اس سہانی صبح میں اپنے دل کے بہت قریب شہر فیصل آباد میں تھا۔ حالاں کہ میرا روٹ یہ نہیں بنتا تھا۔ جانا مجھے جڑانوالہ تھا۔ سیالکوٹ سے چوں کہ صبح سویرے کوئی گاڑی جڑانوالہ کے لیے نہیں نکلتی تو عباس نے یہی مناسب سمجھا کہ میں صبح سویرے گوجرانولہ پہنچوں کیوں کہ وہاں سے صبح ساڑھے سات بجے جڑانوالہ کے لیے گاڑی نکلتی تھی جو تین گھنٹے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچ جاتی تھی مگر میں نے اپنا روٹ پلان کیا۔
میرا دل جو ہر وقت فیصل آباد جانے کے لیے مچلتا تھا کہ میں اپنی زندگی کے چار اہم سال فیصل آباد کے ایک ہاسٹل میں گزار چکا تھا۔ فیصل آباد اور جڑانوالہ دونوں ساتھ ساتھ ہی ہیں۔ سیالکوٹ سے ایک بس سروس کی دو گاڑیاں نکلتی ہیں۔ ایک رات دس بجے اور دوسری رات دو بجے۔ میں رات دو بجے والی گاڑی پر سوار ہوا اور ہنستا مسکراتا صبح ساڑھے چھ بجے فیصل آباد پہنچ گیا۔
نہ جانے میں کیوں کر فیصل آباد کے اس کڑوے پانی کو بھول گیا تھا۔ فیصل آباد لاری اڈا پر اتر کر میں واش روم گیا تو ذرا فریش ہونے کے واسطے کلی بھی کرنا چاہی مگر فوراً ہی پانی تھوک دیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ پانچ نومبر 2006 کو یہی ہوا تھا۔ میں ہاسٹل پہنچا تو منہ ہاتھ دھو کر کلی کرنا چاہی مگر پانی اس قدر کھارا تھا کہ فوراً تھوک دیا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کھارے پانی کی عادت پڑگئی۔ اپنے پرانے کلاس فیلو بلال سے میں پہلے ہی رابطے میں تھا۔
وہ لاری اڈے پر مجھے لینے آ گیا۔ ہم گمٹی چوک سے ہوتے ہوئے فیصل آباد کے مشہور زمانہ گھنٹہ گھر پہنچ گئے جسے انگریز سرکار نے برطانیہ کے جھنڈے کی طرز پر بنایا تھا، مگر یہ گھنٹہ گھر فیصل آباد کا پہلا گھنٹہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک چھوٹا سا گھنٹہ گھر شہر لائل پور میں تھا۔
کہتے ہیں کہ کسی لائل پور میں ایک چھوٹا سا ننھا منا سا گھنٹہ گھر تھا۔ نہ جانے کیوں انگریزوں کو گھنٹہ گھر بڑے پسند تھے۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ انھیں گھنٹہ گھر پسند تھے یا پھر انگریز سب کو ہر وقت ’’وقت‘‘ دکھانا چاہتے تھے۔ گمان تو یہی ہے کہ انھیں وقت کی بہت قدر تھی اس لیے انھوں نے ہر بڑے شہر کے سب سے مصروف چوک پر گھنٹہ گھر تعمیر کروائے جہاں دور سے بھی وقت کو دیکھا جا سکے۔
انگریز جب اچھی طرح سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان پر قبضہ جما چکے تو انھوں نے ہر چھوٹے بڑے شہر میں گھنٹہ گھر بنانا شروع کیے۔ کسی انگریز کے نام پر بنے لائل پور میں بھی ایک چھوٹا سا بنا دیا گیا۔ اس وقت شہر کی جتنی آبادی ہو گی، اتنا گھنٹہ گھر ہی کافی تصور کیا گیا ہوگا۔ یہیں پر میونسپل کارپوریشن کے سارے دفاتر بھی تھے۔
شہر بڑا ہوا تو گھنٹہ گھر نے بھی بڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ کے جھنڈے کی طرح یہاں آٹھ سڑکیں نکالی گئیں اور درمیان میں ایک عدد گھنٹہ کھڑا کردیا گیا۔ اب یہی گھنٹہ گھر لائل پور شہر کی پہچان ہے۔ چھوٹا اور پرانا گھنٹہ گھر کہیں کھو سا گیا ہے۔ یہاں اب محکمۂ انہار کے دفاتر ہیں جب کہ چھوٹے سے گھنٹہ گھر کے پیچھے محکمۂ انہار کی رہائشی کالونی کا کچرا پڑا ہوتا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اگر اس چھوٹے سے گھنٹہ گھر کی صاف ستھرائی کی جائے تو یہ بھی اپنا قد کاٹھ اور رنگ روپ نکال ہی لے گا کیوں کہ بے شک یہ گھنٹہ گھر چھوٹا ہے مگر اپنے دور میں کام پورا کرتا رہا ہے۔
