پیارے عوام!
ہماری جماعت ’’خواہ مخواہ پولیٹیکل پارٹی‘‘ آپ کی خدمت میں اپنا انتخابی منشور پیش کر رہی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیا نام ہوا، سو منشور پیش کرنے سے پہلے ہم اپنی جماعت کے نام کی وجہ تسمیہ عرض کیے دیتے ہیں۔
دراصل ہماری جماعت بنی تو اس کا نام رکھا گیا ’’بلاوجہ پولیٹیکل پارٹی‘‘ اور یہ نام بہت سوچ سمجھ کر یوں رکھا گیا کہ نہ ہماری جماعت میں کوئی سرمایہ دار تھا نہ جاگیردار، ہمیں میں سے کوئی کسی سیاسی خانوادے سے بھی تعلق نہیں رکھتا، ہم میں جھوٹے دعوے کرنے کی بھی صلاحیت نہیں، تو ہم بلاوجہ کے سیاست داں اور ہماری جماعت بلاوجہ کی پارٹی ہی ہوئی ناں! اب آپ کہیں کہ بلاوجہ پارٹی کا نام کیوں تبدیل کیا۔
یہ ہم نے بلاوجہ نہیں کیا، ہوا یوں کہ ’’بَلّا‘‘ چھننے کے آثار نمایاں ہوئے تو ہم نے سوچا کہیں ’’طویلے کی بلا بندر کے سر‘‘ کے مصداق، ہماری جماعت کا نام ’’بَلّا۔۔۔وجہ‘‘ سمجھتے ہوئے ہمیں بلاسبب انتخابات میں شرکت سے روک نہ دیا جائے، چناں چہ ہم نے اپنا نام بدل کر ’’خواہ مخواہ پولیٹیکل پارٹی‘‘ رکھ لیا۔
اب آتے ہیں منشور کی طرف۔
عزیز پاکستانیو! ہم نے سوچا کہ اپنے منشور کی بنیاد خالص عوامی ضروریات، مطالبات اور رجحانات پر رکھی جائے، پھر عوام کی ضرورتوں، حاجتوں اور مطالبوں سے آگاہی کے لیے ہم نے دیواروں پر لکھی تحریروں اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا، اور ان دو ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں اپنی جماعت کا انتخابی منشور مرتب کیا ہے۔ تو ملاحظہ کیجیے:
پاکستانیوں کا کا عشروں سے مطالبہ ہے کہ پتھر دل محبوب ان کے قدموں میں لایا جائے۔ وہ عاملوں اور ’’پروفیسروں‘‘ کے قدموں میں لوٹ لوٹ گئے مگر لُٹنے کے سوا کچھ نہ پایا اور محبوب قدموں میں تو کجا محلے میں بھی نہ آیا۔ اسی دیرینہ مطالبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ حکومت بنانے کے چھے ماہ کے اندر ہر پاکستانی کا محبوب اس کے قدموں میں لاکر رکھ دیں گے۔ اس مقصد کے لیے ایک علیحدہ ’’وزارتِ محبوب پکڑ‘‘ قائم کی جائے گی، جس کا مقصد حسب مطالبہ محبوب پکڑ کر درخواست گزار کے قدموں میں لاڈالنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں کچھ زیادہ نہیں کرنا ہوگا۔
ہمارے ہاں لاپتا کرنے کے انتظامات تو موجود ہیں ہی، بس انھیں محبوبوں کی طرف مرکوز کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سنگ دل محبوب کو رقیق القلب بنانے کے لیے ایک علیحدہ محکمہ قائم کیا جائے گا، جو محبوبوں کو عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے سُناسُنا کر اور رونے میں مہارت رکھنے والے سیاست دانوں کی دھاڑیں مارتی تقاریر کے ذریعے رُلارُلا کر انھیں اتنا نرم دل کردیا جائے گا کہ وہ کسی کوشش کے بغیر ازخود طالب کے قدموں میں آبیٹھیں گے اور کہیں گے،’’ہور کوئی حکم؟‘‘ بس دعا کریں کہ ہماری جماعت ایک بار ’’محبوب‘‘ کے ’’بوٹوں‘‘ میں پہنچ جائے، پھر تو سارا ملک ہمارے قدموں میں ہوگا اور آپ کا محبوب آپ کے قدموں میں۔
