پشتو زبان کے صاحب سیف و قلم خوش حال خان خٹک نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ ’’چاہے نظم ہو کہ نثر یا خط (املا و انشائ) ہو پشتو زبان پر میرا حق بے حساب ہے۔‘‘
اگر اپنے پردادا خوش حال خان کی طرح اپنی زندگی میں اجمل خٹک بھی یہ دعویٰ کرتے تو اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا تھا کہ اجمل خٹک نے اپنی ساری زندگی پشتو زبان، ادب صحافت اور اپنی قوم کی ذہنی ترقی اور تعمیر کی خاطر وقف کردی تھی۔ انہوں نے اپنی انقلابی فکر کی خوشبو سے پشتو ادب اور پختون قوم پرست سیاست کی فضاء کو معطر رکھا۔ اس سلسلے میں انہیں اپنے صوبے کے کئی تھانوں اور ملک کے کئی جیلوں میں ذہنی اور جسمانی تکالیف اذیتوں اور قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا، پندرہ سال تک جلاوطنی کی زندگی گزاری لیکن اس کے باوجود:
لکہ اونہ مستقیم پہ خپل مقام یم
کہ خزان راباندے راشی کہ بہار
(درخت کی مانند اپنی جگہ مستقیم ہوں، چاہے خزان آئے یا بہار)
وہ بیماری اور پیرانہ سالی میں بھی ثابت قدم اور پرعزم دکھائی دیتے تھے۔ 1925ء میں ایک عام کاشت کار حکمت خان کے ہاں اکوڑہ خٹک میں سات بہنوں کے بعد جنم لینے والے لاڈلے اجمل خان نے ابتدائی دینی علوم اپنے گاؤں کی مسجد میں مولانا عبدالقیوم، مولانا عبدالحق اور قاضی محمد امین سے حاصل کیے تھے۔
جب گھر میں ان کی پھوپی ’’منفعتہ ‘‘ قرآن شریف اور پشتو کی دیگر منظوم کتابیں نورنامہ، جنگ نامہ اور قصے کہانیاں خوش الحانی سے اور ترنم میں پڑتی تھیں تو اجمل خان ہمہ تن گوش ہوکر سنا کرتے تھے۔ ان کا نام اپنے گاؤں اور قبیلے کے اس وقت کے ’’مشر‘‘ محمد زمان خان نے رکھا تھا۔ 1935ء میں مسجد سے گاؤں کے اسکول میں جماعت دوئم میں داخل کردیے گئے۔
بچپن میں شکار کھیلنے کا شوق گاؤں کے مشہور شکاریوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پیدا ہوا تھا۔ موسیقی سے لگاؤ حجروں میں روایتی موسیقی کی محفلوں میں باقاعدہ شرکت کرنے کی وجہ سے تھا۔ خود بھی کئی مہینوں تک ستار اور رباب سیکھنے کے جنون میں مبتلا رہے، مگر دوستوں کے مشورے سے اپنے آپ کو شاعری تک محدود کردیا۔
اسکول سے فارغ ہوکر سیدھے گاؤں سے دور دشت و صحرا میں جایا کرتے تھے اور وہاں کھلے ہوئے خودرو پھولوں کا اس سوچ کے ساتھ نظارہ کیا کرتے تھے کہ اس دشت اور صحرا میں یہ رنگ بہ رنگ خوب صورت پھول کس نے بوئے ہیں؟ اور ان کی پرورش اور نگہداشت کون کررہا ہے؟ گاؤں کے علاوہ اردگرد علاقوں میں منعقدہ عوامی میلوں میں مداریوں کے قصے کہانیاں شوق سے سنا کرتے تھے۔
بچپن میں شعر کو موزوں کرنے میں اجمل خٹک نے منظوم عوامی داستانوں سے کافی اثر قبول کیا تھا۔ ان کے اسکول میں اس وقت کے وزیرتعلیم ثمین جان خان بطور مہمان خصوصی آئے تو اجمل خٹک نے اس تقریب میں ایک ایسی نظم پڑھی جس میں مہمان خصوصی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان کے گاؤں کے اسکول کو ہائی کا درجہ دیا جائے، جس پر انہیں خان بابا زمان خان نے پانچ روپے بطور انعام دیے تھے۔