میں کچھ دیر بلال کے ہم راہ سڑکیں ناپتا رہا۔ کچھ پرانی جگہیں دیکھیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ خذیفہ اور فرمان کے ساتھ جب پہلی بار ڈی گراؤنڈ گیا تھا تو کھانا ہم نے ایک ریستوراں سے کھایا تھا۔ یہ بات ہے 2007 کی۔ اس وقت یہ ریستوراں بالکل چھوٹا سا ہوتا تھا۔ ایک تنگ سی گلی نما ریسٹورنٹ تھا جہاں پر گنتی کے چند ٹیبل لگے ہوتے تھے۔
اس دن جو ڈیل کھائی تھی وہ آج بھی یاد ہے۔ ڈیل میں ایک بڑا سا چکن کا پیس ہوتا تھا، کچھ فرائس، ایک نان اور بند گوبھی والا سلاد اور ساتھ میں ایک بوتل۔ بند گوبھی کو شاید مایونیز میں مکس کیا ہوتا تھا، اس لیے بہت مزے کی لگتی تھی۔ یہ آج بھی اس لیے یاد ہے کہ 2010 تک جب بھی اس ریستوراں میں گئے، یہی ڈیل کھائی یہاں تک کہ 2015 میں ایک بار فیصل آباد چکر لگا تو تب بھی یہی ڈیل کھائی۔
یہ ڈیل پورا ایک کھانا تھا اور بہت سستی بھی تھی یا پھر یوں سمجھ لیں کہ باقی ڈیلز کے مقابلے میں بہت سستی تھی۔ یہ اس ریستوراں کی وہ واحد ڈیل تھی جس سے پیٹ اچھی طرح بھر جاتا تھا۔ اب نہ صرف ہم بڑے ہوچکے ہیں بلکہ یہ ریستوراں بھی بڑا ہوچکا ہے۔ خواہش تھی کہ ایک بار پھر وہی ڈیل کھاؤں مگر میں صبح سویرے فیصل آباد میں تھا اور ایک دو گھنٹے بعد مجھے جڑانوالہ کے لیے ہر صورت روانہ ہونا تھا۔
کیسے خوب صورت تھے وہ طالب علمی کے دن بھی جب ہم کچھ بھی کھانے سے پہلے اپنی جیب دیکھا کرتے تھے۔ جب کہیں بھی جانے سے پہلے، کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنی جیب دیکھنا پڑتی تھی۔ ویسے حالات اب بھی جوں کے توں ہی ہیں۔
ہمارے ہاسٹل کے پاس ہی جبار کا ڈھابا تھا۔ ہمارے یہاں ڈھابوں کے نام تھوڑا ہوتے ہیں۔ یہ ڈھابا چوں کہ جبار نامی ایک نوجوان چلاتا تھا، اس لیے سب اسے جبار کا ڈھابا ہی کہتے تھے۔ ڈھابے مجھے ہمیشہ سے ہی پسند رہے تھے۔ ہمارے انسٹیٹیوٹ کے بھی اکثر لونڈے رات یہیں پائے جاتے تھے۔ کوئی دودھ سوڈا پیتا تو کوئی یاروں دوستوں کے ساتھ چائے سگریٹ کے کَش لے رہا ہوتا۔ کوئی اپنی عشق کی ناکام داستان سنا رہا ہوتا تو کوئی غمِ روزگار کے رونے روتا۔
خواہش تھی کہ گزرتے گزرتے ایک نظر جبار کو بھی دیکھ لوں مگر ڈھابے پر اس کے والدِ محترم ہی تھے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ جبار رات کو ڈیوٹی کرتا ہے اور والد صاحب دن کے اوقات میں۔
مجھے ہمیشہ سے ہی اپنے لمبے بال بہت پسند رہے ہیں۔ ہاسٹل میں زیادہ تر بال لمبے ہی رکھے مطلب کہ کٹوانے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ فیصل آباد کی ڈی گراؤنڈ میں ایک chaps hair salon تھا۔ مہنگا تھا مگر ذرا ہائی فائی بنا ہوا تھا تو کچھ لڑکے صرف شو مارنے کے چکر میں یہاں آ جاتے۔ ہم نے بھی شاید ایک دو بار یہاں سے بال کٹوائے تھے اور جب بھی بال کٹوائے، واپسی پر انھیں گالیاں ہی دیں۔ کم بخت پیسے بہت کھا جاتے تھے۔ ویسے بھی زمانہ طالب علمی میں گنتی کے ہی پیسے ہوا کرتے تھے جو کہ اب بھی گنتی کے ہی ہوا کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی بھلے زمانے میں کہیں بھائی پان شاپ ہوا کرتا تھا۔ بہت ہی کھلا اور بڑا سا۔ ایسا پان شاپ جو دن کے چوبیس گھنٹے چلتا رہتا تھا۔ مشہور تھا کہ یہ چار بھائی تھے جو چھے چھے گھنٹے کی شفٹ کرتے اور اس دکان کو کھلا رکھتے۔ دکان چوں کہ فیصل آباد جڑانوالہ مین سڑک پر تھی اس لیے خوب چلتی تھی۔