ہم عہد کرتے ہیں کہ مردانہ کم زوری کا شرطیہ علاج سرکاری خرچے پر کیا جائے گا۔ اس ’’مرض‘‘ کے پھیلاؤ کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی طرح ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی، جو گھر گھر جاکر پوچھیں گی ’’آپ کے ہاں کوئی بڑا ہے؟‘‘
ہماری جماعت ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ جیسی ہدایات کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ کیا ہم نے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ہمیں یہ بنیادی آزادی بھی حاصل نہ ہو؟ جہاں جہاں یہ عبارت لکھی ہے وہاں وہاں ہماری حکومت لکھوادے گی ’’آئیے آئیے۔۔۔پیشاب کیجیے‘‘، ورنہ کم ازکم ہم اتنا ضرور کریں گے کہ نقشے کی مدد سے ان تمام مقامات کی نشان دہی کردی جائے جہاں پیشاب کرنا منع نہیں۔
ہم نے طے کیا ہے کہ ہماری حکومت پوشیدہ امراض کو سامنے لانے کے لیے حکمت عملی بنائے گی۔ حیرت ہے کہ ملک کی ہر دیوار پر بڑا بڑا پوشیدہ امراض لکھا ہے مگر پھر بھی کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان کی کھوج لگائے، آخر پوشیدہ امراض ہی ہیں گم شدہ افراد تو نہیں کہ مل ہی نہ پائیں۔ ہم ایک ایجنسی بنائیں گے، جس میں روپوش سیاسی کارکنوں کو ڈھونڈ نکالنے میں مہارت رکھنے والے اہل کار ڈھونڈ ڈھونڈ کر شامل کیے جائیں گے، اور پوشیدہ امراض کھوجنے کا فریضہ ان کے سپرد کیا جائے گا۔
دیواروں پر ’’تین مہینے میں روانی سے انگلش بولیے‘‘ جیسی عبارتیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری قوم انگریزی بولنے وہ بھی روانی سے بولنے کے لیے بے تاب ہے، یہ بے تابی دیکھتے ہوئے ہم نے سوچا ہے کہ آسان قرضوں کی طرح آسان انگریزی متعارف کرائیں گے اور قانون بنادیں گے کہ اردو کے جس جملے میں ’’شِٹ‘‘ (Shit)،’’آؤچ‘‘ (Ouch)، ’’او نو،‘‘ (Oh no)’’یو نو‘‘ (You know) جیسا ایک لفظ بھی آجائے تو اسے انگریزی سمجھا جائے۔
فیس بک پر پاکستانیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ان کی پوسٹوں کو ’’لائیکس‘‘ ملنے کی راہ میں شیطان لعین رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ شیطان کسی کو بھی کوئی پوسٹ لائیک کرنے سے روک نہ پائے گا۔ ہماری حکومت سمندر میں شارکوں سے رابطہ کرکے کوئی ایسا نظام وضع کرے گی کہ صرف شیطان کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل ہوجائیں اور وہ مستقل آف لائن رہے۔ شیطان کو لائیک کرنے میں رکاوٹ بننے سے روکنے کے لیے ہمارا دوسرا مجوزہ منصوبہ یہ ہے کہ ہم اس کا یوٹیوب چینل کُھلوادیں گے، جس کے بعد وہ ’’سبکرائب‘‘ کرنے کی گزارشوں میں یوں مصروف ہوجائے گا کہ کسی اور طرف دھیان ہی نہیں دے پائے گا۔
