ڈاکٹر محبوب حسین، ایک تاریخ دان ہیں اور تاریخ کے مضمون میں ’ڈاکٹریٹ‘ اور ’پوسٹ ڈاک‘ بھی کر چکے ہیں۔
عالمی تاریخ کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ان کی خصوصی دلچسپی ہے۔ زیر نظر انٹرویو میں وہ برصغیر پاک و ہند میں انتخابی عمل کے آغاز کے پس منظر، اس حوالے سے کی گئی آئین سازی، ووٹرز کی اہلیت کے ابتدائی معیار اور اس میں آنے والی بتدریج تبدیلیوں اور سیاسی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔انتخابی عمل کی تاریخ بذات خود بہت پرانی ہے۔ قبل از مسیح دورمیں یونانیوں کے ہاں اس کا تصور موجود تھا مگربرصغیر پاک وہند میں الیکشن کی تاریک ایک سو چار سال پرانی ہے
سوال : برصغیر پاک و ہند یا غیر منقسم ہندوستان میں پہلا الیکشن کب منعقد ہوا ؟
ڈاکٹر محبوب حسین : برصغیر پاک و ہند کی انتخابی سیاست کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ انگریز یہاں تاجر کی حیثیت سے آئے۔ اور ایک طویل عرصے تک انہوں نے یہاں اپنا نوآبادیاتی طرز حکمرانی جاری رکھا۔
ڈاکٹر محبوب حسین: برصغیر میں 1833 کا چارٹر ایکٹ ایک ایسا ایکٹ ہے جس سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں مستقبل میں انتخابی عمل شروع ہونے کا امکان ہے ۔ کیونکہ اس ایکٹ سے برطانوی حکمرانوں نے مقامی لوگوں کو بہت محدود پیمانے پر فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنے کی کوشش کی۔ یہ عمل بہت محدود اور بالواسطہ تھا اور نامزدگیوںپر مشتمل تھا۔
پھر آہستہ آہستہ اس میں بہتری آتی چلی گئی۔ لیکن 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب یہاں کے انتظامی معاملات ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہ راست برطانوی بادشاہت کو منتقل ہوئے تو اس وقت یہ مطالبہ بڑھا کہ یہاں کے لوگوں کو فیصلہ سازی میں باقاعدہ شریک کیا جائے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں سیاسی عمل شروع ہوا اور 1885 میں انڈین نیشنل کانگرس کا قیام عمل میں آیا تو مغرب سے تعلیم یافتہ لوگوں نے ویسا ہی نمائندگی کا حق مانگا جیسا کہ برطانیہ میں تھا۔
لیکن یہاں کے لوگوں کو نمائندگی کا حق اتنی آسانی سے نہیں ملا ۔ انہیں جدوجہد کرنا پڑی۔ مختلف چارٹر ایکٹ اورکونسلز ایکٹ آتے رہے لیکن یہ تمام کے تمام بالواسطہ تھے۔ پہلی مرتبہ یہاں کے لوگوں کو ووٹ کا حق 1919کی مانٹیگو چیمس فورڈ اصلاحات کے بعد 1920کے الیکشن میں ملا تو اس طرح مقامی لوگوں نے پہلی مرتبہ 1920کے الیکشن میں ووٹ ڈالا۔
سوال : جب یہاں کے مقامی لوگوں کو حق انتخاب ملا تو یہ ان کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ مقامی لوگوں کا اس حوالے سے کیا ردعمل تھا؟
ڈاکٹر محبوب حسین : اس کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے حالات و واقعات کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ آج کی طرح کے انتخا بات نہیں تھے۔ اگرچہ ووٹ کا حق مل گیا تھا مگر یہ حق آج کی مانند نہیں تھا۔ بہت محدود پیمانے پر تھا ۔ آبادی کا محض دو یا پانچ فیصد طبقہ تھا جس کو ووٹ ڈالنے کی اجاز ت تھی اور یہ حق مشروط تھا۔
اس کے لیے مختلف شرائط تھیں۔ آپ سرکاری ملازم ہوں، آپ کے پاس ایک مخصوص قطعہ اراضی ہو ،آپ ٹیکس دہندہ ہوں۔ایک خاص تعلیمی معیا رہو۔ یہ تمام چیزیں مدنظر رکھ کر ووٹر کی اہلیت کا معیار مقرر کیا جاتا تھا۔ اس پیمانے پر بہت کم لوگ اترتے تھے ۔
