(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ چودہواں پڑاؤ)
’’زندگی کاملیت کا نام ہے ہر واقعہ جو رونما ہوتا ہے، چاہے کتنا ہی بڑا ہو یا چھوٹا ہو۔ ہر تکلیف جو ہم اٹھاتے ہیں اس میں مشیت خداوندی کا کوئی پہلو ہے جو اپنے انجام کو پہنچ کر رہتی ہے۔ جدوجہد انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔‘‘ مولانا رومی ؒ
یہ کوئی نئی سی جگہ تھی۔ آس پاس صرف دکانوں اور ہوٹل کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ عزیز نے گوگل سے اندازہ لگانے کی کوشش کی مگر وہاں بھی بے بسی تھی۔ وہ پولیس والے جو ہم سے پہلے گلی سے گزرے تھے وہ سڑک پار ایک کونے پر کھڑے تھے اور اب ان کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا۔ اس کی ہماری طرف Back تھی۔
ایک دم عزیز نے چونکتے ہوئے کہا اماں یہ تو ارحان ہے۔ اس کی بات سن کر میری تو جان میں جان آگئی کیوںکہ اب اندھیرا ہورہا تھا۔ ارحان عزیز کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ عزیز نے اسے بتایا کہ ہم کسی غلط گلی میں مڑگئے تھے۔
لیکن ہم ان پولیس والوں کے ساتھ ہی گلی سے باہر آئے ہیں۔ ارحان نے بتایا ہے یہ دونوں میرے اسکول کے دوست ہیں۔ راستے میں مل گئے تھے تو میں بات کرنے رک گیا تھا۔ تم لوگ جہاں سے آئے ہو وہ بہت پرانا علاقہ ہے۔ ان کی وہاں ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اب کوئی مسئلہ بھی نہ تھا۔ ہوٹل تھوڑا آگے تھا۔ ارحان بھی ہوٹل ہی جارہا تھا۔
اس نے جو گلی رومی ؒ کی طرف جانے کی بتائی تھی وہ سامنے کی طرف تھی اور بالکل سیدھ میں تھی۔ یہ ٹیڑھی میڑی گلی مڑ کر پیچھے چلی گئی تھی۔ حالاںکہ قونیہ بہت بڑا شہر نہیں ہے اور ہم نے صرف ایک چھوٹا سا حصہ دیکھا تھا مگر تجربہ بڑا ہوا تھا۔ کبھی کسی نئے شہر میں شارٹ کٹ مت لینا۔ میں چاہتی تھی کہ کم از کم آٹھ بجے تک آرام کرلوں پھر کھانا کھانے جائیں گے، مگر ہم جو سونے کے لیے لیٹے تو نو بجے آنکھ کھلی۔ موسم میں اچھی خاصی ٹھنڈ تھی۔
میں نے تو سویٹر پر چادر بھی لے لی تھی۔ ارحان ری سپشن پر موجود نہیں تھا، مگر وہ کام والا لڑکا موجود تھا۔ جب ہم باہر آئے تو تمام دکانیں بند ہوچکی تھیں۔ معلوم ہوا پورے قونیہ میں بازار آٹھ بجے بند ہوجاتے ہیں۔ صرف کھانے پینے کی دکانیں اور ہوٹل گیارہ بجے تک کھلے رہتے ہیں جدھر ہوٹل تھا اس طرف تو تمام دکانیں سونے اور گھڑیوں اور الیکٹرک گڈ کی تھیں۔
اس لیے نکلتے ہی ایک سناٹے کا احساس ہوا مگر ہم جب سڑک کراس کرکے دوسری طرف آئے تو رونق دیکھنے کے قابل تھی۔ سامنے ایک بہت بڑا شاپنگ مال تھا جو اس وقت مکمل روشنی میں نہایا ہوا تھا اور بہت خوب صورت لگ رہا تھا۔ پہلی نظر دیکھنے سے وہ مال نہیں کوئی یونیورسٹی لگ رہا تھا۔ اس کا طرزتعمیر کچھ ایسا ہی تھا۔ باہر کوئی بل بورڈ نہیں لگا ہوا تھا مگر اتنا روشن تھا کہ آنکھیں چکاچوند ہورہی تھی اور مکمل روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ مال میں نیچے کی طرف صرف ریسٹورنٹ اور بیکری اور اوپر کی طرف رہائشی ہوٹل تھے۔ کچھ دکانیں قیمتی فرنیچر کی بھی تھیں۔
