کرسمس کا تہوار ایک مکمل سیزن ہوتا ہے جس کی تیاری کا آغاز دسمبر کے شروع سے ہی ہوجاتا ہے۔ اس سال کرسمس کے موقع پر اپنے مضمون کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا تھا کہ کس موضوع پر لکھوں۔ یوں تو کرسمس کے بے شمار پہلو ہیں جن پر مختلف انداز اور مختلف طریقوں سے لکھا جاتا ہے۔ کرسمس کے الٰہیاتی، سماجی، معاشی اور خاندانی پہلو نمایاں ہیں، لیکن ان سب میں ایک دل کش پہلو یہ بھی ہے کہ اس تہوار کی خوب صورت تقریبات کا محور بچے ہوتے ہیں، جن کے لیے کرسمس یا کوئی بھی تہوار سب سے زیادہ خوشی کا سبب ہوتا ہے۔
آج جب میں اپنی زندگی کا احاطہ کرتا ہوں تو اس بات کا شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری زندگی بلکہ ہم سب کی زندگی کا سب سے اہم اور خوب صورت وقت بچپن کی عیدیں اور تہوار ہوتے ہیں۔ اب ہر سال ویسی خوشی اور جذبے کی شدت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن احساس ہوتا ہے کہ اب کرسمس پر وہ خوشی اور شادمانی نہیں ہوتی جو بچپن کے وقت ہوتی تھی۔ اس لیے آج میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج کی تحریر بچوں نقطہ نظر سے لکھوں گا۔
اپنے بچپن کے کرسمس کو یاد کروں تو یہ خوب صورت وقت ذہن میں بے شمار دل کش یادوں کو تروتازہ کردیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کرسمس پر سب سے زیادہ گاؤں میں خوشی شہر سے کرسمس کارڈ ملنے کی ہوتی تھی۔
نئے کپڑے خریدنا تو ایک خوب صورت منظر ہوتا تھا اور کرسمس کے دن عیدی ملنے پر جشن کا سماں ہوتا تھا۔ ان سب سے بڑھ کر جو بات میرے لیے سب سے اہم تھی وہ یہ ہے کہ خاندان کے تمام افراد مل کر اکٹھے کھانا کھاتے تھے۔
بچپن کے کرسمس کی کیا ہی باتیں اور کیا یادیں ہیں جو آج بھی ذہن میں کسی دل چسپ فلم کی طرح چل رہی ہوتی ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ عمر، تجربات اور زندگی کے مشاہدات وسیع ہوئے تو اندازہ ہوا کہ کرسمس کا مطلب اپنی خوشیاں حاصل کرنا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر دوسروں کو خوشیاں دینا ہی اصل کرسمس ہے۔
آج کرسمس کے اس پیغام اور مفہوم کو سمجھنے کے لیے ہمیں بہت زیادہ علم اور معلومات کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ہمارے اندر ایک انسانی دل اور نیکی کرنے والی روح موجود ہونی چاہیے۔ درحقیقت کرسمس لاچاروں، بے سہاروں اور بے آوازوں کو احساس، اہمیت اور توجہ دینے کا نام ہے۔ کرسمس ایسے لوگوں کو زندگی کی جانب واپس لانے کا ذریعہ ہے جو اپنی اہمیت سے ناواقف ہیں، انہیں زندگی کی شاہ راہ پر واپس گام زن کرنے کا نام کرسمس ہے۔ یہی اس کی حقیقی خوشی اور پیغام ہے۔
کرسمس خوشیاں اور چیزیں جمع کرنے کا نہیں بلکہ بانٹنے کا دن ہے۔ یہ ظاہری نمود و نمائش سے بڑھ کر دل، سوچ اور خیالات کو بدلنے بلکہ یوں کہیں کہ یہ نئے کپڑے اور نئی چیزوں لینے کا نہیں بلکہ نئی زندگی، نئی سوچ کو اپنانے اور خیالات کو بدلنے کا وقت ہے۔
کبھی کبھی میں اُن والدین کے بارے میں سوچتا ہوں، خاص طور پر اس باپ کے متعلق جو کرسمس پر اپنے بچوں کو نئے کپڑے نہیں دلواتے سکتا، وہ کیسے اپنے بچوں کا سامنا کرتا ہوگا؟ کیسے اپنے بچوں کو کرسمس مبارک کہہ کر ان کے چہروں پر چھائی اداسی دیکھ کر ان کی آنکھوں میں جھانکتا ہوگا؟ کیوںکہ کرسمس بچوں سے ہے اور بچے ہر خاندان اور محفل کی رونق ہوتے ہیں۔ ان کی خوشی کے بغیر کوئی بھی تہوار خوشی سے منایا نہیں جاسکتا۔
کرسمس کے موقع پر سادگی، انسانی محبت، امن، بھائی چارے اور دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا درس دینے والے، اکثر خود کرسمس پارٹی، ڈنر، گفٹ اور کیک پر بے شمار رقم تو خرچ کردیتے ہیں لیکن ان غریبوں کو سادگی کا پیغام دیتے ہیں جو سارا سال اس دن کا انتظار صرف اس لیے کرتے ہیں کہ چلو اسی بہانے نئے کپڑے اور کچھ نئی خوشیاں خرید لیں گے!
