سراج الدین خان آرزو ؔکے معاصرین شعراء میں نابینا شاعر مرزامحمد افضل سرخوش ؔبھی شامل تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ بادشاہ فرخ سیر کے دربار میں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے ان سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔
انہوں نے پاس ہی موجود اپنے بیٹے فضل اللہ ہنر ؔکو اپنی بیاض تھمائی کہ وہ کچھ شعر پڑھ کے سنائیں، جس پر دربار میں موجود خانِ آرزو ؔنے برجستہ کہا،’’آج پتا چلا ہے کہ بیٹے کو ’’نورِچشم‘‘ کیوں کہا جاتا ہے۔‘‘
مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ کے خالق پنڈت دیا شنکر نسیم ؔکے پوتے پنڈت ترلوکی ناتھ کول بیان کرتے ہیں،’’ایک مرتبہ میں شدید بیمار ہوگیا۔ بخار کی شدت کے علاوہ پیروں میں ایک پریشان کن گلٹی بھی نمودار ہوگئی۔ شام کو دادا صاحب تشریف لائے۔ میرا بخار دیکھا، گلٹی دیکھی تو فوراً فرمایا:
؎بخار آیا ہے، سر میں درد ہے، پاؤں میں گلٹی ہے
عدم کا پارسل لدنے کو ہے، تیار بلٹی ہے
لکھنؤ کی ایک مجلس میں میرانیس ؔمرثیہ پڑھ رہے تھے کہ دوران مجلس لکھنؤ کے رئیس نواب مرزا حیدر تشریف لائے اور مجمع چیرتے ہوئے منبر کے قریب جا بیٹھے۔ دستور کے مطابق ان کے جلو میں چلنے والا ان کا بھنڈی خانہ، آبدار خانہ اور دست بغچہ وغیرہ بھی آنا شروع ہوئے۔ منبر پر میر انیسؔ خاموش ہوگئے، تاہم چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں تھے۔ مرزا حیدر بھانپ گئے اور میرصاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگے ’’میر صاحب! بسم اللہ! آپ مرثیہ شروع کیجیے۔‘‘ انیسؔ جھلا کے بولے،’’حضور!! پہلے آپ کا جہیز تو آ لے!‘‘
داغ ؔدہلوی مغل شہزادہ ہونے کے باوجود سیاہ فام تھے۔ جب وہ نظام حیدرآباد کے استاد مقرر ہوکر دکن تشریف لائے تو حیدرآباد کے شعراء نے اسے اپنی شان کے خلاف سمجھا اور ان کی سیاہ روئی کو نشانہ بناتے ہوئے درج ذیل شعر کہہ کے اپنے دل کی بھڑاس نکالی:
؎دکن میں دیکھیے دلی سے داغؔ آئے ہیں
چمن میں بلبلیں حیراں ہیں زاغ آئے ہیں
کلکتہ کے شاعر شمس الدین عازم ؔکے گھر ایک ادبی محفل منعقد ہوئی، جس میں وحشت ؔرضا کلکتوی بھی شریک ہوئے۔ ان دنوں بزرگی کے باعث وحشت ؔصاحب کے ہاتھوں میں رعشہ آگیا تھا۔ محفل کے اختتام پر جب چائے کا دور چلا تو رعشے کے باعث پیالی اور طشتری کے درمیان جلترنگ سا بجنے لگا۔ عازمؔ صاحب نے بحیثیت میزبان پیالی وحشتؔ صاحب کے ہاتھوں سے لی اور انہیں چائے پلانے لگے۔ چائے پینے کے بعد وحشت ؔبولے،’’عازمؔ ایک شعر کہا ہے، ملاحظہ ہو!‘‘:
؎ساقی نے اپنے ہاتھ سے مجھ کو پلائی مئے
حالت جو دیکھی اس نے کفِ رعشہ دار کی
بیخود ؔبدایونی راجستھان کے پُرفضا پہاڑی مقام ماؤنٹ آبو میں اپنی تعطیلات گزارنے کے سلسلے میں مقیم تھے۔دورانِ قیام وہاں معمولی نوعیت کا زلزلہ آیا، جس پر انہوں نے درج ذیل شعر کہا:۔
؎زلزلے آتے ہیں کیوں؟ اس کا سبب کیا بیخودؔ
میری بے تابیٔ دل تو کہیں آبو میں نہیں!!
