تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ رب ذوالجلال ہر دور میں چند مخصوص افراد کو زمین پر کسی عظیم کام کی تکمیل کے لیے پیدا فرماتا ہے اور وہ اپنے کام کے ذریعے اپنے نام کو زندہ جاوید کر کے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے کام کے ثمرات اور ان کی یادوں کی خوشبو عرصۂ دراز تک قوموں کے اذہان قلوب کو معطر رکھتی ہے۔
اس مضمون میں ہم ایک ایسی ہی نام ور بین الاقوامی علمی شخصیت کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جس کی چوراسی سالہ زندگی کا ہر ہر لمحہ انتھک محنت اور جہدمسلسل سے عبارت ہے۔
نام و نمود سے پاک گوشۂ تنہائی میں کام اور صرف کام کی دھنی اس عظیم شخصیت کا نام پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید ہے۔
آپ کو کتابیں پڑھنے والے تو بہت مل جائیں گے مگر کتب سے عشق، ان کی بقا کی فکر، ان کی تزئین و آرائیش اور درجہ بندی میں ہمہ وقت مصروف لوگ چند ہی ہوں گے۔ انھیں میں سے ایک نابغۂ روزگار شخصیت ڈاکٹر انیس خورشید کی ہے، جنہیں لوگ بابائے لائبریری اور بابائے کتب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
پاکستان میں لائبریریوں کے خالق، جدید لائبریریوں کے بانی، موبائل اور کمپیوٹرائیزڈ کتب خانوں کے بانی، کتابیات کے انسائیکلوپیڈیا، تعلیم و تدریس کے بادشاہ، علم و دانش کے روشن چراغ، مفکر و مدبر محقق و مفکر ماہربلاغیات، فہم و فراست متانت و ذہانت، محبت و شفقت کا خزینہ، صبر و شکر سخاوت و جرأت، قرأت و استقامت کا پیکر، علم و آگاہی کے سرخیل، درویشانہ صفات کے حامل، دل نشین شخصیت، جس نے دنیا بھر میں موجود اپنے شاگردوں پرستاروں اور چاہنے والوں کو ایک ہی پیغام دیا:
عزم و ہمت عمل و بیداری، قصۂ زیست کا عنواں کرلو
21 ستمبر 1924ء کی وہ ایک خوش گوار صبح تھی جب ہندوستان کے صوبے سی پی کے ضلع ناگپور کے ایک سرسبزوشاداب گاؤں کامٹی کے محلے وارث پورہ میں رہائش پذیر شاعروادیب منشی سعید کے گھر جشن بہاراں کا سماں تھا۔
منشی سعید کے بیٹے خورشید کو اللہ نے اولاد نرینہ سے نوازا تھا۔ دادا نے نومولود کا نام انیس خورشید رکھا۔ ابھی پانچ برس کے بھی نہ ہو پائے تھے تو دادا نے ہاتھ پکڑا اور محلے کے مدرسے میں جا کر بٹھا آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوستان میں تعلیم عام نہ تھی اور مسلمانوں میں پڑھنے لکھنے کا رجحان بہت کم تھا۔
گھر کے ادبی اور دینی ماحول نے ان کی تعلیم و تربیت پر بڑے گہرے نقوش مرتب کیے۔ موصوف خالی اوقات میں دادا حضور کے کمرے میں گھس جاتے اور کتابوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتے۔ آغوش مادر میں تربیت اور بنیادی تعلیم کی تکمیل کے بعد انھیں گاؤں کے واحد اسکول ربانی ہائی اسکول میں داخل کرادیا گیا۔
1943ء میں ہائی اسکول کے سرٹیفکیٹ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، پھر فکر ہوئی ذریعۂ معاش کی تو ناگپور کے پوسٹ آفس جنرل میں ایک ملازمت مل گئی۔ علمی شوق ورثے میں ملا تھا۔ لکھنا پڑھنا اہل خانہ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ مچھلی سمندر میں رہتے ہوئے تیرنا نہ سیکھے یہ کیسے ممکن تھا۔ چناںچہ 1944ء میں پہلا مضمون ’’بابوجی‘‘ لکھا جو رسالے کام یاب میں شائع ہوا۔
اس کے بعد انیس میاں نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ان کے مضامین دہلی اور بمبئی کے معیاری رسالوں میں چھپنا شروع ہو گئے، جن میں الفاروق، منزل، آئینہ اور نظام قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان، کا نعرہ عروج پر تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ مسلمانوں کے دلوں پر نقش ہوچکا تھا۔
ڈاکٹر انیس اس تحریک کا حصہ بنے۔ 14 اگست 1947ء کو مملکت خداداد پاکستان وجود میں آگئی۔ مملکت اسلامیہ کی خدمت کے جنون نے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اکتوبر 1947ء میں ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے والدین کو خدا حافظ کہا اور چند دوستوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کرگئے۔
انھوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور رنچھوڑلائین کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں قیام کیا اور پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف آفس میں ملازمت جاری رکھی۔ 1950ء میں اہل خانہ کو بھی پاکستان لے آئے اور پی اینڈ ٹی کالونی میں رہائش اختیار کی۔ دورانِ ملازمت ڈاکٹر صاحب نے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا اور اسلامہ کالج سے بی اے کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور کراچی یونیورسٹی سے لائبریرین شپ میں سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