مزار خوشحال خان خٹک پر مشاعرہ منعقد کروانے کے لیے محمد زمان خان کی مسجد میں عبدالخالق خلیق، سمندر خان سمندر‘ عبدالحنان اور سید رسول رسا کا اجلاس ہورہا تھا تو اس اجلاس میں خان محمد زمان خان نے اپنی نظر کم زور ہونے کی وجہ سے اجمل خٹک کو اپنے اشعار سنانے کے لیے دیے، جس سے اجمل خٹک کو اشعار پڑھنے کا حوصلہ ملا۔ جب اسلم خٹک کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’دوینو جام‘‘ (جام خون) پر مبنی کتاب انھوں نے سنی تو اپنے استاد میاں مشرف شاہ سے وہ کتاب پڑھنے کے لیے مانگی۔ اپنے دوستوں اور حجرے میں بیٹھے بزرگوں کے سامنے اس کتاب کو پڑھا کرتے تھے۔
ان کے ادبی ذوق میں ’’توبۃ النصوح ‘‘ نامی کتاب کے پشتو ترجمے نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسکول میں ہر ہفتے منعقدہ ادبی محفل کے لیے پہلے انہیں ان کے استاد ’’محمد آثم‘‘ کچھ لکھ کر دیا کرتے تھے بعد میں خود لکھنا شروع کردیا۔ آٹھویں جماعت میں ’’بدمعاش ھلک (بدمعاش لڑکا)‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا ڈراما لکھا اور پیش کیا، جس میں خود مرکزی کردار ادا کیا۔ گھر میں ان کی بڑی بہن امرسلطان جب اونچی مترنم آواز میں ’’پختون اخبار‘‘ میں شایع شدہ نظمیں اور غزلیں سناتیں تو اجمل خٹک بھی ساتھ ساتھ دہراتے تھے۔
1938ء میں مزار خوشحال خان خٹک پر مشاعرہ منعقد ہوا تو اس مشاعرے میں پہلی بار اجمل خٹک اپنی نظم پڑھنے کے لیے اسٹیج پر آئے تو اتنے چھوٹے تھے کہ انہیں کرسی پر کھڑے ہوکر اپنی نظم سنانی پڑھی۔ نظم پڑھنے کے دوران مشاعرے میں شریک اکثر لوگ چہ می گوئیاں کرتے رہے کہ یہ عبدالخالق خلیق کا بیٹا ہے اور یہ نظم انہوں نے اسے لکھ کر دی ہے۔ ان کا گاؤں خدائی خدمت گاروں کا مرکز تھا۔
جب باچا خان ان کے حجرے میں آئے اور ان کی باتیں سنی تو بہت متاثر ہوئے۔ ان کے والد اس وقت بڑے خوش ہوئے جب ان کے حجرے میں ایک شادی کے موقع پر قاضی شریف اللہ نے کم سن اجمل خان سے کہا کہ میرے ہاتھ میں موجود اس پرچے پر لکھا ہوا یہ نام کیا ہے اور اجمل خان نے فوراً کہا ’’انقلاب‘‘، وہ ’’روزنامہ انقلاب ‘‘ تھا۔ اس طرح لفظ ’’انقلاب‘‘ سے اس کی شناسائی بچپن سے ہوئی جو اس کے تحت الشعور میں جاگزیں ہوگیا۔
بعد میں ان کے والد اپنے قابل اور ذہین بیٹے اجمل خان کے لیے دیوان خوشحال خان خٹک اور دیوان عبدالرحمان بابا لے آئے جس کے مطالعے سے اجمل خان کے اندر کا شاعر انگڑائیاں لینے لگا۔ آٹھویں جماعت میں انہوں نے پورے صوبے میں ٹاپ کیا اور پشاور کے ہائی اسکول نمبر ایک میں جونیئر اسپیشل کلاس میں داخل کردیے گئے۔ محکمۂ تعلیم کی جانب سے ان کے لیے ماہوار چار روپے وظیفہ بھی مقرر کردیا گیا۔
پشاور میں اجمل خٹک اور بالی وڈ کے معروف اداکار راج کپور ایک ہی اسکول کے طالب علم تھے۔ اس وقت راج کپور چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ دونوں کی دوستی ہوگئی۔ چوںکہ اجمل خٹک ایک مانے ہوئے فٹبال کے کھلاڑی تھے اور کوئی ٹورنامنٹ یا میچ ایسا نہیں تھا جس میں وہ ایک یا دو گول نہ کرتے ہوں، دیگر لڑکوں کی طرح راج کپور بھی اجمل خٹک کے سے متاثر تھے۔
راج کپور کو ان کی خوب صورتی کی وجہ سے اسکول کے لڑکے جب چھیڑتے تھے تو اجمل خٹک تمام لڑکوں کو خبردار کرتے کہ اگر کسی نے میرے دوست راج کپور کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی تو وہ اس کی ایسی کی تیسی کردیں گے۔
