11اپریل 2014ء کو ہم بیجنگ جانے سے قبل ٹرانزٹ کے لیے چین کے چھنگتو ایئرپورٹ اترے تو ہمارے ذہن میں تھا کہ چھنگتو نواب شاہ یا سکھر جیسا چھوٹا سا شہر ہوگا، لیکن جہاز سے اترے تو وسیع و عریض ایئرپورٹ کو دیکھتے ہی ہمارا ذہن تبدیل ہوگیا۔
ایئرپورٹ پر ہر جانب طیارے ایسے کھڑے تھے کہ ہمارے ہاں اتنی ٹیکسیاں ٹیکسی اسٹینڈ پر نہیں ہوتیں۔ طیاروں کی لینڈ اور فلائی کرنے کی رفتار کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ چھنگتو چین کا بہت بڑا شہر ہے۔
ایئرپورٹ پر اترتے ہی ہمیں بس میں سوار کر کے ایئرپورٹ کی ایک خوب صورت لابی میں بٹھادیا گیا۔ اب ہمارے ساتھ صرف وہ مسافر تھے جو بیجنگ جانا چاہتے تھے۔ ہم نے واش روم کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ چینی عوام واش روم میں پانی کا استعما ل نہیں کرتے۔ ہم فوری طور پر واش روم سے باہر آگئے۔
وفد کے پرانے ساتھیوں بتایا کہ چین میں کہیں بھی واش روم میں پانی نہیں ہوتا واش روم سے باہر آکر آپ پانی سے ہاتھ ضرور دھو سکتے ہیں۔ ہم نے پانی کی تلاش شروع کی ایک چھوٹا سا اسٹال دکھائی دیا جہاں سے ہم نے پانی کی چھوٹی بوتل کا معلوم کیا تو پتا چلا کہ 15 آرایم بی (چینی کرنسی کا معروف نام) یعنی پاکستانی 250 روپے بنتے ہیں۔ ہم نے 20آرایم بی دیے تو خاتون نے ہمیں 5 واپس کیے اس طرح ہمارا واش روم کا مسئلہ حل ہوا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد تمام مسافروں کو امریگشن کے مراحل کے بعد ڈومیسٹک طیارے میں سوار کیا گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم بیجنگ پہنچے۔
امیگریشن کے بعد باہر آئے، جہاں سے ہمیں ہوٹل کے لیے انڈرگراؤنڈ ٹرین میں سوار ہونا تھا، جو کہ ایئرپورٹ سے چلتی ہے۔ لفٹ نے ہمیں انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن چھوڑا جہاں سے دونوں جانب ٹرینیں آ جا رہی تھیں۔ چین میں اسٹیشنوں پر متعلقہ علاقے کے نام کے ساتھ نقشہ دیوار پر لگا ہوتا ہے۔ مسافر اپنی منزل پر جانے سے قبل اس نقشے سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ جاوید انصاری ہمارے وفد کے سنیئر رکن تھے، جنہیں بغیر نقشے کے بھی علاقوں کا پتا تھا۔ وہ ہمیں گائیڈ کر رہے تھے۔ ہم خوب صورت ایئرکنڈیشنڈ ٹرین میں سوار ہوئے۔ ہم نے دیکھا کہ ٹرین میں نوجوان بڑی تعداد میں آئی فون اور آئی پیڈ سے کھیل رہے تھے۔
چین میں نوجوان لڑکے لڑکی کا آپس میں گلے ملنا ہمارے لیے حیران کُن تھا۔ چین نے بلاشبہہ خود کو دنیا کی بہت بڑی معاشی طاقت میں تبدیل کردیا ہے، لیکن چین کی نئی نسل اپنے قائد چئیرمین ماؤ کے فلسفے کو بھلا چکی ہے۔ ہم یہاں چین کو اپنے مشرقی آداب سے ناپنے اور تولنے کی کوشش ہرگز نہیں کررہے، لیکن ہر سوشلسٹ معاشرے کے بھی اپنے آداب اور رسم و رواج ہوتے ہیں جس سے چین کی نئی نسل بے بہرہ دکھائی دیتی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سٹرکوں اور ٹرینوں میں اس طرح بغل گیر ہوکر چلتے ہیں کہ یورپ کا منظر دکھائی دینے لگتا ہے، جب کہ ہم نے یہ چیز نے برادر ملک نارتھ کوریا میں کہیں نہیں دیکھی۔
