کہلاتا ہے۔ ان دونوں مقامات پر محققین نے خلائی زندگی کی تلاش کے لیے نئی تیکنیکوں کی آزمائش ایسے ماحول میں کی جو اس ماحول سے بڑی حد تک مشابہ تھا جس کا خلائی تحقیقی جہازوں کو دوسرے سیاروں پر سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ سائنس داں بالخصوص ایسی حیاتیاتی نشانیوں کی کھوج میں ہیں جن سے اُن جگہوں پر، ماضی یا حال میں، حیات کی موجودگی کے اشارے ملتے ہوں، جہاں مشکل حالات کی وجہ سے ان کے لیے بڑے پیمانے پر تجربات کرنا ممکن نہ ہو۔
میکسیکو کے اس غار ہی کو لیجیے۔ سرخ سیارے کے مدار میں گردش کرتے خلائی جہازوں کی ارسال کردہ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ مریخ کی سطح پر بھی غار پائے جاتے ہیں، اور امکان ہے کہ جب تین ارب سال پہلے سیارہ اپنی فضا اور پانی سے محروم ہونے لگا ہوگا تو جراثیمی حیات غار جیسے ہی مقامات پر پناہ گزین ہوگئی ہوگی۔ البتہ بقائے حیات کے لیے ضروری تھا کہ یہ جان دار سورج کے بجائے کسی اور ذریعے سے توانائی حاصل کرتے۔ جیسا کہ میکسیکو کے غار کی دیوار میں سے قطرہ قطرہ ٹپکتا ہوا مایع۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ مایع دراصل یہاں پائے جانے والے جراثیم ہی خارج کرتے ہیں۔ وہ ہائیڈروجن سلفائیڈ کی تکسید کرتے ہیں، جو ان کے لیے توانائی کا واحد ذریعہ ہے ، اور یہ لیس دار لعاب نما مایع خارج کرتے ہیں۔
سائنس داں ان مخصوص قسم کے جراثیم کو Snottites کا نام دیتے ہیں۔ نیو میکسیکو انسٹیٹیوٹ آف مائننگ اینڈ ٹیکنالوجی اور نیشنل کیو اینڈ کارسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ بوسٹن کے مطابق اس غار میں جراثیم کی ایک درجن کے لگ بھگ اقسام کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا ہے جو اپنی طبعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور ہر ایک قسم حصول خوراک کے لیے جدا جدا نظام پر انحصار کرتی ہے۔ ان میں سے ایک قسم بوسٹن اور اس کے ساتھیوں کی خصوصی دل چسپی کا باعث ہے۔ یہ جراثیم سیال کے قطرے خارج نہیں کرتے، اس کے بجائے یہ غار کی دیواروں پر داغ دھبّے اور لکیریں وغیرہ بناتے ہیں۔
بوسٹن کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس طرح کے نقش ونگار صرف خردبینی جان دار ہی نہیں بناتے بلکہ بنجر علاقوں میں گھاس اور درخت بھی اپنی مصورانہ صلاحیتوں کے اظہار پر اُتر آتے ہیں۔ یہی ’کارنامہ‘ مٹی کی پرتیں بھی انجام دیتی ہیں جو کہ بیکٹیریا، کائی اور اسی طرح کے دوسرے خردبینی پودوںکا مسکن ہوتی ہیں۔
اگر یہ مفروضہ درست ہے تو پھر بوسٹن اور اس کے دیگر ساتھی سائنس داں ایک بہت اہم دریافت کرچکے ہیں۔ اس وقت تک خلائی مخلوق کی تلاش میں سرگرداں ماہرین فلکیات کی توجہ گیسوں پر رہی ہے جو وجود حیات کا اشارہ ہیں۔ مثال کے طور پر آکسیجن، جس پر زمین کے باسیوں کا دارومدار ہے۔ مگر ایسے جان دار بھی موجود ہیں جو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کے محتاج نہیں ہوتے۔ بوسٹن کا کہنا ہے کہ غار کی دیواروں پر موجود ’نقش و نگار‘ حیات کی موجودگی کا ’کائناتی اشارہ‘ ہوسکتے ہیں۔ یعنی اس نوع کے نقش و نگار ممکنہ طور پر کائنات میں کہیں بھی پائے جاسکتے ہیں۔ غاروں میں، جراثیمی آبادیوں کے مٹ جانے کے بعد بھی ان کی یہ نشانی برقرار رہتی ہے۔ اگر کوئی خلائی گاڑی مریخ کے کسی غار کی دیوار پر اس نوع کی ’مصوری‘ دریافت کرلیتی ہے تو اس سے سائنس دانوں کی جستجو کو ایک واضح راستہ مل جائے گا۔
