(ترکیہ کا سفرنامہ ۔۔۔ ساتواں پڑاؤ)
’’ انقلاب خواہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہوجائے اس کی داستان ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ امید و عمل، بیداری و خودشناسی، جنوں اور لہو کی داستان بھی کہیں پرانی ہوسکتی ہے۔ زمانہ اس کو بار بار دہراتا ہے۔ فرق صرف نام مقام اور وقت کا ہوتا ہے۔‘‘
از انقلاب زمانہ مدار کہ چرخ
ازیں فسانہ دا فسوں ہزار دارو یاد
مختار مسعود (لوح ایام)
لیکن انقلاب صرف انسانوں پر اثرانداز نہیں ہوا، عمارتیں بھی اس کی زد میں آئیں۔ Hagia Sophia کئی بار انقلاب زمانہ کی زد میں آئی۔ کبھی حملہ آوروں کی زد میں آئی، کبھی زلزلہ اور کبھی آگ کی زد میں آگئی مگر اب بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔ اسے پہلے Eastern Roman Emperor justiniano نے 532سے537 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ اور 1204تک یہ Orthodox Churchرہا مگر جب مسلمانوں نے استنبول فتح کیا تو 1453ء میں اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا لیکن اس وقت تک دروازے کے ستونوں میں لگایا ہوا سونا اور قیمتی پتھر چرالیا گیا اور اسے وینس روانہ کردیاگیا۔ اس چرچ کو محمد 2nd نے مسجد میں تبدیل کرنے کے بعد مسجد کو مدرسے میں بھی شامل کیا۔
مسجد کی گائیڈ نے ہمیں وہ جگہ بھی دکھائی جہاں مدرسے کے چانسلر کا آفس تھا اور ہال کے چاروں طرف کلاسز ہوتی تھیں اور چانسلر اپنے آفس سے نگرانی کرتے تھے۔ آیا صوفیہ میں وہ مقامات اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ ستونوں کے درمیان ایک اونچی چوکی پر لکڑی کی بنی ہوئی تقریباً دو فٹ اونچی دیواریں جن کی خوب صورت کٹائی کی گئی تھی۔ استاد کے بیٹھنے کی چوکی سامنے لگی ہوئی تھی۔
مسجد کا حصہ علیحدہ تھا اور اذان دینے کے لیے علیحدہ حصہ تھا۔ یہ سارا انتظام سلطان محمد کی زیرنگرانی انجام پاتا تھا۔ سلطان بھی جمعہ کی نماز وہیں ادا کرتے تھے۔ سلطان محمد کے بعد آنے والے تمام سلطان نے اس مسجد کے انتظام اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی خدمات کی تھیں مگر سلطان عبدالمجید نے 1847ء سے1848ء کے درمیان اس مسجد کی تعمیر اور توسیع پر توجہ کی۔481 سال تک Hagia Sophia مسجد رہی پھر اسے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا۔ 2020ء میں دوبارہ اسے مسجد کا درجہ دے کر عوام اور سیاحوں کے لیے کھول دیاگیا۔
Hagia Sophia ترک اسلامی آرٹ کا ایک اعلیٰ اور خوب صورت نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر میں ہلکا نیلا، سنہرا اور سفید رنگ نمایاں ہے۔ لمبے لمبے بھاری ستون اس کے گنبد تک چلے گئے ہیں۔ سنہری جالیوں والا کتب خانہ بھی موجود ہے۔
مگر سب سے عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے مسجد کا درجہ دیتے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، بی بی مریم کی قد آدم تصاویر جو گنبد پر سنہری نیلے اور سفید رنگوں سے بنائی گئیں تھیں اسے ہٹانے کی بجائے اسے بڑے بڑے پردوں سے ڈھانک دیا گیا تھا۔ انسانی قد سے دگنے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ہماری سب سے پہلی نظر اﷲ، محمد ﷺ ، چاروں خلفائے راشدینؓ کے ناموں پر پڑی جو گنبد میں اسلامی خطاطی میں کندہ کیے گئے تھے۔