تو ووٹ کا حق توملا مگر وہ بہت محدود تھا۔ آج کل کا جوش وخروش ہمیں نظرنہیں آتا تھا کیونکہ ووٹرز کی تعداد بہت ہی محدود تھی۔ بعد میں ووٹرز کی اہلیت کے حوالے سے بتدریج تبدیلی آئی کیونکہ سیاسی عمل کی شروعات ہو چکی تھی۔ مسلمانوں نے شملہ وفد کے ذریعے جداگانہ انتخاب کا حق مانگا۔ بعد ازاں مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلم لیگ نے اس جداگانہ حق کا بھی مطالبہ کیا۔ جبکہ دوسری جانب کانگریس پورے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کی نمائندگی کی دعویٰ کرتی تھی۔ کانگریس کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ مذہب کی بنیاد پر کسی کو قوم تسلیم نہیں کر سکتے۔
یوں ووٹر کی اہلیت کا معیار ایک ارتقائی عمل تھا۔ اس کے بعد ہندوستان کے مختلف صوبوں میں جو انتخابات ہوئے تو ہر صوبے میں اہلیت کا معیار مختلف تھا۔ کسی صوبے میں میٹرک کو معیار ٹھہرایا گیا تو کہیں مڈل کو معیار رکھا گیا تو کہیں پرائمری پاس بھی ووٹر بننے کا اہل تھا۔ پھر اگر آپ ووٹر ہیں تو اس خاص صوبے میں آپ کتنا عرصہ پہلے آ کر آباد ہوئے ہیں۔ کسی صوبے میں یہ چار ماہ کی مدت تھی، کسی میں چھ ماہ کا دورانیہ تھا توکہیں ایک سال کا قیام ضروری تھا تو کسی میں کچھ دنوں کی مدت کو کافی سمجھا گیا۔
اسی طرح اہلیت کے حوالے سے دولت اور وسائل کی ملکیت کے معاملے میںتنوع تھا یہ معاملہ بھی ہر صوبے میںمختلف تھا۔ اس طرح ووٹر کی اہلیت کامعیار قومی سطح پر یکساں نہ تھا۔ یہ ہر صوبے، ریجن اور شہر کی سطح پر مختلف تھا۔
سوال : جب ہندوستان میں انتخابی عمل شروع ہوا تو اس وقت کو نسا ادارہ تھا جو اس عمل کی نگرانی کرتا تھا یا اس کو دیکھتا تھا
ڈاکٹر محبو ب حسین : اس وقت کے صوبائی گورنرز اپنے اپنے متعلقہ صوبوں میں صوبائی انتظامیہ کی مدد سے اس عمل کو بروئے کار لایا کرتے تھے۔
سوال : تقسیم سے پہلے 1937 اور 1946 کے الیکشنز ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں۔1920 سے لیکر 1946 تک چھبیس برس کا عرصہ ہے۔ کیا اس عرصے کے دوران عوام یا ووٹرز کے سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوا؟
ڈاکٹر محبو ب حسین : سیاسی شعور بہتر ہوا وہ اس لیے کہ یہاں پھر سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ اپنی پولیٹیکل کمپینز شروع کیں۔ جس سے ان کا عوام سے رابطہ ہوا۔ 1946کے الیکشنزسے یہاں کے ووٹرز کا سیاسی شعور بہت پختہ ہوا۔
مثال کے طورپر اگر ہم پاکستان کے قیام کی بات کریں تو مسلم لیگ کی 1940کی قرارداد نے بہت بریک تھرو دیا ۔ یہاںکے لوگوں کا یہ تصور دیاکہ اگرآپ آزادانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے لیے الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کریں۔ مسلم لیگ کے اس مطالبے کو حریف سیاسی جماعتوں نے ایک بارگیننگ قرارد یا کہ اتنا بڑا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔
بعد میں واقعات نے اور مسلم لیگ اور قائداعظم کی جدوجہد نے بھی ثابت کیا کہ مسلمان اس مطالبے میں سنجیدہ تھے۔ 1946کے انتخابات تک پہنچتے پہنچتے مسلم لیگ نے مسلمانوں میں کافی سیاسی شعور پیدا کر دیا تھا۔اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی اور بھی سیاسی جماعتیں تھیں مثلا جمیعت علمائے ہند، مجلس احرار، خاکسار تحریک، جماعت اسلامی، یونینسٹ پارٹی وغیرہ۔ دوسری طرف کانگریس ایک بڑی سیاسی جماعت تھی جو اپنے آپ کو پورے ہندوستانیوں کی نمائندہ جماعت کہتی تھی۔ لیکن مسلم لیگ نے پولیٹیکل سلوگنز ایسے دیے جو بہت پُرکشش اور Catchyتھے۔ مثلا مسلم لیگ نے کہا کہ اس خطے میں اسلام کی حفاظت کے لیے آپ نے مسلم لیگ کو ووٹ دینا ہے۔ اگرآپ اپنی مذہبی رسومات آزادانہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھرآپ مسلم لیگ کو ووٹ دیں۔
مسلم لیگ کے اس مطالبے پر مسلم عوام نے اس لیے بھی ردعمل دیا کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے 1937کے انتخابات کا تجربہ تھا۔1937کے انتخابا ت میں اگرچہ مسلم لیگ پورے طو ر پر کامیابی حاصل نہ کر پائی مگر اس کے نتیجے میں جو وزارتیں تشکیل پائیں اور ان وزارتوں نے مسلمانوں سے جو سلوک روا رکھا۔
اس کے نتیجے میں ایک ردعمل تھا جو ہمیں نظر آیا 1940کی قرارداد کی صورت میں اور پھر 1946کے انتخابا ت میں۔ 1946کے انتخابات مسلم لیگ نے ایک نکتے پر لڑے وہ تھا۔ ’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘۔ اس مطالبے پر پھر مسلم لیگ ایک واضح اکثریت کے ساتھ انتخاب جیتی ہے۔
سوال : تقسیم سے پہلے جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان میںجو افراد منتخب ہو کر آتے تھے، انہیں کس حد تک اختیارات دیے جاتے تھے؟۔
ڈاکٹر محبو ب حسین: دیکھیں ۔ یہ ایک ارتقائی عمل تھا اور ان کے پاس بہت محدود اختیارات تھے۔ کچھ نامزدگی کے نتیجے میں آتے تھے۔ کچھ براہ راست آتے تھے۔
مثلا وہ بجٹ کے بارے میں بات نہیں کر سکتے تھے۔ سوال پوچھنے کا اختیار انہیں ایک طویل جدوجہد کے بعد ملا۔پھر سوال کے بعد ضمنی سوال پوچھنے کا حق بھی ایک جدوجہد کے بعد ہی ملا۔لیکن جب 1935 کا ایکٹ آیا تو پھر اس ایکٹ کے بعد جتنے انتخابات ہوئے ان میں پھر ان اختیارات کو بتدریج بڑھا یا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان میں بھی پہلے انتخابات ہوئے وہ بھی 1935کے ایکٹ کے تحت ہوئے۔ آہستہ آہستہ ان کو اختیارات ملنا شروع ہوئے مگر وہ بہت محدود تھے۔
سوال : 1946کے انتخابا ت میں ، موجودہ پاکستان کے علاقوں میں اس وقت کے تناظر میں ووٹر ٹرن آوٹ کیا رہا تھا؟
ڈاکٹر محبوب حسین: دیکھیں ، جیسے میں نے کہا کہ ووٹرز کی تعداد بہت محدود تھی۔ آبادی کا بہت کم حصہ ووٹ ڈالنے کا اہل تھا۔لیکن ٹرن آوٹ یہاں کبھی بھی بہت اچھا نہیں رہا۔ بیس فیصد، تیس فیصد، چالیس فیصد ۔ پچاس فیصد سے کم ہی رہا ہے۔ کیونکہ یہ پورا عمل بہت پیچیدہ تھا تو اس لیے عوام بھر پور انداز سے اس میں حصہ نہیں لے پاتے تھے۔
سوال : قیام پاکستان کے بعد ملک میں پہلا الیکشن کب ہوا؟
ڈاکٹر محبو ب حسین: پاکستان بننے کے بعد پہلے تو یہاں صوبائی انتخابا ت ہوئے۔ سب سے پہلے 1951 میں پنجاب میں انتخابات ہوئے۔ دسمبر 1951میں NWFPموجودہ خیبرپختنخواہ میں ہوئے۔1953میں سندھ میں انتخابات ہوئے اور اسی طرح اگلے برس 1954میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ یہ چار صوبائی انتخابات تھے ۔
