یا رجائی
مصفنہ: مشاء بلال، ناشر: فرید پبلشرز، نزد مقدس مسجد، اردوبازار، کراچی
صفحات: 355، قیمت:1500 روپے
اگرچہ ادب کا کام تبلیغ نہیں اور ادیب مبلغ معاشرے کے لیے مبلغ کا فریضہ ادا نہیں کرتا، لیکن بہت سے قلم کار فکشن کو کردارسازی، شخصیت کی تہذیب اور اخلاقی تعلیمات کا ذریعہ بنانے کی ٹھان لیتے ہیں ۔
ایسے اہل قلم کی کاوشوں کی ادبی حیثیت ایک الگ معاملہ ہے ، تاہم ان کا جذبۂ اصلاح یقیناً لائق تحسین ہے ۔ مشاء اقبال بھی ایسے ہی لکھنے والوں کی صف میں شامل ہیں ۔ ’’یا رجائی‘‘ ان کی دوسری قلمی کاوش ہے، جس کا عنوان وضاحت طلب ہے ۔
یہ کتاب ایک طویل قصے کی صورت میں ہے جسے پلاٹ، کہانی اور ضخامت کے پیش نظر ناول کہا جا سکتا ہے ۔ یہ تحریر رب پر ایمان کامل کے نتیجے میں تمام رکاوٹیں عبور اور مشکلات کو زیر کر کے کام یابی کی منازل طے کر لینے کی کہانی ہے ، جس کے مرکزی کردار کرکٹ کا کھلاڑی براق آہان، مائشہ اور خذیفہ ہیں ۔
قصے کی ابتدا براق آہان کو تقریب میں اعزاز ملنے سے ہوتی ہے ، جسے وہ اپنی بیوی کے نام کر دیتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی واقعات کے تانے بانے سے بُنی گئی کہانی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ کتاب کے اختتام پر مصنفہ نے قارئین سے مخاطب ہوتے ہوئے کام یاب زندگی گزارنے کے لیے کچھ قیمتی مشورے دیے ہیں ، جو واقعتاً خوش رہنے اور پُرسکون اور کام یاب زندگی گزارنے کے لیے بہت اہم ہیں ۔
کتاب میں جا بہ جا انگریزی الفاظ کا استعمال گراں گزرتا ہے ، تاہم جس طبقے کے افراد کی یہ کہانی ہے اردو میں انگریری کے ٹکڑے ٹانکے بغیر ان کا کوئی جملہ مکمل نہیں ہوتا ، چناں چہ مکالمے میں بدیسی زبان جگہ جگہ در آنا کردار نگاری کا فطری تقاضا تھا ۔
مشاء بلال میں اچھا لکھنے کی صلاحیت ہے ، امید ہے کہ اس صلاحیت کو نکھار اور سنوار کر وہ زیادہ خوب صورت ، متاثرکُن اور خالص ادبی تحریریں سامنے لائیں گی ۔ کتاب کا ٹائٹل دل کش ہے ، جب کہ طباعت عمدہ ہے ۔
سراب (دو ناولٹ، چند واقعات)
مصنف: معین الدین جاوید حسام، ناشر: فرید پبلشرز ، نزدمقدس مسجد ، اردوبازار ، کراچی
صفحات:144، قیمت: 1000 روپے
عنوان ہی سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب ایک مجموعہ ہے جس میں مصنف کے دو ناولٹ شامل ہیں ، جب کہ ’’گزرے ہوئے واقعات‘‘ کی سُرخی کے ذیل میں انھوں نے اپنی زندگی کے اہم اور دل چسپ واقعات شاملِ کتاب کیے ہیں ۔
کتاب کا حصہ بننے والی ایک اور تحریر جس کا ذکر سرورق پر آنے سے محروم رہا مصنف کا اردو کے جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی پر لکھا گیا مختصر سا مضمون ہے ۔ بلاشبہ ابن صفی وہ لکھاری ہیں جنھوں نے لاکھوں افراد خصوصاً نوجوانوں کو مطالعے کی طرف مائل کیا اور ان ہی کے زیراثر کتنے ہی نوجوان لکھنے کی طرف مائل ہوئے ۔
بہ طور قلم کار معین الدین حسام نے اپنی کتاب میں ابن صفی پر مضمون شامل کرکے گویا ان کے اس احسان کا اعتراف کیا ہے ، جو قابل تحسین عمل ہے۔ کتاب کا حصہ بننے والا پہلا ناولٹ ہے ’’سراب‘‘ اور دوسرا ’’جھروکے۔‘‘ سراب ایک عورت کی کہانی ہے جو احساسات سے محروم شوہر کی بے اعتنائی اور پھر اپنے اکلوتے بچے کی موت کے بعد تنہائی کے شدید کرب سے دوچار اور اس کیفیت میں یوں بگاڑ کا شکار ہوئی کہ شرم وحیا تج کر اندھیرے راستوں پر بھٹکنے لگی ۔
