Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ٹرین ٹو کوئٹہ ۔۔۔۔ ایک مسافر کی داستان

$
0
0

سِبی : سبی، بلوچستان کا ایک اہم ڈویژنل و ضلعی صدر مقام اور شہر ہے جو ذین، بھمبور اور دنگن کے پہاڑی سلسلوں سے گھرا ہوا ہے۔ 1878ء میں دوسری برطانوی افغان جنگ کے بعد انگریزوں نے سبی کو بذریعہ ریلوے لائن 1890ء میں جیکب آباد سے ملایا۔

1903ء میں سبی کو ضلع بنایا گیا اور یوں سبی بلوچستان کا قدیم ترین ضلع بھی ہے۔ نصیرآباد، کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور زیارت کے بعد جب ہرنائی کو بھی سبی سے علیحدہ کرکے ضلع بنا دیا گیا تو یہ رقبے میں کافی سُکڑ گیا۔ موجودہ ضلع، سِبی اور لہڑی، دو تحصیلوں پر مشتمل ہے۔

یہاں کا موسم بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہت مختلف ہے۔ اسے پاکستان کا گرم ترین شہر کہا جاتا ہے جہاں گرمیوں میں عمومی درجۂ حرارت 52 یا 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتا ہے۔ یہ سوچ کر میرا دل چاہتا ہے کہ سبی کے لوگوں کو ان کی ہمت پر سلام پیش کروں۔

اس دن بھی یہاں شدید گرمی تھی، درجۂ حرارت لگ بھگ اننچاس تھا۔ اسٹیشن پر لوگ ٹھنڈا پانی اور شربت خرید رہے تھے۔ مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو نہلا رہی تھیں۔ بوڑھے اور نوجوان وضو کر رہے تھے۔ قریب ایک مسجد سے جمعے کے خطبے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے بھی وضو کیا اور اسٹیشن کے ایک درخت کی چھاؤں میں نماز ادا کی۔ بھئی اس نماز کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔

سبی جنکشن، کوئٹہ ریلوے ڈویژن کا آغاز ہے جہاں سے دو ریلوے لائنیں نکلتی ہیں۔ ایک لائن براستہ مشکاف، آبِ گم، مچھ، کولپور سپیزنڈ، کوئٹہ اور بوستان جنکشن سے چمن بارڈر تک جاتی ہے جب کہ دوسری ریلوے لائن سبی سے دریائے ناڑی کے ساتھ ساتھ بابر کیچ، سپن تنگی، ہرنائی، ناکُس، شاہ رگ، خوست اور زردالو تک جاتی ہے۔

2006 میں یہ ریلوے لائن تخریب کاروں کے ہاتھوں پُلوں کے تباہ ہوجانے کی وجہ سے بند ہوگئی تھی، لیکن گذشتہ سال اسے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ ایک مقامی شہری کے مطابق ایک دن چھوڑ کے ایک دن، ٹرین سبی ہرنائی تک جاتی ہے۔

ٹرین سبی سے چلی تو یہاں لوکو شیڈ کے قریب ’’سبی ریلیف ٹرین‘‘ کھڑی نظر آئی جو کسی حادثے کی صورت میں جائے حادثہ پر امدادی سامان لے کر جاتی ہے اور مدد فراہم کرتی ہے۔ سبی کا لوکو شیڈ کوئٹہ ڈویژن کا دوسرا فعال ترین لوکو شیڈ ہے۔ یہاں سے روزانہ صبح پائلٹ انجن کے ذریعے ایف سی بلوچستان کے روزمرہ استعمال کا سامان بھی بھیجا جاتا ہے۔

سبی سے چھپر گھاٹی: درۂ بولان کے شدید اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ریلوے انجنیئرز نے ریلوے لائن کو سبی سے ناری گھاٹی تک بچھایا اور ڈرامائی انداز میں اسے شمال کی طرف چھپر گھاٹی (جو اب ضلع زیارت میں واقع ہے) سے کوئٹہ تک لے گئے۔ یہ لائن سبی سے براستہ ہرنائی، شاہرگ، کھوسٹ، زردالو، خنائی، بوستان، کچلاک اور کوئٹہ تک پہنچاتی تھی۔ اس علاقے میں ہونے والی مُسلسل ارضیاتی تبدیلیوں نے حکام کو جلد ہی باور کروا دیا کہ ایک نئی لائن بچھانی پڑے گی۔ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے اس راستے کو تب بھی متاثر کیا تھا۔