اس وجہ سے راج کپور کے والد اور اپنے زمانے کے اسٹیج اور فلم کے معروف اداکار پرتھوی راج بھی اجمل خٹک کا اپنے بیٹے کی طرح خیال رکھتے تھے۔ جس وقت پورے متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک کی ہائی اسکولوں اور کالجوں کے طالب علموں نے بھی حمایت شروع کردی۔
یہ 1943ء کا زمانہ تھا۔ اجمل خٹک نے جو پہلے ہی سے خدائی خدمت گار تحریک اور باچا خان سے متاثر تھے اسکول میں اس تحریک کی حمایت شروع کردی اور اپنے اسکول میں خفیہ طور پر طالب علموں کے یونٹ کے انچارج مقرر کردیے گئے۔ ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک میں شمولیت اختیار کرنے کے باعث وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے نہیں بڑھاسکے اور 1943ء میں ہی محکمہ تعلیم میں 20 روپے ماہوار پر ’’معلم ‘‘بھرتی ہوگئے۔ دورانِ معلمی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز‘ منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ بعد میں ایف اے‘ بی اے اور فارسی زبان میں ایم اے کیا۔
ترقی پسند نظریات سے اس وقت واسطہ پڑا جس وقت انہیں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے اپنے ایک دوست غلام محمد کے ساتھ پشاور جانا پڑا۔ وہ اجمل خٹک کو اپنے ساتھ ایک بالاخانے لے گئے جہاں ایک تنگ وتاریک اور گرد سے بھرے کمرے میں ایک آدمی زمین پر دری بچھائے بیٹھا تھا۔ ان کے دوست غلام محمد نے اس آدمی سے کچھ خفیہ بات چیت کی۔
وہاں سے جاتے وقت اس آدمی نے اجمل خٹک کو دو کتابیں بطور تحفہ دیں، جن میں سے ایک ’’مشین اور انسان‘‘ تھی اور دوسری کتاب کا نام ’’سرمایہ‘‘ تھا۔ ان کتابوں کے مطالعے نے اجمل خٹک کو مارکس ازم اور لینن ازم کی جانب ایسا راغب کیا کہ وہ پھر ایسی ہی کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے۔
اس وقت انہوں نے اس آدمی کو نہیں پہنچانا لیکن چالیس سال بعد جب کراچی کے ایک ہوٹل میں در نظامانی بلوچ اور علی احمد تالپور کے ساتھ اس آدمی کو دیکھا اور تعارف ہوا تو پتا چلا کہ وہ ہزارہ کے رہنے والے محمد حسین عطاء تھے جو اس وقت کمیونسٹ پارٹی پشاور کے سیکرٹری جنرل تھے۔
اس کے علاوہ جب اجمل خٹک اپنے پھوپی زاد بھائی محمدعمر جو فتح پور کے ایک مدرسے میں پڑھتے تھے چھٹیوں میں ان کے ساتھ فتح پور گئے تو وہاں انجمن ترقی پسند مصنفین کے سجادظہیر‘ عصمت چغتائی‘ سعادت حسن منٹو ‘ پریم چند اور سرجیت سنگھ سے ملاقات ہوئی اور ان ادیبوں کے ساتھ کئی نشستوں میں بحث مباحثے اور سننے کا موقع ملا ۔ وہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوکر مرکزی کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
اس وقت اسے مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کہا جاتا تھا۔ وہ اس بات کا برملا اعتراف کیا کرتے تھے کہ افغانستان میں جلاوطنی کے دوران بنگلادیش اور ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے ان کی کافی مالی مدد کی تھی۔ انہوں نے کئی کئی سال جیل کاٹی، ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوئے، یہاں تک کہ قید کے دوران ’’دا زہ پاگل اوم‘‘ (کیا میں پاگل تھا؟) جیسی کتاب بھی لکھی۔