گنبد میں دائیں بائیں امام حسنؓ اور امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے نام اسلامی خطاطی میں کندہ کیے گئے تھے اور جو نام محمدﷺ کے ساتھ کندہ تھا وہ خاتون جنت بی بی فاطمہؓ کا نام تھا۔ Hagia Sophiaکا شمار دنیا کی سب سے بڑے گنبد والی مساجد میں ہوتا ہے اور اس کی اونچائی اتنی ہے کہ سر کو بہت اونچا کرکے دیکھنا پڑتا ہے۔ پورے گنبد پر قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں۔ دیواروں اور دروں پر بھی قرآنی آیات کی خطاطی کی گئی تھی جو انسانی آنکھوں کو خیرہ کردینے کو کافی تھی۔
نیچے وہی دبیز سرخ قالین تھے جو استنبول کی ہر چھوٹی بڑی مسجد میں بچھے ہوئے تھے۔ لوگ گروپ کی شکل میں بیٹھے باتیں کررہے تھے اور بچے بھاگ دوڑ کررہے تھے۔ کچھ لوگ نفل ادا کررہے تھے مگر ہر طرف ایک عجیب سا سکون تھا۔ ہم بھی مسجد کا ایک چکر لگاکر ایک ستون سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے اور مسجد کی رونق دیکھنے لگے، ابھی نماز میں دیر تھی۔ عزیز نے اپنا بیک سر کے نیچے رکھا اور تھوڑی دیر میں اسے نیند آگئی۔
وہ بے خبر سوگیا۔ ایک عزیز کا ہم عمر لڑکا اپنا لیپ ٹاپ کھولے کام کررہا تھا۔ ایک نوعمر لڑکی اپنی کتابیں کھولے نوٹس بنارہی تھی۔ جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں سے قریب چند سیڑھیاں تھیں جہاں سے مسجد سے ملحقہ راہ داری شروع ہوتی تھی جہاں ایک روسٹرم اور ٹیبل رکھی تھی۔ روسٹرم پر ایک گائیڈ آس پاس کھڑے لوگوں کو مسجد کے متعلق بتا رہی تھی۔ وہاں میز پر مسجد کے متعلق کتابچے رکھے تھے۔
وہ انگریزی میں سب کو مسجد کے متعلق بتا رہی تھی اور کتابچہ بھی انگریزی میں تھا۔ جو اس نے سب کو تقسیم کردیا تھا۔ کیا شان دار اور عظیم مسجد تھی۔ کیا اس مسجد کو بنانے والے، اس پر خطاطی کرنے والے مصور تھے۔ میں اپنا کتابچہ لے کر ستون کے ساتھ ہی آکر بیٹھ گئی۔ عزیز ابھی تک بے خبر سورہا تھا۔ ہم جہاں تھے وہاں اونچے دریچوں سے سورج کی روشنی چھن چھن کر آرہی تھی جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ ابھی مغرب ہونے میں دیر ہے۔
عزیز کے برابر جو لڑکا بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کررہا تھا اس نے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا، اسے وہیں چھوڑ کر اٹھا اور تیزی سے باہر کی سمت جانے لگا۔ اس لڑکی نے بھی اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنی شروع کردیں۔ مسجد میں ہلکی سی ہلچل مچ گئی تھی۔
مولوی صاحب محراب کی سمت جانے والی سیڑھیاں چڑھتے نظر آئے۔ یعنی نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ میں نے عزیز کا کاندھا ہلایا تاکہ وہ بھی وضو کر آئے۔
جتنی دیر میں عزیز وضو کرکے آیا اتنی دیر میں اذان ختم ہوچکی تھی اور محراب پر ایک مولوی صاحب امامت کے لیے کھڑے تھے، پیچھے کوئی پچاس کے قریب نمازی صفیں باندھے کھڑے تھے۔ باقی نمازی کہاں تھے مجھے تو کہیں نماز ہوتی نظر نہیں آرہی تھی جو جہاں موجود تھا اس نے وہیں نیت باندھ لی تھی کیا عورت کیا مرد کوئی تفریق نہیں تھی۔
لیپ ٹاپ والا لڑکا بھی واپس نہیں آیا تھا۔ لڑکی نے بھی وہیں نیت باندھ لی تھی۔ نماز ختم ہوتے ہی عزیز آگیا ساتھ اس کے وہی لیپ ٹاپ والا لڑکا تھا۔ عزیز نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکا ازبک ہے اور اسلامی آرکیٹکچر پر ریسرچ کررہا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اکثر Hagia Sophia آجاتا ہے اور یہاں بیٹھ کر کام کرتا ہے۔ اسے یہاں آکر بہت سکون ملتا ہے۔ عزیز بھی کہنے لگا وہ کبھی اتنی پرسکون اور گہری نیند نہیں سویا جتنی آج سویا تھا۔ لڑکا اور عزیز ازبکستان اور پاکستان کی باتیں کرنے لگے۔ لڑکی بھی نماز سے فارغ ہوکر ہمارے ساتھ شامل ہوگئی تھی۔ لڑکی کا تعلق شام سے تھا اور وہ استنبول یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔
کسی نے بہت زور سے سلام کیا ’’وعلیکم السلام‘‘ عزیز نے اٹھ کر مصافحہ کیا۔ یہ اردن سے تعلق رکھنے والے پروفیسر تھے جو ہمارے ساتھ ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بھانجی بھی تھی جو ترکی کی کسی یونیورسٹی سے گریجویشن کررہی تھی۔ عزیز کی ان سے ہوٹل میں ملاقات ہوچکی تھی۔ وہ لوگ بھی بے تکلفی سے آکر ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔
پاکستان، شام، اردن، ازبکستان اسلامی دنیا کے ستارے جو استنبول کی خوب صورت مسجد میں اکھٹے تھے اوپر Hagia Sophia کے فانوس کی روشنی، پوری آیا صوفیہ روشنی میں نہائی ہوئی تھی اور اس کے وسیع ہال میں اسلامی دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے لوگ بے تکلفی سے محوگفتگو تھے۔ یہ کیسا رشتہ تھا جس میں ہم سب بندھے ہوئے تھے کہ اجنبیت کا احساس بھی نہیں ہورہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب ہارون یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ انہوں نے امریکا سے PHDکی ڈگری لی ہوئی تھی، اس لیے ان کی گفتگو تعلیم کے متعلق تھی۔ دونوں لڑکیاں اور میں خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے گھڑی دیکھی اور کہنے لگے:’’میں مغرب کی نماز کے فوری بعد کھانا کھالیتا ہوں۔ آپ سب کو میری طرف سے دعوت ہے۔
میں آپ سب سے بڑا ہوں اس لیے انکار نہیں سننا چاہتا۔‘‘ ان کی بھانجی نے عربی زبان میں کچھ کہا وہ کہنے لگے یہ کہہ رہی ہے ہم سب مصری ریسٹورینٹ چلتے ہیں جہاں ہم نے کل کھانا کھایا تھا۔ اس کا کھانا بہت مزے کا ہوتا ہے اور یہاں سے پیدل کا راستہ ہے۔ میں نے کہا جی سر اس تکلف کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے اس طرح جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ ’’چلیے، ہم سب ساتھ کھانا کھانے جارہے ہیں یہ ایک بھائی کی اپنی بہن کے لیے دعوت ہے۔ کیا بہن بھائی کی دعوت سے انکار کرتی ہے؟‘‘ اب تو ان کی بات سے انکار ممکن ہی نہیں تھا۔ جب ہم مصری ریسٹورنٹ پہنچے تو وہاں کے عملے نے ڈاکٹر صاحب کا بہت پرتپاک استقبال کیا۔ منیجر خود آرڈر لینے آگیا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے مہمانوں کو لے کر اکثر یہاں آتے رہتے ہیں۔
ان کی بھانجی عایلا نے ہمیں بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی کوئی اولاد نہیں ہے اور اسے اور اس کے دو بھائیوں کو ڈاکٹر صاحب نے ہی پڑھایا ہے اور اپنے گھر میں رکھا ہے کیوںکہ جب وہ لوگ چھوٹے تھے تو والد کا انتقال ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب اپنے طالب علموں کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے ہیں اور ان کی کفالت بھی کرتے ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب نے ازبک لڑکے سے پوچھا کہ تمہارا کام کتنے دن میں ختم ہوجائے گا تو اس نے بتایا کہ تین مہینے باقی ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے اسے مزید تعلیم کے لیے اردن آنے کی پیشکش کی تاکہ وہ یکسوئی سے مزید تعلیم حاصل کرسکے۔ انہوں نے اس لڑکی سے بھی کہا کہ وہ میرا رابطہ نمبر رکھ لے اور کبھی بھی ضرورت ہو تو وہ مجھے فون کرسکتی ہے۔