بلٹ ٹرین کے ذریعہ ہم مختصر سفر کے بعد QIANMAN ا سٹیشن پر اترے جہاں کے انڈر گراؤنڈ راستے سے گزر کر ہم گریٹ عوامی ہال TIANMAN اسکوائر کے سا منے والی سٹرک پر تھے اور چیئرمین ماؤ کی یادگار اور گریٹ ہال ہمارے سامنے تھے۔ ہم نے فوراً کیمرا نکال کر تصاویر لینا شروع کردیں۔
ہم اس عظیم شہر میں تھے جسے دیکھنے کی خواہش ایک عرصے سے ہمارے دل میں تھی۔ چین کے عظیم انقلاب کو ہم نے اپنی طلبہ سیاست کے دور میں اتنا پڑھا کہ چین کے عوام کے ساتھ ہمارا ذہنی و نظریاتی اور فکری رشتہ بہت مضبوط ہوچکا تھا اور اب ماؤ کا چین جدید چین کا روپ دھا ر کر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ چین میں سب سے بڑی سواری سائیکل ہوا کرتی تھی اب وہ اکا دکا ہی نظر آتی ہے۔ اس کی جگہ جدید اور نایاب بڑی گاڑیاں آگئی ہیں۔ صبح 6بجے لوگوں کی بہت بڑی قطار ماؤ کو خراج ِعقیدت پیش کرنے ان کی یاد گار کے سامنے جمع ہوتی ہے۔
چینی عوام بھی صبح چھے بجے تک اپنے کام کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ چیئرمین ماؤ اسٹریٹ سے بیجنگ شہر کی تمام شاہراہیں نکلتی ہیں، جو ختم بھی وہاں ہوتی ہیں۔ بس میں سفر کے لیے آپ کو ایک آرایم بی کا ٹکٹ لینا ہوگا۔ سیٹ کے لیے الگ اور بس میں کھڑے ہوکر سفر کرنے والوں کی علیحدہ قطار ہوتی ہے، جو اپنی منزل پر کھڑے ہو کر جلد پہنچا چاہتا ہے وہ بس کی اس قطار میں کھڑا ہوتا ہے۔ بس ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کے لیے اسٹاپ پر رکتی ہے اور اگر کوئی مسافر نہیں تو بھی وہ اپنے روٹ پر روانہ ہوجاتی ہے۔ ہم ایک آرایم بی میں پورا بیجنگ گھوم سکتے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب چینی ماہرین حبیب بینک کی عمارت دیکھنے خاص طور پر کراچی آئے تھے، جب کہ جدید دور کا چین بڑی بڑی شان دار عمارتوں کا شاہ کار بن چکا ہے۔ پورے شہر کو رنگ برنگے پھولوں سے اس طرح سجایا گیا ہے کہ آنکھوں میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے۔
چین کا دارالحکومت بیجنگ آلودہ شہروں میں سرفہرست ہے۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ تاہم کوئی گاڑی دھواں چھوڑتی ہوئی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی کوئی ٹریفک جام ہونے پر جذباتی ہوکر ہارن بجاتا ہے۔ کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بیجنگ کیٹریفک کو کنٹرول سے باہر کردیا ہے۔