جب اسے بنایا جا رہا تھا، اب اس کے لیے متبادل لائن کی ضرورت تھی۔ یہ صرف درہ بولان کے ذریعے ہی ممکن نظر آتا تھا۔

مشہور سیاح اور لکھاری جناب سلمان راشد ’’ڈان‘‘ میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں؛

’’اصل میں، سبی سے لائن مغرب کی طرف جھول کر رند علی گاؤں تک پہنچتی تھی (اس دور کے برطانوی نقشوں پر رِندلی)۔ یہاں یہ کنڈلانی گھاٹی سے ہو کر ہِرک تک جاتی تھی۔

جیسے ہی 1885 میں موسم گرما شروع ہوا، لائن ایک انچ آگے بڑھنے لگی۔ شدید گرم ہوا کے جھونکوں میں مزدوروں نے کام کیا اور شومئی قسمت کہ تعمیراتی کیمپوں میں ہیضہ پھوٹ پڑا جس کے نتیجے میں کئی سو مزدور ہلاک ہوگئے۔ اسی سال نومبر کے وسط تک، یہ لائن سمندر سے 1,400 میٹر کی بلندی پر ہِرک پہنچ گئی۔ اب ایک اور مشکل پیش آئی۔ دوزان گھاٹی کے ذریعے ہِرک اور کولپور کے درمیان 12 کلومیٹر کے فاصلے کے اندر اونچائی ڈرامائی طور پر بڑھ کر 1,790 میٹر تک پہنچ گئی۔ اتنے کم فاصلے کے اندر 390 میٹر کی یہ اونچائی اتنی شدید تھی کہ اس وقت کا سب سے طاقت ور انجن بھی کسی ٹرین کو نہیں لے جا سکتا تھا۔

ایک منصوبہ جو زیرِغور آیا، یہ تھا کہ ہِرک اور کولپور کے درمیان ایک چھوٹی میٹر گیج (تین فٹ اور تین انچ چوڑی) لائن ڈالی جائے۔ کولپور سے کوئٹہ جانے والی لائن کو پھر سے براڈ گیج ہونا تھا لیکن اس میں بھی کئی جھول تھے، خیر سبی سے دوزان تک اعلیٰ سطح براڈ گیج لائن بچھانے کے منصوبے بنائے گئے۔

1888 میں اس لائن پر نئے پُلوں اور سرنگوں پر کام شروع ہوا لیکن دو سال بعد ایک بہت بڑا سیلاب پل، گرڈر سمیت سب بہا لے گیا۔ یہ راستہ بھی چھپڑ گھاٹی والے راستے کا بھائی ثابت ہوا۔ اب ایک اور متبادل کی ضرورت تھی۔ یہ لائن اب کسی قدر اونچی وادی مشکاف کے ذریعے بنائی جانی تھی جو سبی اور ہڑک کے درمیان واقع ہے۔‘‘

درہ بولان سے گزرنے والی لائن پر سبی سے کوئٹہ کے بیچ آٹھ ریلوے اسٹیشن ایسے ہیں جو اب بند کر دیے گئے ہیں۔ یہاں اکثر کسی مسافر ٹرین کو دوسری ٹرین کے ساتھ کراسنگ کے لیے روکا جاتا تھا۔ ریلوے ٹریفک کا بوجھ کم ہونے کی وجہ سے ان اسٹیشنوں کو بند کر دیا گیا ہے جنہیں ریلوے کی اصطلاح میں بلاک ہٹ کہا جاتا ہے۔ ان میں ناڑی بینک، وسیپور، گڈالر، کوہسار، لالا جی، چدرزئی، سر بولان اور کوریڈور اسٹیشن شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر پنیر اور پیشی اسٹیشن کے درمیان واقع ہیں۔

سبی سے ٹرین نکلی تو دل بلیوں اچھلنے لگا کیوںکہ اس کے بعد ہی میرا پسندیدہ ٹریک شروع ہونے والا تھا اور کئی سرنگیں اس مسافر کی منتظر تھیں۔