دکان کے سامنے جوس کی ایک مشین بھی ان ہی بھائیوں نے لگا رکھی تھی۔ سامنے ایک ہاسٹل کی عمارت بھی تھی۔ شنید تھی کہ یہ دکان اسی ہاسٹل کے لونڈے کے باعث چلتی تھی۔ ہاسٹل کے لونڈے رات گئے تک اس دکان کا طواف کرتے اور خوب چڑھاوے چڑھاتے۔
مگر اب نہ تو وہ بھائی رہے اور نہ ہی وہ بھائی پان شاپ۔ ہاسٹل کی عمارت بھی دل شکستہ ہوچکی اور لونڈوں کے تو کیا ہی کہنے۔ نہ بعد میں آنے والے لونڈوں میں وہ آوارگی کی وہ ٹھرک رہی اور نہ سڑکیں ماپنے کی چَس۔ اب تو اس چھوٹی سی دکان پر ایک چھوٹا سا مزے دار چائے کا ڈھابا ہے جس کا مالک لگن سے چائے بناتا ہے اور مجھ جیسے آتے جاتے خواہ مخواہ کے مسافروں کی خوشی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھائی پان شاپ ہمارے ہاسٹل کے بالکل سامنے تھی۔
حالاں کہ بلال نہ مانتا تھا مگر میں بضد تھا کہ این ایف سی جانا ہی جانا ہے۔ اس کا دروازہ سامنے ہی تو تھا۔ گیٹ پر کیا بتاتا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ اتوار تھا اور چھٹی کا دن تھا۔ چھٹی کا دن نہ ہوتا تو شاید کوئی مشکل نہ ہوتی۔
میں چپ چاپ اندر چلا جاتا، مٹر گشتیاں کرتا اور واپس آ جاتا مگر آج چھٹی کا دن تھا۔ دروازے بند تھے، تین گارڈ وہیں تھے۔ میں نے تقریباً جھوٹ کا سہارا لیا کہ میں سیالکوٹ سے صرف معلومات لینے کے واسطے اتنی دور آیا ہوں اور وغیرہ وغیرہ۔ ایک گارڈ نے صرف اس شرط پر اندر جانے کی اجازت دی کہ ایک دوسرا گارڈ میرے ساتھ اندر جائے گا۔ اب گارڈ میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میں اپنے ناسٹلجیا میں مبتلا تھا اور اس سے فضول میں مختلف کمروں، دفتروں اور لڑکوں کے بارے پوچھ رہا تھا حالاںکہ میں جانتا سب تھا۔ سب کیسے بھول سکتا تھا۔
میں نے یہاں چار سال گزارے تھے۔ میں اپنی ہاسٹل کی زندگی پر پوری کتاب لکھ چکا ہوں جو وقت آنے پر شائع ہو گی۔ انسٹیٹیوٹ کے لان میں پیلے پھول کھل چکے تھے جو بہار آنے کا سندیسہ تھے۔ مجھے گمان تھا کہ یہ پھول فقط میرے واسطے کِھلے تھے۔ ہم اپنی پرانی آئی ٹی لیب کے پاس سے گزارے جہاں کبھی ہم کمپیوٹر پر اپنی اسائنمنٹ بنایا کرتے تھے مگر اب وہ کمرا بند پڑا تھا۔ سب ڈیپارٹمنٹ بند پڑے تھے۔ ہاسٹل کا اسپورٹس کمپلیکس بند اور ٹوٹی پھوٹی حالت میں پڑا تھا۔ سوئمنگ پول بھی بقول گارڈ اب بند پڑا ہے۔ شیشے بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔ کچھ ہی آگے ہمارے ہاسٹل کی عمارت تھی۔ ایک شکستہ حال عمارت جو اپنا نوحہ خود بیان کر رہی تھی۔
میں نے اس عمارت کو اپنے جوبن پر دیکھا تھا۔ ہم ہاسٹل کی اس عمارت میں تب منتقل ہوئے تھے جب یہ نئی نئی بنی تھی۔ سب کچھ نیا تھا، پینٹ، گیزر، سینٹری مگر آج اسے بنے چوبیس سال گزر چکے تھے۔
جس گھاس کے میدان پر لڑکے بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے، وہاں اب زنگ آلود گیزر پڑے تھے۔ یہاں تک کہ کمروں کے دروازوں پر جو نمبروں کی تختیاں ہوتی تھیں، انھیں بھی زنگ کھا چکا تھا۔ نہ جانے کیوں ہمارے ہاسٹل کا میس اب کافی عرصے سے بند پڑا تھا۔ یہ عمارت مجھے خوشی کی بجائے اداسی دے رہی تھی۔ میں نے یہاں سے نکل جانا ہی مناسب سمجھا۔
بھائی پان شاپ پر بیٹھ کر بلال اور میں نے چائے پی اور پھر میں جڑانوالہ والی گاڑی میں بیٹھ کر عباس کی طرف روانہ ہو گیا۔ عباس جو مجھے بہت پیارا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے حضرت علیؓ کو اپنا عباس پیارا تھا۔ عباس نے کال پر بتا دیا تھا کہ جڑانوالہ سے پہلے ہی ایک ’’بنگے‘‘ اسٹاپ آئے گا، وہیں اتر جانا۔ میں نے ہائی ایس کے کنڈکٹر کو اس اسٹاپ کا بتا دیا۔