ٹریفک پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے جو فوری اقدامات اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’A‘‘ نمبر کی تمام گاڑیوں کو ایک روز کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، جب کہ دوسرے روز ’’B‘‘ نمبر کی گاڑیوں کی باری آتی ہے۔ اس طرح تیل کی بھی بچت ہوتی ہے اور آلودگی کے ساتھ ٹریفک میں بھی کسی حد تک کمی واقع ہوتی ہے، لیکن ان اقدامات کے باوجود گاڑیوں کا ایک سیلاب ہے جو شہر کی بڑی شاہراہوں پر رواں دواں رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں ہوٹل سے ایئرپورٹ پہنچنے میں دو گھنٹے لگے اور ہم نے جب ٹریفک جام کا منظر دیکھا تو ہم کراچی میں شام کے وقت شارع فیصل پر ہونے والے ٹریفک جام کو بھول گئے۔
بیجنگ میں ایک اور چیز جس نے سب سے زیادہ آلودگی پھیلائی ہوئی ہے وہ روئی کے جیسے گالے ہیں، جو پورے شہر میں فضا سے زمین کی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں۔ کار کا شیشہ اگر کھلا ہوا ہے تو کار میں، ہوٹل کے کمروں، لابیوں اور بازاروں میں وہ ہوا میں اڑ اڑ کر نیچے زمین کی طرف آتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگ سانس کی تکلیف کا شکار ہورہے ہیں۔ لوگوں نے ان سے بچاؤ کے لیے ماسک پہنا شروع کردیے ہیں۔ بیجنگ میں کوئی درخت ہے جس سے یہ گالے اُڑ اُڑ کر پورے شہر کو اپنے نرغے میں لے چکے ہیں۔
چینی حکومت نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا۔ چین نے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ ایک بچے سے زیادہ پر پابندی عاید ہے۔ بیجنگ میں ہمیں اکا دکا ہی چھوٹے بچے دکھائی دیے۔ بزرگ خود کو تنہائی کا شکار محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان کی جوان اولاد انہیں چھوڑ کر جاچکی ہے۔ وہ اب تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بیجنگ میں بوڑھے لوگ صبح کے وقت یا شام کو اپنے پالتو کتوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی بقیہ زندگی ان جانوروں سے محبت کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ چین میں نوجوان نسل آزاد زندگی گزارنے کا تصور رکھتی ہے۔ اس طرح چینی معاشرہ جوائنٹ فیملی سسٹم سے بہت دور مکمل آزاد بلکہ بے راہ روی کے معاشرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ہم نے جس ہوٹل کا انتخاب کیا وہ شہر کے بالکل وسط میں ہے۔ مشی اسٹریٹ پر ہوٹلوں کی قطار واقع ہے۔ جاوید انصاری اور بشیر جان پچھلے سال جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے وہاں پہنچنے پر اس ہوٹل کی مالکہ نے ہمیں کمرہ دینے سے انکار کردیا۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ ہم ٹورسٹ ہیں، لیکن وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ہمیں آرام اور نیند کی ضرورت تھی لیکن کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی تھی۔ جاوید انصاری نے راستے میں بتایا تھا کہ وہ خاتون ہمارے ساتھ بہت فرینڈلی ہوچکی تھی، اس لیے ہم نے اس ہوٹل کا انتخاب کیا، لیکن یہاں تو معاملہ ہی مختلف تھا۔ اب جاوید انصاری اور بشیر جان کسی اور ہوٹل کی تلاش میں گئے، ریاض گل اور ہم اسی ہوٹل کی لابی کے صوفے پر بیٹھ گئے۔