ناڑی بینک : سبی کے بعد موسم واضح طور پر بدلتا محسوس کیا جا سکتا تھا۔

ناری دریا پار کرتے ہی ناڑی بینک نامی ایک گم نام سا اسٹیشن آیا۔ ناڑی بینک، کوئٹہ کی طرف ضلع کچھی (سابقہ نام بولان) کا پہلا اسٹیشن ہے۔ اس کے مغرب میں ڈھاڈر شہر ہے جس کے جنوب میں ایک عظیم ترین تہذیب کے آثار موجود ہیں جو ’’مہرگڑھ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

مہرگڑھ کے مقام پر جو آثارقدیمہ دریافت ہوئے ہیں وہ نہ صرف بلوچستان بلکہ جنوبی ایشیا میں پتھر کے زمانے کے سب سے قدیم آثار مانے جاتے ہیں۔ 1874 میں فرانسیسی ماہرین نے پاکستانی ماہرین کے تعاون سے یہاں کھدائی شروع کی جو دس سال تک جاری رہی جس سے مہرگڑھ کی تہذیب کو سمجھنے اور جاننے میں کافی مدد ملی۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ بلوچستان کا علاقہ پہلے خشک اور بنجر نہ تھا بلکہ یہاں کثرت سے بارشیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ ٹیلے اس دور میں آباد تھے اور ان بستیوں کے گرد کھیت کھلیان تھے۔

سب سے اہم بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ مہرگڑھ ہی خطے کا وہ علاقہ تھا جہاں سب سے پہلے گندم اور جو کاشت کی گئی۔ افسوس کہ اس جگہ کو وہ شہرت نہ مل سکی جو ہڑپہ اور موئنجودڑو کے حصے میں آئی۔

واپس ناڑی بینک چلتے ہیں جہاں ریل ہماری منتظر ہے اور مشکاف جانے کو تیار ہے۔

مشکاف:  مشکاف، ناڑی بینک کے بعد والا اسٹیشن ہے جسے پار کرنے کے بعد ٹرین بلوچستان کے ہیبت ناک اور چٹیل پہاڑی علاقے میں داخل ہوجاتی ہے۔ اصل میں یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارا خوش گوار سفر شروع ہوتا ہے۔ مشکاف کے بعد درۂ بولان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جس میں مختلف جگہوں پر پہاڑی سرنگیں بنائی گئی ہیں۔

ٹرین مختلف ندی نالوں کو پار کر کے جب ان پہاڑی سرنگوں سے گزرتی ہے تو سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ تبھی اس ٹریک پر ریل کا سفر میرا پسندیدہ ترین ہے۔

پہروکُنری: مشکاف کے بعد پانچ سرنگوں سے گزر کے پہرو کنری کا نام نظر آتا ہے۔ کتنا پیارا اور منفرد نام ہے۔ بلکہ آگے آنے والا ہر اسٹیشن اپنے آپ میں منفرد اور دل چسپ نام رکھتا ہے چاہے وہ پنیر ہو، دوزان یا پھر سپیزند۔ کہتے ہیں کہ پہرو ندی کے شمال میں واقع اس گاؤں کا نام ایک عورت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پہروکنری ہمیں تو بڑا بھایا لیکن شاید ٹرین کی اس سے نہیں بنتی۔ یہ اسٹیشن آج کل ریلوے کراسنگ کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔

پنیر: یہاں سے ریلوے ٹریک شمال کا رخ کرتا ہے اور ذرا آگے جا کر پنیر کا اسٹیشن آ جاتا ہے۔ کتنا دل چسپ نام ہے پنیر، جیسے ڈنمارک کا کوئی اسٹیشن ہو۔ یہ ضلع کچھی کا ایک چھوٹا سا خوب صورت اسٹیشن ہے جس کے قریب کوئی آبادی نہیں ہے۔

پنیر سے کچھ آگے پنیر سرنگ آتی ہے جو اس راستے کی سب سے لمبی سرنگ ہے۔ یہاں جب ٹرین داخل ہوتی ہے تو کچھ منٹ کے لیے گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس سرنگ سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ مزید پانچ سرنگوں سے گزر کے آپ کو ایک پَیشی بھگتنی پڑتی ہے۔

