عزیزم سید اَحمر علی بخاری میرے دوستوں میں ایک منفرد شخصیت ہے جس کا ننھیالی شجرہ میرے ننھیالی شجرے سے اور ہمارے اکثر خیالات ایک دوسرے سے بہت ملتے، بلکہ ملتے جُلتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر اَحمر بہ یک وقت، کئی قسم کے کام انجام دے سکتا ہے، مگر فی الحال اس کی تفصیل بتانا مقصود نہیں، مختصراً یوں سمجھ لیں کہ وہ قومی کرکٹ کی تاریخ کے اُن بے شمار ناموں میں شامل ہے جو کسی نہ کسی سبب، ہماری قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوتے ہوتے رہ گئے، حالانکہ پوری طرح اہل تھے اور دوسری بات وہ کاروباری اصطلاح میں گویا ’کرامت‘ دکھانے والا انسان ہے۔ {احمر نے کچھ سال پہلے مجھ سے فرمائش کی کہ ’عورت مارچ‘ کے بیہودہ نعرے اور فتنے کا بھرپور جواب دینے کے لیے کوئی نظم کہہ دیں، بندے نے پہلے تو ٹال مٹول کی، پھر وعدہ کیا کہ کچھ آمد ہوئی تو کہہ دوں گا۔ بفضلہ تعالیٰ آمد ہوئی اور خوب ہوئی، نظم کہہ ڈالی’’تُو فقط جسم ہے کیا؟‘۔ دل چسپی لینے والے احبا ب انٹرنیٹ پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں}۔
اس مضمون کی ابتداء ہی احمر کے نجی معاملے کے سبب ہورہی ہے، یوں سمجھ لیں کہ اس کی تحریک بھی احمر کے معاملے سے ہوئی۔ ہوا یوں کہ جب 2012 ء میں احمر کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اُس نے مجھے کال کرکے ناموں پر تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ آیا صحابی رسول کی نسبت سے ’ابوہُریرہ‘ نام رکھ سکتا ہوں، کوئی حرج تو نہیں؟ میںنے اُسے تسلی بخش جواب دے دیا، مگر پھر سلسلہ دراز ہوا تو انکشاف ہوا کہ کچھ ’بزرگ ‘ بہت چِیں بہ جَبیں ہیں کہ یہ نام غلط ہے۔
اُن کے خیال میں اس کے معنیٰ اچھے نہیں، ’بلّیوں کا باپ‘ اور دوسرے یہ کہ یہ تو کُنیت ہے، نام نہیں۔ راقم نے احمر کو تفصیلی جواب دیا اور کہا کہ ایسے تمام معترضین سے کہہ دو کہ اگر آپ کی تشفی نہیں ہوئی تو مجھ سے مناظرہ کرلیں۔ بس جناب! اللہ کے کرم سے یہ معاملہ طے ہوگیا۔ احمر کا بیٹا ابوہریرہ اب ماشاء اللہ بارہ سال کا ہے۔ احمر نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام ابوبکر صدّیق رکھا۔ اب ہم بات کرتے ہیں اِن اسمائے مبارکہ سمیت ایسے ہی ناموں کی جن کی ابتداء ’ابو‘ یا ’اُم‘ سے ہوتی ہے اور جنھیں ہمارے یہاں کم علمی یا لاعلمی کے سبب، محض کُنیت سمجھ کر نظراَنداز کیا جاتا ہے۔
ا)۔ نبی کریم (ﷺ) کے بہت ہی عزیز ومقرب صحابی حضرت ابوہُریرہ (رضی اللہ عنہ‘) کا اصل نام ایک روایت کی رُو سے عبدالرحمٰن یا عبداللہ تھا، جبکہ اختلافی روایات میں عُمیر بھی ملتا ہے۔
اُن کے والد کے نام میں بھی روایات کا بہت اختلاف ہے۔ ابوہُریرہ اپنا زیادہ وقت صُفّہ یعنی (ایک مخصوص) چبوترے پر گزارکر، یہی کوشش پیہم کرتے کہ ہر معاملے اور مسئلے میں حضور اَنور (ﷺ) سے براہِ راست رہنمائی حاصل کروں۔ انھیں ایک خاص دعا اور معجزہ ٔ رسو ل (ﷺ) کے طفیل انتہائی حیرت انگیز، قابلِ رشک حافظہ عطا ہوا اور تاریخ نے دیکھا کہ رِوایت ِ حدیث میں اُنھیں سب سے نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔
وہ مادری زبان عربی کے علاوہ حبشی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ اُن کے پاس ایک بلونگڑا تھا جو شاید اُن کا واحد پالتو جانور تھا جو اُن کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ رسولِ رحمت (ﷺ) نے اُن کا ایک معصوم جانور سے یہ لگاؤ اور پیار دیکھ کر (غالباًمزاحاً) اُنھیں ’ابوہُریرہ‘ یعنی ’بلّیوں کا باپ‘ کہہ کر مخاطب فرمایا اور پھر یہ پیار میں دیا گیا نام ہی اُن کی عُرفیت کیا گویا اصل نام اور لقب ہوگیا۔ اسے کُنیت سمجھنا زبان خصوصاً عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ {پچھلے دنوں ایک بزرگ ادیبہ نے خاکسار سے پوچھا کہ آیا لفظ صوفہ، حرف ’ص‘ سے درست ہے یا ’س‘ سے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ لفظ عربی کے لفظ صُفّہ سے بنا ہے جو عربی سے انگریزی میں جاکر Sofa ہوا اور لَوٹ کر اُردو میں آیا تو میری دانست میں اِسے ’صوفہ‘ لکھنا درست ہے}۔
ب)۔ ایسی ہی دوسری مشہور مثال ہے میرے جدّ ِاَمجد سیَّدُنا ابوبکر صدّیق (رضی اللہ عنہ‘) کی، جن کا اصل نام عبداللہ تھا، مگر متعدد علوم کے علاوہ، علم الانساب کے ماہر ہونے کے سبب، انھیں یہ نام ملا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ وہ نہ صرف انسانوں کے بلکہ اونٹوں کے بھی حسب نسب کے ماہر تھے۔ عربی میں ’بکر‘ سے مراد ہے جوان اونٹ۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے افضل انسان کو یہ نام بطور عُرف ملا تھا، ورنہ اُن کے سب سے بڑے فرزند عبداللہ کی نسبت سے اُن کی کُنیت ’ابوعبداللہ‘ ہے۔
اُن کے والد گرامی حضرت ابوقُحافہ عامربن عثمان (رضی اللہ عنہ‘) بھی مسلمان وصحابی ہوئے ۔ {بات کہیں اور نکل جائے گی، مگر محض حوالے کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ حضرت ابوبکرؓ کے فرزند عبداللہ، عبدالرحمٰن اور ایک پوتے محمداَبوعتیق بھی صحابی تھے یعنی چار پُشت صحابی، جبکہ اُن کے سب سے چھوٹے فرزند محمد کو بعض علماء نے صحابہ ِ صِغار یعنی کم سِن صحابہ میں شمار کیا ہے، مگر اِس پر اتفاق ِرائے نہیں۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ہمارے یہاں حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ‘ کی اولاد کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو بجائے صدیقی کے ’رحمانی‘ کہلانا پسند کرتے ہیں}
ج)۔ دامادِرسول حضرت علی بن ابوطالب (رضی اللہ عنہ‘) بھی اس ضمن میں بہت زیادہ لائق ِذکر شخصیت ہیں جن کی عُرفیت کو کُنیت سمجھ لیا گیا۔ وہ ایک مرتبہ مسجد میں آرام فرما تھے کہ آنکھ لگ گئی اور ایسے میں سرکارِ دوعالم (ﷺ) وہاں تشریف لائے تو اُنھیں جگاتے ہوئے فرمایا (مفہوم) : اُٹھو! اے ابوتُراب!۔ معاملہ یہ تھا کہ اُن کے چہرے پر مسجد کے کچے فرش کی مٹّی لگ گئی تھی۔ مٹّی کو عربی میں تُراب کہتے ہیں اور ’’ابوتُراب‘‘ کہہ کر ازراہ ِتفنن مخاطب کیا تھا، اُنھیں مٹّی کا باپ کہنا مقصود نہ تھا۔ یہ ہرگز اُن کی کنیت یا لقب نہیں، جیسا کہ پرچار کیا جانے لگا اور پھر اِس کی تاویل بھی کی جاتی ہے۔ حضرت علی بن ابوطالب (رضی اللہ عنہ‘) کی کُنیت اپنے بڑے فرزند حضرت حسن (رضی اللہ عنہ‘) کی نسبت سے ابوالحسن تھی۔