اس دوران ہم نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں نوجوان جوڑے آتے اور Receptionپر موجود خاتون انہیں روم فراہم کرتی۔ معلوم ہوا کہ ہفتے اور اتوار کو یہاں کے تمام ہوٹلوں پر اسی طرح کا رش ہوتا ہے۔ بعدازاں مین روڈ ہی پر ہمیں ایک بہت ہی اچھے ہوٹل میں دو کمرے مل گئے۔ کچھ دیر آرام کے بعد ہم بینک آف چائنا گئے جہاں سے ہمیں اپنے ڈالرز سے آر ایم بی میں ایکسچینج کروانے تھے۔ بیجنگ میں ڈالرز یا کسی بھی کرنسی کا تبادلہ صرف بینک آف چائنا سے ہوتا ہے۔ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے وہاں مین روڈ اور برابر کی گلیوں میں کھانے پینے کے مراکز تھے، جہاں ہر قسم کے چینی کھانے دست یاب تھے۔ کھانوں کی عالمی چینز کے مراکز بھی دکھائی دیے۔
ہمارا دل نہیں مان رہا تھا کہ ان ریستورانوں میں جاکر کھانا کھائیں، جہاں جاؤ رش ہی رش، روڈ اور اطراف کی گلیوں اور ہوٹلوں میں کھانے والوں کی تعداد سیکڑوں میں، لیکن کہیں بھی حلال کھانے کی کوئی جگہ دکھائی نہیں دی۔ پچھلے سال جس ہوٹل پر پاکستانی وفد کے ارکان نے کھانا کھایا تھا، وہاں اب کوئی اور ہوٹل کھل چکا تھا، بڑا سفر کرکے آئے تھے اور راستے میں کہیں پیٹ بھر کر کھانا دستیاب نہیں تھا۔ اس کا اس لیے کچھ وقت کا نیند اور آرام کے بعد سخت بھوک لگ رہی تھی اور ہم ہر ہوٹل میں جاتے Menueکارڈ دیکھتے وہاں کی Smellسونگھتے اور باہر آجاتے۔ ایک جگہ ایک ہوٹل میں ہم نے بڑی مشکل سے چینی خاتون سے انگریزی میں اپنا مدعا بیان کیا۔ اس نے Menueکارڈ سے Fishکے آئٹم دکھائے اور ہم نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ایک ڈش فش بمعہ سبزی آرڈر دیا۔
چین کے تمام ہوٹلوں میں کھانے کی ٹیبل پر ایک فرد کے سامنے ایک چھوٹی پلیٹ، چھوٹی پیالی، دو اسٹک، گرم پانی کے لیے چھوٹا مگ پلاسٹک کے کور کے اندر بڑے اہتمام کے ساتھ موجود ہوتا ہے، جنہیں استعمال کے بعد دھونے کا وہاں کو ئی رواج نہیں، انہیں باہر ایک ٹرالی میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں سے یہ اسٹریم کے لیے جاتے ہیں اور دوبارہ اسی طرح پیکنگ میں واپس ہوٹل پہنچادیے جاتے ہیں۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، لیکن بڑی شاہراہوں پر سگریٹ کے ٹوٹے اور ٹشو پیپر دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے گرما گرم مچھلی ایک پلیٹ میں سبزی کے ساتھ موجود تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیسے کھائیں۔
ہم نے ایک پیالی میں بوائل چاول منگوائے اور مچھلی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے کھانے لگے۔ گویا کھانے پر ٹوٹ پڑے اس ڈش میںNodellsبھی موجود تھے۔ اچانک نظر اٹھا تو دیکھا کہ دیگر ٹیبلز پر موجود چینی ہنستے ہوئے ہم چاروں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ اب ہم کچھ محتاط ہوئے، لیکن بھوک ایسی ظالم چیز ہے کہ تمام آداب بھلا دیتی ہے۔ Beijing King’s Joyhotelمیں صبح سات سے 9بجے 25 آرایم بیمیں ڈائننگ ہال میں ناشتے کا بوفے لگا ہوتا تھا، جس میں انگلش ناشتہ بریڈ مکھن اور جام کے ساتھ دوددھ کارن فلور چائے، کافی ، گرین ٹی اور چائنیز ناشتے کے لوازمات بھی ہو تے تھے۔ اس طرح ہمارے ناشتے کا مسئلہ تو حل ہوگیا تھا۔