یہاں سے مولانا رومی ؒ کا مزار صاف نظر آتا تھا۔ یہ ایک دل فریب نظارہ تھا۔ یہ کافی مہنگے ہوٹل تھے۔ ہم جب ادھر آرہے تھے تو ایک بہت بہترین کھانے پینے کی جگہ نظر آئی تھی۔ ہم نے اپنے ہوٹل سے نکلتے وقت سوچ لیا تھا کہ واپس آکر ادھر سے کھانا کھائیں گے۔ چوں کہ مال والے ریسٹورینٹ بہت مہنگے تھے حالانکہ ہم نے ابھی تک کے سفر میں زیادہ اخراجات نہیں کیے تھے صرف کرائے اور کھانے میں خرچہ ہوا تھا جو کچھ زیادہ نہ تھا۔
کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ ایک دکان پر آگئے جو قریب ہی تھی ادھر قونیہ کی مٹھائی اور قونیہ کی سوغات تھیں۔ ہم نے زیادہ مٹھائی نہیں خریدی تھی حالاںکہ دکان دار کہہ رہا تھا کہ آپ سب ٹیسٹ کرکے لیں مگر ہم نے اس سے کہا کہ ہمیں جو مٹھائیاں مناسب لگ رہی ہیں وہ تھوڑی تھوڑی لے لیتے ہیں۔ ہوٹل جاکر ٹیسٹ کریں گے جو اچھی لگیں وہ کل آکر لے لیں گے۔ ہمارا ہوٹل سامنے ہی ہے۔ ہم مٹھائی خرید کر باہر آکر بیٹھ گئے۔
یہاں بینچیں لگی ہوئی تھیں موسم ٹھنڈا ہونے کے باوجود خوش گوار تھا کیوںکہ ہم نے خاصی نیند لے لی تھی اس لیے ابھی نیند بھی نہیں آرہی تھی۔ خاصا پرسکون سا ماحول تھا یہ خاصی بڑی اور شان دار بنی ہوئی دکان تھی۔ باہر ایک آئسکریم پالر بھی بنا ہوا تھا کچھ دیر بعد ہی ایک نوجوان لڑکا باہر آیا اس نے دوکپ آئسکریم کے بنائے اور ہمیں دے کر اردو میں بات چیت شروع کردی۔ ہم نے کہا ہم نے تو آئسکریم آرڈر نہیں کی تھی۔
وہ کہنے لگا میں اندر مصروف تھا مگر میں نے آپ کی بات چیت سے اندازہ لگالیا کہ آپ لوگ پاکستانی ہیں اب جیسے ہی فرصت ملی آگیا۔ اس کی اردو سن کر حیرانی ہورہی تھی۔ آپ پاکستانی ہیں؟ عزیز نے پوچھا۔ وہ کہنے لگا نہیں بھائی میں قونیہ کا رہنے والا ہوں مگر میں بچپن میں مدینہ چلاگیا تھا۔ وہاں میرے دادا کی کھجور کی دکان تھی اور وہ دکان میرے والد سنبھالتے تھے۔ پچھلے سال میرے دادا کا انتقال ہوگیا۔ ہم واپس قونیہ آگئے اور وہ دکان اب میرے چچا سنبھالتے ہیں۔
میری ماں اور باپ کو اپنا قونیہ بہت یاد آتا تھا تو ہم قونیہ واپس آگئے اور یہاں آکر دکان کھول لی۔
میں نے مدینہ میں رہ کر اردو سیکھی تھی۔ میرا ایک دوست پشاور کا رہنے والا ہے، میں اس کے ساتھ پشاور بھی گیا تھا۔ آپ لوگ پشاور سے آئے ہیں؟ وہ تجسس سے ہم سے پوچھ رہا تھا۔
ہم پشاور سے نہیں کراچی سے آئے ہیں۔ عزیز نے اسے بتایا۔
اوہو کراچی تو بہت بڑا شہر ہے۔ میرے دوست نے بتایا تھا مجھے معلوم ہے مگر میرا قونیہ چھوٹا ہے مگر بہت پیارا ہے۔ آپ لوگوں کو کیسا لگا۔ آپ رومی ؒ کے مزار پر گئے تھے۔ شمسؒ کے مزار پر گئے تھے۔
ہم نے کہا ہم تو کل ہی آئے ہیں، ابھی ہم صرف شمسؒ اور رومی ؒ کے مزار پر گئے ابھی قونیہ نہیں دیکھا مگر ہمیں بہت اچھا لگا ہے۔ وہ خوش ہوگیا آپ کو آئسکریم کیسی لگی یہ قونیہ کی خاص آئسکریم ہے۔ آپ کے لیے اور لے کر آؤں۔ میں نے کہا آئسکریم تو واقعی بہت مزے دار ہے مگر ایک ہی کافی ہے۔ آپ نے اپنا نام تو بتایا ہی نہیں۔ جی میرا نام اذکان خلیل ہے، یہ دیکھیں میرے ابا اور اماں ہیں۔ یہ میری بیوی اور بچہ ہے۔ وہ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے۔