قومی انتخابات نہیں تھے۔ اسی طرح ایوب خان کے دور میں بھی انتخابات ہوئے مگر وہ انتخابات بی ڈی ممبران کے تھے یہ ان ڈائریکٹ الیکشن ہوئے۔ اسی بنیاد پر اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہوئے مگر وہ بالواسطہ تھے۔ براہ راست انتخابات نہیں تھے۔ پاکستان میں پہلے انتخابات جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہوئے وہ 1970 کے انتخابات تھے اور آزادی کے 23 سال بعد عوام کو یہ اختیار ملاکہ وہ اپنے نمائندے براہ راست چن سکیں۔
سوال: 1970کے انتخابات کیا 1935کے ایکٹ کے تحت ہوئے؟
ڈاکٹر محبوب حسین: 1970کے انتخابات لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے تحت ہوئے جو کہ یحٰیی خان نے جاری کیا۔ اس سے پہلے جو صوبائی انتخابات ہوئے وہ ہم نے 1935کے ایکٹ کو اپنی ضروریات کے تحت کچھ تبدیل کیا۔ اس کو ہم 1947کا عبوری آئین کہتے ہیںکے تحت انتخابات ہوئے۔ پھر ایوب خان نے جب اپنا ایک سسٹم دیا تووہ پھر 1962 کا آئین تھا۔ لیکن یہ انتخابی عمل 1935 یا 1947 کے ایکٹ کے تحت ہی تھا۔ لیکن 1970کے انتخابات لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے تحت ہوئے۔
سوال : 1970کے انتخابات سے آگے پھر جتنے انتخابات ہوئے ان میں پھر ووٹرز کے حوالے سے کیا کچھ تبدیلیا ں ہوئیں؟
ڈاکٹر محبوب حسین: جی بتدریج تبدیلیاں آئیں۔ مثلا 1970کے انتخابات کے بعد دس مزید انتخابات ہوئے۔ 1977 میں انتخابات ہوئے۔ 1985 کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ پھر 1988 میں ہوئے، 1990 اور 1993 میں ہوئے۔1997 میں الیکشن ہوئے پھر 2002 میں الیکشن ہوئے۔ 2002 کے الیکشن میں یہ تبدیلی آئی کہ ووٹر کی اہلیت کی عمر اکیس سال سے کم کر کے اٹھارہ سال کر دی گئی۔ خواتین کی نمائندگی کو بڑھا دیا گیا۔ پھر 2002 کے بعد 2008، 2013،,2018 کے انتخابات ہوئے۔ اور اب 2024 میں ہونے جارہے ہیں۔ بڑی تبدیلی تو ووٹر کی عمر کے حوالے سے ہوئی۔ مگر بعد میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت ہوتی رہی ہیں۔
سوال : اس خطے میں لوگوں کو ووٹ کا حق تو 1920 میں ملا مگر جو ماڈرن ورلڈ تھی وہاں تو یہ عمل پہلے شروع ہو چکا تھا ۔ کیا وہاں بھی ابتداء میں ووٹر کی اہلیت کا تعین کیا گیا تھا جیسے یہاںکیاگیا تھا؟
ڈاکٹر محبوب حسین: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ سب سے پہلے تو برطانیہ کا جمہوری نظام ہے ۔ ہم اس کی مثال دیتے ہیں۔اٹھارویںصدی میں لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق دیا گیا وہ بھی بہت زیادہ نمائندہ نہیں تھا۔ بڑے شہروں مثلا مانچسٹر وغیرہ کی نمائندگی کم تھی ۔ چھوٹے شہروں کو زیادہ نمائندگی دی گئی۔آہستہ آہستہ الیکٹورل ریفارمز کے ذریعے انہوں نے اپنا نظام بہتر کیا۔ امریکہ میں اٹھارویں صدی میں یہ حق دیا گیا۔
خواتین کو نمائندگی کا حق بہت تاخیر سے ملا۔ اورامریکہ کی یہ مثال دی جاتی ہے کہ پہلے وہاں ووٹر کی عمر اکیس سال تھی۔ پھر ویت نام کی جنگ ہوئی تو لوگوںنے کہا کہ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے اورلڑنے کے لیے عمر اگر اٹھارہ سال ہے تو ووٹ ڈالنے کی عمر اکیس سال کیوں ہے۔ عوام کے اس مطالبے کے بعد پھر عمر کم کر کے اٹھارہ سال کر دی گئی۔
ا سی طرح باقی دنیا کی بات کی جائے تو یہ کوئی بہت پرانا عمل نہیں ہے یہ جدید رجحان ہے۔ اگرچہ الیکشن کی تاریخ بذات خود بہت پرانی ہے۔ یہ قبل مسیح کی ہے۔ یونانیوں کے دور میں بھی یہ ووٹنگ کا تصو ر تھا۔ لیکن مارڈن ورلڈ میں اس کو بہت تاخیر سے لایا گیا اور اس پر عمل کیا گیا۔
