باپ بیٹی کا رشتہ بے حد ان مول ہوتا ہے۔ بیٹی ننھی پری ہو یا بڑی، بیٹی کی آنکھوں کے نم گوشے باپ کو مضطرب کردیتے ہیں۔ بیٹی کی آنکھ میں آنسو باپ سے برداشت نہیں ہو پاتے۔ وہ بیٹی کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔ یہ محبت کا اٹوٹ رشتہ ہے اور اس رشتے کو مضبوط بنانے میں ماں کا بہت بڑا کردار ہے، جو اپنے شوہر اور بیٹی کے رشتے کے درمیان ایک محبتوں کا اٹوٹ رشتہ قائم رکھتی ہے۔
باپ بیٹی سے جتنی محبت پیار اور اعتماد کرتا ہے۔ بیٹی اتنا ہی کام یابی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو خواتین اپنے شوہر کے متعلق یعنی بیٹی کے باپ کے متعلق بیٹی کے دل میں منفی جذبات پیدا کرتی ہیں۔ جیسے باپ کے گھر میں آتے ہی خواہ مخواہ کی دہشت کی فضا قائم کرتی ہیں یا ہر بات ہر کام میں باپ کا نام لے کر ڈراتی ہیں۔ ایسے منفی حالات عموماً حساس افراد کے لیے گھٹن کا سبب بنتے ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے باپ سے ڈرتی رہتی ہیں اور یہ خوف کی فضا محبتوں کا وہ رشتہ استوار ہونے نہیں دیتی۔
جب کہ باپ کا مشفق رویہ اور زندگی کے ہر معاملے میں راہ نمائی بیٹی کی شخصیت میں اعتماد کا وہ رنگ بھر دیتی ہے، جس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں پدرانہ شفقت کا ہونا یا نہ ہونا بیٹی کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
بچپن کا دور
بچپن میں جب بیٹی کو باپ کی شفقت و محبت ملتی ہے۔ وہ اس کی ذات میں وہ اعتماد پیدا کر دیتا ہے، جو اس کو دوسرے بچوں میں ممتاز کرتا ہے۔ ایسی بچیاں بہت بہادر ہوتی ہیں۔ کھیل کود ہو یا شرارتیں کرنی ہوں وہ بے خطر سب سے آگے آگے ہوتی ہیں۔ اس کی بہ نسبت اگر باپ سخت گیر یا غصیلے ہوں یا جو بیٹیاں کسی بھی وجہ سے باپ کے سائے سے دور یوں ان کی شخصیت میں یہ کمی واضح نظر آتی ہے۔ وہ بچیاں عموماً خاموش یا سہمی ہوئی رہتی ہیں اور اگر باپ کا غصہ بچیوں پر نکلتا ہو تو ان بیٹیوں کے اندر بچپن میں ہی باغیانہ رویہ نظر آتا ہے۔ ایسی بچیاں ضدی ہوجاتی ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں یا دوسرے بچوں سے لڑنا جھگڑنا ان کی عادت بن جاتی ہے۔ کھلونے و دیگر اشیا توڑنا اور پھینکنا شروع کر دیتی ہیں۔ درحقیقت وہ اس طرح اپنا غصے کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں۔
زمانہ طالب علمی
طالب علمی کا دور زندگی کا ایک اہم دور ہوتا ہے، جو مستقبل کی راہوں کا تعین کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عمر کا یہ دور شخصیت کی تعمیر میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شخصیت اور عادات ہر منفی و مثبت کردار کا فوری اثر قبول کرلیتی ہیں۔ اس دور میں اساتذہ و ساتھی طلبا کے رویے و عادات کے ساتھ ماحول کا بھی گہرا اثر قبول کرلیتی ہیں، اس دور میں باپ کی شفقت ، محبت، راہ نمائی ان کو با اعتماد بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی کام یابی سے ہم کنار کرتی ہے۔
باپ کا رویہ اولاد کو با ہمت بنانے کے ساتھ دوسروں کے رویوں پر مثبت ردعمل دینا سکھاتا ہے۔ تعلیمی میدان ہو یا کھیل کود، کام یابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں باپ کا مثبت رویہ بیٹی میں حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ یہی حوصلہ وہ اعتماد بخشتا ہے کہ درس گاہ میں ساتھی طلبہ یا کسی کی بھی جانب سے کوئی نارواسلوک روا رکھا جائے تو وہ اپنے ساتھ روا رکھے گئے رویے کے خلاف اعتماد سے کھڑی ہوجاتی ہے کہ ’ابو میرا ساتھ دیں گے، میری بات کا مان رکھیں گے‘ اسی طرح نمبر کم آنے پر والد کا یہ جملہ کہ ’اس دفعہ نمبر کم آئے تو کوئی بات نہیں، اگلی دفعہ ہم دونوں باپ بیٹی مل کر محنت کریں گے تو میری بیٹی پوزیشن لے گی۔
یہ الفاظ وہ حوصلہ وہ امید اور ایک نئی امنگ پیدا کر دیتے ہیں کہ بیٹی کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیتی ہے۔ اس کے برعکس والد کا منفی رویہ عمر کے اس نازک دور میں بیٹی کو عدم تحفظ کا شکار کر دیتا ہے، وہ باپ کے ہوتے ہوئے بھی خود کو تنہا تصور کرتی ہے۔ لاشعوری طور پر وہ اپنے آپ کا دوسروں سے موازنہ کرتی رہتی ہے۔ خود کو دوسروں سے کم تر سمجھ کر احساس کم تری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ زندگی کی راہوں میں تعلیمی میدان ہو یا عملی زندگی ہار، جیت ، کام یابی و ناکامی ہوتی رہتی ہیں۔ اس کو خوش دلی سے قبول کرنا۔ حوصلے سے آگے بڑھنا اور پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ہی کام یاب رہتے ہیں اور یہ مثبت رویہ باپ کا عطا کردہ تحفہ ہوتا ہے، جو زمانے کے ہر سرد و گرم میں بیٹی کے دل میں بھرپور اعتماد کی شمع جلائے رکھتا ہے۔
شادی کا فیصلہ
شادی زندگی کا ایک ایسا بندھن ہے، جو زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز کرتا ہے۔ لہٰذا شریک سفر یعنی شریک حیات کا انتخاب سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے۔ باپ کی لاڈلی بیٹیاں لاشعوری طور پر اپنے باپ کو بہترین شخصیت مانتی ہیں اور وہ شریک حیات میں ان ہی خوبیوں کی متلاشی ہوتی ہیں، جو انھوں نے اپنے باپ کی شخصیت میں دیکھی ہوتی ہیں۔ اسی لیے ایک باپ بیٹی کے لیے بہترین ساتھی کا انتخاب کرتا ہے۔
دین داری، تعلیم، کردار، حلقہ احباب، ذریعۂ معاش، گھرانہ یہ سب وہ امور ہیں جن کی ایک باپ بہتر جانچ کرکے اپنی بیٹی کے لیے زندگی کا ساتھی منتخب کرتا ہے۔ اور نہ صرف انتخاب کرتا ہے بلکہ بیٹی کی ہر لمحہ راہ نمائی کرتا ہے۔ زوجین کے مابین ہونے والے اختلافات ہوں یا معاشی پریشانی باپ ہر لمحہ بیٹی کی مدد کے لیے تیار کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ حالات خواہ کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں۔ باپ کا ایک امید افزا جملہ بیٹی کے اندر جینے کی نئی امنگ پیدا کر دیتا ہے۔
خدانخواستہ معاشی خوش حالی نہ رہے تو شوہر کا ساتھ دینے کے لیے باپ کی مشاورت سے بیٹی اپنے کاروبار کا آغاز کرنے یا ملازمت کرنے تک تمام مراحل کو خوش اسلوبی سے طے کرلیتی ہے۔
اس کے برعکس جہاں بیٹیوں کو والد کا یہ پیار، اعتماد اور راہ نمائی میسر نہیں ہوتی۔ عموماً وہ شادی کے بعد عدم تحفظ، احساس کم تری کا شکار رہتی ہیں اور یہ احساس و رویے زوجین کے مابین بھی خوامخواہ کے اختلافات کا سبب بنتے ہیں۔
اس کے ساتھ جن لڑکیوں نے اپنے والدین کے درمیان جھگڑے ہوتے ہوئے دیکھے ہوں یا باپ کو ماں کے ساتھ برے رویے سے پیش آتے ہوئے دیکھا ہو یا باپ کو ماں پر تشدد کرتے دیکھا ہو وہ عموماً باپ سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ان کو اکثرمردوں سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے، وہ شادی نہیں کرنا چاہتی ہیں کہ ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا شوہر بھی باپ کی طرح ظلم وستم کرنے والا ہوگا۔ ایسی لڑکیوں کی والدین شادی بھی کر دیں، تو وہ ان دیکھے اندیشوں میں گھری رہتی ہیں، جو گھر کے ماحول کو کشیدہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا جن لڑکیوں کے اپنے والد کے ساتھ اچھا محبت بھرا رشتہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے رشتے بھی محبت کے ساتھ کام یابی سے نبھاتی ہیں۔
خدانخواستہ اگر بیٹی کی علاحدگی ہو جائے یا بیٹی بیوہ ہو جائے تو باپ کے دل پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے، لیکن وہ پھر اسی ہمت و استقامت سے بیٹی کو حوصلہ دیتا ہے۔ جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔ صبر کا درس دیتا ہے اور اپنی دعاؤں اور حوصلہ افزا باتوں سے دکھ کے اندھیرے میں امید کے دیے روشن کرتا ہے۔
اگر نواسے نواسی بھی ساتھ ہوں تو نانا ان کے باپ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کے تمام اخراجات اٹھانا۔ ان کو ہر تکلیف دہ احساس سے بچانا۔ یہ سب باپ کی ذمے داری بن جاتی ہے۔ بیٹی کی دوبارہ شادی کرنا اور اگر دوسرا شوہر بچوں کو قبول نہ کرے تو وہ بچے نانا کے زیر کفالت رہتے ہیں، ان بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کرنے کے ساتھ ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا۔ عمر کے اس حصے میں جب اپنی اولاد کی ذمے دارہوں کو ادا کرنے کے بعد زندگی کچھ آرام مانگتی ہے۔ نانا اپنے آرام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے نواسے نواسی کی ذمیدایوں کی ادائیگی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ الغرض باپ بیٹی کا رشتہ ایسا ان مول رشتہ ہے جو ہمیشہ محبتوں کے جذبوں سے مضبوطی سے جڑا ہے۔
The post بابا کی رانی ہوں۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.