انہوں نے اپنی معلمی کی ابتداء 1943ء میں زیارت کاکا صاحب کے اسکول سے کی 1943ء تا 1948ء تک کبھی معلم اور کبھی بے روزگار اور ہر وقت خفیہ ایجنسیوں کے زیر عتاب رہے یکم اپریل 1948ء کو ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازمت اختیار کی، جہاں احمد ندیم قاسمی‘ ن م راشد ‘ناصر انصاری‘ احمد فراز اور خاطرغزنوی جیسے شعراء و ادباء کی رفاقت نصیب ہوئی۔
1947ء میں پاکستان کا پشتو میں پہلا ملی ترانہ بھی انہوں نے لکھا جو اس وقت کے معروف گلوکار استاد سبز علی خان کی آواز میں نشر ہوا۔ ان کے گھر پر وقتاً فوقتاً پڑتے رہنے والے پولیس کے چھاپوں کے ڈر سے ان کی والدہ نے ان کی شاعری اور نثر کے بیشتر نمونے تندور میں پھینک کر جلا ڈالے ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’دغیرت چغہ‘‘ (غیرت کی پکار) بھی ان کے دوستوں نے ادھر ادھر کی تلاش کے بعد یکجا کیا۔ جس ڈی ایس پی نے اجمل خٹک پر تشدد کرکے ان کا حال پاگلوں جیسا کردیا تھا، بعد میں اس ڈی ایس پی کو پشاور کے ایک بازار میں پاگل ہوکر گھومتے دیکھا گیا۔
اجمل خٹک کی شادی اپریل 1953ء میں ہوئی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔ اسی سال ’’ پختون لیگ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنانے کے الزام میں چار مہینے پبی اور نظام پور کے تھانے میں قید رہے۔
اکتوبر 1953ء دس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا ہوئے، لیکن دوبارہ ’’تحفظ امن وعامہ‘‘ کے قانون کے تحت گرفتار ہو کر پشاور جیل میں چھے ماہ تک نظر بند رہے۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے جنرل سیکرٹری رہ چکے تھے۔ وہ مختلف ادوار میں پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہری پور اور مچھ جیل میں کئی سال تک پابند سلاسل رہے۔ اپنی شخصیت اور فکر کی تشکیل میں وہ خوشحال خان خٹک‘ باچا خان اور کارل مارکس کے کردار کو بنیادی قرار دیتے تھے۔ ریڈیو کی ملازمت سے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے فارغ کردیے گئے۔
1956ء میں روزنامہ بانگ حرم کے ایڈیٹر رہے اور کئی سال تک مختلف اخبارات میں بطور ایڈیٹر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ اکثر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے روپڑتے اور سسکیاں لینا شروع کردیتے تھے۔ جس وقت پولیس والے انہیں ہتھکڑیوں میں بندھا ہوا اور مار پیٹ کر زخمی حالت میں ان کے گھر کی تلاشی لینے کے لیے لائے، سامنے چارپائی پر بیٹھی ہوئی ان کی والدہ نے اپنے لاڈلے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا تو پولیس والوں کو بد دعائیں دینے لگیں، جس پر پولیس والوں نے اجمل خٹک کی آنکھوں کی سامنے ان کی والدہ کو بالوں سے پکڑ کر چارپائی سے نیچے گرایا اور زمین پر گھسیٹتے رہے۔
1973ء میں لیاقت باغ فائرنگ کیس کا واقعہ پیش آیا تو نواب محمد اکبر خان بگٹی کے گھر کوئٹہ میں نواب خیربخش مری‘ غوث بخش بزنجو‘ اکبر خان‘ عطاء اللہ مینگل اور ولی خان کے مشورے پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انہیں قریبی دوست ’’تور لالے‘‘ نے بڑی مشکل راستوں سے قبائلی راستے سے افغانستان تک پہنچایا، جہاں پندرہ سال تک جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1988ء میں پاکستان آئے اور 1990ء عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر اور پارٹی کے مرکزی صدر اور سینٹ کے ممبر بھی رہے۔ اکتوبر 1999ء میں نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ان سے ملاقات کی اور صدارت کا عہدہ پیش کیا۔
