مسنون حج وعمرہ
مصنف : حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم
قیمت : بڑا سائز 1000روپے ، درمیانہ سائز 425روپے ، چھوٹا سائز 200روپے
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل ، لوئر مال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور
برائے رابطہ 042-37324034
اِسلامی عبادات میں حج کی ایک خاص اہمیت وفضیلت ہے۔ اِسے اِسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شمار کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں حج کو استطاعت کے ساتھ فرض قرار دیا گیا ہے۔ حج کی درست اور مسنون ادائیگی کو گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میںحج مبرور کی جزا اور صلے میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اِسی طرح عمرے کی مسنون ادائیگی پر اس کی فضیلت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ حرمِ کعبہ میں ایک مقبول نماز کا اجر دوسرے مقام کی لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔ اسی طرح حرمِ نبوی کی ایک مقبول نماز کا اجر دوسرے مقام کی ہزار نمازوں سے افضل بتایا گیا ہے۔
حج وعمرے کی یہ اہمیت وفضیلت اور اس کے دوران میں اذکار و عبادات کی یہ قدر و منزلت صرف اِسی صورت میں ممکن ہے کہ مناسک حج کو مسنون طریق پر نبوی منہج کے عین مطابق ادا کیا جائے۔ حج کااجروثواب بے مثال ہے بیت اللہ کی زیارت اورحج وعمرہ کرنے کاارمان ہرصاحب ایمان کے دل میں انگڑائیاں لیتاہے۔دنیا کے مختلف اطراف واکناف سے لاکھوں مسلمان ہر سال حج اور عمرے کی سعادت کے لیے بھاری رقوم خرچ کر کے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں۔جبکہ لاکھوں مسلمان ایسے ہیں کہ جوزندگی میں ایک دوبارہی اس سعادت سے مستفیدہوپاتے ہیں۔
اسی مناسبت سے سبھی کی آرزوہوتی ہے کہ یہ مقدس فرض قرآن سنت کی تعلیمات کے مطابق اداہوجائے تاکہ عبادات کے بجالانے میں کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے۔اس مقصد کے لئے ہرشخص کوایسی رہنماکتاب کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس میں حج وعمرہ کے احکام ومسائل آسان زبان میں قرآن وحدیث سے بتائے گئے ہوں۔خاص طورپرمحترم خواتین ایسی کتاب کی جستجومیں رہتی ہیں جس میں حج وعمرہ کے دوران ان کے مخصوص مسائل کادینی حل پیش کیاگیاہو۔ ان حجاج کرام اور عمرہ ادا کرنے والے معتمرین کی ایک کثیر تعداد صرف اردو زبان کے حوالے سے اِسلامی تعلیمات کو سیکھ سکتی ہے۔
اردو خواں طبقے کی اِسی ضرورت کے پیش نظر دار السلام نے مسلسل محنت اور تحقیق کے بعد حج وعمرہ کے تمام ضروری، ضمنی اور ذیلی مسائل کے موضوع پر مستند مواد کے حوالے سے ’’مسنون حج وعمرہ … فضیلت واہمیت احکام ومسائل ‘‘ کے عنوان سے تین مختصر مگر جامع کتب تیار کی ہیں۔ان کتب میں حج وعمرہ کے تمام احکام و مسائل قرآن وسنت کی روشنی میں جزئیات سمیت بہ تمام وکمال بتائے گئے ہیں۔حج وعمرہ کے دوران پڑھی جانے والی اورروزمرہ کی دیگردعائیں بھی درج کردی گئی ہیں۔مزیدبراں تمام مقدس مقامات کونہایت ہی خوبصورت تصویروں اورنقشوں کے ذریعے بخوبی اجاگرکیاگیاہے۔ان کتابوں کی خصوصیات یہ ہیں کہ ان کے تمام مندرجات صرف کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں۔
