خواجہ حیدر علی آتشؔ نے مشاعرے میں ایک مطلع پڑھا:
؎دختر َ رز میری مونس میری ہمدم ہے
میں ’جہاں گیر، ہوں وہ ’نور جہاں بیگم‘ ہے
معترض نے کہا،’’خواجہ صاحب! بیگم ترکی زبان کا لفظ ہے، اور بیگَم نہیں بیگُم ہے‘‘۔ آتش ؔنے جواب دیا،’’صاحب! جب ہم ترکی جائیں گے تو بیگُم کہیں گے مگر یہاں بیگَم ہے۔‘‘
مرزا غالبؔ کی بیگم نے ایک روز ان کی توجہ کارعاقبت کی جانب مبذول کروائی تو غالبؔ بولے، ’’آپ دیکھ لیجیے گا ہمارا حشر آپ سے اچھا ہی ہو گا۔‘‘ بیگم بولیں،’’وہ کیسے؟‘‘ مرزا ؔنے جواب دیا ’’بھئی آپ تو ہوں گی ان نیلے تہمبند والوں کے ساتھ جن کے پلو میں مسواک بندھی ہوگی، ہاتھوں میں ایک ٹونٹی دار بدھنی ہوگی، سر منڈوا رکھے ہوں گے،لاغر و لاچار۔۔جب کہ ہماری سنگت میں فرعون و شداد و نمرود جیسے بڑے بڑے غیرفانی شہرت یافتہ بادشاہ ہوں گے، ہمارے دائیں بائیں اطراف میں چار چار فرشتے ہمارے جلو میں چل رہے ہوں گے۔‘‘
سید انور حسین آرزو ؔجانشینِ جلالِ ؔلکھنوی ایک دفعہ لاہور سیاحت کی غرض سے تشریف لائے۔ ملکہ نور جہاں کے مزار سے گزر ہوا تو اس کی کسمپرسی اور شکستہ حالی سے بہت متاثر ہوئے۔ مقبرے کی دیوار پر یہ شعر کوئلے سے لکھ دیا:
؎قتال جہاں معشوق جو تھے، سُونے ہیں پڑے مرقد ان کے
یا مرنے والے لاکھوں تھے، یا رونے والا کوئی نہیں
حکومت حیدر آباد کے ریونیو بورڈ کے تین ارکان میں، مولوی دلیل الدین پُرخورؔ، مولوی اکرام اللہ مے نوش اور ڈپٹی نذیر احمد کفایت شعار ؔتھے۔ سر سالار جنگ نے ایک دفعہ بورڈ ممبران کی کیفیت پوچھی، تو ڈپٹی نذیر احمد نے برجستہ جواب دیا: ہم ارکان ِ ثلاثہ ’’کلو ا وَ اَشربو ولا تسرِفوُ‘‘ کے مصداق ہیں۔
خواجہ وزیرؔ ، شیخ ناسخؔ کے بہت ہی عزیز شاگرد تھے۔ ناسخؔ نے وزیر کو ذیل کے شعر پر ایک عمدہ تسبیح عقیق البحر کی عنایت فرمائی:
؎وہ زلف لیتی ہے تاب و دل وتواں اپنا
اندھیری رات میں لٹتا ہے کارواں اپنا
ایک شاعر فارسی کا ایک شعر سنا رہا تھا ۔کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ اس نے بڑے دھڑلے سے جواب دیا،’’یہ شعر میرا ہے۔‘‘ سوال کرنے والے نے بھی پورے اعتماد سے کہا کہ یہ آپ کا شعر نہیں ہے۔ شاعر نے بڑے وثوق سے سے اپنے اصرار کو دہرایا،’’جانبَ عالی! یہ شعر میرا ہے۔‘‘ حزبِ اختلاف نے شاعر کی اطلاع کے لیے عرض کیا،’’یہ شعر خواجہ حافظ ؔشیرازی کا ہے اور آپ نے حافظ ؔکا شعر چرا لیا ہے۔‘‘ شاعر نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیںہے ، حقیقت یہ ہے کہ حافظؔ نے میرا شعر چرا لیا ہے۔ معترض نے جواباً عرض کیا،’’آپ تو حافظ ؔکے زمانے میں تھے ہی نہیں۔‘‘ شاعر نے زوردار لہجے میں ارشاد کیا،’’حضور! اسی لیے تو حافظ نے چرا لیا تھا، آپ خود ہی سوچیے میں اس وقت موجود ہوتا تو حافظ کو چرانے دیتا؟‘‘
