(ترکی کا سفرنامہ ۔۔۔ دوسرا پڑاؤ)
ترکیہ مشرق اور مغرب دو براعظموں میں واقع ہے اور اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ملک ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ بازنطینی سلطنت اور رومن سلطنت کے اسلام کی آمد سے پہلے زیرتسلط رہا تھا۔ وہ آثار بھی ترکی میں موجود ہیں۔
ایئرپورٹ ایک دنیا ہے۔۔۔میں نے اپنے پہلے پڑاؤ میں لکھا تھا، پہلا پڑاؤ جہاں پر ختم کیا تھا وہاں سے دوسرے پڑاؤ کی ابتدا کروں گی، مگر زندگی میں کچھ حتمی نہیں ہوتا ہر دم بدلتا رہتا ہے۔ نہ ہمارا کہا نہ ہمارا سوچا ہوا۔ کہیں نہ کہیں کوئی ایسا موڑ آ جاتا ہے کہ جو پروگرام ہم نے بنایا ہوتا ہے وہ بدلنا پڑتا ہے، اسی کا نام زندگی ہے۔
سعید نے راستے میں تو کچھ نہیں بتایا، سارے راستے لاہور کے اور اسلام آباد کے موسم کراچی کے حالات پر یہ گفتگو ہوتی رہی، ہم سمجھے کہ سب نارمل ہے۔
گھر پہنچتے ہی بتایا کہ بھائی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے انگلینڈ جانا ہوگا، آپ کے جاتے ہی میں نے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا تھا اور کل میرا ویزہ آگیا ہے۔ مجھے جلد سے جلد نکلنا ہوگا۔
میں تو اسپین جانا چاہ رہا تھا، چھوٹا پھر منمنایا، میں نے کہا بیٹا! وقت موقع دیکھا کرو، پھر بات کیا کرو۔ سعید کا بھائی کے پاس جانا ضروری ہے۔ وہ وہاں اکیلے ہیں، نہ جانے کیسی طبیعت ہوگی کہ بھائی کو بلایا ہے اور تمہارے ابا پانچ سال بعد بھائی کے پاس جا رہے ہیں۔
خیر میرے جیٹھ کا اکیلاپن ایک علیحدہ کہانی ہے، مگر ہماری تہذیبی روایات کی ایک خوب صورتی یہ بھی ہے کہ ہم آخر وقت تک اپنے خاندانوں سے جڑے رہتے ہیں مگر آسمان پر پرواز کرتے پرندے اگر ایک بار اپنی ڈار سے بچھڑ جائیں تو وہ فضا کی وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں، پھر کبھی نہیں ملتے یا تو وہ شکار کر لیے جاتے ہیں یا پھر بھوک پیاس اور اکیلے پن سے مر جاتے ہیں۔ خیر یہ بھی ڈار سے بچھڑی کونج کی کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔
خیر ابا تو بھائی سے ملنے انگلینڈ سدھارے اور بیٹا کمپیوٹر کھول کر بیٹھ گیا۔ اسپین کے سفر کی معلومات اور قابل دید مقامات کی تفصیل جمع کرنے کے لیے۔ بہرحال مجھے بھی تفصیلات سے آگاہ کرنا ضروری تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ ابا یا اماں کے بغیر جانا ممکن نہیں ہے۔ پندرہ دنوں میں ہم اسپین کے مطابق اتنا تو جان چکے تھے کہ اگر نہ بھی جاتے تو سیر تو مکمل ہوچکی تھی۔ ساتھ اسپینش زبان بھی سیکھی جا رہی تھی۔
بہرحال مجھے بھی ایسا لگ رہا تھا کہ اگر جسے انگریزی آتی ہے اس کے لیے اسپینش زبان مشکل نہیں ہے کیوں کہ رسم الخط بھی انگریزی ہے مگر اب کچھ نیا سیکھنے کی جستجو نہیں ہے، پرانا ہی کافی ہے۔
سعیدہ جو اس کی سب سے بڑی کزن سسٹر ہے اور جرمنی کے شہر ڈوسل ڈورف میں رہتی ہے، اس کے ساتھ خط و کتابت یعنی ای میل اور واٹس ایپ پر معلومات کا تبادلہ بھی ہوتا رہا تھا، کیوں کہ جرمن سیاحت کے بہت شوقین ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی اسپین جاچکی ہے۔ مگر عبدالعزیز نے جب اس سے اسپین جانے کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگی۔ میرے پاس ڈوسل ڈورف آجاؤ، کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس تو تمہارے ابا اماں اکیلے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اسپین اکیلے جانا مشکل ہے۔