ہم ناشتہ ڈٹ کر تے اور شام تک شاپنگ کرتے۔ جاوید انصاری نے اپنی کاوشوں سے ایسی جگہ تلاش کی جہاں ایک خاتون چکی میں آٹا پیس کر اس کے پراٹھے بناتی تھی، جن میں دو قسم کے پراٹھے ایک سادہ اور ایک سبزی والا ہوتے تھے۔ جاوید انصاری نے اس چینی خاتون کو پانچ انڈوں، ٹماٹر اور پیاز کے ساتھ آملیٹ بنانا سکھایا اور ہم نے پراٹھے اور آملیٹ کے ساتھ فروٹ اور جوس کو اپنا کھانا بناکر پیٹ کس دوزخ بھرا۔ اس طرح کسی حد تک ہمارے کھانے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
بیجنگ میں بڑے بڑے شاپنگ مال ہیں، جہاں دنیا کی ہر چیز ارزاں قیمت پر دستیاب ہوتی ہے، گھر والوں کی جانب سے ایک لمبی فہرست ہمارے بیگ کے ایک خانے میں رکھ دی گئی تھی۔ اب مرحلہ شاپنگ سینٹر میں ان اشیاء کی تلاش کا تھا۔ مختلف اسٹاپس کے بعد جب بس موشیان سینٹر پہنچی تو ہمیں اترنے کا اشارہ کیا گیا۔ موشیان شاپنگ سینٹر بیجنگ کے بالکل وسط میں واقع بہت بڑا شاپنگ پلازہ ہے، کیوں کہ جاوید انصاری یہاں سے خریداری کرتے رہے ہیں، اس لیے یہ مشکل مرحلہ بھی آسان ہوگیا۔
تمام اشیاء نہایت خوب صورت تھیں اور بہت ہی سستے دام میں دستیاب تھیں۔ اس شاپنگ سینٹر میں ایک پورا فلور خواتین کے بیگز کا تھا، جہاں ہر قسم کے چھوٹے، بڑے ہر کلر اور ڈیزائن کے بیگ دکانوں میں سجے ہوئے تھے اور ہر دکان کے باہر کھڑی خوب صورت لڑکیاں خریداروں کو اپنی اپنی دکان کی طرف بلارہی تھیں۔ آپ نے جس پرس کو ہاتھ لگادیا اور اس کی قیمت پوچھ لی بس سمجھیں کہ سیلز گرل ہر قیمت پر آپ کو وہ پرس دے کر چھوڑے گی۔ ایسے ہی ایک اور فلور پر جوتے تھے۔
بشیرجان نے ایک جوگر دیکھا، دکان دار نے تین سوآرایم بی کہے، بشیرجان نے مذاق میں پچاس آرایم بی لگائے، اب تو بشیر جان پھنس گئے، کیوںکہ دکان دار وہ جوتے پچاس آرایم بی میں دینے پر راضی ہوگیا تھا اور بشیر جان اپنی جان چھڑانے میں لگے ہوئے تھے۔ بالآخر ہم نے بشیر جان کو راضی کیا اور انہوں نے وہ جوگر خرید لیا۔ ایسا نہیں کہ وہ جوگر کوئی سستا اور معمولی تھا، بلکہ پاکستان میں اس خوب صورت اور مضبوط جوگر کی قیمت کم از کم 3 ہزار کے قریب ہے۔
اس مارکیٹ میں ہمیں بہت سے پاکستانی ملے، جو صرف یہ کاروبار کرتے ہیں کہ بڑی تعداد میں جوتے، پرس، موبائل فون اور خواتین کے استعمال میں آنے والی اشیاء بیجنگ سے خرید کر پاکستان کی مارکیٹ میں منہگے داموں فروخت کرتے ہیں۔