پَیشی: پنیر کے بعد جس جگہ ٹرین کی پَیشی پڑتی ہے وہ یہ چھوتا سا قصبہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی کٹی ہوئی پہاڑیوں کے بیچ بنایا گیا یہ ننھا سا اسٹیشن دریائے بولان کے قریب واقع ہے اور دریا کیے دوسری جانب ’’بی بی نانی‘‘ کا مشہور مقام ہے جہاں لوگ پکنک منانے جاتے ہیں۔ پیشی اسٹیشن کے قریبی پل پر جب ٹرین مڑتی ہے تو یہ منظر دیکھنے کے لائق ہوتا ہے تبھی یہی منظر پاکستان ریلوے کی ٹکٹ پر بھی چھاپا گیا ہے۔

آبِ گُم:  پیشی سے ہوکر ٹرین دریائے بولان کو پار کرتی ہے اور شمال میں واقع بلوچستان کے اسٹیشن آبِ گُم پہنچتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک فارسی نام ہے لیکن مطلب صاف واضح ہے، گم شدہ پانی۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کے اس جگہ دریائے بولان ریت میں کہیں غائب ہوجاتا ہے۔ 1886 میں تحصیل مچھ کے اس قصبے میں ایک خوب صورت اسٹیشن بنایا گیا تھا جہاں کوئٹہ جانے والی ٹرین کو دوسرا انجن لگایا جاتا ہے۔ یہاں سے کولپور تک پٹری ڈبل کر دی گئی ہے۔

سطح سمندر سے اس کی بلندی 658 میٹر ہے اور یہاں سے ٹرین کو دو انجن کھینچتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ آگے اونچائی بڑھتی جاتی ہے اور ٹرین کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ آبِ گُم میں آب شاید گم ہوجائے لیکن سوئی گیس کے کافی ذخائر پائے گئے ہیں جو اس خطے کی حالت بدلنے میں ہنوز ناکام ہیں۔

آبِ گُم کے بعد ریلوے ٹریک اور مرکزی سڑک ہم سفر بن جاتے ہیں جو راستے میں ایک دوسرے کو کراس کرتے رہتے ہیں۔ کچھ آبادی کے آثار نظر آتے ہیں اور یہاں بلوچستان کی دل چسپ روزمرہ زندگی دیکھنے کو ملتی ہے۔

مَچھ: ایک دو لمبے موڑ مُڑ کر ٹرین مچھ پہنچتی ہے جو کچھی ضلع کی ایک تحصیل اور آخری اسٹیشن ہے۔

سطح سمندر سے نو سو نوے میٹر بلند مچھ اسٹیشن سبی کے بعد سب سے بڑا اور شان دار اسٹیشن ہے جسے 1880 میں سوئزرلینڈ کے ایک ریلوے اسٹیشن کے طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 1929 میں تعمیر کی گئی مچھ جیل، پاکستان کی سب سے بڑی جیل ہے جہاں خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، اس کے علاوہ یہاں بے شمار سیاست دانوں کو قید رکھا گیا ہے۔ اس لیے یہاں کے اسٹیشن پر بھی ایف سی کی بھاری نفری تعینات رہتی ہے۔

چوںکہ یہ علاقہ کوئلے کے وسیع ذخائر رکھتا ہے سو 1883 میں یہاں سے کوئلہ نکالنے کا کام شروع ہوا۔ اب بھی آپ کو اسٹیشن کے آس پاس پہاڑوں پر کوئلے کی کانیں نظر آجائیں گی۔

ایک اور دل چسپ بات کہ 1935 میں آنے والے تباہ کن زلزلے کا مرکز بھی یہی شہر تھا جس میں کوئٹہ تباہ و برباد ہو گیا تھا۔

مچھ کی آبادی لگ بھگ پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس میں مسلمان اور ہندو شامل ہیں۔ یہاں کی پہاڑیوں میں ایک خاص نسل کی بھیڑ پائی جاتی ہے جس کی اون ملائم اور ریشہ لمبا ہوتا ہے۔ اس نسل کو ترقی دے کر بہتر اون مہیا کرنا ایک نہایت منفعت بخش صنعت کی بنیاد بن سکتا ہے۔

ہِرک و دَوزان: مچھ کے بعد ٹرین دریائے بولان کا پُل پار کرتی ہے اور ہِرک نامی ایک چھوٹے سے اسٹیشن کو کراس کرتی ہے۔ یہاں سے آگے ریلوے ٹریک دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور یہی درہ بولان کا مرکزی علاقہ ہے جہاں یہ تنگ سے درے کی صورت نظر آتا ہے۔

