کہتے ہیں نوجوان کسی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیںا ور ملک و قوم کی تقدیر کو سنوارنے کا فریضہ وہی سر انجام دے سکتے ہیں۔ اقبال نے بھی اس حوالے سے اپنی شاعری میں بہت کچھ کہہ رکھا ہے۔
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسوروغیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں
تو کہیں نوجوانوںکو اپنی طاقت و لیاقت کا احساس دلاتے ہوئے کہا ہے کہ
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
بلاشبہ نوجوان نسل کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی ا ثاثہ ہوتی ہے اور جو طاقت عزم و ہمت نوجوان خون کا خاصا ہے وہ کسی اور سے توقع نہیں کی جاسکتی ۔ نوجوان اگر مثبت طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں تو قوموںکی تقدیر بدل جاتی ہے۔ تاریخ میں ایسے دلیرا ور با ہمت نوجوانوں کے کارنامے سنہری الفاظ میں رقم ہیں۔
دور حاضر پر نگاہ ڈالیں تو نوجوان نسل کی اکثریت کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک مصنوعی زندگی بسر کر رہی ہو۔ہمارے معاشرے میں چند گنے چنے نوجوانوں کے علاوہ باقی سب ایسے خطرناک اور مضرصحت و کردار مشاغل میں مصروف ہیں جو ایک متوازن معاشرے کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ مشاغل وعادات ناصرف ان کی انفرادی زندگیوں کے لئے نقصان دہ ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی دوسروں کو متاثر کرتی ہیں۔
اسکرولنگ: کوئی بھی کام بے مقصد کیا جائے تو اس کا نتیجہ صفر نکلتا ہے اور حاصل ہوتی ہے خواری تھکان ،ناامیدی۔ سوشل میڈیا نے آکر جہاں لوگوں کو تنوع کا ایک وسیع ذریعہ فراہم کیا ہے۔وہیں اس کا بے مقصد استعمال ذہن کے لئے جنک فوڈ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔فیسبک ہو انسٹاگرام ، یو ٹیوب یا پھر سنیپ چیٹ یہ تمام سماجی رابطے کی ویب سائٹس اگر غلط مقاصد کے لئے استعمال ہوں گی تو ان کا ذہنی صحت پر منفی اثر پڑے گا۔ نوجوانوں کی اکثریت ہر وقت مصروف نہ ہونے کے باوجود مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ اس سے ناصرف ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے بلکہ بینائی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وہ جن نام نہاد سیلبرٹیز کو فالو کرنے اور ان کا کونٹنٹ دیکھنے میں وقت ضائع کرتے ہیں ان کو اس بات کی پروا ہی نہیں کہ ان کو فالو کرنے والے کون ہیں اور کون نہیں۔ حالیہ تحقیقات میں یہ خوفناک حقائق سامنے آئے ہیں کہ جو نوجوان سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں ان میں ذہنی امراض کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات موجود ہیں۔ایک اور خطرناک عادت جس کا ذریعہ اکثر سوشل میڈیا ہی بنتا ہے وہ نوجوانوں میں پورنوگرافی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جو کہ اخلاقی و ذہنی پستی کے پاتال میں گرانے کا سبب بنتا ہے۔
اگر سوشل میڈیا سے جان چھڑانا چاہتے ہیں یا اس کے استعمال کو مثبت بنانا چاہتے ہیں تو اس پر کم سے کم وقت کو صرف کرنا پڑے گا۔اور اس بات کو بھی طے کرنا پڑے گا کہ کس حوالے سے معلومات درکار ہیں ، کیونکہ سوشل میڈیا پر وہی چیزیں تجویز ہوں گی جن سے متعلق سرچ کیا گیا ہوگا۔ بعض اوقات اپنی زندگی کو صحیح لائن پر لانے کے لئے سوشل میڈیا سے آف لائن ہونا ضروری ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ بہت سے ایسے ایپس ہیں جن کے ذریعے نوجوانوں کو سکلز سیکھنے اور روزگار حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ وہ معاشرے میں ہونے والے مسائل کو سوشل میڈیا پر اجاگر کر سکتے ہیں کسی مثبت سرگرمی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہر چیزکا منفی و مثبت استعمال ممکن ہے فیصلہ خود کرنا ہوگا کہ سکے کے کس رخ کو دیکھنا ہے۔