علامہ اقبال ؔنے اسرار خودی شائع کی تو اکبر الہ آبادی کو ایک نسخہ ارسال کیا۔ اکبرؔ الہ آبادی نے کتاب پڑھنے کے بعد ستائشی خط علامہ کو تحریر کیا اور خط کے آخر میں درج ذیل شعر تحریر کیا:
؎عشق میں کیوں بے خودی مقصود ہے؟
حسن بے حد ہے خودی محدود ہے
صوفی غلام مصطفی تبسم ؔکی امریکن بہو کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو شوکت ؔتھانوی مبارک باد دینے صوفی صاحب سے ملنے گئے۔ صوفی صاحب نے بچے کے نام سے متعلق تھانوی؎ؔ صاحب سے پوچھا تو شوکت صاحب نے کہا ’’اسمٰعیل‘‘، صوفی صاحب نے کہا ’’وہ کیوں؟‘‘، شوکت ؔصاحب نے جواب دیا،’’آپ کی امریکن بہو کو یہ نام لینے میں آسانی ہوگی وہ اسے ’’smile‘‘ کہیں گی جس کا ترجمہ’’ تبسم‘‘ ہوگا جو آپ کا تخلص ہے۔ ‘‘
روزنامہ انقلاب اور روزنامہ زمیندار کے درمیان جب قلمی معرکہ آرائی اپنے عروج پر پہنچی تور روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان کو پتا چلا کہ انقلاب کے پسِ پردہ غلام رسول مہرؔ اور عبدالمجید سالک کے علاوہ نیازمندان لاہور کے تمام اراکین بھی شامل ہیں، جبکہ گاہے گاہے چراغ حسن حسرتؔ اور اخترؔشیرانی بھی ہاتھ بٹاتے ہیں تو ظفر علی خان نے اپنے اخبار میں لکھا:
؎زمیندار ایک، آپ اتنے!! مگر اوج ِصحافت پر
یہ اک تکل لڑے گا آپ کی ساری پتنگوں سے
ایک شاعر اپنی عمر کے آخری ایام میں صاحب فراش تھے۔ ایک دن ان کی اہلیہ صبح کی نماز کے بعد ان کے اردگرد چکر لگاکر زیرِلب کچھ پڑھتے ہوئے پھونک رہی تھیں۔ شاعر نے اہلیہ کی یہ حالت دیکھی تو برجستہ کہا:
’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘
ڈاکٹر وزیرؔ آغا کی غزلوں کا مجموعہ ’’غزلیں‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو ایک معروف شاعرہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا،’’ڈاکٹر صاحب نے اپنی غزلوں کے مجموعے کا نام ’غزلیں ‘اس لیے رکھا ہے کہ لوگ انہیں کچھ اور نہ سمجھ لیں۔‘‘
علم و ادب کے گہوارے دلی میں مشاعرہ تھا۔ رات بارہ بجے جب محفل مشاعرہ اپنے شباب پر پہنچی، تو ایک شاعر آئے اور غزل سے پہلے ایک قطعہ پڑھا جس کا چوتھا مصرعہ تھا:
؎نگاہِ اہلِ بصیرت میں ’’توتیا‘‘ ہوں میں
حاضرین میں سے کسی دل جلے نے فقرہ کسا ’’حضور! تتلا کے نہ پڑھیے‘‘ فقرہ ادا ہونے کی دیر تھی کہ محفل کشت زعفران بن گئی۔
ایک مشاعرے میں ایک شاعر دھواں دھار طریقے سے اپنا کلام سنا رہے تھے۔ قافیہ اور ردیف کچھ یوں تھا گلستان ِ غزل، ارمغان ِ غزل، امتحانِ غزل اور کاروانِ غزل وغیرہ۔ اس سلسلے میں انہوں نے کوئی قافیہ نہیں چھوڑا تھا۔ کافی وقت گزر چکا اور غزل ختم ہونے کو ہی نہیں آرہی تھی۔ اسٹیج پر ضمیر ؔجعفری صاحب بھی موجود تھے۔ غزل کی طوالت سے تنگ آکر بالآخر جعفری صاحب باآوزِ بلند بولے، ’’حضور! کچھ ’’پسماندگانِ غزل کا‘‘ بھی خیال کیجیے۔‘‘
