روحا، نانا کی بہت ہی لاڈلی و چہیتی تھی روحا کی پیدائش کے دو سال بعد ہی اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ والد روحا کی پیدائش سے پہلے ہی شہادت کا رتبہ پاچکے تھے۔ روحا اپنے بڑے بھائی نضال سے چھے سال چھوٹی تھی۔
نضال کمال کا بہادر و ذہین بچہ تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآن حفظ کرچکا تھا۔ اس کی پرجوش تقاریر دلوں کو گرماتی تھیں۔ لوگ رشک کرتے تھے کہ شہید والد کا بہادر بچہ اور روحا فطرتاً انتہائی حساس تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تڑپ جاتی۔ نضال اس سے بہت خائف رہتا، اسے سمجھاتا واقعات سناتا کہ ہم جس جگہ ہیں یہ معمولی نہیں، ہم لوگ معمولی نہیں ہمیں بہادروں سے بھی بہادر بننا ہے، دنیا ہمارے لیے کچھ نہیں کرے گی، ہمیں اللہ کے آسرے پر رہنا اور اسی سے طاقت پانا ہے۔
روحا جہاز کی تیز آواز سن کر بھی اپنے نانا کی گود میں چھپ جاتی تھی نانا کی گود اسے ماں کی گود جیسی لگتی تھی۔ نانا بھی اسے بانہوں میں سمیٹ کر خوب پیار کرتے بہادری و جرات مندی کے قصے سناتے تاکہ وہ مضبوط ہو وہ جانتے تھے کہ ہم ستر سال سے طویل عرصہ سے حالت جنگ میں ہیں اور ہمیں ہر وقت معرکے کے لیے تیار رہنا ہے لیکن روحا بہت معصوم تھی۔
اسے تو بلی کی چوٹ نے ایسا سہمادیا تھا کہ پورا دن ایک نوالہ اس کے حلق سے نہیں اترا اور نضال اس نے اسے ڈانٹا بھی نضال نے بلی کو مرہم پٹی کی اسے دودھ پلایا اور ڈبے میں گرم بستر پر سلایا۔ روحا کو سمجھایا کہ اگر کوئی زخمی ہو تو اس کو دیکھ کر بھاگتے نہیں۔ اس کی چوٹ پر مرہم لگاتے، اس کا خیال رکھتے ہیں۔ روحا کو خون دیکھ کر خوف آتا تھا۔ کسی دوسرے کے درد سے بھی وہ تڑپ جاتی۔ ’’لیکن اس درد کا عادی تو ہمیں ہونا ہوگا‘‘ نضال سمجھاتا لیکن نانا جانتے تھے کہ یہ ان کی روح کی روح ہے ناں وہ بھی ایسی تھی گڑیا کے بازو ٹوٹ جانے پر رونے والی۔
اور پھر یوں ہوا ان کی نسبتاً پرسکون زندگی میں ہلچل مچ گئی۔ یہودیوں نے مکمل سکون سے تو انہیں کبھی بھی نہیں رہنے دیا تھا لیکن ظلم و ستم کے یہ پہاڑ اس سے قبل نہ ڈھائے گئے تھے۔ ہر طرف لاشیں تھیں، بارود کی بو تھی خون کی ندیاں تھیں۔ روحا تڑپ تڑپ جاتی، وہ ساکت تھی، اس کی معصوم مسکراہٹ چہرے سے غائب ہوچکی تھی۔ وہ ہر وقت نانا کے سینے سے لگی رہنا چاہتی تھی لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔
نضال میدان جنگ میں تھا۔ کہیں زخمیوں کو اٹھا کر اسپتال پہنچا رہا ہے، کہیں پانی پلارہا ہے، کہیں حوصلہ دے رہا ہے، کہیں تقاریر کر رہا ہے کہ یہ ہمارے جذبوں کو شکست نہیں دے سکتے، دنیا والے تماشا نہ دیکھیں، بہادروں کی طرح جییں، بیت المقدس مسلمانوں کا ہے اور رہے گا، فلسطین ہمارا ہے، ہم مرجائیں گے لیکن اپنی زمین نہیں چھوڑیں گے۔
نضال اور روحا کی طبیعت و مزاج کا اتنا فرق تھا جتنا عمروں میں نہ تھا۔ بھائی کی باتیں اور تقاریر بھی اس کے ساکت وجود میں ہلچل نہیں مچاتی تھیں۔ وہ نانا ابو سے پوچھتی کہ جب بم بم گرتے ہیں تو جو لوگ مرتے ہیں ان سب کو تکلیف ہوتی ہے یا ایک دم مرجاتے ہیں؟ اسے نانا نے بتایا تھا کہ جو شہید ہوجاتے ہیں انہیں کانٹا چبھنے کے برابر تکلیف ہوتی ہے لیکن پھر سوچتی جو زخمی ہوتے ہیں انہیں تو ہوتی ہوگی۔ وہ نانا سے کہتی بس دعا کریں میں بھی کرتی ہوں کہ میں جلدی جنت میں چلی جاؤں۔ مجھے یہاں بہت ڈر لگتا ہے۔ نانا نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتے سوچتے تم چلی جاؤ گی تو میں کیسے رہوں گا، تم میری روح کی روح ہو۔
اس رات روحا سکون سے اپنی گڑیا کو لپٹائے نانا کے پاس سوئی اتنی راتوں میں پہلی رات تھی کہ روحا جہازوں کی گڑگڑاہٹ اور بموں کی ہول ناک آوازوں سے بھی نہیں جاگی۔ نانا حیرت اور پیار سے اسے دیکھتے رہے۔ کبھی اس کی آنکھیں چومیں تو کبھی ہاتھ۔ اسی اثناء ایک زوردار دھماکے کی اور ساتھ چیخ و پکار کی آوازیں آئیں۔
نانا اللہ اکبرکہتے مدد کے لیے باہر بھاگے۔ نضال تو انہیں میدانوں کا راہی تھا، وہ نانا سے پہلے زخمیوں کی مدد کو پہنچ چکا تھا۔ جب دونوں گھر واپس آئے تو ششدر رہ گئے گھر کا صرف وہ حصہ دھماکے سے متاثر ہوا تھا جہاں روحا سو رہی تھی۔ ملبے کے نیچے سے اس کا وہ ہاتھ نظر آ رہا تھا جو کچھ ہی دیر پہلے نانا کے ہاتھوں میں تھا۔
نانا چند لمحوں کے لیے ساکت ہوگئے۔ پھر ان کے منہ سے نکلا میرے رب میرے غم کو میری طاقت بنانا۔ نضال اور وہ ملبہ ہٹانے لگے۔ روحا جنت کی مکین بن چکی تھی، شاید بغیر تکلیف سہے۔ نضال کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر زبان سے بس اتنا نکلا،’’میری پیاری بہن تم سکون سے جنت میں کھیلنا، ہمارا انتظار کرنا، ان شاء اللہ ہم ضرور ملیں گے۔‘‘ نانا نے اسے گود میں بھر کر آنکھیں کھول کر آنکھیں چومیں ہونٹوں، پر پیار کیا۔ ’’میری روح کی روح تم نے رات کو ہی کہا تھا ناں! دیکھو نہیں ہوئی ناں زیادہ تکلیف۔‘‘ یہ کہتے ہوئے آنسو آنکھوں سے نکل کر داڑھی کو تر کرگئے۔
The post ’’مجھے جنت میں جانا ہے۔۔۔یہاں بہت ڈر لگتا ہے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.