اس نے موبائل کھول کر اپنے نام کے ساتھ اپنے گھروالوں کا تعارف بھی کروا دیا۔ یہی یہاں کا طریقہ ہے لیکن حیرت زیادہ ہونے کی بات یہ تھی کہ بیوی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے اور میاں دکان کرتا ہے۔ ہمارے ہاں تو کتنی لڑکیاں لڑکے اعلیٰ تعلیم اور ویل سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے ان کے معیار ہمارے معیار سے مختلف ہیں۔
اذکان خلیل تو ہمیں جانے ہی نہیں دے رہا تھا، جب تک اس کی دکان پر گاہک نہیں آگیا، وہ بھی اس وعدے پر جب تک آپ لوگ قونیہ میں ہیں میری دکان پر ضرور آئیں گے۔ ہم نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ہوٹل واپس آگئے۔
ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ارمان مل گیا۔ وہ کہنے لگا، عزیز! میں تو کھانے پر آپ کا انتظار کررہا تھا۔
ہم نے اسے بتایا کہ ہم نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا بہت بھوک لگ رہی تھی۔ وہ کہنے لگا میں چائے بنواتا ہوں۔ جتنی دیر میں چائے آئی وہ ہمارے سفر کے متعلق پوچھتا رہا۔ عزیز نے اسے صبح رومی ؒ کے مزار پر اس لڑکی کے متعلق بتایا تو وہ حیرانی سے بولا۔ یہ تو خیریت ہوگئی۔
یہ دوردراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ ہیں جو سیاحوں سے رقم اور کاغذات سب چھین لیتے ہیں مگر اب پولیس نے بہت سختی کردی ہے۔ کبھی کبھار ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ مجھے تو رات کو ہی تم کو ہوشیار کردینا چاہیے تھا مگر فکر مت کرو ہماری پولیس بہت اچھی ہے۔ سیاحوں کی بہتر حفاظت کرتی ہے، کیوںکہ پولیس میں سب ہمارے علاقے کے لوگ ہیں وہ نئے بندے کو پہچان لیتے ہیں۔
ہمارا آج قونیہ کا پہلا دن اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ ہم سارا دن باہر تھے مگر تھکن بالکل نہ تھی۔ کمرے میں آئے تو ِاچیے کا میسج آیا ہوا تھا کہ اگر تم لوگ انقرہ میں ہو تو آج رات میرے ساتھ ڈنر کرو۔ میری آج سال گرہ ہے یہ صبح کا آیا ہوا پیغام تھا جو ہم نے رات کو دیکھا تھا۔ ہم نے جب اسے بتایا کہ ہم تو قونیہ میں ہیں اور سال گرہ کی مبارک باد دی۔ اس نے جواب میں اپنی سال گرہ کی تصویریں اور اداسی کا ایموجی بھیج دیا۔ خوش رہو اِچیے تم نے اتنا مان دیا۔
قونیہ بہت بڑا شہر نہیں ہے اور قابل دید مقامات بھی زیادہ نہیں ہیں۔ یہ مذہبی شہر ہے جس کی وجہ شہرت مولانا رومی ؒ اور شمس تبریزؒ ہیں اور ہمارا ہوٹل جہاں تھا وہ شہر کا سب سے مشہور اور بڑا علاقہ تھا۔ ایک طرف جہاں شمس تبریز ؒ کا مزار تھا۔ دوسری طرف قونیہ کی بلدیہ کا دفتر تھا ۔ اذکان نے ہمیں بتایا تھا کہ قونیہ کلچر سینٹر بھی بہت خوب صورت جگہ ہے۔ وہاں ہفتہ کی رات کو رقص درویش ہوتا ہے وہاں ضرور جانا۔