دیر تک جاگنا : نوجوانوں میںا یک غیر صحت بخش عادت نے گزشتہ کچھ عرصے میں تیزی سے رواج پایا ہے۔ اس عادت کی دو بنیادی وجوہات ہیں ایک تو ٹیکنالوجی سے رغبت اور دوسرا پڑھائی۔رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر سے اٹھنا۔اس سے روٹین بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نوجوان رات دیر تک ایپس اور گیمنگ میں وقت ضائع کرتے ہیں اور دیر سے سوتے ہیں۔ بہت سی ایپس اور دیگر پلیٹ فارمز اس طرح مرتب کئے گئے ہیں کہ ان کو بار بار دیکھا جائے جیسے کہ فیسبک ، ٹک ٹاک جیسی ایپس آپ کو نوٹیفکیشنز کے ذریعے بار بار آگاہ کرتی ہیں۔جس سے دھیان بٹتا ہے اور جو کام بھی جاری ہو اس میںخلل پرتا ہے۔
نمود و نمائش: نوجوانوں میں ایک اور خطرناک رواج تیزی سے مقبولیت پا رہا ہے جو کہ نمود و نمائش کا ہے۔ اس کو مزید تقویت سوشل میڈیا نے دی ہے کیونکہ اس پر نوجوان مختلف برانڈز اور لگژری اشیاء کو دیکھتے ہیں ۔انھیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر ایک کی نگاہ انھی پر اٹکی ہے اور اس ضمن میں حلال حرام کی تمیز نہ کرتے ہوئے ہر وہ ذریعہ اپنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو انھیں اپنی خواہشات کی تکمیل سے ہمکنار کرائے۔ یعنی ان کے نزریک سٹیٹس اور کسی انسان کو پرکھنے کا معیار یہ بن کر رہ گیا ہے کہ کسی کے پاس نمود و نمائش کے لئے کیا کیا موجود ہے۔
کسی انسان کو پرکھنے کا معیار جہاں اس کا اخلاق و کردار ہوتا ہے اس کے بجائے مادی اشیاء کو ترجیح دینے کا نتیجہ ہمارے سامنے تیزی سے بڑھتی ہوئی طلاقوں کی صورت میں آتا ہے تو کبھی جرائم کی صورت میں۔ بے شمار ایسے نوجوان ہیںجو مادیت پرستی کی بنا پر نجانے کتنے بڑے گناہوں کی دلدل میں پھنس چکے ہیں ۔ سگریٹ نوشی اور نشہ کا استعمال ان کی ذہنی کارکردگی کو صفر کر دیتا ہے۔ اپنی موجودہ حالت سے بے زاری انھیں ذہنی و روحانی عارضوں کی جانب دھکیلتی ہے۔ جس عمر میں خود پر محنت کر کے وہ اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں اس عمر میں دوسروں کی ستائش اور تعریف بٹورنے میں مصروف رہ کر وقت بربادکر دیتے ہیں۔
بہت سی نوجوان لڑکیاں جو معاشرے میں رائج حسن و خوبصورتی کے معیار پر پورا نہیں اترتی وہ شدید ذہنی دبائو کا شکار ہوجاتی ہیں اور مختلف بیوٹی پروڈکٹس اور ٹریٹمنس کے چکر میں اپنی جلد کا نقصان کروا بیٹھتی ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شکل و صورت، نین نقش، قدو قامت ان سب پر انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں صناع نے جیسے انھیں تخلیق کیا ہے وہ بہترین صورت ہے۔ اگر کسی چیز کو بدل کرہم اپنی زندگیوںمیں تبدیلی لا سکتے ہیں تو وہ ہے ہمارا رویہ اور سوچ کا انداز۔
احساس ذمہ داری: ذمہ داری کا احساس ہونا اور اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننا زندگی میں بے حد ضروری ہے۔جو شخص اپنی ذمہ داریوں کو قبول نہ کرے وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بچوں کو اگر چھوٹی عمر سے ہی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے تو وہ نوجوانی میں احساس ذمہ داری سے شناسا ہوتے ہیں۔ والدین کے کردار کو اس ضمن میں اہمیت حاصل ہے۔ بچوں کو اپنی ذمہ داریوں سے روشناس کروائیں جیسے پھولوں پودوں کو پانی دینا، گھر کے کاموں میں والدہ کی مدد کرنا، اپنا ٹفن پلیٹ خود دھونا، موزے سنبھالنا، اپنی کتابوں کی حفاظت خود کرنا، گھر میں اگر کوئی بزرگ ہے ان کو دوا وقت پر دینا وغیرہ ۔