مگر اس وقت تک عبدالعزیز کے سر پر اسپین کا بھوت سوار تھا، جو فی الحال اترنا ناممکن تھا۔ اسے ستمبر میں دو ہفتے کی چھٹی ملنی تھی اور اس سے پہلے ہوم ورک مکمل کرنا تھا۔ اسپین جانے کے لیے ویزہ اپلائی کرنا تھا۔ انھی دنوں سعیدہ کے شوہر کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ ویانا چلی گئی، عزیز کو بھی وہ ویانا بلا رہی تھی۔
مگر عزیز کا موڈ ویانا جانے کا نہیں تھا۔ ایک دن عزیز نے کچھ تصویریں مجھے دکھاتے ہوئے پوچھا: اماں بوجھیں یہ کون سا ملک ہے؟
میں نے کہا، یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے، کمال اتاترک والا اور طیب اردگان والا ہمارا برادر ملک ترکی۔
اماں مجھے تو یہ اسپین سے زیادہ خوب صورت لگ رہا ہے۔
جی مجھے معلوم ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کھانے کی کوئی پرابلم نہیں ہوگی۔ میرا مسئلہ خود بہ خود حل ہو رہا تھا۔ یعنی ہواؤں کا رخ ترکی کی طرف مڑ گیا تھا۔
آپ کا دل ترکی چلنے کا ہو رہا ہے تو پروگرام فائنل کرتے ہیں۔ عزیز کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی وہ خود بھی بہت ایکسائیٹڈ ہے۔
میں نے فون پر سعیدہ کو اطلاع دی کہ اب ہم ترکی جائیں گے۔
وہ کہنے لگے، آپ ایسا کریں کہ عزیز کو پاسپورٹ دے کر ٹریول ایجنسی کے پاس بھجوا دیں، وہ ویزہ اور ٹکٹ کے ساتھ تمام معلومات دے دیں گے اور گائیڈ بھی کردیں گے۔ میں پندرہ دن بعد آؤں گا، جب تک آپ لوگوں کا ویزہ آ چکا ہوگا۔
واقعی ریحان ولی نے عزیز کو بہت بہترین طریقے سے گائیڈ کیا اور عزیز کو اس بات کی شاباشی دی کہ آپ نے اپنے والدین کی بات مان کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کی اماں کو تو یورپ کا ویزہ ملنا مشکل نہیں تھا کیوں کہ وہ پہلے سفر کرچکی ہیں مگر وہ نوجوان اور اکیلے لڑکوں کو جو پہلی بار یورپ کا سفر کرنا چاہتے ہیں، انھیں آج کل ویزہ دینے میں پرابلم کر رہے ہیں اور اکثر ویزے تو ریجیکٹ ہو رہے ہیں، اگر آپ ایک بار ریجیکٹ ہو جائیں تو آیندہ کے لیے کافی مشکلوں سے ویزہ ملے گا۔
آیندہ اگر کسی یورپی ملکوں کے سفر کا ارادہ ہو تو اپنے والدین کے ساتھ اپلائی کیجیے گا یا پھر اپنی بیوی کے ساتھ ویزے کے لیے اپلائی کیجیے گا۔
اگر آپ کا ارادہ کسی بھی ملک جانے کا ہے تو اس کے لیے نیٹ پر بہت سے ایجنٹ اور کمپنیاں موجود ہیں جو دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم کسی بھی ملک کا ویزہ بہ آسانی دلوا سکتے ہیں، مگر ایک تگڑی فیس کے عوض صرف آپ کا فارم بھرتے ہیں۔
فارم آپ کو خود داخل کرنا ہوتا ہے۔ خود ہی ویزہ وصول کیا جاتا ہے۔ ریحان ولی نے پہلے ہی عبدالعزیز کو بتا دیا تھا کہ پاکستان (کراچی) میں ایک کمپنی ہے جسے ترکی کی حکومت کی طرف سے ویزے کے لیے لائسنس دیا گیا ہے اور آپ کو ترکی کے سفارت خانے جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی وہ بھی ایک مناسب فیس وصول کریں گے۔