دریائے بولان پر بنے ریلوے پُلوں کو اس علاقے کی تیز ہواؤں کی بدولت ’’وِنڈی برج‘‘ کہا جاتا ہے۔ آگے ’’پیر پنجا‘‘ (ایک بزرگ کا نام جن کا مزار سڑک کنارے واقع ہے) اور ’’ونڈی کارنر‘‘ نامی سرنگیں آتی ہیں جن سے گزر کے ٹرین دوزان کے اسٹیشن کو تنہا چھوڑ کر اپنا راستہ ناپتی ہے۔

دوزان کا چھوٹا سا پہاڑی اسٹیشن اپنے نام کی طرح خوب صورت ہے جس کے بعد مشہور زمانہ ’’میری جین‘‘ سرنگ آتی ہے جس کی کہانی سنائے بغیر ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔

میری جین، سرنگ نمبر 16 اور گم شدہ قبر:  یہ کہانی ہے سرنگ نمبر 16 کی۔

بلوچستان کے ایک خوب صورت اور چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن دوزان سے آگے واقع سولہ نمبر سرنگ کو ’’میری جین‘‘ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔

بولان وادی کے فرش پر بچھائی گئی پٹری جب بارشوں سے تباہ ہوگئی تو اسے اونچائی پر بچھانے کے لیے نئے ٹریک اور سرنگوں پر کام شروع کیا گیا۔

یہاں کام کرنے والے انگریز عملے میں ایک انجنیئر ایف ایل او کیلہن (F L O’Callaghan)بھی تھا، جس کی بیوی میری جین، اپنے شوہر کی محبت میں برطانیہ سے اس دوردراز علاقے میں اس کے ساتھ رہنے آئی تھی۔

کہتے ہیں کہ 1894 میں اس سرنگ کی تعمیر کے دوران جب دھماکا ہوا تو ایک پتھر کہیں سے انہیں آ لگا (کچھ کے مطابق پتھر پہاڑ سے گرا تھا)۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ جان بر نہ ہو سکیں اور موقع پر ہی ان کی موت واقعہ ہوگئی۔

حالاںکہ ان کے تابوت کو برطانیہ بھیجا جا سکتا تھا لیکن بی بی سی کے مطابق کیلہن نے ان کی اس قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے انہیں سرنگ کے اوپر پہاڑ کی چوٹی پر دفنانے کا فیصلہ کیا۔ میری جین کی اس قربانی کے پیشِ نظر انگریز سرکار نے اُس سرنگ کا نام ان سے موسوم کردیا جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔

مقامی لوگوں کے مطابق بہت پہلے سرنگ کے اوپر ان کی قبر بھی موجود تھی لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آج ایک سو تیس سال بعد اس کا سراغ لگانا بھی مشکل ہے۔

شاید بولان کی اِس سرنگ سے گزرنے والی ٹرین کو میری جین کی روح اس پہاڑ سے دیکھتی ہوگی اور بلوچستان کے معصوم بچوں کی طرح ٹرین کو ہاتھ ہلاتی ہوگی۔

میری جین کراس کرنے کے بعد دیدار ہوتا ہے اس راستے کے سب سے ٹھنڈے اور اونچے اسٹیشن کولپور کا۔

کَولپور:  سطح سمندر سے 1792 میٹر بلند کولپور اِس وقت بلوچستان کا بلندترین ریلوے اسٹیشن ہے۔ اس سے پہلے ژوب سیکشن پر واقع کان مہترزئی (2224میٹر) بلند ترین ریلوے اسٹیشن تھا جو مستقل بند ہے۔ پھر نمبر آتا ہے کوئٹہ چمن روٹ پر واقع شیلا باغ (1938 میٹر) ریلوے اسٹیشن کا جو سرحد پر جاری کشیدگی کی وجہ سے عارضی طور پر بند ہے۔

کولپور ایک دل کش و پُرفضا ہِل اسٹیشن ہے جس کے اطراف میں مٹی کے بنے چھوٹے چھوٹے گھر آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں۔ یہاں پر جنوری اور فروری کے مہینے میں دو سے ڈھائی فٹ تک برف باری بھی ہوتی ہے۔ برف باری کے دنوں میں یہاں پاکستان بھر سے سیاح آتے ہیں۔