ندرتؔ کانپوری جب فنا ؔنظامی کے حلقۂ احباب میں شامل ہوئے تو انہوں نے اپنی اس شمولیت پہ فخریہ کہا:۔
؎فناؔ سے ربط پیدا کر کے ندرتؔ
حیاتِ جاوداں تک آ گیاہوں
کچھ عرصے بعد فنا ؔصاحب اور ندرت ؔکے تعلقات بگڑ گئے اور ان میں ان بن ہوگئی تو ایک مقامی شاعر افسرؔ ناروی نے ایک محفل میں ندرت ؔصاحب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
؎حیات جاوداں کا مدعی اب!!
فنا ؔکے گھاٹ اترا جا رہا ہے
عرش ؔملیسانی کہتے ہیںکہ میںایک مرتبہ شملے ایک مشاعرے میںشرکت کے لیے گیا، جس کی صدارت اس وقت کے متحدہ پنجاب کے وزیراعلٰی اور یونینسٹ پارٹی کے سربراہ سر سکندر حیات خان کر رہے تھے۔ علامہ اقبال ؔکے ایک مصرع طرح میں میں نے ایک شعر کہا:
؎دو روزہ عظمت و شوکت پہ پھولنے والے
اجل سے پوچھ کہ شانِ سکندری کیا ہے!!
لوگ داد دینے کے موڈ میں آ گئے کہ وزیراعلٰی پر چوٹ تھی۔ اس کے بعد ان کا جلد ہی انتقال ہوگیا۔ اور مجھے اس بات کا علم بعد میں ہوا کہ ’’عظمت حیات‘‘ اور ’’شوکت حیات‘‘ ان کے دونوں بیٹوں کے نام تھے۔
اردو زبان کے شیکسپیئر آغاحشرؔ کاشمیری کو بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ سردیوں کی ایک رات جب اسٹیج کے پسِ پردہ تمام فن کار ایک بڑی انگیٹھی کے گردبیٹھے آگ تاپ رہے تھے تو آغا صاحب کی موجودگی میں اداکار بدرالدین جو حسین و خوب رو نوجوان تھے، ڈرامے میں اپنا کردار ادا کرکے میک اپ زدہ چہرے کے ساتھ ہی شریک محفل ہوئے۔ غازے اور پاؤڈر نے ان کے رخساروں کیٰ سرخی کو شعلہ جوالا بنا رکھا تھا۔ محفل میں موجود بزرگ اداکار با با رحیم نے آغا صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا،’’آغا صاحب! ذرا بدر صاحب کا حسن و شباب ملاحظہ فرمائیں۔‘‘ آغا صاحب نے نظر بھر کے بدرالدین کو دیکھا اور بے ساختہ بولے:
؎ہو اجازت تو کلیجے سے لگا لوں رخسار!
سینک لوں چوٹیں جگر کی انہی انگاوروں سے
اکبرؔ الہ آبادی نے ایک مرتبہ علامہ شبلیؔ نعمانی کو بذریعہ رقعہ دعوتِ طعام دی اور وہ بھی ان الفاظ میں:
؎بس بات یہ ہے کہ بھائی شبلیؔ
آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی
دعوت پر شبلی ؔبولے کہ’’خوب قافیہ نکالا ہے۔ قبلی کے علاوہ شبلیؔ کا کوئی اور قافیہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ اکبرؔ ذرا سوچ کر بولے ’’کیوں نہیں؟‘‘ شبلی نے کہا،’’تو فرمائیے!‘‘، اکبر ؔنے کہا،’’لِبلی‘‘، شبلی بولے،’’یہ کیا ہے؟؟‘‘ اکبر بولے،’’سند پیش کروں‘‘ شبلیؔ بولے ’’بے شک۔‘‘اکبر ؔنے فوراً شعر پڑھا:
؎تم بھی اِس راہ پر چلے شبلی!