میں گاڑی سے اترا تو عباس اپنے بردارنسبتی کے ساتھ وہیں میرا منتظر تھا۔ استقبال کرتے ہوئے عباس نے مجھے اچھی طرح کُٹ لگائی کیوںکہ میں اپنے شیڈول سے کچھ لیٹ تھا اور عباس کچھ کافی دیر سے سڑک پر میرا منتظر تھا۔ یہ تو صرف عباس کی محبت تھی کہ وہ یوں میرا انتظار کر رہا تھا ورنہ کون کسی کے لیے اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔
ہم فیصل آباد جڑانوالہ روڈ سے اتر کر ایک چھوٹی سی سڑک پر سفر کرنے لگے۔ یہ ایک پورا گاؤں تھا۔ یعنی پورا دیہاتی ماحول۔ ہمارے یہاں شہروں میں عام طور پر اتنی کھلی سڑکیں نہیں ہوتیں جتنی کھلی دیہات کی گلیاں۔ اچانک ایک سڑک پر مڑتے ہوئے حویلی بھگت سنگھ کا بورڈ دیکھا تو طبعیت خوش سی ہو گئی۔
24 مارچ 1931 کی صبح لاہور سینٹر جیل میں تین نوجوانوں کو پھانسی دی جانی تھی۔ قانون کے مطابق ہر خاص و عام کو پھانسی دن کے آغاز پر دی جاتی تھی مگر اس پھانسی بلکہ پھانسیوں کے خلاف عوامی ردعمل اس قدر سخت تھا کہ پھانسی کے وقت جیل پر حملے کا بھی خطرہ تھا۔ اس لیے ان تینوں افراد کو ایک دن پہلے یعنی 23 مارچ 1931 شام ساڑھے سات بجے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان تینوں پر ایک انگریز افسر کو قتل کرنے کا الزام تھا۔
یہ تینوں ہی بڑے پکے دوست تھے اور تحریکِ آزادی کے سر گرم رکن بھی تھے۔ تینوں جوان اور ہم عمر تھے۔ پھانسی کے تخت پر پہنچنے کے بعد تینوں نے اپنے اپنے پھندے کو چوما اور بہ خوشی خود ہی پہن لیا۔ تینوں کو ایک ساتھ پھانسی دی گئی۔ دائیں جانب والے پنجابی شیر کا نام سکھ دیو تھا جب کہ بائیں جانب راج گرو تھا اور ان دونوں کے درمیان پنجاب کا بہادر سپوت سردار بھگت سنگھ تھا۔
فیصل آباد جڑانوالہ روڈ پر ’’بنگے‘‘ اسٹاپ پر پانچ کلومیٹر اندر کی جانب سفر کرنے پر ایک بنگے گاؤں ہے جسے اب بھگت سنگھ گاؤں بھی کہا جانے لگا ہے۔ یہاں ایک 1890 کی تعمیر شدہ حویلی ہے جہاں پنجاب کا ایک بہادر سپوت سردار بھگت سنگھ پیدا ہوا تھا۔ بھگت سنگھ کو انگریز سرکار سے بغاوت ورثے میں ملی تھی۔ جس دن بھگت سنگھ پیدا ہوا، اسی دن بھگت سنگھ کا باپ کشن سنگھ اور اس کا چچا جیل سے رہا ہوئے تھے۔
باپ اور چچا دونوں ہی تحریکِ آزادی کے سرگرم رکن تھے۔ والدین نے بھگت سنگھ کے لیے دُرگاں نامی لڑکی کو پسند کیا یہاں تک کہ بھگت سنگھ کے دوست احباب بھی اسے درگاں بھابھی کہہ کر مخاطب کرتے مگر بھگت سنگھ کہتا تھا کہ اس کی شادی تحریک آزادی سے ہوچکی ہے اور اب موت ہی اس کی دلھن ہے۔ بنگے گاؤں میں وہ پرائمری اسکول آج بھی ہے جہاں سے بھگت سنگھ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
تقسیم کے بعد 1947 میں سردار بھگت سنگھ کی یہ حویلی ورک برداری کے حوالے کی گئی اور آج ان کی تیسری نسل اس حویلی کو بڑی خوب صورتی سے سنبھالے ہوئے ہے۔ حویلی کے پہلے دو کمرے آرٹ گیلری کا درجہ رکھتے ہیں جہاں چاروں طرف بھگت سنگھ اور اس سے منسوب لوگوں کی تصاویر لگی ہیں جن میں سے زیادہ تر تصاویر بالکل اصلی ہیں۔ جس وقت بھگت سنگھ کو پھانسی ہوئی۔
اس کی عمر 24 سال تھی۔ ایک کمرے میں آدھی دیوار پر بھگت سنگھ کی وہ مشہورِ زمانہ تصویر بڑی کر کے لگائی گئی ہے جس میں وہ ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنے جیل سپرنٹینڈنٹ کے ساتھ باتیں کر رہا ہے۔ بھگت سنگھ کے ماں باپ، بہن بھائی، یار دوست، منگیتر سب تصاویر کی صورت یہاں موجود ہیں۔ بھگت سنگھ پر لکھی گئی ایف آئی آر کی ایک نقل بھی یہاں لگائی گئی ہے۔ ایک طرف بھگت سنگھ کی ماں کا چرخہ اور آٹا پیسنے والی چکی کے پاٹ بھی پڑے ہیں۔