ہمیں کوئی بھی پرابلم نہیں ہوئی ویزہ بھی دسویں دن آگیا وہ بھی تین مہینے کا تھا، ریحان ولی نے اتحاد ایئرلائن کا مناسب قیمت کا ٹکٹ بھی بنا دیا تھا۔ اتحاد ابوظہبی کی حکومت کی ایئرلائن ہے۔ ٹریول ایجنسی نے عبدالعزیز کو ایسا ٹکٹ بناکر دیا کہ جمعہ کی شام روانگی ہو تو جو چھٹیاں پیر سے شروع ہو رہی ہیں اس میں ہفتہ اور اتوار بھی شامل ہو جائیں۔ ہم سفر میں کبھی بہت زیادہ سامان لے کر نہیں جاتے۔
ایک ہینڈ کیری، دو تین جوڑے کپڑے، ایک ایکسٹرا چپل یا جوتا، کیوں کہ واپسی پر شاپنگ، جو ہمیشہ گھر والوں یا دوستوں کے لیے ہوتی ہے، اس سے بیگ بھر جاتے ہیں کیوں کہ ستمبر کے مہینے میں ترکی میں موسم ٹھنڈا نہیں ہوتا، شام کے وقت ایک سوئیٹر شال کی سردی ہوتی ہے اور بارش کا امکان بھی نہیں ہوتا ہے۔ میرے بیٹے نے نیٹ پر دیکھ کر موسم کا اندازہ کر لیا تھا جو بالکل صحیح ثابت ہوا۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کا استعمال اگر بہتر انداز میں کیا جائے تو یہ بہت سودمند ثابت ہوتے ہیں ورنہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ہماری فلائٹ کا وقت تھا رات کے ساڑھے تین بجے کا اور ہمیں تین گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچنا ضروری تھا مگر ایئرپورٹ پہنچ کر ایسا لگا کہ پورا شہر ایئرپورٹ امڈ آیا ہے، وہ جو کہتے ہیں کاندھے سے کاندھا اور کھوے سے کھوا چھلنا وہی حال ہو رہا تھا۔ ایک ایک کاؤنٹر پر بے پناہ رش تھا، کئی کئی اداروں کے لوگ ایک کاؤنٹر پر موجود تھے، معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا کہ کون سا ایئرپورٹ کا عملہ ہے کون سا کسی ادارے کا عملہ ہے۔
میں نے عبدالعزیز کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بالکل اپنے قریب رکھا کیوں کہ نوجوانوں کی چیکنگ بہت سختی سے کی جا رہی تھی۔ کچھ نوجوان لڑکوں کو ایک طرف کھڑا کردیا تھا، ہم نے اپنے اپنے ہینڈ کیری بھی لاؤنج کرا دیے تھے کیوں کہ ابوظبی ایئرپورٹ پر ہمارا پانچ گھنٹے کا Stay تھا۔
ہمارے ہاتھوں میں صرف ہمارے پاسپورٹ اور بورڈنگ پاس تھے جو ایک چھوٹے سے بیگ میں تھے جو Travel Company والوں نے دیے تھے اور عزیز کے پاس ٹریولز کے استعمال کا بیگ تھا جو اس نے شولڈر سے باندھا ہوا تھا۔ کاؤنٹر پر ایک انچارج اور دو افسر اور ایک لیڈی افسر تھی۔ انچارج تو یقینا ریٹائرمنٹ کے بعد ایکسٹینشن پر تھیں انھوں نے ہماری طرف دیکھے بغیر ہاتھ بڑھا دیا۔
پاسپورٹ دو: میں نے اپنا اور عبدالعزیز کا پاسپورٹ ساتھ پکڑا دیا۔
بی بی! دوسرا پاسپورٹ کس کا ہے؟ انھوں نے مجھے گھورا۔ میرے بیٹے کا ہے۔ یہ میرے ساتھ ہے۔ میں نے عبدالعزیز کو اور قریب کرلیا اور پریشان صورت نوجوانوں پر نظر ڈالی جن کو نہ جانے کیوں روکا ہوا تھا۔
انچارج نے پاسپورٹ کو ایک نظر دیکھا، ادھر آجاؤ کیمرے کے سامنے، میں نے بیٹے کو آگے کردیا۔ انچارج نے کارروائی مکمل کرکے پاسپورٹ ہمیں واپس کردیے۔ یہ ہمارے عدم تحفظ کا احساس تھا جو شاید میرے ہی نہیں ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ کاش ہمارا اعتماد پھر سے اپنے اداروں پر بحال ہوجائے۔