یہ کہانی بتاتی ہے کہ مرد عورت یا میاں بیوی کا تعلق محض جسم کا رشتہ نہیں یہ جذبات اور احساسات میں گندھا ناتا ہے، اور اگر اس تعلق کو صرف جسمانی ضرورتوں تک محدود رکھا جائے تو تنہائی فریقین کا مقدر بن جاتی ہے جس کے تباہ کُن اثرات دونوں کی شخصیات پر مرتب ہوتے ہیں۔
دوسرا ناولٹ ’’جھروکے‘‘ محبت اور رومان کی خوب صورت کہانی ہے ، جس میں ہماری زندگی میں محبت کی قدر وقیمت اور اہمیت کو کرداروں، واقعات اور مکالموں کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے ۔ محبت کے سفر میں آنے والے اتارچڑھائو اور دھوپ چھائوں کی یہ کتھا اس پاکیزہ جذبے کے مختلف روپ سامنے لاتی ہے ۔
معین الدین حسام کے یہ دونوں ناولٹ صنفی تعلق کے گوناگوں پہلوؤں کے عکاس ہیں، لیکن اس حساس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے انھوں نے کہیں بھی بے احتیاطی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی تحریروں کو ’’اشتعال انگیز‘‘ بنانے سے مکمل گریز کیا ہے ۔ کتاب کے سرورق پر رنگوں میں ڈوبے درخت خزاں اور بہار کی آمیزش کا دل فریب منظر پیش کر رہے ہیں اور خوب صورت طباعت نظر کو مطالعے پر اکساتی ہے۔
پانچ ہزار کا نوٹ اور دیگر کہانیاں
مصنفہ: افشاں اقبال، ناشر: چلڈرن پبلی کیشنز14طارق پلازا ، ناظم آباد نمبر 4 ، کراچی
صفحات: 120، قیمت: 475 روپے
اس دور میں جب بچوں کو اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ اور رنگ برنگ سماجی ویب سائٹس کی صورت میں تفریح کے جادوئی ذرائع میسر ہیں ان کے لیے کہانیاں لکھنا اور ان کہانیوں کی کتابی صورت میں اشاعت دونوں قابل داد عمل بھی ہیں اور یہ خوش کُن حقیقت بھی سامنے لاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آج بھی کہانیوں کو کم سن قارئین میسر ہیں، جو ہمارے معاشرے اور اردو زبان کے لیے خوش آئند ہے ، کیوں کہ کہانی پڑھنے کا عمل ننھے ذہنوں میں تخیل کی صلاحیت ابھارتا ، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو فروغ دیتا اور انھیں مطالعے کا عادی بناتا ہے ۔
زیرتبصرہ کتاب بچوں کی لکھاری افشاں اقبال کی کہانیوں کا مجموعہ ہے ، جو طویل عرصے سے روزانہ ایکسپریس کے بچوں کے صفحے ’’کرنیں‘‘ اور مختلف رسائل کے لیے کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ اس کتاب میں شامل کہانیاں دل چسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی ۔ اکثر کہانیوں کے موضوعات نیاپن لیے ہوئے ہیں ، جو بچوں کے ادب کا لازمی تقاضا ہے، کیوں کہ موضوعات کی یکسانیت پڑھنے والے کو بے زار کرنے کا سبب بنتی ہے ۔
مصنفہ کا طرزتحریر رواں اور پُرکشش ہے ۔ ان کی تحریر میں بے ساختگی کا عنصر نمایاں ہے ، اور کم سن قارئین کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کے لیے ادب اطفال کو ان ہی صفات اور اسی اسلوب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کتاب میں شامل کہانیاں مختصر ہیں اور شروع سے آخر تک پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں ۔
افشاں اقبال نے بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے بہت سے قلم کاروں کی روش کے برعکس زیادہ تر کہانیوں میں ناصحانہ انداز اپنانے اور کہانی کو محض سبق آموز بنانے کی کوشش میں مضمون کر کے رکھ دینے کی غلطی سے اجتناب کیا ہے ۔