شمالی امریکا کے دوسرے سرے پر سکوک جھیل میں سردی سے ٹھٹھرتے سائنس داں اور انجنیئر بھی اسی طرح کے مشن پر ہیں۔ وہ جھیل کے دو مختلف مقامات پر سرگرم عمل ہیں۔ ایک مقام کو سائنس دانوں نے Nasaville کا نام دیا ہے، جہاں ان کے تین خیمے نصب ہیں جب کہ دوسرا نصف میل کی دوری پر ہے، جہاں ایک خیمہ ایستادہ ہے۔ یہ ماہرین کی جائے رہائش ہونے کے ساتھ ساتھ جائے کار بھی ہے۔ جھیل کی تہہ میں سے نکلتی میتھین گیس کی وجہ سے سطح آب پر بلبلے بنتے اور پھوٹتے رہتے ہیں جس کے باعث کئی مقامات پر پانی برف کی شکل اختیار نہیں کرسکا یا وہاں برف کی تہہ مہین ہے۔ اسی لیے سائنس داں دونوں مقامات کے درمیان آمدورفت کے سلسلے میں بے حد احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ مبادا کہیں پیر پڑتے ہی وہ جھیل کے یخ بستہ پانی میں غوطے کھارہے ہوں۔
میتھین گیس ہی کی وجہ سے 2009ء میں سائنس داں پہلی بار سکوک اور قرب وجوار میں واقع دوسری جھیلوں کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔ عام پائی جانے والی یہ ہائیڈروکاربن گیس جراثیم پیدا کرتے ہیں جو ’’میتھوجینز‘‘ کہلاتے ہیں۔ میتھین گیس نامیاتی مادّے کی تحلیل کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ اسی لیے یہ گیس وجودِ حیات کا ایک اشارہ بھی ہے۔ تاہم یہ گیس آتش فشاں کے پھٹ پڑنے اور دیگر غیرحیاتیاتی مآخذ سے بھی وجود پاتی ہے۔ اور جسیم سیاروں جیسے مشتری اور زحل کے چاند ’ٹائٹن‘ کی فضا میں قدرتی طور پر بھی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا سائنس دانوں کے لیے حیاتیاتی اور غیرحیاتیاتی میتھین میں امتیاز کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر وہ کیون ہینڈ کی طرح زحل کے برف پوش چاند یوروپا ہی پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس سلسلے میں میتھین سے بھری سکوک جھیل پر مصروف عمل رہنا کوئی برا آئیڈیا نہیں ہے، جہاں کا ماحول یوروپا کی فضا سے مشابہت رکھتا ہے۔
کیون ہینڈ، نیشنل جیوگرافک کا ہونہار محقق ہے۔ وہ حیاتیاتی فلکیات کے تجربات کے لیے یوروپا کو مریخ سے بہتر سمجھتا ہے، اور اس کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔ کیون کا کہنا ہے فرض کرلیجیے کہ ہم مریخ کی سطح پر اُترچکے ہیں اور وہاں جان دار نامیوں کا سراغ بھی لگالیتے ہیں جن کا انحصار زمین پر پائے جانے والے جان داروں کی طرح ڈی این اے پر ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈی این اے زندگی کا کائناتی مالیکیول ہے۔ اور یہ بات بالکل ممکن ہوسکتی ہے۔ تاہم اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زمین اور مریخ پر پائی جانے والی حیات کا نقطۂ آغاز ایک ہی ہو۔ یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ مریخ کی سطح پر سیارچوں کے گرنے کی وجہ سے جو چٹانیں ٹوٹ کر خلا میں بلند ہوئی تھیں، وہ بالآخر زمین پر آگری تھیں۔ ممکن ہے کہ اسی طرح زمین سے بھی چٹانیں مریخ پر پہنچ گئی ہوں۔