9/11 کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے بہت سے ملکوں نے خود کو سنبھال لیا ہے مگر ہمارے حکم راں قوم کو اس تبدیلی کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور قوم اور ذہنی، تہذیبی انحطاط کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے جب ہم سفر کرتے تھے تو ایئرپورٹ کا عملہ خوش اخلاقی اور تہذیب کی مثال سمجھا جاتا تھا مگر اب تو ایسا لگتا ہے کہ اگر ان کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا پکڑا دیا جائے تو وہ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکاتے ہوئے جہاں چاہیں لے جائیں۔
ہم جب کلیئرینس ملنے کے بعد ڈیوٹی فری کے سامنے آ کر کھڑے ہوئے تو عزیز نے کہا، اماں آپ بھی حد کرتی ہیں، بچوں کی طرح میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ سب وہاں کیا سوچ رہے ہوں گے۔
میں نے کہا انھیں سوچنے دو، یہ سوچو کہ میں ان کے لیے کیا سوچ رہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی کہ جلد سے جلد ہم ان کے پاس سے چلے جائیں نہ جانے کب ان کے مزاج برہم ہو جائیں۔ یہ احساس عدم تحفظ تب تک برقرار رہا جب تک ہم جہاز میں نہیں بیٹھ گئے۔
یہ ایک بڑا جہاز تھا جو مسافروں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی، شاید سب مسافر ابوظبی جانے والے تھے۔ میری نظر ان لڑکوں پر پڑی جو انچارج صاحبہ نے ایک طرف کھڑے کیے ہوئے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا، جو پریشانی وہاں ان کے چہرے پر تھی اب وہ مطمئن نظر آ رہے تھے۔
یہ ابوظبی کی پرواز تھی، جس کا سارا عملہ عرب تھا اور نہایت تہذیب یافتہ اور خوب صورت ایئرہوسٹس تھیں، لیکن کھٹاکھٹ وہی جو پرواز سے پہلے سامان رکھنے اور باکس بند ہونے کی ہوتی ہے۔ سارے اعلانات عربی میں ہوئے جن کا ترجمہ
انگریزی میں کیا گیا، ہماری اردو کسی گنتی نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ حالاں کہ ابوظبی جانے والے سارے مسافر اردو بولنے اور سمجھنے والے تھے۔
ہماری تیسری سیٹ پر جو لڑکا بیٹھا ہوا تھا اس کے دو ساتھی درمیانی سیٹ پر موجود تھے، تینوں کا تعلق ایک ہی کمپنی سے تھا، کمپنی کے معاملات یہیں ڈسکس کیے جا رہے تھے۔ سامنے والی سیٹ پر ایک خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، انھوں نے اتنا سونا پہنا ہوا تھا کہ لگتا تھا کہ میاں سنار ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عورت کو اتنا سونا پہنے نہیں دیکھا۔ میاں کی سیٹ ان سے آگے والی تھی جہاں وہ اپنے دو بڑے بیٹوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی ان کو بھوک لگنی شروع ہوگئی اور میاں کی ڈیوٹی بھی شروع ہوچکی تھی۔ وہ بے چارہ بار بار اٹھتا ایک بچے کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے بیگ اتارتا، اس میں سے کھانے پینے کا سامان نکال کر اسے پکڑاتا، دوسرا فرمائشیں کر دیتا تو وہ کھٹ سے کیبنٹ کھولتا، بیگ اتارتا بچے کو کچھ کھانے کو دیتا۔
بچے البتہ میوزیکل چیئر کھیل رہے تھے کبھی آگے والے پیچھے، کبھی پیچھے والے آگے، مگر خاتون خانہ ٹس سے مس نہ ہوتی تھیں، ہوتیں کیسے ماشا اللہ حجم اتنا زیادہ تھا کہ اگر زیادہ ہلتیں تو جہاز ہل جاتا، تو یہ ڈیوٹی میاں انجام دے رہا تھا۔ جب کوئی بچہ ان سے کچھ کہتا وہ عربی میں جھاڑ پلا دیتیں تب ہمیں معلوم ہوا کہ جوڑا عرب ہے۔