اس ملاقات سے عوامی نیشنل پارٹی اور اجمل خٹک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس پر انہوں نے اے این پی چھوڑ کر ’’اپنا کچکول اور رباب ‘‘ بجانے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی پاکستان کے نام سے الگ جماعت بنالی۔ تاہم چند سال بعد دوبارہ اے این پی میں شامل ہوگئے، بقول شاعر:
’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘
افغانستان میں جلاوطنی کے دوران انڈیا کی بے شمار فلمیں دیکھی تھیں جن میں رامائن پر بننے والی اٹھارہ کیسٹوں پر مشتمل فلم بھی شامل رہی۔ فارغ وقت میں ان کا محبوب مشغلہ مطالعہ اور لکھنا ہوتا تھا۔ کئی سالوں سے روزانہ ڈائری لکھا کرتے تھے۔
صبح سویرے پچاس منٹ اور رات کو آدھا گھنٹہ واک کیا کرتے تھے۔ ان کا پسندیدہ شہر ’’پراگ (چیکو سلواکیہ)‘‘ تھا۔ وہ افغانستان ‘روس اور مشرقی یورپ کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی رہے اور وہاں مختلف سیمینارز میں مقالوں اور تقاریر کے ذریعے اپنے افکار پیش کیے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف رہے، تاہم ان کی شاعری کے پہلے مجموعے ’’د غیرت چغہ‘‘ نے پختونوں کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا، جس کی بازگشت آج بھی پشتو کی جدید شاعری میں سنی اور محسوس کی جاتی ہے۔ ان کی اس کتاب کو جدید پشتو ادب اور پختون نیشنل ازم میں لوگ کارل مارکس کی کتاب ’’داس کیپٹال‘‘ سے مماثلت دیتے ہیں ۔
وہ اردو‘ انگریزی ‘روسی‘ ہندی ‘فارسی‘ جرمن‘ عربی پر عبور رکھتے تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود اپنے حجرے میں کم زور ناتواں وجود کے ساتھ کئی بیماریوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی ادبی ذوق اور شاعرانہ مزاج زندگی بھر وہی رہا جو ان کی پہچان تھا۔ انھوں نے جو پہلی فلم دیکھی وہ ’’طوفان میل‘‘ تھی۔ ان کے پسندیدہ اداکار امیتابھ بچن ‘ امجد خان ‘ شبانہ اعظمی‘ نصیر الدین شاہ تھے۔
شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی کے ساتھ ان کی اچھی خاصی دوستی بھی رہی۔ کابل میں نصیرالدین شاہ سے تفصیلی ملاقات کی تھی اور مرزا غالب پر بننے والی فلم میں ان کے کردار کو بہت سراہا تھا۔ انہیں گلوکاروں میں احمد خان‘ گلنار بیگم اور زرسانگہ پسند تھے جب کہ ان کے پسندیدہ شاعر ساحرلدھیانوی اور قلندر مومند تھے۔ سیاسی طور پر وہ باچا خان کے سخت پیروکار اور عقیدت مند تھے، جب کہ ان کی پسندیدہ کتابوں میں سرفہرست جوش ملیح آبادی کی کتاب ’’یادوں کی برأت‘‘ رہی۔