دیوارِچین کا ہر ملک سے آنے والے سیاح ہر صورت دورہ کرتے ہیں۔ ہوٹل سے صبح 6بجے بسیں سیاحوں کو لے کر دیوار چین کی طرف روانہ ہوتی ہیں اور شام ڈھلے ان کی واپسی ہوتی ہے۔ اس ایک دن کے سفر کے لیے فی کس وہ 380آرایم بی وصول کیے جاتے ہیں، جس میں کوچ کا کرایہ، دوپہر کا کھانا اور دیگر مقامات کا دورہ بھی شامل ہوتا ہے۔ ہم دیوار چین جانے کے لیے مقررہ وقت صبح 6بجے مقررہ مقام پہنچے تو وہاں موجود چینی نے بتایا کہ کوچ تو پانچ منٹ پہلے روانہ ہوچکی ہے اور ہم دس منٹ لیٹ ہیں، جب کہ ہم اسے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم پورے ٹائم پر آئے ہیں، لیکن وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
بڑی مشکل سے اس نے ہماری بات سمجھی اور ہمیں ایڈوانس میں دی گئی رقم واپس کی۔ ہم نے دیوارچین جانے کے لیے پرائیویٹ ٹیکسی کی تلاش شروع کردی، کیوں کہ دوسرے روز ہماری واپسی کی فلائیٹ تھی اور ہم اس قیمتی وقت کو کسی بھی صورت کھونا نہیں چاہتے تھے۔ ایک ٹیکسی والے سے بات کی۔ اس نے دیوارچین جانے، واپسی اور ایک گھنٹہ وہاں رہنے کے 500 آرایم بی مانگے، جو بہت زیادہ تھے۔ بالآخر ایک ٹیکسی والا 300آرایم بی پر راضی ہوگیا، لیکن اس نے ہمیں پابند کیا کہ وہ وہاں ایک گھنٹہ سے زیادہ نہیں رکے گا۔ اس طرح ہم بیجنگ سے ایک گھنٹے میں دیوارِچین پہنچ گئے۔ واقعی دیوارچین کو دیکھ کر چینیوں کی عظمت کو سلام کرنے کا دل چاہتا ہے۔
لاکھوں، کروڑوں، چینیوں نے اس دیوار کو جس طرح تعمیر کیا ہے اس کا تصور بھی محال ہے۔ 45 آرایم بی کا ٹکٹ لے کر ہم دیوار چین کی سیڑھیوں پر چڑھے۔ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ میں ہم سیڑھیاں چڑھتے گئے۔ اس جذبے کو یوں بھی جِلا مل رہی تھی کہ بڑی تعداد میں بوڑھی خواتین اور مرد دیوار چین کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، ہنس رہے تھے، گارہے تھے اور فوٹو گرافی کررہے تھے، جب کہ ہم ایک چوکی کے بعد تھک کر بیٹھ گئے۔ جب ہم سے کہا گیا کہ یہاں ایک بات مشہور ہے کہ جس شخص نے تین چوکیاں نہیں دیکھیں وہ مرد ہی نہیں تب ہماری مردانگی نے جوش مارا اور ہم بڑی تیزرفتاری سے دو چوکی بعدازاں آہستہ آہستہ ایک اور چوکی تک پہنچ کر سانس پھولنے کے باعث بیٹھ گئے۔ تیسری چوکی سے بڑی تعداد میں غیرملکی فوٹو گرافی کرتے رہے۔
ہم ایک گھنٹے سے پانچ منٹ قبل ہی واپس آگئے۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے چڑھنے سے زیادہ تکلیف ہوئیْ ہم سمجھ رہے تھے کہ چڑھنے سے اترنا بہت آسان ہوگا لیکن سیڑھیوں کے اسٹیپس بہت اونچے اور کھڑے تھے، لہٰذا اترتے ہوئے نیچے دیکھنے کے بجائے اسٹیپ پر نظر رکھنی پڑ رہی تھی۔
ٹیکسی تک پہنچتے ہی ہمیں پہلی بار ہمارے گھٹنوں میں درد شروع ہوگیا۔ مردانگی کے جوش جوش میں ہم نے تین چوکیاں کراس تو کرلیں لیکن ہم گھٹنوں کے درد میں مبتلاء ہوگئے، جو اس لیے اہم نہیں تھا کہ ہم اس عظیم دیوار چین کو دیکھے بغیر چین کے دورہ کو نامکمل سمجھتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہماری ہر جگہ مدد کی اور اس طرح ہم ایر چائنا کی پرواز سے 28اپریل کی رات دس بجکر بیس منٹ پر کراچی پہنچ گئے۔