بھگت سنگھ اور اس کے دوستوں کو جب پھانسی دی گئی تو لاہور سینٹرل جیل کی پچھلی دیوار توڑ کر رات کے وقت تینوں کی لاش کو یہاں سے قصور میں دریائے ستلج کے کنارے لے جایا گیا جہاں آج ہیڈ سلیمانکی ہے۔ تینوں کی لاش کو سکھ مذہب کے مطابق جلا دیا گیا۔
جسم ابھی پوری طرح سے جلے بھی نہ تھے کہ انھیں دریائے ستلج میں بہا دیا گیا۔ اتنے میں لوگوں تک بھی اس سارے عمل کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔ عوام کے ہجوم اس جگہ پہنچے، بچے کُھچے جسم کے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے نہایت عزت و احترام کے ساتھ آزادی کے تینوں متوالوں کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ تقسیم کے بعد یہ جگہ چوکی نمبر 201 کہلائی اور پاکستان کے حصے میں آئی مگر مارچ 1961 میں مذاکرات کے بعد بارہ دیہات کے بدلے یہ چوکی نمبر 201 بھارت کے حوالے کردی گئی۔
بھارت کو شاباش کہ اس نے اس جگہ کی اہمیت کو سمجھا۔ بھارت نے بعد میں یہاں ایک شان دار یادگار تعمیر کی اور آزادی کے ان تینوں ہیروز کے مجسمے کھڑے کیے۔ زندہ قومیں ایسی ہی تو ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں جب کہ لاہور میں جس فوارہ چوک میں بھگت سنگھ اور اس کے رفقاء کو پھانسی دی گئی، وہاں بھی ایک یادگار ہونی چاہیے تھی مگر ہماری نوجوان نسل کی اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ کس جگہ بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی۔ مجھے تو گمان ہے کہ ہماری موجودہ نسل شاید بھگت سنگھ سے ہی لاعلم ہے۔
ورک برداری نے واقعی اس حویلی کو سنبھال کر اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ بیرون ملک مقیم سکھ اس حویلی کو حاصل کرنے کے لیے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہیں مگر ورک اس حویلی کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ بھگت سنگھ حویلی میں موجود جتنی بھی بھگت سنگھ کی یا اس سے منسوب لوگوں کی اصل تصاویر ہیں، ان میں سے زیادہ تر جَسی لائل پوریاں کی ہیں۔ یہ گیلری چند ہفتوں یا مہینوں میں نہیں بن گئی بلکہ یہ سالوں کی محنت کے بعد آج ایک خوب شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
بنگے گاؤں سے نکلے تو ہمارا رخ اب ایک چھوٹے سے قصبے دانا آباد کی طرف تھا۔ معلوم نہیں کہ شیکسپیئر کے رومیو جولیٹ کی کہانی ہمارے مرزا صاحباں سے متاثر ہے یا ہمارے مرزا صاحباں میں رومیو جولیٹ کی جھلک ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو مگر دونوں ہی اپنے بزرگوں اور قبائلی سرداروں کی دشمنی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ دونوں ہی اپنی خاندانی نفرتوں کی وجہ سے ایک نہ ہو سکے۔
مرزا دریائے راوی کے کنارے گاؤں دانا آباد میں بسنے والے کھرلوں کے قبیلوں کا تیکھا جوان تھا جب کہ صاحباں کھیوا خان کی لڑکی تھی۔ مرزا بچپن میں کھیوے اپنے ننھیال آ گیا۔ مرزا اور صاحباں اکھٹے ایک ہی مکتب میں پڑھنے لگے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے پیار ہوا۔ نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ مکتب کے مولوی صاحب کی نظر مرزا پر ہو گی ورنہ وہ کیوں کر مرزا اور صاحباں سی دشمنی پالتا اور انھیں پیٹتا۔ قصہ مختصر کہ کھیوے میں ہر ایک کی زبان پر دونوں کے عشق کے چرچے تھے۔ نتیجتاً مرزا کو کھیوا چھوڑنا پڑا اور وہ اپنے آبائی علاقے دانا آباد میں آ گیا۔ کھیوا جھنگ شہر سے بارہ میل شمال میں دریائے چناب کے قریب ایک بستی تھی۔