د)۔ حضرت عُمر فاروق (رضی اللہ عنہ‘) کی کُنیت ابوحفص غالباً اُن کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت سے تھی، جبکہ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ‘) کی کنیت دو بیٹوں کے نام پر ابوعبداللہ اور ابوعَمرو ْ (واؤ ساکن: عَمْرUmr) تھی۔
ہ)۔ نبی کریم (ﷺ)کے ایک مقرّب صحابی حضرت سلمان فارسی کو خود حضور اکرم (ﷺ) نے ابویحیٰ کہہ کر پُکارا تو یہ اُن کی کنیت مشہور ہوگئی، حالانکہ اُس وقت تک وہ شادی شدہ بھی نہ تھے، چہ جائیکہ کسی یحیٰ کے باپ ہوتے۔
و)۔ ایک روایت کے مطابق حضور اَقدس (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوکر اِسلام لانے والے آخری صحابی حضرت اَبوحَدرَد تھے جن کا اصل نام حکم بن حُزن یا بہ اختلافِ رِوایت بَراء تھا۔ یہ مشہور صحابی حضرت اَبوحَدرَد اَسلمی کے علاوہ کوئی اور تھے۔ (بحوالہ اُسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ از علامہ امام ابن اثیر مترجمہ جلد یازدہم)۔
ز)۔ مرد صحابہ کرامؓ میں ایسے حضرات کی فہرست بہت طویل ہے جن کی کُنیت یا عرفیت یا لقب ’ابو‘ سے شہرت ہوئی، کچھ کا اصل نام بھی مشہور، کچھ کا غیرمعلوم تو کچھ کا نام ہی ابو سے شروع ہوتا تھا۔ اس ضمن میں مشہور ترین نام ’الّسابقون الاوّلون‘ (اسلام لانے میں سبقت کرنے والے) کی فہرست میں شامل، حضور اکرم (ﷺ) کے پھوپھی زاد بھائی، اسلام کے اوّلین مشہور اور نعت گو شاعر، اوّلین مشہور نابینا مسلمان شخصیت حضرت ابو احمد بن جحش (رضی اللہ عنہ‘) کا ہے۔ اُن کا اصل نام محفوظ نہیں۔ اُن کی بہن حضرت زینب بنت جحش (رضی اللہ عنہا) کو اُم المومنین بننے کا شرف حاصل ہوا۔
ح)۔ اسی طرح کی ایک اور مثال نبی کریم ﷺ کے چچازاد، رِضاعی (دودھ شریک) بھائی اور بچپن کے دوست حضرت اَبوسُفیان بن حارث (رضی اللہ عنہ‘) کی ہے جو فتح مکہ کے وقت سن 8ہجری میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہ نبی کریم ﷺ سے مشابہ افراد میں شامل تھے۔
اُن کا اصل نام مُغِیرہ تھا، مگر شُہرت اسی عُرف سے ملی، جبکہ اُن کے کسی بیٹے کا نام سُفیان نہیں ملتا۔ یہی صورت حال اُن کے ہم نام اور اُنہی دنوں مسلمان وصحابی ہونے والے دوسرے صحابی حضرت اَبوسُفیان بن حرب (رضی اللہ عنہ‘) کی ہے جن کا اصل نام صخر تھا، بیٹوں کے نام یزید، مُعاویہ اور زِیاد تھے، سفیان کوئی نہ تھا۔ یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف بھی آپ کی معلومات کے لیے کرتا چلوں۔ انصارمیں ایک صحابی اسی نام کے یعنی حضرت اَبوسُفیان بن حارث (رضی اللہ عنہ‘) غزوہ اُحد (یا بہ اختلافِ روایت غزوہ خیبر) میں شہید ہوئے جو قبول ِاسلام میں اوّل الذکر دونوں حضرات سے سبقت لے گئے۔ اُن کا اصل نام بھی مذکور نہیں!