1890 میں جب برطانوی راج اس علاقے میں ریلوے ٹریک بچھا رہا تھا تب کولپور میں برصغیر کے مختلف علاقوں (خصوصاً سندھ اور ملتان) سے مزدوروں کو لایا گیا، جن میں ہندوؤں کی بھی کثیر تعداد شامل تھی۔ چونکہ یہ قصبہ اسٹیشن بننے کے بعد ہی آباد ہوا سو بیشتر مزدوروں نے یہیں رہنا مناسب سمجھا اور آج کولپور میں ہندو برادری اکثریت میں ہے جہاں ان کے مندر بھی ملتے ہیں۔

کولپور کو مال گاڑیوں کا جنکشن بھی کہا جاتا ہے۔ سبی اور کوئٹہ، ہر دو جانب سے آنے والی مال گاڑی یہاں ٹرمینیٹ ہوتی ہے۔ ڈھلوان کی وجہ سے یہاں مکینیکل چیک (خصوصاً بریکوں کی چیکنگ) اور لوڈ چیک کے بعد انہیں روانہ کر دیا جاتا ہے۔

کولپور اسٹیشن سے ذرا آگے 1894 میں تعمیر کی گئی ’’سمٹ‘‘ نامی سرنگ آتی ہے جسے کولپور ٹنل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی پتھروں سے بنی ایک مضبوط سُرنگ ہے جس کی برج اور پتھروں کی تراش خراش بھی کاری گروں کی محنت کو ظاہر کرتی ہے۔

سپیزند: کولپور سرنگ سے ہوکر ٹرین ضلع مستونگ کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے جہاں یہ کولپور و سپیزند کے درمیان میں واقع گلِ لالہ کی وادی دشت سے گزرتی ہے۔ اب پہاڑ آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور میدان شروع ہوتا نظر آتا ہے۔ ضلع مستونگ کے اکلوتے اسٹیشن، سپیزند جنکشن پہ بغیر رکے یہ آگے بڑھ جاتی ہے۔ اسٹیشن سے کچھ آگے تفتان اور زاہدان کو جانے والی ریلوے لائن الگ ہوتی ہے۔

یہ اسٹیشن ولی خان، نوشکی، احمد وال، دالبندین، نوکنڈی، میرجاوہ اور زاہدان کے لیے جنکشن ہے۔

کوئٹہ: سپیزند کے بعد تیرہ میل اور پھر سریاب سے ہو کر ٹرین اپنی منزل مقصود یعنی کوئٹہ کے مرکزی اسٹیشن پر جا رکتی ہے جو اس کا آخری اسٹاپ ہے۔

1676 میٹر بلندی پر واقع کوئٹہ، پاکستان کے اونچے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جہاں سے ریلوے لائن آگے کچلاک، بوستان جنکشن، گلستان اور شیلا باغ سے ہوکر چمن تک جاتی ہے (اس کا ذکر پھر سہی)، جب کہ یہ اسٹیشن کوئٹہ تفتان ریلوے لائن کے لیے ٹرمینس (یعنی ایک کنارے پر واقع پہلا یا آخری) اسٹیشن بھی ہے۔

کوئٹہ کا اسٹیشن، بلوچستان کا سب سے بڑا اور خوب صورت اسٹیشن ہے جہاں کسی زمانے میں رات بھر رونق رہتی تھی۔ اب تو یہ شام کو ہی بند ہوجاتا ہے۔ اس کے باہر ایک پارک میں پرانا اسٹیم انجن بھی کھڑا کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ریلوے کے قدیم سامان اور اوزاروں کو محفوظ کرنے کے لیے اسٹیشن کے اندر ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے۔ یہ عجائب گھر ویسے تو بند رہتا ہے لیکن اگر کوئی دیکھنا چاہے تو اسے کھول دیا جاتا ہے۔