عشق نے آبروئے غالبؔ لی
مرزا عزیز فیضانی علامہ اقبال سے متعلق اپنی یادیں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’علامہ اقبالؔ کو ’نقرس‘ (جوڑوں کی سوزش) کا مرض لاحق تھا، جو بالعموم امراء کو ہوا کرتا ہے۔ اپنے اس مرض سے متعلق علامہ مرحوم نے درج ذیل شعر کہا:
؎یہ بھی ترا کرم ہے کہ ’’نقرس‘‘ دیا مجھے
صحت میں گو غریب، مرض میں امیر ہوں‘‘
جن دنوںچراغ حسن حسرت ؔاور ایم ڈی تاثیر ؔکے تعلقات خراب ہوئے اور دونوں جانب سے قلمی گولہ باری شروع ہوئی تو روزنامہ’ امروز‘ میں کام کرنے کی وجہ سے گاہے گاہے احمد ندیمؔ قاسمی بھی تاثیرؔ کی لکھی گئی نظموں کا منظوم جواب دیتے۔ ایک بار تاثیرؔ صاحب کی جانب سے نظم لکھی گئی جس میں حسرت اؔور ان کے حامیوں کو ’’حلال زادے‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا۔ جواباً قاسمی صاؔحب نے ’’سرکوب لاہوری کے‘‘ نام سے نظم کا جواب تحریر کیا جو صرف درج ذیل شعر پر مشتمل تھا:
؎حلال زادے کی گالی کا اک جواب تو تھا
سمجھنے والے سمجھ لیں اشارہ کافی ہے
امتیاز ؔعلی عرشی کے فرزند ڈاکٹر ممتاز عرشی کہتے ہیں ’’ایک روز ابا کی موجودگی میںیہ مشہور مثل کہ ’’سر بڑا سردار کا اور پاؤں بڑا گنوار کا‘‘ گفتگو میں آگئی‘‘ محفل میں موجود بڑے سروالے خوش اور بڑے پیر والے شرمندہ ہو نے لگے۔ یکایک میں نے اپنے بچاؤ کا پہلو سوچتے ہوئے کہا،’’مگر ابا! میرا تو سر بھی بڑا ہے اور پیر بھی۔‘‘ تو مسکرا کر ابا بولے،’’چلو بھئی! تم گنواروں کے سردار سہی۔‘‘
ایک ادبی محفل میں ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسروربتا رہی تھیں،’’ادب اور صحافت کا کیا رشتہ ہے؟ ان کے قریب ہی ان کے شوہر، انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے ایڈیٹر احمد علی خان بھی تشریف فرما تھے۔ محفل میں موجود ابراہیم جلیس نے ہاجرہ مسرور کو مخاطب کر کے بر جستہ کہا،’’ادب کا صحافت سے وہی رشتہ ہے جو آٓپ کا احمد علی خان سے ہے۔‘‘
پونچھ میں قیام کے دوران چراغ حسن حسرتؔ ایک سرد مقام موضع ’ہوتر‘ تشریف لے گئے، جہاں ایک مولوی صاحب کے پاس ان کے ٹھہرنے کا انتظام تھا، لیکن دونوں کی طبائع میں تضاد تھا۔ حسرت ؔٹھہرے رندِخراباتی اور مولوی صاحب زاہدِخشک۔ جاتے ہی مولوی صاحب سے حقے کی فرمائش ہوئی، مگر مولوی صاحب کے گھر حقہ چھوڑ، تمباکو تک نہیں تھا۔ البتہ مولوی صاحب خود ’’نسوار‘‘ سے شوق فرماتے تھے۔ حسرتؔ صا حب نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے فرمایا:
؎نیست حقہ، نے تمباکو، بر مکانِ مولوی
ہاں مگر نسوار بینم، دَر دہانِ مولوی