پنجابی زبان کے معروف شاعر عبیرؔ ابوذری ایک روز ڈاکٹر کے پاس گئے اور اسے بتایا میری دائیں ٹانگ میں شدید درد رہتا ہے، اس کا کچھ کیجیے۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ کہنے لگے نوے سال۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے،’’اب آپ ہی بتائیں کہ نوے سال کی ٹانگ میں درد نہ ہو تو اور کیا ہو؟‘‘ عبیرؔ صاحب نے فوراً اپنی بائیں ٹانگ ڈاکٹر صاحب کے آگے رکھ دی اور کہنے لگے:’’ڈاکٹر جی! یہ ٹانگ بھی تو نوے سال کی ہے اس میں درد کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
لارڈ ارون ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے۔ ان کا دایاں ہاتھ جنگ میں کٹ چکا تھا۔ اس تقرری پر مختلف اخبارات نے مخالفانہ انداز میں لکھا۔ عبدالمجید سالک ؔنے اپنے کالم افکاروحوادث میں اس تقرری پر اس طرح طنز کیا،’’ہندوستان پر حکومت کرنا لارڈ ارون کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘ اسی طرح جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو وہ ایک آنکھ سے محروم تھے۔ چناںچہ ان کے بارے مٰیں سالکؔ صاحب نے تحریر کیا،’’لارڈ ویول کے مقرر ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘
دلی میں حفیظ ؔجالندھری کی سرِراہے پطرس ؔبخاری سے ملاقات ہوگئی۔ حفیظ صاحب ان دنوں اعصابی دباؤ کا شکار ہونے کے باعث دوران گفتگو بار بار اپنی انگلیوں کو موڑے توڑے جا رہے تھے۔ ان کی بیماری کا علم ہوا تو پطرس اؔنہیں لے کر حکیم اجمل کے ہاں چلے آئے۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھی اور دوا دیتے وقت کہا، ’’دورانِِ استعمالِ دوا کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دماغ پر زور پڑے۔‘‘حفیظ صاحب نے جواباً عرض کیا،’’یہ کیسے ممکن ہے؟ میں تو ان دنوں شاہنامۂ اسلام لکھ رہا ہوں۔‘‘ حکیم اجمل نے جواب دیا:’’اسے جاری رکھیں۔۔۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
ایک پروفیسر صاحب اپنی کلاس میں اخترؔ شیرانی کی ایک نظم پڑھا رہے تھے جس میں شاعر نے کہا تھا کہ اس کی محبوبہ کی بھیگی ہوئی زلفوں سے ٹپکنے والے پانی کی ایک بوند میں اتنا نشہ ہے کہ اگر کوئی اسے پی لے تو زندگی بھر مدہوش رہے۔ ایک شاگر د نے بہ آواز بلند کہا’’سر! اگر پانی کی کی اس بوند کے ساتھ جوئیں بھی آگئیں تو؟‘‘ پروفیسر صاحب نے کہا،’’بات آپ کی محبوبہ کی نہیں ۔۔اختر شیرانی کی محبوبہ کی ہے۔‘‘
ایک دن مجازلکھنوی رسالہ ماحول کے دفتر میں رسالے کے مدیر ظفر ادیب سے ملنے گئے۔ ظفر ادیب شام کے گہرے دھندلکے میں اپنے مختصر سے دفتر کے ایک کونے میں دبکے ہوئے تنہا شاید کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ مجاز نے ان سے آنکھیں چار ہوتے ہی برجستہ کہا:
؎ایسے ماحول کی پُرہول فضاوں میں ظفرؔ
دیکھیے کیسے ’’ابوالہول‘‘ بنا بیٹھا ہے
لکھنؤ کی معروف شاعرہ شاہ جہاں بانو یادؔ نے ایک مشاعرے میں اپنی غزل کا مطلع پڑھا:
؎اگر یہ سچ ہے اجالا دکھائی دیتا ہے!!