سوال : آپ نے بتایا کہ یونانیوں کے ہاں بھی ووٹنگ کا تصور تھا۔وہاں پر یہ کس نوعیت کا تصور تھا؟
ڈاکٹر محبوب حسین: یونانیوں کے ہاں نیگیٹو ( منفی) ووٹنگ کا تصور تھا۔وہ اپنی سوسائٹی اور اپنے معاشرے کی بہتری چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نے اپنے معاشرے کو بہترکرنا ہے تو پھر وہاں کے ناپسندیدہ لوگوں کو وہاں سے بیدخل یا جلا وطن کر دیا جائے اور اس کے لیے وہ باقاعدہ ووٹنگ کرواتے تھے۔ تو ان کی کونسل یا اکابرین چار پانچ لوگوں کو نامزد کرتے تھے کہ ہم نے ان کی سرگرمیاں دیکھی ہیں ۔
یہ معاشرے کے لیے مفید نہیں ہیں اور مضر ہیں۔ تو آپ فیصلہ کریں کہ کس کو نکالنا ہے اور کس کو رکھنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت نہ بیلٹ تھا نہ بیلٹ باکس تھا۔ تو پھر وہ لوگ کیسے اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ تو وہ ایک گڑھا کھودتے تھے تو وہ مٹی کی ٹھیکریاں ، امیدوار کے مخصوص گڑھے میں ڈالتے تھے۔ جس کی ٹھیکریاں زیادہ ہوتی تھیںتو وہ زیادہ نا پسندیدہ ہوتا تھا۔ تو پھر اس کو دس سال یا بارہ سال کے لیے جلا وطن کر دیا جاتا تھا۔ ووٹنگ کا یہ تصور وہاں سے شروع ہوا اور پھر آہستہ آہستہ اس میں بہتری آتی چلی گئی۔
سوال ـ : ڈاکٹر صاحب ۔ پوری دنیا میں جو الیکشن کروائے جاتے ہیں۔ کیا وہ اس قوم کے سماجی رویوں کا مظہر ہیں؟
ڈاکٹر محبوب حسین: جی ۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ لیکن ہم ایسے تیسری دنیاکے ممالک میں مختلف سماجی مسائل ہیں۔ یہاں تعلیم کی شرح کم ہے۔ لوگ ذات برادری کی بنیاد پر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ معاشی مسائل کی وجہ سے اپنا حق صحیح استعمال نہیں کر پاتے۔ پوری دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے اور لوگ اسی طرح اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔
اگر اس سے کوئی بہتر طریقہ آ گیا تو پھر انسانیت اس طرف چلی جائے گی۔ اب جو بھی مروجہ نظام ہے، اس میں الیکشن ایک بہتر طریقہ کار ہے۔ اگر چہ اس میں اصلاحات اور بہتری کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت لانے کی ضرورت ہے۔ ووٹرز کو شعور دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ الیکشن بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ عام آدمی اس میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پریشر گروپس ، گروہی مفادات والے اپنے اپنے امیدوار لے آتے ہیں۔
سوال: اس سے پہلے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان میں ڈور ٹو ڈور رابطے ضروری تصور کیے جاتے تھے۔ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے۔
انٹر نیٹ نے بہت سے تصورات کو بدل دیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں جدید ٹیکنالوجی کا کوئی کردار ہو گا؟
ڈاکٹر محبوب حسین: ٹیکنالوجی ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ ہر دور کی ٹیکنالوجی کی بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ کسی زمانے میں پوسٹر تھے ، پرچم تھے ان کی ایک اہمیت تھی۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے۔ سو شل میڈیا کا دور ہے۔ آپ اپنی آواز ووٹرز تک پہنچا سکتے ہیں۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیا آپ ووٹرز کو باہر نکال پائیں گے۔ کیونکہ پہلے سیاسی جماعتیں جلوس نکالتی تھیں۔