ط)۔ مندرجہ بالا مثال کے برعکس ، انصار کے ایک بڑے سردار، انصار میں اوّلین مسلمانوں میں شامل حضرت اَسعَد بن زُرارہ (رضی اللہ عنہ‘) کی ہے جن کی بیٹی حضرت اُمامہ (رضی اللہ عنہا) کے نام پر کُنیت ابواُمامہ تھی، مگر اس کنیت یا عرفیت سے کئی دیگر صحابہ مشہور ہوئے۔
ی)۔ ’میزبانِ رسول‘ حضرت ابواَیّوب انصاری (رضی اللہ عنہ‘) کا اصل نام خالد بن زید بہت کم لوگ جانتے تھے۔
ک)۔ غزوہ طائف میں محاصرے کے وقت دیوار پھاند کر لشکرِاسلام میں شامل ہونے والے، مسلمان وصحابی ہونے والے حضرت ابوبِکرہ (رضی اللہ عنہ‘) کے اصل نام میں اختلاف ہے۔ وہ ایک ڈول [Bucket] میں بیٹھ کر فصیلِ شہر پھاندنے میں کامیاب ہوئے جسے عربی میں بِکرہ کہتے ہیں۔ اُس موقع پر اُنھیں خود رسول مقبول ﷺ نے سابق آقا کی غلامی سے آزاد قرار دیتے ہوئے اُن کا نام ابوبِکرہ تجویز فرمایا تھا۔
ل)۔ ان نفوس ِ قُدسیہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ ایک اور بات بھی یاد کرتے چلیں۔ اسلام کا بڑا دشمن عَمرو (واؤ ساکن: عَمْرUmr) بن ہِشام، اپنے اصل نام کی بجائے ’ابوجہل‘ کے خطاب سے مشہور ہواجو اُسے اُس کے جہل کی وجہ سے بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) سے دیا گیا تھا۔ اب اگر کوئی اسے بھی کُنیت سمجھنے لگے تو کیا کیا جاسکتا ہے؟
م)۔ زنانہ ناموں میں لفظ ’اُم‘ کا استعمال بطور سابقہ کُنیت، عرفیت اور لقب یا خطاب کے لیے ہوتا رہا ہے۔ اس کی مثالیں اُم المؤمنین (مومنوں کی ماں یعنی نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ) اور جمع کے صیغے میں ’اُمّہات المومنین‘ (مومنوں کی مائیں)، اُم الہند (اُم المؤمنین حضرت خدیجۃ اُلکُبریٰ رضی اللہ عنہاکی کُنیت، نبی کریم ﷺ سے قبل کی دو شادیوں سے اُن کے یہاں فرزند ہالہ، ہند، حارث اور طاہر جبکہ ایک بیٹی ہندہ پیدا ہوئی تھی)، اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اولادنہ ہونے کے باوجود، نبی کریم (ﷺ) سے اجازت لے کر، اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زُبیر کی نسبت سے کُنیت اُم عبداللہ، اُم المومنین حضرت اُم حبیبہ رَملہ بنت ابوسُفیان رضی اللہ عنہا (بیٹی حبیبہ کے نام پرکُنیت)، اُم المومنین حضرت’’ اُم المساکین ‘‘زینب بنت خُزَیمہ رضی اللہ عنہا (غریب پرور اور بہت کثرت سے مساکین ویتامیٰ میں خیرات تقسیم کرنے کے سبب لقب)، اُم المومنین حضرت اُم سَلَمہ ہِند بنت ابی اُمیّہ رضی اللہ عنہا (فرزند حضرت سَلَمہ بن ابو سَلَمہ رضی اللہ عنہ‘ کی نسبت سے کُنیت )، {بہت سے لوگ ناواقفیت کی بِناء پر یہ نام اُم سلمیٰ لکھ دیتے ہیں، جبکہ سلمیٰ زنانہ نام ہے}، حضرت اُم کلثوم بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا (کُنیت نہیں، نام)، نیز اِسی نام کی متعدد صحابیات و تابعیات بشمول حضرت اُم کلثوم بنت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہا و حضرت اُم کلثوم بنت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہا، ’اُم ِ اَبِیہا‘ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (اس کُنیت کی وجہ تسمیہ سے متعلق متعدد رِوایات ہیں، مگر اُن پر اتفاق نہیں)، اُن کی بعض دیگر کُنیتیں اولاد کی نسبت سے بھی بیان کی گئی ہیں، اُم الخیرحضرت سلمیٰ بنت صخررضی اللہ عنہا (حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ‘ کی والدہ ماجدہ )کی کُنیت، مگر اُن کی کسی اولاد کا نام ’خیر‘ نہیں تھا، اُم ِ رُومان زینب بنت عامررضی اللہ عنہا (حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ‘ کی زوجہ محترمہ اور اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ)……..اور یہ فہرست بہت دراز ہے۔
ن)۔ عربی میں اس کے علاوہ بھی بہت ساری مثالیں ’ابو‘ کے استعمال کی دی جاسکتی ہیں جن میں کسی بھی نسبت سے یہ لفظ برتا گیا ہو اور کوئی معنیٰ اخذ کیا گیا ہو۔ میزبان کو ابوالاَضیاف کہتے ہیں۔ ابواِیاس سے مراد ہے ہاتھ مُنھ دھونے کی کوئی چیز۔ سرکہ اَبوثقیف کہلاتا ہے، دسترخوان کو ابوجامِع کہتے ہیں۔ جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کے لیے بھی اس کے استعمال کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
اونٹ کا ایک نام بھی ابواَیّوب ہے، چِیتا ابواَلاَسوَد بھی کہلاتا ہے، لومڑی کو اَبوحُصَین اور کُتّے کو اَبوخال، جبکہ مرغ کو اَبوسُلیمان اور ابوالیقظان کہتے ہیں۔ بلّی کو ابوغزوان کہا جاتا ہے۔ عربی میں شاید ایسے ناموں کے ضمن میں تذکیروتانیث کا معاملہ مختلف ہے۔ اُم کی فہرست بھی عربی لغات میں بہت طویل ہے۔ ماں کے علاوہ کسی بھی چیز کی اَصل کو ’اُم‘ کہا جاتا ہے۔ شارع عام کو ’’اُمّ الطّریق‘‘ [Main Road] کہا جاتا ہے۔ ایک بہت مشہور، مگر مختلف مثال شراب کو ’اُم الخبائث‘ قرار دینا بھی ہے۔
س)۔ اس کے علاوہ عربی ناموں میں خصوصاً صحابہ کرام وتابعین کرام کی فہرست میں ایسے بہت سے اسمائے گرامی شامل ہیں جو اپنے والد، دادا، نانا یا والدہ، دادی یا کسی اور بزرگ کی نسبت سے کنیت رکھتے تھے، مشہور صحابی حضرت شُرحبیِل بن حَسَنہ رضی اللہ عنہ‘ کی دادی کا نام حَسَنہ تھا۔ اس طرح بعض دیگر صحابہ کی مثال بھی ہے، نیز خواتین میں یہی معاملہ رہا۔
ف)۔ اس موضوع پر آخری انکشاف یہ ہے کہ ان مقدس ہستیوں نیز اُن کے عہد کے دیگر لوگوں (بشمول مشرکین) کے ناموں میں بِن یا بنت یا فُلاں کی اُخت (بہن) یا فُلاں کی دادی وغیرہ کا استعمال بھی عام تھا۔ یہ رِواج ہمارے یہاں بھی کسی حد تک رہا ہے۔
آج جب ہر عمر کے لوگ دین سے رسمی، واجبی اور برائے نام سا تعلق رکھتے ہیں، اَخیر عمر میں حاجی، نمازی، پرہیز گار ہوجاتے ہیں، علم سے کوسوں دُور ہیں اور بغیر باقاعدہ دینی علم حاصل کیے، ہر مسئلے میں حلال و حرام کے فتوے فوری صادر کردیتے ہیں، شرک، کُفر اور بِدعت کے فتاویٰ جاری کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار کیا گویا آمادہ ٔ پیکار رہتے ہیں تو اُنھیں چاہیے کہ علماء کی صحبت اختیار کریں اور علم حاصل کریں۔ جب تک کسی بھی معاملے میں پوری معلومات نہ ہوں، لب کُشائی سے گریز کریں۔
The post زباں فہمی نمبر213؛اَبُو اور اُم والے ناموں کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.