جگرؔ مرادآبادی علاج کی غرض سے جھانسی میں اپنے ایک دوست کے ہاں مقیم تھے۔ جوش ؔصاحب کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے جھانسی آئے تو جگر ؔکی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جگر ؔ اس وقت غسل خانے میں تھے۔ سامنے میز پر ان کی بیاض رکھی ہوئی تھی۔ جوش ؔوہ بیاض اٹھا کے دیکھنے لگے تو دیکھا کہ بیاض کے ہر صفحہ پر ایک غزل اور ہر غزل کے اوپر بسم اللہ کا خوب صورت طغریٰ بنا ہوا تھا۔
جوشؔ صاحب نے اسے غور سے دیکھا اور بیاض پر یہ شعر لکھ دیا:
؎کیوں بے! رندِنامِ سیاہ
جس ورق کو الٹیے ’’بسم اللہ‘‘
داغ ؔکے شاگرد حیات بخش رسا ؔنے داغ ؔکی جانشینی کا دعویٰ کیا تو اخبار ’’مخبر عالم‘‘میں داغ ؔکے ایک اور شاگرد نے’’م۔ش‘‘ کے نام سے خط لکھا کہ ’’داغؔ کے جانشین کے طور پر رسا ؔ کے انتخاب کے بارے میں اہلِ ملک کی ر ائے یہ ہے:
؎ہم صدا بلبلوں کا زاغ نہیں
کہ رِسا ؔجانشینِ داغ ؔنہیں
آزاد غزل کے موجد مظہرؔ امام علامہ جمیل ؔمظہری سے ملنے پٹنہ جایا کرتے تھے، جو یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد جج علی جواد مرحوم کے مکان کے ایک کمرے میںرہائش پذیر تھے۔ کمرے کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی اور کسی بھی طرح سے ایسے شاعر کا کمرا نہیں لگتا تھا جس کا دعویٰ تھا:
؎بڑھا تو رہ گیا پیچھے مرے زمانۂ حال
رکا تو وقت کی رفتار روک دی میں نے
ان کی شخصیت کا یہ تضاد مظہرؔ امام کو بڑا عجیب لگا، جس کے پیش نظر انہوں نے درج ذیل شعر کہا:
؎کیا گلستاں کو نکھاریں گے نقیبانِ بہار
اپنے کمرے میں سلیقے سے نہیں رہ سکتے
اردو کے مشہور ناول امراؤ جان ادا کے مصنف مرزا ہادی رسواؔ کو لکھنؤ سے بہت محبت تھی۔ جوش کہتے ہیں ایک مرتبہ مرزا رسوا ؔحیدرآباد میں اپنی ملازمت کے دوران اپنی سالانہ تعطیلات لکھنؤ میں گزار کر واپس حیدرآباد آئے تو میں ایک دو روز کے بعد ان سے ملاقات کی غرض سے گیا۔ دیکھا تو ان کے کپڑے بہت کثیف اور میلے ہوچکے تھے۔ میں نے عرض کی، مرزا! کپڑے بدل ڈالیے، بہت مٹیالے ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ایک سرد آہ کھینچی اور برجستہ بولے:
؎نہ بدلا اس لیے ملبوس ہم نے
کہ دامن پہ غبارِلکھنؤ ہے
لکھنؤ یونیورسٹی کے اساتذہ اپنے وائس چانسلر اچاریہ جُگل کشور سے ناراض تھے۔ ایک بزمِ پُرتکلف میں ہندی کے استاد ہری کرشن اوستھی نے ایک مصرع کہا:
؎اس واسطے جُگلو کو بھی الو نہیں کہتے
ایک دوسرے استا د نے مصرع پر گرہ لگانے کی فرمائش کی، جس پر آلِ احمد سرورؔ نے یوںمصرع اولٰی لگایا:۔
؎اس پر بھی نہ بیٹھے کہیں اک اور کمیشن
محفل میں موجود پروفیسر احتشام حسین نے اس سے بھی زیادہ دل چسپ مصرع ٹانکا:
؎الو بھی نہ کردے کہیں توہین کا دعویٰ