کبھی کبھی ایسے اتفاقات ہوجاتے ہیں جو راہ چلتے ملنے والوں کے لیے رحمت بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو کھانے کے بعد کہیں اور جانا تھا ہم ہوٹل آگئے۔ صبح ناشتے پر عایلا سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کمرے میں تیار ہورہے تھے۔ ہم ساتھ ہی ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے تو عایلا نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ وزیرتعلیم بھی رہ چکے ہیں لیکن پھر انہوں نے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیوںکہ ان کا اپنے طالب علموں سے رابطہ ختم ہورہا تھا۔ دل ہی دل میں پھر اپنے وزیروں اور بڑے عہدے داروں سے موازنہ کرنے لگی جو اعلیٰ عہدوں کے لیے تمام حدود کراس کرنے کے لیے تیار تھے۔
میرے دل میں پروفیسر صاحب کا احترام اور بڑھ گیا۔ ان لوگوں کی آج روانگی تھی۔ ڈاکٹر صاحب عزیز کے تعلیمی کیریئر اور ریسرچ کے کام سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے اپنا کارڈ عزیز کو دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو سیاحت کا شوق ہے تو ایک بار اردن ضرور آئیے گا۔ اردن ایک قدیم ملک ہے اور پاکستان اور اردن کی تو رشتے داری ہے، کیوںکہ پاکستان کی بیٹی شہزادی ثروت ہمارے شہزادے حسن بن طلال کی بیوی ہے۔
ہمیں بھی وہ شہزادے اور شہزادی کی محبت کی داستان یاد آگئی جب ایک عرب شہزادہ پاکستانی لڑکی کو بیاہنے پاکستان آیا تھا۔ ہماری عمر کے لوگوں کو تو یاد ہوگا مگر نئی نسل کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور عایلا کی آج کی فلائٹ تھی۔ ہم نے انہیں خدا حافظ کہا اور وہیں ریسپشن کے سامنے بچھے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ عبدالعزیز کی دوستی ایک کالی بلی سے ہوگئی تھی، جسے روزانہ عزیز ایک مکھن لگا ٹوسٹ کا ٹکڑا دیتا تھا۔ وہ بے تکلفی سے اس کی گود میں آکر بیٹھ گئی تھی۔ ہم ڈاکٹر صاحب اور عایلا کو جاتا دیکھ رہے تھے جو اپنے اپنے ہینڈ کیری گھسیٹتے ہوئے پہاڑی کی اونچائی والی سڑک سے اتر رہے تھے۔
انہوں نے ایک بار مڑکر دیکھا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے نظروں سے غائب ہوگئے۔ ان کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی وہی ازبک لڑکا بھاگتا ہوا فاتح کی پچھلی والی سڑک سے ہوٹل آگیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب کے جانے کا سن کر اداسی سے بولا،’’اردن ایک خوش حال ملک ہے اگر میرا وہاں نوکری اور پڑھائی کا انتظام ہوجاتا تو میں اپنی ماں اور باپ کو حج کروا سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا میں صبح ان کو ہوٹل میں آکر ڈاکومنٹ دے دوں تو وہ میرا کام کروادیں گے۔‘‘ وہ مایوسی سے صوفے پر ڈھ گیا۔
اس وقت ایک ٹیکسی آکر رکی اور ٹیکسی سے ڈاکٹر صاحب اترے اور ازبک سے معذرت کرتے ہوئے بولے ’’میں نے کافی دیر انتظار کیا تھا ابھی جاتے وقت میں نے سوچا شاید تم آگئے ہوگے۔‘‘
ازبک لڑکے نے بغیر کہے سنے ڈاکومنٹ کا لفافہ انہیں پکڑا دیا اور ڈاکٹر صاحب ’’انشاء اﷲ اور خدا حافظ کرکے ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ ازبک لڑکے کی آنکھوں میں نمی تھی۔
مجھے امید تھی کہ جو شخص کسی راہ میں ملنے والے اجنبی کی مدد کرنے کا وعدے کرے تو یقیناً اس کا کام بھی کروادے گا۔ میرے لیے تو یہ حیرت زدہ کردینے والا واقعہ تھا۔ ہم تو صرف دعا کرسکتے ہیں شاید اس ازبک لڑکے کا مقصد بھی نیک تھا اور اس کے ماں باپ کی دعائیں بھی اس کے ساتھ تھیں اور دعائیں رائیگاں نہیں جاتی۔
یہ ہمارا ساتواں پڑاؤ تھا۔ استنبول میں سورج نکلا ہوا تھا اور بڑی آب و تاب سے چمک رہا تھا مگر موسم گرم نہیں تھا۔ ہمیں آج کے دن کا پروگرام ترتیب دینا تھا جو استنبول کے مشرقی حصے تقسیم اسکوائر اور ڈول گباچی جانے کا تھا۔
The post شہر دلوں میں بس جاتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.