اگر ان چٹانوں کے اندر جراثیمی حیات موجود تھی اور خلا میں سفر کے دوران وہ زندہ بھی رہی، جو کہ قرین قیاس ہے، تو پھر مریخ یا جس سیارے پر وہ چٹانیں گری ہوں گی، وہاں ان جراثیم کی افزائش ضرور ہوئی ہوگی۔ کیون کا کہنا ہے،’’اگر مریخ پر ڈی این اے کے حامل جان دار دریافت ہوتے ہیں، تو پھر میرا خیال ہے کہ ہم اس مخمصے میں پڑ جائیں گے کہ زمین کے باسیوں اور ان کے ڈی این اے کا منبع ایک ہے یا نہیں۔‘‘ مگر یوروپا زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہے۔ اگر وہاں زندگی کا سراغ ملتا ہے، اور اگر وہاں پائے جانے والے جان دار ڈی این کے حامل ہوتے ہیں تو پھر اس ڈی این اے کا ماخذ ارضی جان داروں کے ڈی این اے کے ماخذ سے مختلف ہوگا۔
یوروپا پر افزائشِ حیات کے تمام ناگزیر بنیادی عوامل نظر آتے ہیں۔ وہاں اگرچہ پانی دستیاب نہیں مگر زمین کی طرح وہاں بھی برفیلے سمندر کی تہہ میں گیس خارج کرنے والے بڑے بڑے سوراخ یا گڑھے ہوسکتے ہیں، جواردگرد موجود جان داروں کو ( اگر ہوئے) زندہ رہنے کے اسباب کی فراہمی کا ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ مخصوص وقفوں سے دُم دار ستارے یوروپا کی سطح سے ٹکراتے ہیں۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں زحل کے چاند کی سطح پر نامیاتی کیمیکلوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ یہ کیمیکل زندگی کی نمو کا سبب بن سکتے ہیں۔ مشتری کی تاب کار پٹیوں کی جانب سے آنے والے ذرات برف کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں توڑ دیتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں لامحدود تعداد میں مالیکیولوں کا اخراج ہوتا ہے جنھیں جان دار اجسام سمندر کی تہہ میں موجود گڑھوں سے حاصل ہونے والے غذائی اجزا کی توڑ پھوڑ میں استعمال کرسکتے ہیں۔
اس تمام طریق کار میں سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ نامیاتی کیمیکل برف کی 10 سے 15 کلومیٹر دبیز تہہ میں سے کیسے گزر سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ Voyager اور Galileo نامی خلائی جہازوں کی ارسال کردہ معلومات سے سامنے آئی تھی کہ برف کی انتہائی دبیز پرت میں جگہ جگہ دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ 2013ء کے اوائل میں کیون ہینڈ اور اس کے ساتھیوں نے Keck II نامی دوربین کی مدد سے پتا چلایا تھا کہ یوروپا کے برفانی سمندر کی سطح پر نمکیات اُبھر آئے تھے، جو غالباً ان ہی دراڑوں کے راستے اوپر پہنچے تھے۔ گذشتہ سال کے اواخر میں مشاہدہ کاروں کی ایک اور ٹیم نے ہبل خلائی دوربین سے مشاہدہ کرتے ہوئے خبر دی تھی کہ یوروپا کے جنوبی قطب میں پانی فواروں کی صورت میں سطح سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یوروپا کی سطح پر جمی برف ناقابل نفوذ نہیں ہے۔