دبئی میں منعقدہ عالمی مزاحیہ مشاعرے میں پاگلؔ عادل آبادی غالب کی زمین’’ہوا کیا ہے، سزا کیا ہے‘‘ میں مزاحیہ غزل سنا رہے تھے۔ سامعین کی جانب سے بے تحاشا داد کی صورت میں غزل کی بھرپور پذیرائی کی جارہی تھی، جس پر مشاعرے کے ناظم راغبؔ مرادآبادی نے سامعین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا:
؎داد پاگلؔ کو دے رہے ہو تم
عقل مندو! تمہیں ہوا کیا ہے
جوش ؔصاحب نے ساغرنظامی کو خط لکھا، مگر ساغرؔ نظامی نے کئی روز گزر جانے کے باوجود خط کا کوئی جواب نہ دیا، جس پر جوش ؔصاحب نے ایک اور خط میں صرف درج ذیل دو مصرعے تحریر کرکے ساغرؔ نظامی کو روانہ کیے:
؎میرے مکتوب کا جواب تو دو
اپنے ذرے کو آفتاب تو دو
جب لکھنؤ انگریزوں کے زیرِعتاب آیا تو انگریزوں نے اپنے خلاف مزاحمت میں شامل بہت سے لوگوں کے گھر گرا دیے۔ اس صورت حال پر اسیرؔ لکھنوی نے لکھا:
؎بڑھ گئی کھدنے سے زیادہ اور شانِ لکھنؤ
لا مکاں ہے ان دنوں ہر اک مکانِ لکھنؤ
صدر مجلس الاحرار علامہ حبیب الرحمٰن نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا’’بعض تھڑدلے ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہم سے چندے کا حساب مانگتے ہیں، ہم لوگ بنیا نہیں کہ حساب لیے پھریں، ہمیں اپنی دیانت پر اعتماد ہے۔‘‘ اگلے دن عبدالمجید سالکؔ صاحب نے اپنے کالم افکاروحوادث میں ان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا،’’حضرت! کس بدبخت نے آپ سے کہہ دیا کہ آپ بددیانت ہیں، دیانت تو آپ کے گھر کی لونڈی ہے، شکایت یہ ہے کہ آپ نے بے نکاحی رکھی ہوئی ہے۔‘‘
سیماب ؔاکبرآبادی اور ساغرؔ نظامی لاہور سے ادبی رسالہ پیمانہ شائع کیا کرتے تھے۔ لاہور کے ایک مشاعرے میں، جس کی صدارت علامہ تاجورؔ نجیب آبادی کر رہے تھے، جب ساغرؔ صاحب نے اپنا رنگ جمایا تو مشاعرے کے آخر میں شیخ عبدالقادر بطور مہمان اعزازی اپنی تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور ساغر کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگے:
؎دور میں ’’ساغر‘‘ رہے، گردش میں ’’پیمانہ‘‘ رہے
اور پھر تاجور ؔکی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے:
؎مئے کشوں کے سر پہ یا رب! پیرِمئے خانہ رہے
آغاجانی کاشمیری اپنی آپ بیتی سحر ہونے تک میں لکھتے ہیں،’’لکھنؤ میں منعقدہ کانگریس کے جلسے میںموتی لال نہرو کو مدعو کیا گیا۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے جواہر لال نہرو بھی تشریف لائے۔ لکھنؤ کے مقامی شاعر ذکی ؔچھبن نے موتی لال نہرو کی تعریف میں درج ذیل شعر پڑھا:
؎ایسے موتی کو کوئی کیا پرکھے!
صُلب سے جس کے خود جواہر ہو
The post سخن آرائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.