صاحباں کا رشتہ کہیں اور پکا ہوا تو صاحباں نے قاصد مرزا کی طرف بجھوا دیا۔ مرزا جو تیر اندازی اور شمشیر زنی سے خوب واقف تھا، نے اپنی گھوڑی نکالی اور کھیوا کی طرف سفر شروع کر دیا۔ ماں بہن نے بہت روکا۔ مرزا کی ماں بھی کھیوے کی تھی، اس لیے جانتی تھی کہ کھیوے کی لڑکیاں وفا نہیں کرتیں مگر مرزا کہاں باز آنے والا تھا۔ مرزا اپنی گھوڑی ’’بکی‘‘ پر روانہ ہوا اور اپنی خالہ کے یہاں قیام کیا۔ دونوں کی خفیہ ملاقات ہوئی اور طے پایا کہ وہ دونوں آج رات ہی بھاگ نکلیں گے۔
صاحباں کے گھر والوں کو جب دونوں کے ایک ساتھ بھاگنے کی خبر ملی تو انھوں نے مرزا کا تعاقب شروع کر دیا۔ رات خنک زدہ تھی اور مرزا کئی راتوں سے سویا نہیں تھا۔ مرزا کو نیند نے دبوچ لیا اور وہ جھنڈ کے ایک درخت کے نیچے سو گیا۔ مرزا اس وقت تک سوتا رہا جب تک صاحباں کے بھائی اس کے سر پر نہ پہنچ گئے۔
مرزا کو اپنے تیروں کا گھمنڈ تھا اور یہ بات صاحباں بھی جانتی تھی کہ دور دور تک مرزا کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں۔ گھوڑوں کی آواز سننے پر صاحباں کی آنکھ کھلی تو بھائیوں کی محبت غالب آنے لگی۔ جانتی تھی کہ اگر مرزا جاگ گیا تو اپنے تیر اس کے بھائیوں کے سینے کے پار اتار دے گا۔
صاحباں نے تیر توڑ ڈالے۔ جب مرزا کی آنکھ کھلی تو اس کی حقیقت عیاں ہوئی۔ صاحباں کے بھائیوں نے وہیں مرزا اور صاحباں کو اسی جھنڈ کے نیچے قتل کر دیا۔ یہاں تک کہ اس کی گھوڑی بکی کو بھی نہ چھوڑا۔ بعد میں مرزا اور صاحباں دونوں کو ہی ایک ساتھ دانا آباد میں ہی دفن کیا گیا۔ صاحباں کے گھر والے اس کی نعش لینے سے بھی انکاری ہوئے۔ مرزا کی لاڈلی گھوڑی کو بھی اس کے قریب ہی دفن کیا گیا۔
قصہ مرزا صاحباں کو پنجابی صوفی شاعر حافظ برخوردار رانجھا نے تخلیق کیا ہے جس کے چند مشہور اشعار کچھ اس طرح سے ہیں کہ
میں نیل کرائیاں نیل کاں …… میرا تن من نیلوں نیل
میں سودے کیتے دلاں دے …… تے تہر لے نین وکیل
رب بخیلی نہ کرے …… تے بندہ کون بخیل
رات چنے دی چاننی …… تے پونی ورگا کاں
اڈیا دانا آباد توں تے اوہنوں …… پیندی رات چناں
تتی دے ہیٹھ پنگھوڑا رنگل …… تے ٹھنڈی وناں دی چھاں
گن گن ڈوں دی اٹیاں …… وچ لاں ’’جٹ‘‘ دا ناں
مینوں لے چل ایتھوں کڈ کے …… سارے جھگڑے جانے مُک
باج تیرے او مرزیا …… نہیں جان میری نوں سکھ
نیلک‘ اس نیل لگے ریشمی یا سوتی دھاگے کو کہتے ہیں جو پنجاب میں نوجوان
اپنے بازو پر باندھتے تھے۔ جب اس دھاگے کا رنگ پھیکا پڑجاتا تو اس پر دوبارہ نیل لگالیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ نیل کسی بندے کے جسم پر بھی لگ جاتا اور وہ نیلا ہوجاتا تھا۔ نیلا رنگ زخموں کا نشان ہے۔ حافظ برخوردار اپنے تن من دونوں کے نیلو نیل ہونے کا بیان کر رہے ہیں۔
حافظ برخوردار کی اس شاعری سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو مگر چوںکہ یہ پنجابی میں ہے تو اکثر لوگ اس سمجھ نہیں پاتے۔ چلیں آج اس کا اردو ترجمہ بھی دیکھتے ہیں:
میں نیل کرائیاں نیل کاں …… میرا تن من نیلوں نیل
یہ دراصل پنجابی بولیاں سی ہیں جس میں احساس کا اظہار تمثیلی ہے۔ دو مفہوم ہیں اس کے۔ ایک تو محبت کا، دوسرا کرب کا، شاعری کا حقیقی تاثر ہر شخص اپنی کیفیت کے مطابق لیتا ہے۔ جیسے میں نے اس قدر درد جھیلے کہ تن من نیلا ہوگیا۔