ان معلومات نے یوروپا کے مدار میں کھوجی خلائی جہاز پہنچانے کی ضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ 2011ء میں امریکا کی نیشنل ریسرچ کونسل نے یوروپا کی جانب خلائی مشن کی روانگی پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا تھا جو4.7 ارب ڈالر تھا۔ اگرچہ سائنسی اور تحقیقی لحاظ سے یوروپا کی جانب مشن کی روانگی ناگزیر تھی مگر اس مشن پر آنے والی لاگت توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ چناں چہ رابرٹ پاپا لارڈو کی سربراہی میں جیٹ پروپلژن لیبارٹری کی ٹیم خلائی مشن پر نظرثانی کرنے کے لیے ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھی، اور پھر یہ تجویز سامنے آئی کہ Europa Clipper نامی خلائی جہاز یوروپا نہیں بلکہ مشتری کے مدار میں بھیجا جائے گا، اس سے مشن کی روانگی پر کم لاگت آئے گی۔ تاہم مشتری کے مدار میں رہتے ہوئے یہ خلائی جہاز 45 بار یوروپا کے قریب سے گزرے گا۔ اس دوران یہ زحل کے چاند کی سطح اور فضا کی کیمیائی تشکیل، اور بالواسطہ طور پر منجمد سمندر کی کیمیائی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
پاپالارڈو کا کہنا ہے کہ نظرثانی شدہ خلائی مشن کی مجموعی لاگت دو ارب ڈالر سے کم ہوگی۔ منظوری ملنے کی صورت میں یہ مشن 2020ء سے 2025 ء کے درمیان خلا میں روانہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ مشن Atlas V راکٹ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے تو اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں چھے برس لگیں گے۔ تاہم اس مشن کی روانگی ’اسپیس لانچ سسٹم‘ کے ذریعے بھی ممکن ہے جو کہ ان دنوں تیاری کے مراحل میں ہے۔ ایس ایل ایس کے ذریعے Europa Clipper پونے تین سال میں مشتری کے مدار میں پہنچ جائے گا۔
Europa Clipper اگرچہ زحل کے چاند پر زندگی کا سراغ لگانے کے قابل نہیں ہوگا، لیکن اس کی حاصل کردہ معلومات اگلے مشن کے لیے راہ ہموار کریں گی، جو مریخ کی طرح یوروپا کی سطح پر اُترکر تحقیق کرے گا۔ خلائی تحقیقی گاڑی کے اترنے کے لیے موزوں مقام کا تعین بھی Europa Clipper سے حاصل ہونے وال معلومات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ یوروپا کے منجمد سمندر پر کھوجی گاڑی اتارنا ہوگا۔ یہ کام قدرے مشکل ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس کے لیے سائنس دانوں کو پہلے برفیلی تہہ کی دبازت کو جانچنا ہوگا۔ متبادل کے طور پر وہ سکوک سے ملتی جلتی منجمد جھیل کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
سائنس دانوں کی ان سرگرمیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش کے سلسلے میں کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب ڈریک کی مساوات میں موجود خالی جگہوں کو پُرکرنے میں مدد دینے کے لیے نئے ذرائع بھی جلد دست یاب ہوں گے۔ ناسا نے Transiting Exoplanet Survey Satellite نامی ایک نئی دوربین کی منظوری دے دی ہے جس کی مدد سے نامعلوم سیاروں کا سراغ لگایا جائے گا۔ یہ دوربین 2017ء میں ارضی مدار میں پہنچائی جائے گی۔ اس کے اگلے ہی برس ’جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ‘ بھی زمین سے باہر رہ کر دوسرے سیاروں پر حیاتیاتی اشارات تلاش کرنے میں سائنس دانوں کی معاونت کرے گی۔