جسمانی ساخت پر نکتہ چینی یا ’باڈی شیمنگ‘ کے حوالے سے ہم زیادہ تر یہی سنتے آئے ہیں کہ عوامی مقامات پر، آفس میں دوستوں یا دفتری ساتھیوں میں سے، کسی کی جسمانی ساخت سے متعلق مذاق، مذاق میں فقرے کَس دیے جاتے ہیں یا عموماً اسکول میں پڑھتے بچے بچیاں اپنے ہم جماعتوں سے بدترین رویوں کا سامنا کرتے ہیں، جب وہ اس صورت حال میں اسکول میں گزرتے ہیں، تو عموماً گھر آ کر والدین کو اس پر اپنا رد عمل دیتے ہیں، لیکن کچھ بچے اپنی شرمیلی طبیعت کی وجہ سے، گھر میں بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کتراتے ہیں، کیوں کہ گھر میں بھی ان کے بہن بھائی یا پھر والدین اس معاملے کی نزاکت کو یا تو سمجھتے نہیں یا دوسری طرف گھر میں بھی وہ ایسے ہی رویوں کا نشانہ پہلے سے ہی بن رہے ہوتے ہیں ۔
لیکن اگر باڈی شیمنگ شادی کے بعد اگر شوہر کی طرف سے ملے، تو آپ کا دل ایک پل کو تو دھڑکنا ہی بھول جاتا ہے، اس وقت اک نئی نویلی دلہن سوچ میں پڑ جاتی ہے کہ اس کی محبت میں کہاں کمی رہ گئی کہ اس کا شوہر اس کے قد، رنگ یا وزن کو مسلسل نشانہ ہی بنائے جا رہا ہے، اگر ایک نئی نویلی دلہن اپنی زندگی کے شروعاتی دنوں میں اپنے شوہر کے مذاق کا نشانہ بنتی ہے، تو وہ اس نئے تعلق میں کوئی خوب صورتی محسوس نہیں کر پاتی، اور شدید عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہے۔
دراصل میاں بیوی کا تو پل پل کا ساتھ ہوتا ہے، جس میں دُہرائی جانے والی کوئی بھی بات سیدھی دل میں پیوست ہو جاتی ہے اور اپ کا دل اپنے رشتے سے کھٹا ہو جاتا ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی میں پائی جانے والی کسی بھی خامی یا کمزوری کو اسے شرمندہ کرنے کی غرض سے کسی کے سامنے یا اکیلے میں بار بار نشانہ بناتا ہے تو بیوی شدید الجھن محسوس کرتے ہوئے احساس کم تری کا شکار ہو جاتی ہے اور اس احساس کم تری کی وجہ سے خواتین اپنا موازنہ دوسروں سے کرنے لگتی ہیں، جو مزید بدترین صورت حال کو جنم دیتا ہے۔
اس کے نتیجے میں پہلی ضرب اس کی اپنی ہی خود اعتمادی پر لگتی ہے اور یہیں سے خواتین شدید ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر مختلف بیماریوں کو دعوت دیتی ہیں، جس میں سب سے پہلے تو نیند کی کمی ہے اور نیند کی کمی کے ساتھ ساتھ بھوک اڑ جانے سے خواتین میں چڑچڑاہٹ اور غصہ بڑھتے بڑھتے انہیں بلڈ پریشر کا مریض بنا دیتا ہے۔
الغرض وہ لڑکی جو شادی سے پہلے شوخ و چنچل اور محفل کی جان ہوتی تھی، شادی کے بعد زرد، کمزور اور مرجھائی ہوئی دکھائی دینے لگتی ہے، وہ اپنے اوپر بھپتی کستے الفاظ کا ذکر کسی کے سامنے کرتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہے کہ اکثر سننے والے مزید مذاق ہی بناتے ہیں اور ہمدردی ذرا کم ہی کرتے ہیں۔ یہی وہ رویے ہوتے ہیں جو عموماً میاں بیوی کے درمیان دراڑ کی بنیاد ڈالتے ہیں، اور بچے پیدا ہونے کے باوجود یہ دراڑ رشتے میں سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ رشتے کو اور بھی کمزور کر دیتی ہے۔
شادی کے بعد اکثر لڑکیاں فربہ یا موٹی ہو ہی جاتی ہیں یا پھر دبلی پتلی ہی رہ جاتی ہیں تو دوسری طرف بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی جسمانی ساخت بھی پہلے جیسی نہیں رہ پاتی، تو یہ بات ان کے ذہنی تناؤ میں تیزی سے اضافہ کرنے لگتی ہے۔