میں سودے کیتے دلاں دے …… تے تہر لے نین وکیل
میں نے اپنے دل کا سودا اپنی آنکھوں کو وکیل بنا کر کیا ہے، مطلب محبت کی پہلی گواہی تو آنکھیں ہی دیتی ہیں۔
رب بخیلی نہ کرے …… تے بندہ کون بخیل
اگر رب آپ کو دے رہا تو پھر کسی بندے کے بس کی بات نہیں کہ وہ آپ پر کسی قسم کی تنگی لے کر آئے۔
رات چنے دی چاننی …… تے پونی ورگا کاں
اڈیا دانا آباد توں تے اوہنوں …… پیندی رات چناں
پورے چاند کی رات میں سفید ہوتے کوے کی شبیہہ بے جب کہ وہ دانا آباد سے اُڑا جو کہ صاحباں کا علاقہ تھا اور چناب تلک جا کر رات ہو گئی اسے۔
تتی دے ہیٹھ پنگھوڑا رنگل …… تے ٹھنڈی وناں دی چھاں
وآن کی چھاؤں تلے ایک پنگھوڑے (جھولا) پر بیٹھی لہک رہی
اٹیاں گننا پنجاب کی ایک کہاوت سے عبارت ہے، معانی انتظار کے ہیں،
گن گن ڈوں دی اٹیاں …… وچ لاں ’’جٹ‘‘ دا ناں
اور جٹ (مرزا جٹ) کیوں کہ جٹی (صاحباں) کا ہیرو ہے سو اسی کے نام کی مالا جپتا ہے۔
مینوں لے چل ایتھوں کڈ کے …… سارے جھگڑے جانے مُک
باج تیرے او مرزیا …… نہیں جان میری نوں سکھ
میں یہاں تنہا ترے بن نہیں رہ پا رہی مجھے اپنے ساتھ ہی لے چلو کہ ہجر و وصال کے جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے۔
ترے بعد مرزا تری صاحباں کی جان کو سکھ نہیں۔
دانا آباد میں موجود مرزا صاحباں کے مزار سے نکلے تو اب ہمارا رخ جھامرہ کی طرف تھا۔ ہم نے فخرِراوی، فخرِ پنجاب، نواب آف جھامرہ رائے احمد خان کھرل شہید کے مزار پر حاضری دینے کا سوچ رکھا تھا۔
آج تک کوئی شہداء کا حق ادا نہ کر سکا۔ بڑے سے بڑا لکھاری بھی ان کی شان میں شاید ایک حد تک ہی بیان کر سکا ہے۔ ایسے میں یہ کیوں کر ممکن ہے کہ مجھ جیسا ادنیٰ، چند ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھنے والا کسی شہید کی شان بیان کرنے کا حق ادا کر سکے اور پھر شہید بھی رائے احمد خان کھرل جیسا جنھیں نواب آف جھامرہ بھی کہا جاتا ہے۔
رائے احمد خان کھرل جیسی قد آور شخصیت کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے کہ پنجابیوں نے ہمیشہ اپنی زمین سے بغاوت کی اور غیروں کا ساتھ دیا۔ پنجابیوں نے بھی اپنی مٹی سے محبت کی ایسی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گی۔
انگریزوں نے ہمیشہ ہی آزادی کی تحریکوں کو بغاوت کا نام دیا اور پھر اسے پوری طرح سے کچلنے کی کوشش بھی ہے۔ خواہ وہ ریشمی رومال تحریک ہو یا پھر جلیاں والا باغ کا واقعہ۔ بغاوت رائل انڈین نیوی ہو یا پھر بھگت سنگھ اور راجا نایر خان جیسی شخصیات، ان سب کو ہی انگریز سرکار نے باغی قرار دیا اور ان سب کو اِن کے اپنوں کے ذریعے ہی شکت دی۔
1857 عیسوی کی جنگِ آزادی سے پہلے ہندو مسلم مضبوط ترین اتحاد اس وقت سامنے آیا جب انگریز سرکار نے ایسے کارتوس بنائے جس پر گائے اور سور کی چربی لگی ہوتی تھی اور کارتوس کو چلانے کے لیے اس چربی کا آمیزہ اپنے منہ سے اتارنا پڑتا تھا۔ گائے ہندوؤں کے لیے قابلِ احترام تھی جب کہ مسلمانوں کے لیے سور حرام تھا۔ ایسے میں وہ کیوں کر سور کی چربی سے بنے کارتوس برداشت کرتے۔ انگریز سرکار نے ہندوستان کی مختلف چھاؤنیوں میں ایسے کارتوس فراہم کرنا شروع کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریزوں نے ابھی دہلی فتح نہیں کیا تھا۔
بہادر شاہ ظفر علامتی طور پر ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ تھا مگر عملی طور پر انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہوچکے تھے۔ ملتان سے راجہ نایر خان اور مشرقی ہندوستان سے منگل پانڈے نے سب سے پہلے ان کارتوسوں کے خلاف عملی طور پر انگریزوں سے ’’بغاوت‘‘ کا اعلان کر دیا۔ انگریزوں نے دونوں کی بغاوت کو ہی کچل دیا۔