پیچھے بیٹھی خاتون کا بچہ بہت رو رہا تھا اور ضد میں آ کر سیٹ پر مسلسل لاتیں مار رہا تھا۔ ویسے آپس کی بات ہے جہاز کا سفر تو کراچی کی W-11 کی یاد دلا رہا تھا۔ یہ بھی اچھا ہوا، ہم نے بہت دنوں سے ویگن میں سفر نہیں کیا تھا۔
ایئرہوسٹس ٹرالی لے کر آگئی تھی اور وہ عرب بچے سیٹ پر کھڑے ہوچکے تھے اور انتظار میں تھے کہ کب ٹرالی قریب آئے اور وہ اسے صاف کریں۔ خیر بچے تو بچے ہوتے ہیں، عربی ہوں یا عجمی، غریب کے ہوں یا امیر کے۔ کھانے پینے کی چیزوں پر ایسے ہی حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کے دم سے ہی دنیا کا حسن قائم ہے۔ اس وقت مجھے کافی کی شدید خواہش ہو رہی تھی۔ شکر اللہ کا کم ازکم یہاں پیندے میں پڑی کافی نہیں ملی بلکہ اپ سائز نہ سہی ایک کپ کافی تو تھی۔
کراچی سے ابوظبی کے سفر کا دورانیہ لاہور سے کراچی یا اسلام آباد سے کچھ ہی زیادہ تھا۔ اس سے پہلے کہ کافی ختم ہوتی اعلان ہوگیا کہ ہم کچھ ہی دیر میں ابوظبی پہنچنے والے ہیں، سب مسافر سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔
میں نے کھڑکی سے دیکھنا چاہا کہ شاید شہر کے کچھ آثار نظر آجائیں مگر وہاں تو دبئی کا دور تک پھیلا ہوا سمندر تھا جو رات کی سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ اندازہ ہی نہیں ہورہا تھا کہ ہم شہر پہنچنے والے ہیں تاریخی اور سمندر تھا کہیں سے بھی روشنی کی رمق بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی، ہم سمجھے یہ اعلان غلط کردیا گیا ہے۔
میں نے پھر کھڑکی سے نیچے دیکھنے کی کوشش کی لمحے بھر میں منظر تبدیل ہوچکا تھا۔ اب چمکتا دمکتا ابوظبی نظر آ رہا تھا۔ جہاز نے اپنی رفتار اور اڑان بھی نیچی کر لی تھی، جہاز نے ایک اور ہلکا سا جھٹکا لیا اور شہر کے اوپر سے گزر کر ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہو گیا۔ چوں کہ ابوظبی ایئرپورٹ سمندر کے بالکل قریب واقع ہے اس لیے شہر سے ایئرپورٹ کا فاصلہ بھی زیادہ نہیں، مگر ایئرپورٹ تو ایک مکمل شہر ہے۔
رات کا وقت تھا مگر روشنیاں اتنی زیادہ تھیں کہ اندازہ ہی نہیں ہورہا تھا کہ دن ہے کہ رات ہے۔ جہاز لینڈ کر چکا تھا مگر رن وے اتنا بڑا تھا کہ اسے ٹرمنل تک پہنچنے میں کافی وقت لگ رہا تھا۔ جہاز جہاں سے گزر رہا تھا وہاں اتحاد کے سگنلز اور اسی کمپنی کے جہاز نظر آ رہے تھے۔ ایک ایک سگنل کے سامنے کئی بڑے اور چھوٹے جہاز کھڑے تھے جو اتحاد کے تھے اور اتحاد ابوظبی حکومت کی ملکیت ہے۔ متحدہ عرب امارات دبئی اور کویت، قطر، سعودی عرب نے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ لوگ ان کی ترقی کی بنیاد تیل کو قرار دیتے ہیں مگر سب سے زیادہ ان کے حکم رانوں کا وژن ہے جو دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے۔
جہاں ان ملکوں کی ترقی کا تعلق ہے اس میں ہم پاکستانیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے اور ابھی بھی ڈال رہے ہیں لیکن یہ وہاں کے حکم رانوں اور عوام کی پاکستانیوں سے محبت بھی شامل ہے ورنہ وہاں ہم کو کتنی بھی مراعات ملتیں اگر امارات کے لوگ ہم سے نفرت کرتے تو ہم کبھی بھی وہاں نہیں رہ سکتے تھے۔