ہر کہانی کے ساتھ دل کش تصاویر شایع کر کے کتاب کو کہیں زیادہ خوب صورت اور بچوں کے لیے مزید پُرلطف بنایا جا سکتا تھا، تاہم شاید کتاب کی ضخامت بڑھنے کے خدشے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا ۔
ادب اطفال تخلیق کرنے والے ہر قلم کار اور ننھے قارئین کے لیے کتابیں شایع کرنے والے ناشروں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ بچے پڑھنے سے زیادہ دیکھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں، اور کہانیوں کے ساتھ ان میں شامل واقعات اور کرداروں کی منظرکشی انھیں کہانی پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کتاب کی طباعت معیاری اور سرورق متاثرکُن اور توجہ کھینچنے والا ہے۔
نگہتِ گل
شاعرہ: عائشہ نگہت، ناشر: اشارات پبلی کیشنز،کراچی
صفحات:296، قیمت: 800 روپے
یہ کتاب عائشہ نگہت مرحومہ کا شعری مجموعہ ہے ، جو ستمبر 2023 میں شایع ہوا ، افسوس ناک امر یہ ہے کہ عائشہ نگہت اپنے اس مجموعے کی اشاعت کچھ دنوں بعد ہی نومبر میں دنیا چھوڑ گئیں ۔ اس سے قبل ان کے کلام کا مجموعہ ’’مجھے پہچان لینا‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا ، یوں ’’نگہتِ گل‘‘ ان کی دوسری اور آخری کتاب ثابت ہوئی ۔
عائشہ نگہت کے کلام کے سرسری مطالعے ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ تھیں ، تاہم ان کے مجموعے میں نظموں کے ساتھ غزلیں ، ٹپے اور فردیات بھی شامل ہیں ۔ ان کی شاعری میں کہیں کہیں کومل ہندی الفاظ کی کثرت گیت کا رنگ لے آتی ہے تو کہیں فارسیت کے ذریعے وہ غالب کی روایت سے جُڑی نظر آتی ہیں ۔
ان کے ہاں شعری فضا ڈھلتی شام کی ساری اداسی لیے ہوئے ہے ۔ احساسِ تنہائی، برہا کا دکھ، بے اعتنائی کا رنج نسائی لہجے میں ڈھل کر ان کی شاعری کو آہوں میں بدل دیتا ہے۔
اگرچہ ’’نگہتِ گل‘‘ کے اوراق پر پھیلے لفظوں کا بڑا حصہ ذاتی جذبات واحساسات کا عکاس ہے ، تاہم عائشہ نگہت کی شعری دنیا کا سفر کرتے ہوئے ہمیں جا بہ جا عصری حسیت سے بھی واسطہ پڑتا ہے ۔ وہ اپنے اردگرد پھیلے غموں کا ادراک بھی رکھتی ہیں اور ان پر ملول بھی ہیں ، جس کا ثبوت نظم ’’کٹی ہوئی فصل‘‘ ہے:
یہ پنشن پانے والے
سر کٹے اشجار ہوں جیسے
تھکی ہاری سی فوجوں کے
سپہ سالار ہوں جیسے
یہ مختصر نظم بالوں میں سفیدی لے کر ملازمت سے سبک دوش ہونے والوں کے معاشی مصائب کا نوحہ نہیں ، بلکہ ان کے اکیلے پن اور اپنے گھر اور سماج کے لیے یکایک غیرمفید ہو جانے کے تکلیف دہ احساس کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ ’’اے امن کے خدائو!‘‘ بھی ایک ایسی نظم ہے جو شاعرہ کے سماجی و سیاسی شعور کا پتا دیتی ہے ۔
ان کی غزلوں میں کہیں کہیں خیال کا نیاپن چونکا دیتا ہے ، جیسے:
رہتا ہے کوئی ہم دم وہم راز کے جس سے
ملنے کے لیے جائے گی اب شام نگر دھوپ
اس غزل کے ایک اور شعر میں بس اک ’’مگر‘‘ سے کام لیتے ہوئے کس خوب صورتی سے اپنی بات کہہ دی گئی ہے:
جی چاہتا ہے دن کوئی ساحل پہ گزاریں
لہروں سے رہے آنکھ مچولی سی، مگر دھوپ
عائشہ نگہت کے کلام میں ہمیں سوچ کے نئے زاویے اور فلسفیانہ انداز ِفکر کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری محض مختلف کیفیات کے دوران دماغ میں کوندتے ابھرتے خیالات کا پرتو ہی نہیں ، گہرے غوروفکر کا نتیجہ بھی ہے۔ ’’صرف ایک زندگی‘‘ ایک ایسی ہی نظم ہے، جس میں بے کراں اور رنگارنگ کائنات اور زمین وآسماں کی وسعتوں کے مقابل فرد کی پانی کے بلبلے کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے زیرلب شکوہ کیا گیا ہے ۔ کتاب میں موجود خوب صورت ، فکرانگیز اور کسی منفرد خیال سے دمکتے بہت سے اشعار اور سطور کی مثال دی جا سکتی ہے، مگر تبصرے کا اختصار اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