لیکن ہم ہفتہ تک قونیہ میں نہیں رک سکتے تھے۔ ہمیں واپس استنبول جانا تھا کیوںکہ اتوار کی اتاترک ایئرپورٹ سے فلائٹ تھی۔ اس لیے بدھ کی صبح ہمیں استنبول کے لیے نکلنا تھا۔ پروگرام تو یہی بنایا تھا۔
صبح ناشتا پر حیان سے ملاقات ہوئی۔ ہم آخری مہمان تھے جو ناشتے پر آتے تھے مگر اس نے اپنے ورکر سے کہہ کر تازہ ناشتہ لگوا دیا تھا۔ وہ بھی اپنا چائے کا کپ لے کر ہماری میز پر آگیا۔ عزیز سے آج کے پروگرام کا پوچھنے لگا۔ اسے ارحان سے زیادہ قونیہ کے متعلق معلومات تھیں۔ دو تین جگہوں کے متعلق تو اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ ان میں ایک الہ دین پارک اور مسجد اور قونیہ کلچر سینٹر تھا مگر ہم ایک دن میں کیا کیا دیکھ سکتے تھے۔
ہمیں کلچر سینٹر جانے کے لیے شمسؒ کے اسٹیشن جانا تھا یہاں سے ہمیں ٹرام مل جاتی۔ شمسؒ پہنچ کر میں نے عزیز سے کہا پہلے شمسؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ عزیز جو ہمیشہ مجھ سے اس معاملے پر بحث کیا کرتا تھا مگر یہاں آکر اس نے مجھ سے بحث بالکل نہیں کی اسے یہاں کا طریقہ پسند آیا تھا۔ پہلے ہم نے مزار پر فاتحہ پڑھی جب ہم باہر آرہے تھے تو کل جن صاحب سے ملاقات ہوئی تھی وہ آگئے سلام دعا کے بعد انہوں نے ایک پیکٹ مٹھائی کا اور پانی کے دو گلاس ہمیں پکڑا دیے۔
عزیز نے ان سے کہا ہم بھی کچھ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہماری بات سمجھ گئے۔ انہوں نے ان صاحب سے جو وہاں طغرے وغیرہ صاف کررہے تھے کچھ کہا۔ وہ مزار کے ساتھ والے کمرے میں سے ایک ڈبا اٹھا لائے یہ چندے کا ڈبا تھا جو انہوں نے چھپاکر رکھا تھا کہ جس کی مرضی وہ دے سکتا ہے۔ چندہ مانگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں آکر بہت سکون ملا تھا، ساتھ خوشی بھی ہورہی تھی۔ میں نے وہ تبرک بیگ میں رکھ لیا۔ سعید کے لیے، ان کو ہر تحفہ سے زیادہ خوشی ہوگی۔
شمس ؒ کے اسٹیشن پر ہمیں ٹرام مل گئی۔ یہاں ٹرام بہت جلدی سے چلتی ہیں کیوںکہ یہاں انقرہ یا استنبول کی طرح میٹرو سسٹم نہیں ہے۔ اس وقت یونیورسٹی اور کالج کے طالب علموں سے ٹرام بھری ہوئی تھی۔ ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر مجھے بیٹھنے کے لیے اپنی سیٹ دے دی۔ ہمارے ساتھ ہی کوئی اور خاتون بھی سوار ہوئی تھیں ایک اور طالب علم نے ان کے لیے اپنی سیٹ خالی کردی۔ اس کا مطلب ہے کہ قونیہ میں ہمارے ملک جیسے آداب ہیں۔
چھوٹے اپنے بڑوں کا احترام کرتے ہیں۔ رومی کے مزار کے بعد دو تین اسٹاپ آئے پھر قونیہ کلچر سینٹر کا اسٹاپ آگیا۔ اس اسٹاپ پر تو تقریباً ساری ٹرام ہی خالی ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ قریب ہی کوئی یونیورسٹی یا کالج ہے۔ کلچر سینٹر ایک باغ سے گھرا ہوا تھا اور باغ بھی لمبی لمبی روشوں کے کناروں پر گلاب کی کیاریاں تھیں جو پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔ کلچر سینٹر کی کوئی چار دیواری نہیں تھی۔ ایک طرف سینٹر کی شان دار عمارت اور دوسری طرف وہ ایریا بنا تھا جہاں رقص درویش ہوتا ہے مگر کلچر سینٹر بند تھا۔ صرف ریسپشن پر ایک دو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ ادارہ بھی حکومت کے زیر انتظام ہے۔