یہ سب چھوٹے چھوٹے کام بچے کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتے ہیں۔جس سے وہ جوانی میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر بڑھتی ذمہ داریوں کو بوجھ نہیں سمجھتا۔ اپنا بوجھ خود اٹھانے کی عادت سے بچہ خودمحتار بھی بنتا ہے اور اپنی غلطیوں کوتاہیوں کا ذمہ دار کسی اور کو نہیں سمجھتا۔اس حوالے سے نوجوانوں کے والدین یہ شکایات کرتے ہیںکہ ان کے بچے ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے جس سے وہ اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو اس کی ایک وجہ والدین کا بچپن میں بچوں کو بے جا پیمپرکرنا اور ان کی ہر ضد اور لارڈ کو پورا کرنا بھی ہے۔
خواہشات اور ضروریات کے درمیان تمیز سیکھانا والدین کی ذمہ داری ہے اور اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا یہ سب والدین کو سوچ سمجھ کر کرنا چاہیئے۔بچہ اگر مہنگے سکول میں پڑھنے کی ضد کرتا ہے تو اسے بیٹھ کر یہ سمجھانا کہ موجودہ وسائل میں یہ ممکن نہیں بچے کے اندر احساس اور حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں مددگار ہوگا۔
تاخیر: ہم زندگی کو گمان پر گزارتے ہیں۔اگر گمان اچھا اور یقین مضبوط ہو تو زندگی اچھی گزرتی ہے۔ دور حاضر کے نوجوانوں میں مایوسی اور نا امیدی کی شرح بڑھ گئی ہے اور وہ پر امید ہونے کے بجائے ناامید ہو کر جدوجہد سے گریز کرنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے وہ اپنا موازنہ دوسروںسے کرتے ہیں۔ اور جو خواب دیکھتے ہیں اس پر شروع میں تو جوش و خروش سے کام کرتے ہیں مگر جب جلد اس میں کامیابی کے آثار دکھائی نہیں دیتے تو اسے بیچ راستے میں ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ تاخیر ان کے خوابوںکی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اگر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہے تو کسی بھی قسم کی تاخیر کے بنا مستقل جدوجہد کرنا ہوگی۔
نوجوانوں کو سب سے پہلے اپنے مقصد زندگی سے روشناس کرانا ضروری ہے۔ یہ سب والدین، اساتذہ ، تعلیمی اداروں اور دیگر معاشرتی اداروں کے موثر کردار سے ہی ممکن ہے۔موجودہ دور میںسب سے اہم چیز نوجوانوںکو مادیت پرستی کی دوڑ سے نکالنا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر روحانیت اوردین سے قربت ضروری ہے۔ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بچوںکے ادب کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ بچوں کی تربیت میں ادب ، کہانیوں، لوریوں ، نظموں اور یہاں تک کہ کھیلوں میں بھی درپردہ تربیت کا عنصر چھپا ہوتا ہے۔
جس قوم کے ہیروز نہیں ہوتے وہ دوسروںکی تقلید میں چل پڑتے ہیں۔ اپنے اسلاف کی زندگیوں کی کہانیاں مصیبت میں مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں۔ پھر والدین کا اپنا کردار بچے کے لئے سب سے بڑا نمونہ ہوتا ہے جسے وہ آنکھ کھولتے سب سے پہلے دیکھتا اور شعوری و لاشعوری طور پر کاپی کرتا ہے۔والدین اگر اپنے بچے کو ایک صحت مند ذہنی و جسمانی صورت میں پروان چڑھتا دیکھنا چاہتے ہیںتو اس کے لئے انھیں ایک مثبت ماحول فراہم کرنا ہوگا ۔
tehreemqazi@express.com.pk
The post نوجوان نسل میں پروان چڑھتے منفی رجحانات appeared first on ایکسپریس اردو.