دل کش سرورق کے ساتھ شایع ہونے والی اس کتاب میں صاحب کتاب کا لکھا پیش لفظ ہے نہ کوئی تقریظ، البتہ کتاب کی پُشت پر اردو زبان وادب کی تین نمایاں شخصیات ڈاکٹرجمیل جالبی، افتخارعارف اور پرفیسر سحرانصاری کی مختصر آرا درج ہیں ۔
کوتوال نامہ
مصنف: ڈاکٹر سید کلیم امام، ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن، قیمت:300 روپے
“سیاں بھئے کوتوال اب موہے ڈر کاہے کا”
ڈاکٹر سید کلیم امام اب کوتوال نہیں رہے لیکن جب ان کی کوتوال نامہ سامنے آئی تو پہلی ضرب المثل جو ذہن میں بجلی کی طرح کوندی وہ یہی تھی۔ یہ ایک ایسے وقت میں کہا جاتا تھا جب کسی کا کوئی قریبی عزیز یا جاننے والا کسی اہم منصب پر فائز ہو جائے لیکن مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ کلیم امام کے جاننے والوں کو کبھی یہ کہنے کا موقع ہی نہیں ملا ہوگا۔
مجھے دشت صحافت کی سیاحت میں تین دہائیاں بیت چکی ہیں اور اس دوران اس دشت کے جس حصے میں سب سے زیادہ وقت گزرا اسے کوتوالی کہتے ہیں۔ بطور کرائم رپورٹر پہلے صرف کراچی سے کرائم رپورٹنگ کی لیکن جب پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے کرائم پر مبنی پہلے شو کی میزبانی شروع کی تو پورا ملک ہی قلم اور کیمرے کی زد پر رکھ لیا اس دوران درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں مختلف رینکس کے پولیس افسروں سے ملاقات ہوئی کوئی اچھے نقوش چھوڑ گیا تو کسی کے ساتھ گزرے وقت کے ضیاع پر افسوس ہوتا ہے۔
بطور پولیس فورس کے سربراہ کے بھی کئی افسران سے بطور صحافی قریبی تعلق رہا جس میں اگر کمال شاہ کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہو گی ۔ وہ واقعی کمال کے شاہ تھے لیکن کمال شاہ کے بعد اگر کسی کی شخصیت نے متاثر کیا تو کلیم امام ہیں ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں بہت کم کسی سے متاثر ہوتا ہوں کیونکہ میرے اپنے معیار ہیں ۔ میں انسان کو اس کے ظاہر پر نہیں اس کے باطن پر پرکھتا ہوں اور اس بات کو بھی مانتا ہوں کہ میری “پرکھ” کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ کلیم امام سے پہلی ملاقات ہی اس وقت ہوئی جب وہ آئی جی کے عہدے پر پہنچ چکے تھے اور “کوتوال سندھ” ہو کر ہمارے “شہر خرابی” میں وارد ہوئے تھے ۔ ابتدائی ملاقاتیں کچھ خاص نہ رہیں سوائے اسکے کہ ہم سمجھتے رہے کہ ہمیں خبروں کی ایک اچھی “سورس” مل گئی ہے لیکن کلیم امام کا کردار اس وقت کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے صوبائی حکومت کے سامنے ایک اصولی موقف اپنایا۔
سرکاری نوکری کے حوالے سے ایک پرانی کہاوت ہے کہ آپ کو کیریئر یا اسٹینڈ میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ۔ ابتدا میں تو ہم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ کلیم پولیس فورس کے ” امام” رہنا پسند کریں گے اور کسی نہ کسی مرحلے پر ہتھیار ڈال ہی دیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور صوبے کے کوتوال کا منصب ان سے جاتا رہا۔