ہم نے گھوم پھر کر عمارت دیکھی۔ آرٹ گیلری اور اسکول آف آرٹ اس وقت بند تھا۔ کلچر سینٹر کے پچھلی طرف ہی ایک بہت بڑی عمارت تھی۔ درمیان میں پختہ میدان اور درخت لگے ہوئے تھے۔ بینچیں لگی ہوئی تھیں۔ یہ عمارت اتنی بڑی تھی کہ دو منزلہ، کمرے جن کی کھڑکیاں باہر کی طرف تھیں وہ دور تک چلی گئیں تھی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے بیگ کاندھوں پر لیے واپس بھی آرہے تھے اور جا بھی رہے تھے یقیناً یہ کوئی یونیورسٹی تھی۔ ہم جب واپس ٹرام اسٹیشن پر آرہے تھے تو سامنے کافی فاصلے پر ایک اور عمارت نظر آئی جو عجائب گھر تھا مگر ہمارا ارادہ یہاں جانے کا نہیں تھا تو ہم ٹرام اسٹیشن آگئے۔
عزیز نے کہا اماں میرا ارادہ کھانا کھانے کا نہیں ہے ہم کچھ پھل لے لیتے ہیں وہی دوپہر کے کھانے میں کھالیں گے مگر آس پاس کوئی پھل کی دکان نظر نہیں آئی۔ وہیں ایک صاحب انگوٹھیاں، تسبیحات بیچ رہے تھے۔ ہم نے ان سے مارکیٹ کا پوچھا تو وہ ساتھی دکان دار کو دکان دیکھنے کا کہہ کر ہمارے ساتھ چلے آئے اور سڑک کے اس پار اشارہ کرکے بتایا کہ سامنے کی طرف مارکیٹ ہے۔ ہم نے شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا دعائیں اور واپس پلٹ گئے۔ سامنے قونیہ کی بلدیہ کی شان دار عمارت تھی۔ میں نے عزیز سے کہا تم جاکر پھل لے آؤ میں یہاں انتظار کرلیتی ہوں۔
ایک بہت خوب صورت فوارے کے گرد بینچیں لگی ہوئی تھیں، میں بھی ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ ادھر ایک فٹ پاتھ پر کچھ کام ہورہا تھا، جسے پیلی پٹیاں لگاکر بند کردیا گیا تھا۔ دو مزدور کام کررہے تھے۔ میرے پاس ایک لڑکی آکر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر تو وہ چپ رہی پھر اس نے انگریزی میں پوچھا آپ کیا کسی کا انتظار کررہی ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ میرا بیٹا مارکیٹ گیا ہے۔ وہ کہنے لگی میں سمجھی آپ کو دوسری طرف جانا ہے تو میں آپ کو بتادوں کہ ذرا گھوم کر جانے سے آپ دوسری طرف جاسکتی ہیں۔ ہماری بلدیہ بہت جلد کام کرتی ہے۔ کل ہی یہ فٹ پاتھ ٹوٹی تھی۔ آج ہی مرمت بھی ہوگئی۔
میں نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے آپ کا میئر کون ہے؟ وہ کہنے لگی ہمارا میئر ایک سال کے لیے آتا ہے، مجھے تو اس کا نام معلوم نہیں ہے۔ میں تو خود آفس میں کام کرتی ہوں۔ میری کبھی میئر سے ملاقات نہیں ہوئی اور نام معلوم کرکے کرنا بھی کیا ہے۔ کام اچھا ہونا چاہیے یہ میئر اچھا کام کررہا ہے، ہوسکتا ہے دوبارہ آجائے۔ ابھی دو ماہ بعد الیکشن ہونے والے ہیں۔ باتونی لڑکی اپنے میئر کی کارکردگی سنا رہی تھی جس کا اسے نام بھی یاد نہیں تھا۔ ارے یاد آیا آپ کو ہمارا قونیہ کیسا لگا۔ ابھی آپ نے کیا کیا دیکھا۔ میرے شہر کی خوشبو بہت پیاری ہے۔