راجا نایر خان کو اس کے ساتھیوں سمیت ملتان میں ہی پھانسی دے دی گئی۔ ان ہی کارتوسوں کی بدولت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بغاوتوں کا آغاز ہوگیا جنھیں انگریزوں نے وہیں کے مقامیوں کو خرید کر، کچل دیا۔ لارڈ برکلے نے جب دریائے راوی اور اس کے اطراف میں ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے فخرِراوی، فخرِپنجاب نواب آف جھامرہ رائے احمد خان کھرل سے رابطہ کیا تو پنجاب کا یہ بہادر بیٹا لارڈ برکلے کے سامنے ڈٹ گیا جب کہ پنجاب کے دوسرے زیادہ تر جاگیر دار اور سردار انگریزوں سے مل گئے۔
رائے احمد خان کھرل کا کہنا تھا کہ کھرل کبھی بھی زمین، گھوڑے اور وفاداری پر سودے بازی نہیں کرتے۔ انگریزوں اور رائے احمد خان کھرل کے درمیان پہلی بار کشیدگی اس وقت ہوئی جب گوگیرہ کی جیل میں کچھ باغیوں کو رکھا گیا تو رائے احمد خان نے جیل توڑ کر اپنے ساتھیوں کو آزاد کروالیا۔ رائے احمد خان کھرل اس واقعے کے بعد روپوش ہوگئے۔
رائے احمد خان کھرل کے قتل کے لیے انگریزوں نے مقامیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کردیا۔ اتنے میں کھرل صاحب نے ایک بار پھر رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ کر کے یہاں رکھے تمام باغیوں کو آزاد کروا کے انھیں اپنے ساتھ ملا لیا۔ رائے احمد خان کھرل نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ پھر کسی اپنے کی ہی مخبری پر لارڈ برکلے نے رات کے پچھلے پہر اس مسجد پر حملہ کر دیا جہاں کھرل صاحب تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے۔
انھیں عین سجدے کی حالت میں شہید کر دیا گیا۔ نشانِ عبرت کے طور پر سرِمبارک کو جسم سے جدا کر کے اسی گوگیرہ جیل کے دروازے پر لٹکا دیا گیا جس جیل کو کھرل صاحب نے دو بار توڑا تھا۔ پھر کسی رات کھرل صاحب کے چاہنے والے نے ان کا سرِمبارک گوگیرہ جیل کے دروازے سے اتارا اور امانتاً اسے کہیں دفن کر دیا اور کسی کو نہیں بتایا مبادا انگریز سرکار اس کی بے حرمتی نہ کرے۔ بہت سالوں کے بعد کھول صاحب کے اس جاں نثار کا جب آخری وقت قریب آیا تو اس نے اس جگہ کی نشان دہی کی جہاں اس نے کھرل صاحب کا سرِمبارک دفن کیا تھا۔ اسی جگہ سے کھرل صاحب کا سرِ مبارک نکالا گیا اور اسے ان کے جسم کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا۔ کھرل صاحب کی شہادت کے 110 سال کے بعد اس کی قبر پر ان ہی کی نسل سے علی محمد خان نے ایک مقبرہ بھی تعمیر کروایا۔
لارڈ برکلے جب کھرل صاحب کو شہید کرنے کے بعد جب واپس لوٹ رہا تھا تو راوی کنارے تمام گھوڑوں کے پاؤں دلدل میں پھنس گئے۔ اتنے میں کھرل صاحب کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ مقامیوں نے غصے میں لارڈ برکلے اور اس کے ساتھیوں کو اسی رات قتل کر دیا۔ لارڈ برکلے کی قبر وہیں راوی کنارے ہے۔
خدا رائے احمد خان کھرل جیسے شہداء پر ہمیشہ اپنی رحمت رکھے۔ آمین۔
رائے احمد خان کھرل کے مزار تک جانے کے لیے روڈ نامناسب ہے۔ جانے سے پہلے بائیک کے ٹائر اچھی طرح چیک کرکے جائیں۔ لوکیشن گوگل میپ پر موجود ہے۔ کوشش کریں کہ بذریعہ سید والہ جائیں۔ یہ سڑک پھر بھی قابلِ قبول ہے۔ مقامیوں سے پوچھ کر شاٹ کٹ کے چکر میں بالکل مت پڑیں۔
The post سپوتِ پنجاب appeared first on ایکسپریس اردو.