خوراک میں جو کچھ بھی ملتا کھالیتے۔ اپنی بے پناہ سیاسی ادبی مصروفیات کی وجہ سے کسی خاص ترتیب سے زندگی نہیں گزارسکے۔ بنگلادیش کے ادیب قوی جسیم الدین کے لیے ایک فلم کی کہانی بھی دس ہزار روپے کے عوض لکھی تھی جس میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ سب لوگ تو حسن کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن خود حسن کس کی تلاش میں ہے؟ وہ حسن کو ’’موضوعی ‘‘ نہیں بلکہ ’’معروضی ‘‘سمجھتے تھے۔ وہ تمام فنون کو انسانی ذہن کی پیداوار گردانتے تھے۔ وہ ملک کی سیاست اور جمہوریت سے کبھی مطمئن نہیں رہے۔
مارکسزم اور لینن ازم بھی ان کے اندر پختو ن ولی اور اسلام کو بدل نہیں سکے۔ دوران جلا وطنی عید کی نماز چیکو سلواکیہ کے ایک بہت بڑے گرجاگھر میں اکیلے پڑھی تھی۔ وہ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ شاعرادیب کسی ایک سیاسی اسٹیج پر ایک مخصوص نظریے اور پارٹی منشور کے لیے ترانے لکھے۔ وہ خود بھی اعتراف کرتے تھے کہ انہیں کئی بار غنی خان اور سیدتقویم الحق کا کا خیل نے سیاسی اسٹیج پر نظمیں کہنے سے منع کیا تھا، لیکن وہ یہ خطا کر بیٹھے۔ انہوں نے بحیثیت شاعر، ادیب اور صحافی ساری عمر سیاست کے خارزار میں گزار کر پچھتاوا محسوس کیا۔ وہ خوشحال خان خٹک کو رول ماڈل قرار دیا کرتے تھے۔
وہ کہا کرتے تھے کہ جو لوگ امریکا سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ شہزادہ بہرام کی طرح اپنی آغوش میں اس خطے کے لئے ایک ’’گل اندامہ‘‘ (پری) لارہا ہے وہ جان لیں کہ امریکا کی آغوش میں ’’پری‘‘ نہیں بلکہ ایک خونی ’’بلا‘‘ چھپی ہے۔
وہ ایسے ادب اور آرٹ کے طرف دار تھے جو زندگی میں حرکت ‘سماج میں تغیر اور لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب برپا کردے۔ وہ کہتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کے کمیونسٹ مارکس ازم کو اپنے معاشرے کے اصل بنیادی سانچوں میں ڈھالنے میں ناکام رہے اور مارکس ازم کو انسانی تمدن اور انسانی معاشرے کی فطری ارتقاء اور رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بڑی کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
وہ کہتے تھے کہ اگر جنرل پرویزمشرف کے کہنے پر صدارت قبول کرلیتا تو پھر ہزاروں لوگ مجھے سلام کرنے آتے۔ وہ اپنے آپ کو ایک کام یاب شاعر اور ایک ناکام سیاست داں سمجھتے تھے جو اس ملک کی موجودہ سیاست کی سانچے میں سما نہیں سکتا تھا۔ سیاست کی بجائے اگر صرف افغان وار میں کسی انگریز صحافی یا نیوزایجنسی کے لیے بطور ترجمان کام کرتے تو ہزاروں ڈالر کما سکتے تھے۔ وہ ملک کے حالات پر سخت مضطرب اور پریشان رہا کرتے تھے اور سابق قبائلی علاقوں میں جاری سرگرمیوں کو امریکانوازی قرار دیا کرتے تھے۔
وہ اپنے آپ کو سیاست داں کی بجائے شاعر‘ ادیب کہلوانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے اور موجودہ دور کی سیاست کو سودا بازی کا نام دیا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ تمام پختون ان کی زندگی میں باہم متحد اور یکجا ہوکر اپنے قومی حقوق حاصل کریں۔ اجمل خٹک کے کئی ادبی اور سیاسی حوالے ہیں اور ہر حوالہ تاب ناک ہے۔ ان کی روح آج بھی اپنے پردادا خوش حال خان خٹک کی طرح اس بات کی آرزومند ہے کہ:
کہ توفیق د اتفاق پختانہ مومی
زوڑ خوش حال بہ دوبارہ شی پہ دا زوان
(اگر پختونوں میں اتفاق پیدا ہوجائے تو پیرانہ سال خوش حال خان دوبارہ جوان ہوجائیں گے)
The post اجمل خٹک appeared first on ایکسپریس اردو.