اس نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ ہاں آپ کا شہر بہت خوب صورت اور خوشبودار ہے۔ جب اتنے گلاب کھلے ہوں تو خوشبو تو آتی ہے۔ مجھے یہ لڑکی بہت پیاری اور معصوم لگی۔ آپ کو شاعری پسند ہے مجھے تو بہت پسند ہے۔ میں شاعری کرتی بھی ہوں، لیکن ٹرکش زبان میں، آپ کو ٹرکش زبان نہیں آتی ورنہ میں آپ کو اپنی شاعری سناتی۔ آپ کون سی زبان جانتی ہیں فارسی، اردو، عربی اس نے اپنا موبائل کھولا۔ میں نے کہا اردو اس نے مجھے دیکھا اور خوشی سے کہا پاکستان سے بہت محبت ہے۔
میں اپنی شاعری اردو میں سناتی ہوں۔ اس نے اردو میں اپنی شاعری کا ترجمہ سنایا۔ واہ بہت خوب تم بہت اچھی شاعری کرتی ہو۔ بہت خوشی ہوئی۔ آپ کو پسند آئی بہت شکریہ۔ اس نے گرم جوشی سے میرا ہاتھ دبایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ میرا لنچ ٹائم اور دعا کا وقت ختم ہورہا ہے۔ میں نے اس کو خدا حافظ کہتے ہوئے اس کا نام پوچھا زرلش فاطی میرا نام ہے اور آپ کا نام کیا ہے۔ میں نے اس کو اپنا نام بتایا۔ کیا آپ ٹیچر ہیں، اگر مناسب لگے تو مجھے اپنا نمبر دے دیں۔
میں نے کہا پیاری شاعرہ بیٹی! میں معذرت خواہ ہوں کیوںکہ میں اپنے بیٹے کا موبائل استعمال کرتی ہوں جس کا مجھے نمبر یاد نہیں ہے اور میں شاعری تو نہیں کرتی مگر نثر لکھتی ہوں۔ وہ دوبارہ بیٹھ گئی اور محبت سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی، جب میں نے آپ کو یہاں بیٹھے دیکھا تھا تو میں سمجھ گئی تھی ہمارے درمیان کچھ مشترک ضرور ہے۔ میں نے کہا میری دعا ہے تم ترکی کی بہت بڑی شاعرہ بنو تمھیں بہت سارے انعامات ملیں۔
تشکرم تشکرم مجھے قونیہ میں بہت لوگ جانتے ہیں۔ مجھے انعام بھی ملے ہیں۔ ایک انعام تو میری بلدیہ کی نوکری ہے، جو مجھے شاعری کی وجہ سے ملی ہوئی ہے تاکہ میں سکون سے شاعری کرسکوں۔ کیا تمہارے ملک میں کوئی نوکری ملی ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں تو ایسا ہوتا ہے مگر میرا کام کلچر سینٹر سے رابطہ رکھنا ہے۔
میں نے نفی میں گردن ہلادی اب میں ترکی کی پیاری سی شاعرہ کو کیا بتاتی کہ ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اچھا میں چلتی ہوں اگر آپ فیس بک پر ہیں تو میں تلاش کرلوں گی۔ جب میں آپ کو فرینڈ ریکوسٹ بھیج دوں تو آپ قبول ضرور کرنا۔ آپ پہچان تو ضرور لیں گی۔ میں نے کہا بالکل ضرور مجھے خوشی ہوگی۔ اپنی شاعری ضرور بھیجنا۔ اس نے مجھے Gula Gula کیا اور اعتماد سے چلتی ہوئی بلدیہ کی عمارت کی طرف چلی گئی مگر اپنی خوشبو چھوڑ گئی۔ پیارے لوگوں کی خوشبو بھی پیاری ہوتی ہے جو تادیر قائم رہتی ہے۔
عزیز واپس آیا تو خاصا لدا پھندا تھا۔ مختلف قسم کے پھل اور دو گلاس جوس اس کے ہاتھ میں تھے۔ وہ کہنے لگا جوس والا نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے اتنی دیر میں پھل لے لیے۔ پھر اس نے جوس بناکر دیا تو دیر ہوگئی۔ یقیناً آپ بور تو نہیں ہوئی ہوں گی۔ آپ کو تو ایسی جگہیں پسند ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں بور بالکل نہیں ہوئی جتنی دیر تم مارکیٹ میں رہے ایک لڑکی میرے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔ اوہو اماں پھر لڑکی، کون تھی وہ! عزیز پریشان ہوگیا۔