اسی دوران انہیں کراچی یونیورسٹی میں ملازمت کی پیشکش ہوگئی۔ انیس خورشید صاحب کتب کے عاشق اور ادب کے دل دادہ تھے، انھوں نے کراچی میں ادبی نشستوں کے سلسلے کا آغاز کیا، جس کے مستقل ارکان میں نواب صدیق علی خان، ڈاکٹر حبیب الرحمٰن، ریاض روفی، ایوب صدیقی، شوکت رضوی شامل تھے۔
ان نشستوں میں ڈاکٹر صاحب اپنے رفقا کو اپنے ہاتھوں سے کافی بنا کر پیش کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ یہ خوشبو اہل ادب تک جا پہنچی اور ان ادبی نشستوں میں مزید نام ور ادیبوں اور شاعروں کا اضافہ ہوگیا اور ان میں ڈاکٹر محمود حسین، ابن انشائ، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر شریف المجاہد، ڈاکٹرظفر سعید سیفی، ڈاکٹر جمیل اختر، ڈاکٹر ذاکر شاہد، اکرام الحق، ڈاکٹر نعیم قریشی، سید ریاض الدین وغیرہ شامل تھے۔ لاہور کے ٹی ہاؤس کی طرح دوستوں کی محفلوں میں ڈاکٹر صاحب کی کافی نے بھی خوب پذیرائی حاصل کی بقول شاعر۔
کبھی تنہائی سے محروم نہ رکھا مجھ کو
دوست ہم درد رہے کتنے میری ذات کے ساتھ
1960ء کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے لائبریری کے پوسٹ گریجویٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے سب کو حیران کردیا جس کے بعد ان کو امریکا سے فلبرائیٹ ایشیا فاؤنڈیشن کی طرف سے اسکالرشپ آفر ہوئی۔
1967 میں امریکا سے لائبریری سائنس میں ماسٹر کرکے وطن واپسی کا فیصلہ کیا، حالاںکہ انھیں امریکا میں نہایت پُرکشش ملازمتوں کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن ان میں اپنے ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، لہٰذا واپس پاکستان آگئے۔ پاکستان واپس آکر انھوں نے کراچی یونیورسٹی کی لائبریری کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ یہی ان کا خواب تھا جس کی تکمیل کے لیے انھوں نے دن رات ایک کردیے تھے۔
1965ء میں انھیں امریکا سے پی ایچ ڈی کی پیشکش ہوئی۔ چناںچہ انہوں نے ایک بار پھر پٹس برگ یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ایڈوانسڈ سرٹیفکیٹ کورس کیا۔ 1966ء میں اسٹیٹ یونیورسٹی نیویارک سے لائبریری سائنس میں ڈپلوما کیا۔
1969 میں ڈاکٹر صاحب امریکا سے پی ایچ ڈی کرکے وطن واپس پہنچے۔ پانچ سال کی سخت ترین محنت کے باعث وہ کراچی آتے ہی بیمار پڑ گئے۔ پھر مرض بڑھتا چلا گیا جوں جوں دوا کی۔ ان کی صحت خراب ہوگئی مگر ان کے مضبوط ارادے اور جوان حوصلے پست نہ ہوسکے۔
نئے ولولوں کے ساتھ دوبارہ اپنی مادر علمی کراچی یونیورسٹی پہنچ گئے۔ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے 1979 میں اپنے ڈپارٹمنٹ کے چئیرمین مقرر ہوئے۔ یہ معمار قوم 1986 میں ریٹائر ہوگیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے درس و تدریس سے اپنا رابطہ برقرار رکھا۔ انھوں نے 35 کتب اور 15 سے زیادہ تحقیقی مقالے تحریر کیے، جو ملکی اور غیرملکی رسائل میں نہایت نمایاں طور پر شائع ہوئے اور انھیں خوب پذیرائی ملی۔
ڈاکٹر صاحب کی کتب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان میں سے کچھ کتابیں پاکستان کی یونیورسٹیز میں لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کے نصاب کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے علمی کارناموں پر بہت سے طلبہ نے مقالے بھی لکھے اور آج بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ قائداعظم کی ببلیوگرافی مرتب کرنا تھا۔
دو سال کی مسلسل عرق ریزی کا ثمر یہ تحقیقی کتاب ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے جس کی طباعت اردو اور انگلش میں ہوئی، جو بہت مقبول ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی قومی و علمی خدمات کو سراہتے ہوئے ملک اور بیرون ملک کے اہل علم اداروں نے انھیں بے شمار اعزازات سے نوازا جس کی تفصیل ان سے موسوم ویب سائیٹ پر موجود ہے۔
1996 میں اس وقت کے صدر جناب فاروق احمد لغاری نے آپ کو صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا، 2006 میں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا، اسلام آباد میں قائم ملک کے سب سے بڑے قومی عجائب گھر میں ڈاکٹر صاحب کے علمی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے، 1992 میں ہمدرد یونیورسٹی کے بانی محترم حکیم محمد سعید صاحب نے آپ کی علمی خدمات کے پیش نظر ایوارڈ سے نوازا۔