کتابوں میں بفضل اللہ تعالیٰ کسی ایک موضوع یا ضعیف حدیث کا حوالہ نہیں ملے گا، نیز تمام احادیث کی مکمل تخریج بھی کر دی گئی ہے۔ حج اور عمرے کے دوران میں پیش آنے والے تمام مسائل کی اصطلاحات کو حج وعمرے کے مناسک کی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ حج وعمرہ کی ادائیگی کے دوران پیش آمدہ مسائل کو مرحلہ وار لکھا گیا ہے۔ان کتب میں خصوصیت کے ساتھ حج و عمرہ کے دوران پیش آنے والے خواتین کے مخصوص مسائل بھی درج کردیے گئے ہیں۔حج وعمرہ کے مختلف مناسک کے دوران پڑھی جانے والی مسنون دعائوں اور اذکار کو آسان اردو ترجمے کے ساتھ پیش کر دیا گیا ہے۔
مسنون دعائیں بھی پیش کی گئی ہیں تاکہ حرمین میں ہمارے شب و روز مسنون دعائوں اور اذکار سے مزین ہو سکیں۔یہ مستند کتب مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف اور دیگر علمائے کرام عمار فاروق سعیدی ، مولانا عبدالصمدرفیقی مرحوم ،مولاناعبدالجبار اورحافظ عبدالخالق جیسے ممتاز محققین نے ترتیب دی ہیں۔یہ کتب تین سائز میں دستیاب ہیں۔۔۔ تینوں کتابوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور حجم کے اعتبار سے ان میں مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ دارالسلام ریسرچ سنٹر کی یہ کتب خودبھی پڑھئے اورعزیزواقارب کوبھی پیش کیجیے تاکہ ہرمسلمان حج وعمرہ کے فرائض مسنون طورپرآسانی اورسہولت سے ادا کرسکے اورحج وعمرہ کی عبادات کے ضائع ہونے کاذرہ بھی احتمال نہ رہے۔
فرار( ناول)
ناول نگار: ظفر محمود (سابق چیئرمین واپڈا)، قیمت: 1800 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، رابطہ 03215440882
جناب ظفر محمود کا نام بہت سوں نے بار بار پڑھا ہوگا، بالخصوص جب بھی کوئی حکومت بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرتی رہی۔انیس سو چھہتر میں ڈی ایم جی گروپ میں شامل ہوکر حکومت کی انتظامی مشینری کا حصہ بنے۔استنبول میں قونصل جنرل رہے، پھر چھ مختلف وزارتوں ’ٹیکسٹائل‘، ’ کامرس‘، ’ پیٹرولیم’۔ ’کابینہ‘، ’ انڈسٹری‘، ’پانی و بجلی‘ میں وفاقی سیکرٹری رہے۔ اس سارے عرصہ میں کام تو خوب کیا مگر سرکاری ملازمت کے حمام میں آبرو کی حفاظت ایک ہمہ وقتی مشکل بنی رہی کیونکہ عوام الناس میں اس طبقے کا منفی تاثر بہت گہرا ہے۔
یہی احساس ہمیشہ دامن گیر رہا۔ چنانچہ وہ بیچ دریا وہ کمبل سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کمبل ان کی جان چھوڑنے کو ہرگز تیار نہ تھا۔ پھر گزشتہ صدی عیسوی کے اواخر میں کہانی کا یہ باب ختم ہوا، اگرچہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن اور واپڈا کے سربراہ رہے تاہم ان کی زندگی کا دوسرا باب شروع ہو چکا تھا۔
یہ تھا ناول نگاری کا دور ۔ جناب ظفر محمود کے زیر نظر ناول ’ فرار‘ سے پہلے ان کا ناول ’ تئیس دن‘ شائع ہو چکا ہے جو ایک برس سے بھی کم عرصہ میں لکھا گیا تھا۔ اس پر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک ٹی وی سیریل بننے کو تیار تھی، کہانی اینٹی نارکوٹکس فورس کے گرد گھومتی تھی، فورس کے سربراہ نے بھی اسے خوب پسند کیا کہ اس سے فوج اور اے این ایف کے اچھے تاثر میں اضافہ ہوگا، پھر اچانک اس منصوبے پر کام روک دیا گیا۔ کیوں روکا گیا؟مصنف آج تک اس سوال کا تلاش کر رہے ہیں۔
ان کی ایک کتاب’ کالا باغ ڈیم: سفٹنگ فیکٹس فرام فکشن‘ آچکی ہے جس کا اردو ترجمہ ’حقیقت کیا، فسانہ کیا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ ’ دائروں کے درمیاں‘ بھی لوگ پڑھ چکے ہیں۔ گزشتہ برس ایک کتاب ’سرکار کی رہ گزر میں‘ منظر عام پر آئی۔ اور اب یہ ناول ’فرار‘۔