میں ابوظبی ایئرپورٹ کی شان و شوکت دیکھ کر یہی سوچ رہی تھی کہ کتنے ہی گھروں کے چولہے ان عرب ریاستوں نے روشن کر رکھے ہیں، رزق دینے والا تو اللہ ہے مگر وسیلہ تو انسان ہی بنتے ہیں، کاش ان ستر سالوں میں ہمیں کوئی ایسا حکم راں ملا ہوتا جو ہماری انسانی طاقت کو استعمال کرکے ہمیں بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لاکھڑا کرتا۔ پاکستان ایک محنتی قوم ہے جو دوسرے ملکوں اور عرب ملکوں کی شدت کی گرمی میں جان توڑ کر محنت کرتی ہے۔ اپنا پسینہ پانی کی طرح بہاتی ہے۔ کاش۔۔۔۔! یہ کاش میرے ساتھ ہمیشہ ہم سفر رہا ہے اور ہر جگہ ہر ملک میں مجھے موازنہ کرکے یہ کہنا پڑتا ہے، کاش! میرا ملک بھی ایسا ہوتا۔
خیر یہ ایک جذباتی سا ردعمل ہے مگر ابوظبی ایئرپورٹ دیکھ کر بے تحاشا خوشی ہوئی۔
ہم نے بچپن میں ایک فلم دیکھی تھی اس کا نام لارنس آف عربیہ تھا۔ اس فلم میں پیٹر اوٹول لارنس آف عربیہ بنا تھا، مجھے اس فلم کا ایک سین یاد رہ گیا جس میں پیٹر اوٹول اونٹ کی مہار پکڑے ریگستان میں چل رہا ہے۔ اس فلم میں ضیا محی الدین نے بھی ایک کردار ادا کیا تھا۔ آج پیٹر اوٹول ہوتا تو یقیناً کسی جہاز میں سفر کر رہا ہوتا اور کسی صحرائی خیمے میں قیام کی بجائے سو ڈیڑھ سو منزلہ ہوٹل کے کمرے میں آرام کر رہا ہوتا۔
ہمارا جہاز ٹرمنل 3 پر آیا تھا اور ہمیں استنبول کی فلائٹ لینے ٹرمنل 5 پر پہنچنا تھا مگر وہاں پانچ گھنٹے رکنا تھا۔ ہر ٹرمنل پر ایک دنیا تھی، راہ نمائی کے لیے کمپیوٹرائز بورڈ لگے تھے اوپر سے نیچے جانے اور اوپر آنے کے لیے الیکٹرک سیڑھیاں اور لفٹیں لگی ہوئی تھیں، لوگوں کو ایک ٹرمنل سے دوسرے ٹرمنل تک لے جانے کے لیے گاڑیاں بھی تھیں، مگر لوگوں کے کچھ گروپ اپنے سامان اٹھائے بھاگتے پھر رہے تھے، کچھ نے ہاتھوں میں بیگ اور کچھ نے جوتے اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ تمام غیرملکی تھے، کیا انھوں نے کمپیوٹر سے استفادہ نہیں کیا تھا، ایسا تو نہیں ہو سکتا تھا۔ انھیں کمپیوٹر کے مطابق معلوم نہیں تھا۔
پھر اس افرا تفریح کی وجوہات کیا تھیں؟ یہ تو یقین تھا کہ انھیں دوسری Connected فلائٹ لینی تھی مگر اس بھاگم دوڑ کی وجہ کیا تھی، یہ تو اس انڈین لڑکی سے جب ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا۔ وہ اپنے گروپ کے ساتھ بھاگتی دوڑتی پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ دھم سے میری برابر والی سیٹ پر گر سی گئی۔
اسے بھی ہمارے ساتھ استنبول کی فلائٹ لینی تھی اور ہم ماں بیٹا ڈیوٹی فری شاپ پر اور کافی اور برگر شاپ پر مزے سے کھا پی کر اور وقت گزار کر بیٹھے کاؤنٹر کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے سامنے تاشقند جانے والی فلائٹ کے انتظار میں کھڑے روسیوں کی لائن تھی۔ بے چارے گرمی کے ستائے روسی جسم پر برائے نام کپڑے پہنے آپس میں چپکے کھڑے تھے۔ کچھ دنیا ومافیہا سے بے خبر، اس انتظار کا فائدہ بھی اٹھا رہے تھے، مگر کچھ کے ساتھ فیملی اور بچے بھی تھے جو نہایت شریر بھی تھے اور اپنے والدین کو ستا رہے تھے۔ یہاں ہمارے دوسرے پڑاؤ کا اختتام ہوتا ہے۔
The post شہر دلوں میں بس جاتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.