آپ ہم درد کی شوریٰ کے چئیرمین بھی رہے۔ آپ نے بے شمار ادبی اور علمی اداروں کی سرپرستی بھی فرمائی۔
ڈاکٹر صاحب نے نوجوان نسل کو کتب خانوں سے جوڑنے کے لیے جو عظیم کارنامے انجام دیے وہ رہتی دنیا تک طالبان علم کی راہ نمائی کرتے رہیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے ان شان دار کارناموں کے پیچھے ان کے والدین کی دعاؤں کے ساتھ ان کی اطاعت شعار ان کی خدمت گزار صابروشاکر رفیق حیات کی ناقابل فراموش خدمات کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
وہ جانتی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب قومی سرمایہ ہیں، چناںچہ بچوں کی اعلٰی تعلیم تربیت کے ساتھ انھوں نے اپنے بیمار شوہر کی نہایت جانفشانی سے خدمت کی، ان کی ضروریات کا خیال رکھا، انھیں خوش گوار ماحول فراہم کیا، یوں ہر باوفا بیوی کے لیے ایک مثال قائم کردی۔
بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور شوہر نام دار کی خوب سے خوب تر خدمت کے علاوہ محترمہ رقیہ خورشید کے ایک اور ناقابل فراموش وہ خاموش کردار تھا جو انہوں نے اپنے مجازی خدا کی علمی مصروفیات اور تحقیقی سرگرمیوں میں ان کے معاون اور مددگار کے طور پہر بھرپور طریقے سے سرانجام دیا۔
محترمہ رقیہ خورشید صاحبہ ان کی دوست بھی تھیں غم خوار بھی، ساتھی بھی تھیں اور مددگار بھی۔ ڈاکٹر صاحب کو جہاں اور جس جگہ کسی راہ نمائی، مشورے یا علمی مدد کی ضرورت ہوتی مسزرقیہ خورشید ایک بہترین راہ نما کے طور پر دامے، درمے، سخنے ان کی مدد کرتیں۔ ڈاکٹر صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ رقیہ میری اہلیہ اور میرے بچوں کی ماں ہی نہیں بلکہ یہ میری علمی کاوشوں میں برابر کی شریک ہیں، یہ میری سیکرٹری بھی ہیں، میری وکیل بھی میری جج بھی ہیں اور میری رفیق بھی، رقیہ کے اس اعلیٰ کردار پر میں ان کا انتہائی ممنون اور مشکور ہوں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر رقیہ میرے ساتھ نہ ہوتیں تو میں اس قدر تحقیقی و علمی کام سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔ 14 اکتوبر 2023 کے ایک اداس دن اعلیٰ خوبیوں کی مالک یہ عظیم خاتون اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر انیس خورشید 4 جنوری 2008 کو انتقال فرما گئے تھے۔
ان کے سفر آخرت پر روانہ ہو جانے کے بعد ٹھیک 15 سال تک مسز رقیہ خورشید اپنے مجازی خدا کے علمی سرمائے کی نہ صرف حفاظت فرماتی رہیں بلکہ ان کے جاری کردہ تمام سرگرمیوں اور تقاریب کی اسی طرح جانفشانی سے راہ نمائی فرماتی رہیں اور ان کے احباب کو ڈاکٹر صاحب کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ رقیہ خورشید صاحبہ کی رحلت کے بعد ان کے لواحقین احباب اور عزیز و اقارب کو پہلی بار اپنی یتیمی کا احساس ہوا، لیکن مسزرقیہ خورشید نے اپنے بعد کوئی خلاء پیدا نہ ہونے دیا اور اپنے عزیزترین فرزندشفیق اجمل میاں کی ذہنی، علمی تربیت اور اخلاقی اعانت اس جانفشانی سے کی کہ آج ڈاکٹر صاحب کا تمام علمی سرمایہ محفوظ ترین ہاتھوں میں ہے بلکہ درس قرآن ڈاٹ کام کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا کو علم و عمل کی روشنی سے منور کر رہا ہے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ڈاکٹر انیس خورشید کسی فرد کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک ایک مشن ایک جہدمسلسل کا دوسرا نام ہے۔ آج دنیا بھر میں موجود ہزاروں فرزندان علم و فراست اور ان کے ہونہار صاحب زادگان ان کے مشن کو کام یابی سے آگے بڑھا رہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے صدا دے رہے ہیں۔
میں یہاں پر خاص طور پر ان کے سعادت مند صاحبزادے شفیق اجمل میاں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو ویب سائٹ درس قرآن ڈاٹ کام کے ذریعے اپنے والد کے مشن کا چراغ پوری دنیا میں نہایت کام یابی کے ساتھ روشن کیے ہوئے ہیں اور یقیناً یہ ڈاکٹر انیس خورشید کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
یوں اندھیروں میں رہیں رات بسر ہونے تک
یہیں خورشید نہ بن جائیں سحر ہونے تک
The post ڈاکٹر انیس خورشید ؛ کتابوں سے عشق میں زندگی گزار دینے والی شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.