آخری دنوں میں ملاقاتیں کافی زیادہ ہوئیں اور کلیم امام صرف بطور پولیس افسر ہی نہیں ایک شاندار شخصیت کے طور پر بھی دل میں اتر گئے ۔کراچی سے اسلام آباد سدھارے تو رابطوں میں کچھ وقفہ آیا لیکن رابطے ختم نہ ہوئے اور جب سرکاری دامادی ختم ہو گئی تو ہم پر کلیم امام کا ایک اور جوہر کھلا کہ حضرت ایک کامیاب درانداز بھی ہیں اور انہوں نے یہ در اندازی صحافت کے میدان میں شروع کی ۔ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں ۔
فلسفے کی جو تعریف مجھے پتہ ہے وہ وجود، منطق، علم، اقدار، من اور زبان سے متعلق عام اور بنیادی سوالات کے منظم مطالعے کو کہتے ہیں ۔ یعنی ایک عقلی اور تنقیدی تحقیق جو اپنے طریقوں اور مفروضوں کی عکاسی کرتی ہو اور کوئی شخص اتنے منظم مطالعے کے بعد کوتوال بن جائے تو اسے کلیم امام کہتے ہیں ۔
ان کی کتاب کوتوال نامہ کی ذیلی سرخی میں بھی ان کے اسی فلسفے کی جھلک ہے
عروج کا زوال تو ہم سب نے لکھ پڑھ اور سن رکھا ہے لیکن کلیم امام کوتوال نامہ میں زوال کے عروج کی کہانیاں سناتے ہیں اور اسے ہی شہہ سرخی بھی بناتے ہیں
یقینا ان کی “فلسفیانہ پولیسنگ”ان کی راہ میں بری طرح حائل رہی ہو گی اور اس کا اندازہ ان کی تحریروں کو بغور پڑھنے سے جابجا ہوتا ہے وہ اپنی تحریروں میں معاشرے میں پنپنے والے ان مختلف جرائم کا ذکر تو کرتے ہی ہیں جن کا سامنا انہوں نے ایک پولیس افسر کے طور پر کیا لیکن کہیں بین السطور تو کہیں نہایت کھل کر انہوں نے ان برائیوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے جو افسر شاہی میں رائج ہیں ، وہ کہیں سیاستدانوں پر نکتہ چیں نظر آئے تو کہیں اس پورے فرسودہ نظام کو ہی انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ ہر تحریر ناصرف زبان اور بیان کے اعتبار سے لاجواب ہے بلکہ ان کے اسلوب نے انہیں ایک فلسفی اور ایک کوتوال سے نکال ایک ادیب کے مرتبے پر فائز کر دیا ہے
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو سے چونکہ محبت کا رشتہ ہے اور حضرت داغ کے کچھ داغ ہم پر بھی پائے جاتے ہیں اس لیے سارے جہاں میں دھوم جس زبان کی ہے اس زبان کے محکمہ پولیس میں استعمال پر ان کی تحریر “ہنر کا کمال” کا میں نے سب سے زیادہ لطف لیا ۔ بطور کرائم رپورٹر پولیس کی زبان پڑھنا بہت پہلے آگیا تھا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس کی زبان عام آدمی کیلئے قابل فہم نہیں ہے ۔ زبان کا ارتقا تو ہے ہی یہی کہ اس میں دوسری زبانوں کے لفظوں کی آمیزش ہوتی رہے لیکن نجانے کیوں محکمہ پولیس میں آج بھی اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی اور پولیس کو اپنا بیان دینے والے شہریوں کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ان سے جس تحریر پر دستخط کرائے گئے ہیں اس میں آخر لکھا کیا تھا ، حالانکہ اس کی آخری سطر میں وہ شہری یہ بھی مان رہا ہوتا ہے کہ اسے یہ تحریر پڑھ کر سنائی گئی اور وہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔
اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اسے صرف “قومی ورثہ” نہ بننے دیا جائے پولیس اور عدالتوں میں اسے “بولی” یعنی روزمرہ میں بولی جانے والی زبان کے قریب لایا جائے تاکہ اس پر بعض لوگوں کی اجارہ داری اس حد تک قائم نہ ہو جائے کہ کلیم امام کو پھر “ہنر کا کمال” دکھانا پڑے ۔ (تبصرہ نگار:فہیم صدیقی)
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.