ناول نگار کا کہنا ہے’اس کہانی کا مرکزی کردار گزشتہ چار دہائیوں سے میرے حافظے میں ایک آسیب کی طرح چمٹا رہا۔ دلدار شاہ کے بزرگوں کو انگریز سرکار نے سب سے بڑی جاگیر غالباً تین ہزار پانچ سو ایکڑ عطا کی تھی۔ غیر ملکی آقاؤں کے اعتماد اور روحانی گدی کی سرکاری سرپرستی سے خاندان کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا۔‘
’سرکاری نوکری کے دوران ’دلدار شاہ‘ سے رابطہ ہوا۔ وہ پابند شریعت تھے۔ شوق تھا تو نازنینِ خوش اندام کا۔ اپنی جاگیر اور حلقہ ارادت کے سیکڑوں گاؤں پر مشتمل، ایک پسماندہ علاقے میں انھیں کسی دوشیزہ کے حسن و جمال کی بھنک ملتی تو دلِ بے تاب اور کارندے حرکت میں آ جاتے۔ اپنے بے تکلف دوستوں سے حیرت کا اظہار کرتے کہ کیسے ان مریل دہقانوں کے تاریک گھروندوں میں ہوش ربا حسن جنم لیتا ہے۔‘
علاقے میں ایک سرپھری لڑکی کی سرکشی کا قصہ مشہور تھا۔ بغاوت پر آمادہ خوب صورت لڑکی کی سینہ بہ سینہ داستان اور روایت کے تانے بانے سے جڑی اس کہانی میں قارئین کو ملکی سیاست، صحافت اور بیوروکریسی کا مکروہ گٹھ جوڑ اور مقدس چہرے بے نقاب ہوتے نظر آئیں گے۔
ناول کا انتساب ناول نگار نے اپنی پوتی ’انارہ‘ کے نام کیا ہے اس دعا کے ساتھ کہ اس کے ’کل‘ میں کرہ ارض کا ماحول ہمارے ’آج‘ سے بہتر ہو۔
٭٭٭
شفاعت (مجموعہ نعت)
شاعر: محمد ضیغم مغیرہ، قیمت: ایک ہزار روپے
ناشر: المجاہد پبلشرز،گوجرانوالہ، رابطہ 03006450283
رسول اکرمﷺ کی بعثت سے اب تک، آپﷺ کی شان میں بے شمار انسانوں نے نعت کہنے کی کوشش کی، پھر سوچنے لگے کہ کیسے کہیں، پھر کوشش کی اور پھر سوچا کہ کیسے کہوں۔ یہ سب ان گنت انسان اسی کوشش میں لگے رہے اور لگے رہتے ہیں۔ یہ رسول مہربانﷺ سے محبت کی چنگاری ہے جو انھیں بے چین کیے رکھتی ہے، وہ حضورﷺ کی تعریف کی اپنی ہر کوشش کے بعد اس احساس میں گرفتار ہوتے ہیں کہ حق ادا نہیں ہوا۔
زیر نظر مجموعہ نعت ’شفاعت‘ کے شاعر محمد ضیغم مغیرہ بھی اسی احساس میں گرفتار ہیں۔ ان کی کہی ہوئی نعتوں میں حضورﷺ سے والہانہ انداز میں محبت، عقیدت اور سرشاری پورے وفور کے ساتھ موجود ہے، یہ کہنے کی بات ہی نہیں کیونکہ اس کے بغیر نعت کہی نہیں جاسکتی البتہ محمد ضیغم مغیرہ کا نعت کہنے کا انداز دیگر بہت سے شعرا سے جدا بھی ہے۔ اس کا اندازہ ان کی ہر کہی ہوئی نعت سے بخوبی ہوتا ہے۔
جناب احمد جاوید کہتے ہیں کہ ضیغم مغیرہ کی نعتیہ شاعری ایسی شاعری ہے جس میں شعری مفاہیم کی نسبت روحانی مفاہیم زیادہ جھلک رہے ہیں۔ جناب خورشید رضوی کہتے ہیں کہ انہیں(شاعر) اس بات کا گہرا شعور حاصل ہے کہ اس راہ میں جوش کی عناں ہوش کے ہاتھ میں رہنی چاہیے اور عقیدت کے وفور میں خود تعلیمات سیرت کی حدود سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ جناب معین نظامی کہتے ہیں کہ ضیغم مغیرہ کی نعتیں رسمی نہیں، محض قافیہ پیمائی نہیں، صرف دروبستِ الفاظ و تراکیب نہیں بلکہ خوش نصیب شاعر کا وفور مؤدت اور جذب روایتی پردے سے باہر یوں چھلک چھلک پڑتا ہے جیسے کسی مہین ریشمی پردے کے پیچھے کیف آگیں اور فرحت بخش چاندنی کسی مرموز تمکنت سے جھلک اور چھب دکھاتی ہو۔
ضیغم مغیرہ کے بقول
حضور آپ سے ہو جائیں معتبر مرے خواب
حضور آپ کے پیغام میں حیات کریں
ہے جن کے سینے میں حب نبی کی چنگاری
چلو انہی سے محبت کی کوئی بات کریں
اور
میں اپنے فکروعمل سے ہوا پریشاں جب
درود پاک مرے چار سو حصار بنا
میں جب بھی عشق نبی میں تڑپ کے رویا ہوں
میں ایک ہو کے بھی دنیا میں بے شمار بنا