بچے کی امید سے لے کر پیدائش تک عورت ایک مکمل مرحلے سے گزرتی ہے، اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ایک بچے کی نگہ داشت اور دودھ پلانے تک کی ذمہ داری عموماً خواتین کی ہی سمجھی جاتی ہے، ایسے میں جب وہ پہلے ہی اتنے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں، تو وہاں شوہر کی طرف سے ان پر لفظوں کی سنگ باری کر کے ان کے اندر سے جینے کی امنگ ختم کرنا کوئی عقل مندی نہیں کہلائی جا سکتی۔
جب آپ ایک زندگی سے بھرپور انسان کی عزت نفس ہی مجروح کر دیں گے، تو پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ پہلی جیسی ہنسی مسکراتی لڑکی بن کر آپ کو دکھائے؟
دوسری طرف خواتین کو ایسے تلخ رویوں کا سامنا اگر شادی کے فوراً بات کرنا پڑ جاتا ہے، تو کیا رشتہ بچانے کے لیے انھیں ساری زندگی خاموشی کے ساتھ اپنے جسمانی خدوخال یا ساخت پر مذاق برداشت کرنا چاہیے؟
تو اس کا جواب میرے خیال میں ’نہیں‘ ہوگا، کیوں کہ اگر وہ یہ سب خاموشی سے برداشت کرتی چلی جائیں گی، تو یہاں پر وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کریں گی۔ آپ کو اگر اپنے رشتے میں محبت احساس اور عزت کے رویے نہیں مل رہے، تو گزرتا زندگی کا ہر پل کٹھن ہوتا جائے گا۔
اس لیے کسی دوسرے کو تنبیہہ کرنے سے پہلے، سب سے پہلے آپ کو اپنے مسئلے کو سمجھنا ہو گا، آپ اگر ضرورت سے زیادہ موٹی دبلی یا سانولی ہیں، تو جان لیجیے کہ اس میں قطعاً آپ کا کوئی قصور نہیں ہے، کہ جس پر آپ کا شوہر مسلسل مذاق بناتا چلا جائے۔
جب اپ کو اپنے جسمانی ہیئت بنانے میں کوئی اختیار نہیں ہے، تو آپ دوسروں کو مسلسل اپنا مذاق اڑانے کا اختیار کیوں سونپ رہی ہیں؟
جب یہ بات طے ہے کہ، ایک چھت کے نیچے ہی رہنا ہے اور یہ سب نہیں سہنا، تو پھر اپنے شوہر سے اس مسئلے پر گفتگو کریں، لیکن یہ گفتگو اس وقت کریں، جب وہ خوش گوار موڈ میں ہوں، یہ نہیں کہ وہ گرمی میں باہر سے تھکے ہارے گھر آئیں، اور آپ اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ جائیں، ظاہر ہے ایسے میں بات بننے کے بہ جائے مزید بگڑتی چلی جائے گی، لہٰذا موقع دیکھ کر انھیں اپنی تکلیف کا احساس دلائیں کہ آپ کا میرے جسم پر مسلسل بھپتی کسنا مجھے کس قدر کرب میں مبتلا کر جاتا ہے۔ اپنے حق کے لیے واضح ہوں۔ اپنی حدود طے کر لیں۔ کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ ان حدود کو پارکر سکے۔
ہر وقت سوچنے اور کڑھتے رہنے سے آپ اپنا ہی خون جلا رہی ہیں۔ جس کا آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔
اگر تو اپ کے شوہر سمجھ دار ہوئے، تو دوبارہ اس طرح کا رویہ نہیں رکھیں گے، لیکن اگر وہ باز نہ آئیں، تو کوشش کریں کہ بہ جائے قطع تعلقی کرنے کے، ان منفی باتوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں، کیوں کہ آپ جتنا منفی باتوں کو اپنی زندگی میں اہمیت دیں گی، آپ اتنی ہی پریشان رہیں گی، اور جلد ہی تھک جائیں گی۔ اس لیے اپنی قدر خود کیجیے، اپ کو جیسا بھی جسم ملا ہے، آپ کی جو بھی ہیئت ہے، سب سے پہلے اپنے آپ سے خود محبت کریں اور کسی بھی صورت میں کسی بھی وجہ سے اپنا خیال رکھنا نہ چھوڑیں۔ بعض اوقات خواتین دبلا ہونے کے لیے سخت ترین طریقوں پر عمل درآمد کر جاتی ہیں اور اس میں اپنی صحت مزید خراب کر بیٹھتی ہیں۔
رنگ گورا کرنے کے لیے فارمولا کریم کا بے تحاشا استعمال کرتی ہیں، تو چہرے کی جلد گوری کرتے کرتے جلد کے کینسر کو دعوت دے بیٹھتی ہیں، جس سے مزید پریشانیاں جنم لیتی ہیں، اس لیے آپ جو بھی ہیں، جیسی بھی ہیں، اللہ نے آپ کو بے انتہا خوب صورت بنایا ہے، لہٰذا کسی کے دیکھنے کے نقطۂ نظر سے متاثر ہونا چھوڑ دیجیے اور خوش رہنے کی کوشش شروع کر دیجیے۔
The post جسمانی ساخت پر شریک حیات کی نکتہ چینی appeared first on ایکسپریس اردو.