میں نے اسے بتایا کہ وہ بہت پیاری لڑکی تھی۔ شاعری کرتی تھی، اس کی بلدیہ میں نوکری ہے، تو عزیز کو اطمینان ہوا۔ بہت ٹھنڈی اور خوش گوار ہوا چل رہی تھی۔ بہت پرسکون جگہ تھی۔ ہم کافی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ عزیز نے بتایا کہ یہاں وہ مسجد بھی ہے جو جلادی گئی تھی پھر دوبارہ تعمیر ہوئی۔ اگر آپ کا ارادہ اسے دیکھنے کا ہے تو چلتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں اب نہیں جاسکتے۔ ابھی ہوٹل چلتے ہیں شام کو فریش ہوکر الہ دین جائیں گے۔
عزیز کہنے لگا میرا خیال ہے کہ ہم ایک دن اور رک جاتے ہیں۔ مجھے قونیہ بہت اچھا لگا ہے۔ لوگ بھی بہت اچھے ہیں اور سکون بہت ہے اور آج شام کو الہ دین چلتے ہیں اور کل ہم مسجد دیکھ لیں گے۔ مسجد کا نام عزیرہ مسجد تھا اور جہاں سے عزیز پھل لے کر آیا تھا وہ اس مسجد کے حوالے سے عزیرہ کا علاقہ کہلاتا تھا۔ اور بھی کہیں چلانا ہوگا تو چلیں گے میرا دل یہاں لگ رہا ہے۔ عزیز صاحب تو نپے تلے پروگرام پر چلنے کے قائل ہیں۔ آج قونیہ کی محبت میں پروگرام بدل رہے تھے۔ میرے پاس انکار کی گنجائش کہاں تھی کیوںکہ میرا دل بھی یہاں لگ رہا تھا۔ واقعی شہر دلوں میں بس جاتے ہیں اور قونیہ ہمارے دلوں میں بس چکا تھا۔
شام کو جب ہم الہ دینے کے لیے نکل رہے تھے تو حیان سے ملاقات ہوگئی۔ اس ہوٹل میں ہر وقت چائے تیار رہتی تھی تو کافی لوگ ڈائینگ ہال میں موجود تھے۔ ہم نے بھی چائے پینے کا ارادہ کیا، حیان بھی وہاں موجود تھا۔ عزیز نے اس سے کہا کہ ہماری بکنگ تو کل صبح تک کی ہے مگر ہم نے ایک دن بڑھا دیا ہے، کیا ہم ایک رات اور رہ سکتے ہیں۔
وہ خوش ہوگیا۔Most well come عزیز یہ تمہاری جگہ ہے جب تک چاہے رہو۔ مگر ایک مسئلہ تھا کہ ہمیں استنبول کے ہوٹل کی بکنگ کینسل کروانی پڑتی یا پھر ہوٹل والوں سے ایک دن بڑھانے کی درخواست کرنی پڑتی۔ استنبول کے ہوٹل سے جواب آیا بکنگ کینسل ہوگئی، آگے نہیں بڑھ سکتی اور اب اگر آپ بکنگ کروائیں گے تو ایڈوانس پے منٹ کرنی ہوگی اور نئی بکنگ ہوگی۔ یہ کیا بات ہوئی۔ ہماری مرضی ہم کب آئیں کب جائیں۔ عزیز کو ہوٹل والوں کی بات بہت بری لگی، اس نے بکنگ کینسل کروا دی اور نادر کو میسیج کیا وہ ایک سرائے پر کسی ہوٹل میں کام کرتا تھا اور عزیز سے اس کا رابطہ تھا۔ نادر نے فوری طور پر میسیج کا جواب دیا کہ تم جب بھی آؤ گے تمہیں کمرا تیار ملے گا۔ ساتھ ہی اس نے لوکیشن بھی بھیج دی تھی۔ یہ ہوٹل میٹرو اسٹیشن کے بالکل قریب تھا اور کرایہ بھی مناسب تھا اور ہوٹل کا نام Nila تھا۔
اب ہمیں اطمینان ہوگیا تھا۔ ہم قونیہ میں ایک دن اور رک سکتے تھے اور واپس استنبول پہنچ کر بھی ہوٹل مل جائے گا۔