کبھی ان غریبوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ سادگی سے کرسمس مناکر کرسمس کے حقیقی معنی کو جاننے کی کوشش کی جائے، تو سمجھ آجائے کہ محض مذہبی رنگ اوڑھ کر، روایتیں نبھاکر اور تقریبات منعقد کرنے سے نہیں بلکہ انسانوں کے اندر نئی زندگی، خوشی، قبولیت اور دوسروں کو اپنائیت کا احساس دلاکر ہی کرسمس منایا جا سکتا ہے، کیوںکہ کرسمس خدا کی محبت کا انمول تحفہ ہے۔ یہ امن و محبت کا تہوار ہے، جو الہٰی محبت کے انوکھے اظہار کا ذریعہ ہے۔
یہ بڑا دن درحقیقت انسانیت کے لیے بڑا دن ہے جو انسانی وقار اور عظمت کی تکمیل کے لیے انسانوں کو اکٹھا یعنی یکجا کرتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں کرسمس صرف کھانے پینے، کپڑے خریدنے اور گھومنے پھرنے تک محدود ہے۔ اس کے حقیقی معنی شاید ہم کہیں پس پردہ ڈال چکے ہیں۔ کرسمس محض ایک کمرشل اور روایتی تہوار نہیں بلکہ زندگی بھر جاری رہنے والا سلسلہ ہے۔ کرسمس کی آمد ہر انسان کے لیے توجہ کا مرکز ہے بلکہ اسی طرح یسوع مسیح کی پیدائش ہر انسان کے لیے اُمید کی آمد ہے۔
ہم نے اکثر امراء کا کرسمس دیکھا ہے، دُنیا والوں کا کرسمس دیکھا ہے، دُنیا بھر کے ٹی وی ڈراموں، فلموں اور ویب سیریز کی توجہ امیروں کے گھروں میں سجے کرسمس ٹری، ڈرائی فروٹ اور کرسمس کی کیک کی رونق پر رہتی ہے، مارکیٹ اور بازاروں میں کرسمس کے اسٹال دکھائے جاتے ہیں، لیکن سردی کے موسم میں غریبوں، لاچاروں اور ان کم زوروں کے گھروں کا ماحول نہیں دکھایا جاتا جو کرسمس کی تیاری تو خاک کریں گے، بلکہ اپنی سردی کی تیاری نہیں کر سکتے، جو اپنی سماجی اور سب سے بڑھ کر معاشی ناانصافیوں کی وجہ سے کرسمس کے موقع پر اپنے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتے۔ چناں چہ بے شمار بچے دوسرے بچوں کو حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں۔
درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو اس موقع پر ہماری توجہ اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔ میں اسے یوں کہتا ہوں کہ کرسمس گفٹ دینے کا نہیں بلکہ اُمید اور حوصلہ دینے کا سیزن ہے، کرسمس جمع کرنے کانہیں، بلکہ دینے کا تہوار ہے،
یہ محض دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ خلوص اور بے لوث جذبے سے دینے والوں کا تہوار ہے۔ یہ تبدیلی کا تہوار ہے۔ انسانی رویوں کی تبدیلی کا تہوار، بلکہ زندگی کو زندگی دینے کا موقع ہے۔ یہ انسان کو انسانیت دینے اور انسانیت کو عظمت دینے کا نام ہے۔ خدا کا انسان کو محبت کا عظیم تحفہ دینے کے بعد ذرا سوچیں انسانی تحفے کی کیا اہمیت رہتی ہے، پھر بھی جب ہم ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، اپنی نعمتوں میں سے دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو ہم اس الہٰی محبت کا اظہار اپنے جیسے انسانوں سے کرتے اور کرسمس کے پیغام کی تکمیل کرتے ہیں۔
کرسمس، جہاں نااُمیدی ہو وہاں اُمید دینے، جہاں مایوسی ہو، وہاں زندگی دینے اور جہاں انسان ہوں، وہاں خوشی دینے کا نام ہے۔ کرسمس کا مقصد ہماری زندگیوں کو بامقصد بنانا ہے۔ کرسمس زندگی کی خوشی ہے، یہ قیمتی اور بابرکت زندگی کے لیے تحفہ ہے۔
کرسمس ہمیں دعوت دیتا ہے کہ خود سے سوال کریں کہ میں نے کیا کھویا ہے؟ کیا میں اپنی انا، حسد، غصے، لالچ اور برائی کو کھونے کے لیے تیار ہوں؟ اور یہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ میں نے کیا پایا ہے، کیا میں نے زندگی کا مقصد، امید، محبت اور دوسروں سے بھلائی کرنے کا جذبہ پایا ہے؟
یہ وہ تمام سوال ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے کرنے ہیں اور بچوں کی مانند اپنے دل اور سوچوں کو ہر قسم کی برائی سے صاف کرنا ہے۔ بچوں کی طرح چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے خوش ہونا، نعمتوں پر شکرگزار ہونا اور دوسروں کی مدد کر کے ایک خوش گوار ماحول اور معاشرہ قائم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کرسمس کا یہ موقع ہم سب کو دعوت دیتا ہے کہ ہم اس پُرمسرت موقع پر دوسروں کے ساتھ خوشیاں اور آسانیاں بانٹتے رہیں۔
میری طرف سے آپ سب کو کرسمس کی خوشیاں مبارک ہوں۔
The post بچپن کا کرسمس appeared first on ایکسپریس اردو.