گلی محلے کی سطح پر میٹنگز ہوتی تھیں۔ لیکن کیا آج کے ووٹر کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اپنے معاشی مسائل سے نکل کر ان سرگرمیوں کے لیے وقت نکال پائے گا۔ یا پھر وہ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرے گا۔
یہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا پیغام تو ووٹرز تک پہنچ رہا ہے لیکن کیا وہ ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے میں بھی کامیاب ہوں گے۔ ہمارے ہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ جوانوں پر مشتمل ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر تو بہت فعال ہیں، لیکن کیا وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے پولنگ اسٹیشن بھی آتے ہیں یا نہیں ۔ یہ ایک سوال ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ وہ ووٹرز کو کیسے موبالائز کریں۔
سوال : آپ نے ذکر کیا کہ مسلم لیگ کے سلوگنز بہت پُرکشش تھے۔ سیاسی جماعیتں انتخابات کے حوالے سے اپنا منشور پیش کرتی ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتیں منشور کی تیاری اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہیں اور کیا ہماری عوام اتنی باشعور ہے کہ وہ اس کی اہمیت اور سنجیدگی کو سمجھ سکیں۔
ڈاکٹر محبوب حسین: منشور کی پوری دنیا میں بہت اہمیت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک یا جمہوری طور پر بالغ معاشروں میں منشور کی بہت اہمیت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں آبادی کے ایک بڑے حصے یا ووٹر ز کی ایک بڑی تعداد کو اس کا علم نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں کاغذات کی حد تک تو منشور بناتی ہیں، وہ بہت شاندار ہوتا ہے۔مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ صرف انتخابی نعرے تک محدود ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیںبھی اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتیں اور ووٹرز بھی اس بات میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھاتے کہ کس سیاسی جماعت کا کیا منشور ہے۔
تعلیم کے لیے کیا ترجیحات ہیں۔ صحت کے مسائل کا کیا حل ہے۔ باقی ایشوز پر ان کی کیا رائے ہے۔ ووٹرز کو اس سے دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں یہ ہے کہ ہمیں جاب ملے گی کہ نہیں۔ ہماری بنیادی مسائل حل ہوں گے کہ نہیں۔ منشور چاہے جو بھی ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنی پو لیٹیکل لٹریسی اور الیکٹورل لڑیسی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال : الیکٹورل لڑیسی کے حوالے سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 1946 میں مسلم لیگ نے بطور سیاسی جماعت بھرپور کردار ادا کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء ملک کے کونے کونے میں گئے اورلوگوں کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کیااو ر پھر اس کے نتائج بڑے متاثر کن تھے مگر قیام پاکستان کے بعد ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں الیکٹورل لڑیسی کے حوالے سے تساہل برتتی ہیں ۔ 1946 کے انتخاب کے موقع پر ووٹر لڑیسی کے حوالے سے سنجیدگی کا جیسامظاہرہ مسلم لیگ نے کیا ویسا مظاہرہ پاکستان میں پھر نہیںہوا؟۔