الہ دین پارک یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ یہ ایک پہاڑی پر بنا ہوا پارک ہے جس کے گلابوں نے قونیہ پہنچتے ہی ہمارا استقبال کیا تھا۔ قونیہ میں داخل ہوتے ہی جس جگہ پر پہلی نظر پڑی تھی وہ بھی پارک تھے اور گلاب تھے۔ قونیہ کے رہنے والے بھی گلاب جیسے تھے۔ ان کے لہجے محبت بھرے تھے رویے بھی محبت سے لبریز اور گلابوں کی خوشبو سے معطر تھے۔ لوگ کہتے ہیں قونیہ میں مدینہ کی خوشبو آتی ہے۔ کیوں نہ آئے قونیہ والے حضور ﷺکی محبت سے سرشار ہیں۔ وہ رومی ؒ کے پرستار ہیں اور رومی ؒ محمدﷺ کے عشق میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ہم نے جب انقرہ میں پھل لیے تھے تو ان پر قیمتیں درج تھیں ۔ عزیز نے بتایا کہ جب میں نے دکان دار سے پھل لیے تو ان پر بھی قیمتیں درج تھیں لیکن اس نے پھل دیتے وقت ایک پیکٹ علیحدہ سے بناکر دیا تو میں نے پوچھا اس کی کیا قیمت ہے تو اس نے کہا، تشکرم تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھ سے پھل خریدے۔ وہ تو بار بار میرا شکریہ ادا کررہا تھا۔ قونیہ والوں کے رویے کا اندازہ تو ہمیں قونیہ میں داخل ہوتے ہی ہوگیا تھا۔
جب ہم الہ دین پہنچے تو اس وقت مغرب کی نماز ختم ہوئی تھی۔ اس پارک میں ایک بہت قدیم اور بڑی مسجد موجود ہے جس کے نام سے یہ پارک الہ دین پارک مشہور ہے۔ یہ پوری مسجد لکڑی کی بنی ہوئی ہے اور تیرہویں صدی کی قائم شدہ ہے اور بہت خوب صورت بنی ہوئی ہے۔ اس مسجد اور باغ کا داخلی حصہ اتنا خوب صورت ہے کہ بیان سے باہر ہے ۔ سفید پتھر کے بنے ہوئے آبشار نما فوارے کافی اونچائی سے نیچے آکر خوب صورت خوض میں گرتے ہیں اور ان کے درمیان میں اوپر جانے والی سیڑھیاں ہیں اور دونوں گلاب کی کیاریاں ہیں۔ ہم جیسے ہی اوپر پہنچتے ہیں صرف حد نظر تک گلاب ہی گلاب ہیں۔
ہم مسجد کی سمت جانے کی بجائے ایک طرف بینچ پر بیٹھ گئے۔ لوگ مسجد سے باہر آکر سیڑھیوں سے واپس جارہے تھے۔ لوگوں میں عورتیں اور مرد اور بچے اور نوعمر لڑکے لڑکیاں سب شامل تھے۔ ایک بات جو ہم نے نوٹ کی وہ خواتین کا لباس تھا۔ کسی بھی عورت نے مغربی لباس نہیں پہنا ہوا تھا ۔
سب خواتین نے بے انتہا خوب صورت ٹرکش لباس پہنا ہوا اور خوب صورت اسکارف لیے ہوئے تھے اور سونا بھی بہت پہنا ہوا تھا خاص طور پر گلے میں بہت خوب صورت زیور پہنا ہوا تھا۔ ہم نے پورے قونیہ میں خواتین کا یہی اسٹائل دیکھا تھا۔ اکثر خواتین اکیلی اپنے بچوں کے ساتھ یا دوسری خواتین کے ساتھ گروپ بنی تھیں جو نماز سے فارغ ہوکر باغ میں چہل قدمی کررہی تھیں۔
مجھے تو ایسا لگا جیسے یہاں مردوں سے زیادہ خواتین یا نوعمر لڑکے لڑکیاں تھے۔ ایک خاص بات ہم نے یہاں دیکھی کہ جو بھی ہمارے پاس سے گزرتا سلام ضرور کرتا۔ مجھے وہ خاتون یاد آگئیں جو ہمیں انقرہ کے اسٹیشن پر ملی تھیں۔ جو انقرہ جیسے موڈرن شہر میں رہ کر اپنے قونیہ کو یاد کررہی تھیں ہم یہاں اپنے چودہویں پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔
The post یہاں شاعری بھی ملازمت دلادیتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.