تو کیوں چمن میں اندھیرا دکھائی دیتا ہے؟
مجمعے کی پچھلی صفوں سے آواز آئی ’’شاید وولٹیج کم ہے‘‘ ہنسی کے فوارے چھوٹے۔ یاؔدصاحبہ نے اس ہنسی کو نظرانداز کرتے ہوئے غزل کا دوسرا شعر پڑھاؒ:
؎الہی خیر ہو!! اس جذبہِ محبت کی
ابھی سے خواب میں صحرا دکھائی دیتا ہے
اس پر پھر آواز آئی،’’شاید س سے شادی کا سہرا ہے۔‘‘ محفل پھر کشتِ زعفران بن گئی۔
پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ سنگھا تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے شوکتؔ تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں؟ اس پر شوکت ؔصاحب بے ساختہ بولے،’’آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ لیجیے۔‘‘
عبدالقدیر بدایونی نے ایک مرتبہ معززینِ دکن کی دعوت کی اور جوش ؔکو بھی مدعو کیا۔ کھانے کے بعد شام کو جب مہمانوں کے لیے چائے لائی گئی تو آدابِ میزبانی کے پیشِ نظر علامہ بدایونی نے جوش ؔصاحب کو خود چائے بنا کے پیش کی۔ جوش ؔصاحب برجستہ بولے،’’حضرت ! یہ تو شیر کو گھاس کھانے کی دعوت دینا ہے۔‘‘
اردو ڈرامے کے شیکسپیئر کہلانے والے آغاحشرؔ کاشمیری اکثر اوقات دوسروں کو شراب نوشی سے منع کیا کرتے تھے۔ ایک روز خود پیے ہوئے جھومتے چلے آرہے تھے۔ کچھ لوگ قریب آ کر بولے،’’ہم نے آپ کے پندونصائح کی بدولت شراب چھوڑی اور اب آپ خود پئے ہوئے ہیں!‘‘ اس پر آغا ؔصاحب ہنس کر بولے،’’بھئی ایک رائیٹر نہ پیے تو اس کو شراب کی اچھائی اور برائی کا پتا کس طرح چلے؟‘‘
پاک و ہند سطح کے ایک مشاعرے میں ایک سامع مسلسل گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے نیم دراز حالت میں لیٹا مشاعرہ سنتا رہا۔ صبح چھے بجے جب خمارؔ بارہ بنکوی اپنا کلام سنانے آئے تو نظامت کے فرائض سرانجام دینے والے مزاحیہ شاعر ضیاءؔ الحق قاسمی نے خمار صاحب سے کہا،’’آپ ایسی غزل سنائیں کہ یہ مسلسل لیٹا ہوا شخص اٹھ کر بیٹھ جائے۔ اس پر خماؔر صاحب بولے،’’آپ غزل کی بات کر رہے ہیں، میں تو اس کے لیے سورۂ یٰسین پڑھنے والا ہوں۔‘‘
الہ آباد میں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ فراقؔ گورکھپوری پسینے میں شرابور سول لائٹس کے ایک ’’بار‘‘ میں گئے اور ڈرائی جن (dry jin) نامی شراب کی بوتل طلب کی۔ قیمت ادا کرنے کے لیے جب انہوں نے شیروانی کے بٹن کھول کر کرتے کی جیب سے روپے نکالے تو نوٹ پسینے سے کچھ نم ہوچکے تھے۔ کاؤنٹر کلرک نے کہا،’’صاحب! یہ نوٹ تو بالکل بھیگے ہوئے ہیں۔‘‘ فراق صاحب نے فوراً شستہ انگریزی میں جواب دیا:
’’oh yes i am giving you wet money for dry jin‘‘
راجاصاحب محمود آباد نے مجازؔ لکھنوی کا ماہانہ پانچ روپے وظیفہ مقرر کیا اور ساتھ یہ شرط لاگو کی کہ وہ شراب نوشی نہیں کریں گے، جس پر مجاز ؔنے وظیفہ وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا،’’اگر ہمیں شراب نہیں پینی تو پھر ان پیسوں کا کریں گے کیا؟‘‘
کنہیا لال کپور نے کسی شخص سے خفا ہوتے ہوئے کہا،’’میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا؟‘‘جواباً اس شخص نے بھی برہمی میں بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا،’’میں بھی آپ کو شریف آدمی ہی سمجھا تھا۔‘‘ اس پر کپور صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا،’’تو آپ ٹھیک سمجھے تھے، غلط فہمی مجھی کو ہوئی تھی۔‘‘
ایک دن آغاحشرؔ اور شفاء الملک حکیم فقیر محمدؔ چشتی آم کھا رہے تھے۔ آغا صاحب آم کھاتے جاتے اور اپنی عادت کے مطابق کہتے جاتے،’’بھئی حکیم صاحب! بمبئی کے الفانسو کا جواب نہیں، لکھنؤ کا سفیدہ اس کے آگے کیا مال ہے؟‘‘ حکیم صاحب نے کہا،’’جی ہاں! لیکن ہم تو بنارس کے لنگڑے پر لٹو ہیں۔‘‘ اس پر آغاؔصاحب پھڑک گئے،کیوںکہ آغا ؔمرحوم ایک تو بنارس کے رہنے والے تھے اور اوپر سے ایک ٹانگ سے لنگڑے بھی تھے۔ اس لیے ’’بنارس کے لنگڑے‘‘ کی پھبتی ان پر ایسی بیٹھی جیسے انگشتری میں نگینہ۔
The post سخن آرائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.