نام ور شخصیات کی شادی اور طلاق جیسے معاملات پر پاکستانیوں کی رائے زنی بتاتی ہے کہ ان کا بنیادی مسئلہ مہنگائی نہیں دوسروں کی سگائی ہے۔ ہم وطنوں کے جذبات واحساسات کا خیال رکھتے ہوئے ہم تمام شخصیات کو پابند کردیں گے کہ نکاح اور علیحدگی کا فیصلہ کرنے سے پہلے وہ عوام سے رائے اور مشورہ لیں۔ وہ اس طرح کے اعلانات کے ذریعے عوامی آرا بلکہ احکامات سے آگاہ ہوسکتے ہیں، ’’فدوی، مشہور اداکار چمکیلا تارہ، اپنی یکے بعد دیگرے دونوں بیگمات قیامت آراء اور حشرساماں خاتون سے علیحدگی کے بعد، گلوکار میاں بے سُرے اور ہدایت کار بے تُکے بغلول کی سابق اہلیہ ماڈل بھڑکیلی بیگم کو اپنے عقد میں لارہا ہے۔ اگر آپ میں کسی کو اس رشتے پر کوئی اعتراض ہو یا آپ راضی ہوں تو سوشل میڈیا پر پوسٹوں کا طوفان لاکر مطلع فرمائیے۔ رشتے کے حق اور مخالفت میں آنے والی پوسٹیں شمار کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔‘‘
سماجی ویب سائٹس پر جس طرح اہل وطن اپنی روز کی مصروفیات کا بہ تصویر احوال پیش کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی اِن مصروفیتوں کے بارے میں جاننا پوری قوم کے لیے کتنا اہم ہے۔ ہماری جماعت حکومت بناکر سرکاری ٹی وی اور تمام نجی ٹی وی چینلوں کو پابند کردے گی کہ وہ عالمی اور ملکی خبروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر لازمی سمجھ کر سامنے لائی جانے والی ان سرگرمیوں کو بھی اپنے خبرناموں اور بریکنگ نیوز کا حصہ بنائیں۔
ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری حکومت میں ٹی وی پر آپ اس قسم کی خبریں ہر روز دیکھیں گے،’’بابو بھائی نے آج معہ اہل وعیال ہوٹل جاکر نہاری کھائی‘‘،’’اللہ دِتا جَٹ کے گھر عرصے بعد ٹنڈوں کا سالن پَکّا‘‘،’’خیرالنساء بیگم نے ایک ٹیوب چینل سے ترکیب جان کر پہلی بار آلو کی بُھجیا کام یابی سے بنالی، گھر میں عید کا سماں‘‘،’’لاڈلی شہزادی کے انگوٹھے اور میز میں تصادم، انگوٹھا زخمی، جس کی تصویر آپ اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں، واقعے کی تفصیلات کے لیے ہم اپنے نمائندے اچھن فارغ کے پاس چلتے ہیں۔۔۔جی اچھن! کیا ہوا لاڈلی شہزادی کے انگوٹھے کے ساتھ۔۔۔۔جی میں انگوٹھے کے پاس ہی موجود ہیں، یہ ان کا انگوٹھا ہے اور یہ میرا منہ ہے۔ لاڈلی شہزادی بتاتی ہیں کہ وہ فیس بک پر ایک گھٹیا سا لطیفہ پڑھتی ہوئی ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف جارہی تھیں کہ منحوس میز راستے میں آگئی، واضح رہے کہ لطیفے کے گھٹیا ہونے کا احساس انھیں چوٹ لگنے کے بعد ہوا۔۔۔۔۔‘‘
تو پیارے پاکستانیو! یہ ہے ہمارا منشور۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی عوام کی امنگوں کے عین مطابق بنایا جانے والا یہ منشور آپ کو منظور ہوگا اور آپ ووٹ دے کر ہمیں مسرور کردیں گے۔
The post ’’خواہ مخواہ پولیٹیکل پارٹی‘‘ کا منشور appeared first on ایکسپریس اردو.