شام کے چھے بجے کوئٹہ اترتے ہی ہم نے اپنے چمن کے ہم سفر ساتھیوں کو الوداع کہا اور تصاویر اتروائیں۔ میرا ارادہ اس بار ٹرین سے چمن جانے کا تھا لیکن راستے میں انہوں نے ہمیں بتایا کہ سرحد بند ہونے کی وجہ سے چمن میں دھرنا اور ہڑتال جاری ہے جس کی وجہ سے ٹرین بھی بند ہے۔ یہی بات کی بعد میں تصدیق ہوگئی۔ اصل میں تو ٹرین کا سفر کرنا مقصود تھا جب وہی بند تھی تو چمن جانے کا پلان منسوخ کیا اور زیارت جانے کا پروگرام بنایا۔

وقت پر پہنچنے کا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اور انوار بھائی نے آرام سے ایک اچھا ہوٹل ڈھونڈا (محمد علی جناح روڈ پر لائن میں اچھے اور سستے ہوٹل آپ کو مل جائیں گے) جو انتہائی مناسب داموں مل گیا اور وہاں سامان رکھ کے فریش ہوئے۔

انوار بھائی کے جہاں مجھے کئی اور فائدے ہوئے وہاں ایک ان کا خوش خوراک ہونا بھی فائدہ مند تھا۔ میرے نہانے تک موصوف نے وی لاگز کی مدد سے کوئٹہ کے بہترین ہوٹل ڈھونڈ لیے اور پہلی رات ہم نے ’’شاہ ولی‘‘ جانے کا فائنل کیا۔

شاہ ولی ریسٹورنٹ، میزان چوک کے پاس سورج گنج بازار میں واقع ایک مصروف ترین ریستوران ہے جہاں کوئٹہ کے تقریباً تمام روایتی کھانے سرو کیے جاتے ہیں۔ ان کی سب سے منفرد بات ان کا بیٹھنے کا انتظام اور خوب صورت ماحول ہے۔ یہاں چھت پر گاہکوں کے لیے غالیچے بچھائے اور گاؤ تکیے لگائے گئے ہیں۔ یہاں ہم نے کابلی پلاؤ، روش اور افغانی بوٹی کا آرڈر دیا۔ قیمتیں وہی پنجاب والی ہی ہیں لیکن ذائقہ مختلف تھا۔ روش کے ساتھ یخنی کی بجائے دال سرو کی گئی اور ختم ہونے پر روغن زیتون ساتھ دیا۔ میں چوںکہ گوشت زیادہ نہیں کھاتا سو انوار بھائی نے روش سے انصاف کیا اور اسے بہتر بتایا۔

یہاں سے نکل کر ہم نے کل کے لیے ٹیکسی کا جگاڑ کیا۔

کوئٹہ میں میرے دوست فیض شیخ کے مطابق ٹیکسی زیارت جا کر وہاں کے اہم مقامات دیکھنے کا سب سے بہتر ذریعہ ہے اور ان کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ زیارت کے لیے ہم نے دس ہزار میں ٹیکسی فائنل کی جسے ہمیں زیارت کے اندر بھی کچھ دور جگہوں پر لے جانا تھا۔ یہاں سے ہم سرینا پہنچے اور وہاں کی کافی پی جو انوار بھائی کے مطابق ان کے معیار کے مطابق نہیں تھی، چوںکہ انوار بھائی ایک زبردست فوڈلَور ہیں سو ان کی بات پر میں آنکھ بند کرکے یقین کر سکتا ہوں۔

واپس ہوٹل پہنچے اور اگلے دن کی تیاری کر کے سوگئے۔

صبح تیار ہوکر قریبی چائے خانے معہ دکان سے لذیذ بَل والے پراٹھے اور سبز مرچ کے آملیٹ کا ناشتہ کیا۔ اتنے میں گاڑی والے چاچا اور فیض بھائی بھی پہنچ گئے۔ ہم نے چائے پی اور اکٹھے زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔

فیض محمد شیخ کا تعلق کچھی کے علاقے بھاگ سے ہے لیکن وہ عرصۂ دراز سے تعلیم و روزگار کے لیے کوئٹہ مقیم ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے گرافک ڈیزائنر اور پبلشر ہیں۔ عجائب گھروں پر میری دوسری کتاب ’’حیرت سرائے پاکستان‘‘ بھی ان کے ادارے ’’ایلاف‘‘ نے چھاپی ہے۔ فیض کو اس سفر میں ساتھ شامل کرنے کا ایک مقصد ان کو جاننا بھی تھا۔

(جاری ہے)

The post ٹرین ٹو کوئٹہ ۔۔۔۔ ایک مسافر کی داستان appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>