ڈاکٹر محبوب حسین: دیکھیں اس کے کئی پہلو ہیں۔ لیڈرشپ کارول ہے۔اس وقت قائداعظم نے نوجوانوں کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچائیں۔ اس وقت آج کی طرح سوشل میڈیا کا دور تو نہیں تھا۔ کمیونیکیشن کے ذرائع نہیں تھے۔
ایسے وسائل نہیں تھے کہ پیغام عام آدمی تک پہنچ جائے۔ اخبارات بھی جب پرنٹ ہوتے تھے تو آج کی خبر بھی دو تین بعد لوگوں کو معلوم ہوتی تھی۔دوسرے شہروں میںجاتے ہوئے مزید وقت لگتا تھا۔تو پھر نوجوانوں کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ مسلم لیگ کا پیغام عوام تک پہنچائیں۔آج کل کے دور میں نوجوان یہ کردار ادا کر سکتے ہیں اگر وہ سیاسی شعور کے حوالے سے پختگی کا مظاہرہ کریں اور وہ سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔
وہ ایسا تب کر سکتے ہیں جب انہیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے۔ طلباء تنظیموں کی ہم بات کریں تو اس میں دونوں طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ اگر طلباء کو یونین سازی کی اجازت دی جائے تو ہمیں کل کی سیاسی قیادت مل سکتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے حوالے سے یہ نکتہ نظر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان طلباء کو استعمال کرتی ہیں۔ طلباء پھر تشدد کی طرف چلے جاتے ہیں۔
اسی وجہ سے شاید پھر پابندیا ں بھی لگیں۔مگر اس کا متبادل حل بھی موجود ہے۔مختلف جامعات کے اندر سٹوڈنٹس سوسائیٹیز موجود ہیں۔ وہ شعور یا آگہی پیدا کر سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن یا سیاسی جماعتیں بھی اس حوالے سے کمپینز چلا سکتی ہیں۔ اگرہم نوجوانوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائیں کہ کونسی جماعت ان کے لیے اور ملک کے مفاد کے لیے بہتر ہے اوران کے ووٹ کی کیا اہمیت ہے تو اس سے بہتری آ سکتی ہے۔
سوال : ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں بار کونسلز ، تاجر اور مختلف نوعیت کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے سالانہ انتخابات ہوتے ہیں۔ان میںمتعلقہ ووٹرز بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر جب ملک میں قومی انتخابات ہوتے ہیں تو ووٹرز کا ٹرن آ ؤٹ بہت کم ہوتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟۔
ڈاکٹر محبوب حسین : میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو الگ تھلگ سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اس لیے وہ پولنگ اسٹیشن نہیں جاتا ۔ جب اس کو یہ احسا س ہوجا ئے کہ اس کے ووٹ کی اہمیت ہے، اس کاووٹ قیمتی ہے اور اس کے ووٹ کے ذریعے ہی فیصلہ ہونا ہے تو پھر صورتحال بدل جا ئے گی۔مگر اس وقت وہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کے مسائل کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں تو اس لیے وہ پھر اس سارے عمل سے الگ تھلگ ہو گیا ہے۔
The post ہمارے ہاں ووٹ کی اہمیت کا شعور اور آگہی پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی appeared first on ایکسپریس اردو.