ضیغم مغیرہ کا کہنا ہے کہ یہ نعتیہ مجموعہ بارگاہ رسالت میں ایک فقیر کی سوت کی اَٹی ہے جو لرزاں و ترساں ہاتھوں میں تھامے ہوئے اس بڑے دربار میں سر جھکائے کھڑا ہوں۔۔۔۔ اس کتاب میں اکثر نعتیں حرم بیت اللہ اور حرم نبوی میں کہی گئیں۔ ان میں وہ نعتیں بھی ہیں جو روضہ رسولﷺ کے سامنے بیٹھ کر لکھنے کی توفیق عطا ہوئی۔
یقیناً ضیغم مغیرہ پر خاص کرم ہوا کہ انہیں اس قدر زیادہ نعتیں کہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کرم نہ ہو تو انسان ایک حرف نہیں کہہ پاتا، خواہش لے کر بیٹھا رہتا ہے، تڑپتا ہی رہ جاتا ہے۔ کجا کہ حضورﷺکے بالکل سامنے بیٹھ کر یہ سعادت حاصل ہو۔ یہ سعادت حاصل کرنے پر ضیغم مغیرہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
(تبصرہ نگار: عبید اللہ عابد)
تشکیک: شعری مجموعہ
تخلیق: دانش عزیز، ناشر: دعا منتہا پبلکیشنز
دانش میرے یقین کو تشکیک کھا گئی
مجھ کو دعا کی عین پہ نقطہ دکھائی دے
لاہور کے ادبی حلقے میں ڈاکٹر دانش عزیز کا نام نیا نہیں ہے کیونکہ اِس سے قبل اِن کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور بے شک اِن کا یہ چوتھا شعری مجموعہ محض شاعری کی کتابوں کی تعداد میں اضافے کے لیے نہیں شائع کیا گیا ہے بلکہ یہ حقیقت میں ایسی شاعری کی کتاب ہے جس میں شاعر کا اپنا ذاتی عشق نظر آتا ہے ۔ کم ہی ایسے شاعر ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اْن کی شاعری اْن کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی شاعر یا ادیب کا بڑا ادبی قد ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ ْاس کے کام پر کسی یونیورسٹی میں تحقیق کی گئی ہے۔ دانش عزیز خوش قسمت ہیں کہ ِاس عمر میں ہی اْن کی شاعری پر ایم اے کی سطح پر تین تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ وہ ایک درویش صفت شاعر ہیں جس کا عکس اْن کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے
دانش کو جو خدا سے خصوصا ًعطا ہوئی
ہنس کر فریب کھانے کی عادت کا شکریہ
سمجھ لو بات چھپائیں گے جھوٹ بولیں گے
جو بات کرتے ہوئے سر کھجایا کرتے ہیں
معروف نقاد ڈاکٹر شاہدہ دلاور کے بقول دانش کا شعر محض شعر برائے شعر نہیں ہے بلکہ یہ شعر برائے ادب ہے۔ اْنہوں نے شعر کو اْس دور میں زندہ کیا ہے جبکہ اصل شعر ختم ہو رہا ہے۔
طویل بحر میں پوری غزل لکھ کر اْس سے مکمل انصاف کرنا بے شک خاصہ مشکل کام ہے۔ اکثر شعراء طویل بحر میں غزل لکھنے کا تجربہ تو شروع کرتے ہیں مگر کم ہی اِس میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر دانش عزیز نے تشکیک میں 98 غزلیں اور نظمیں شامل کی ہیں جن میں سے کئی طویل غزلیں ہیں اور کئی طویل بحر کی ہیں اور کئی تو طویل ہونے کے ساتھ ساتھ طویل بحر کی بھی ہیں اور اْن کی ایسی ہر غزل کا ہر شعر ہی خوب ہے۔
نیا نیا ہے یہ عشق دیکھو! یہ مشورہ ہے خیال کر لو
پرانے لوگوں کا تجربہ ہے، بری بلا ہے خیال کر لو
لمبی بحر کی شاعری کو شائع کرنے کے لئے بیس تیس آٹھ کی تقطعی پر 240 صفحات پر مشتمل اِس کتاب میں 100 گرام سے زیادہ کا میٹ پیپر استعمال ہوا ہے۔ ہارڈ کور ٹائٹل پر نظر آنے والا عکس محمد احتشام الحق فریدی نے تخلیق کیا ہے۔
کتاب کا انتساب ہر اْس صاحب دعا کے نام لکھا گیا ہے جن کی دعاؤں کے طفیل شاعر کا یہاں تک کا سفر آسان ہوا۔ کتاب ھذا کے جملہ حقوق بحق خدا محفوظ ہیں، جبکہ قیمت میں دعائیں درکار ہیں۔
(تبصرہ نگار: خالد نجیب خان)
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.