Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

زہرہ سہگل : تھیٹر، فلم، ٹی وی کی ممتاز اداکارہ، معروف رقاصہ اور کوریوگرافر کا فنی سفر تمام ہوا

$
0
0

انسان کی زندگی کا ایک دوروہ بھی تو ہوتا ہے جب وہ اپنے بارے میں فیصلے کرنے پر قدرت نہیں رکھتااوریہ حق کسی دوسرے کے پاس ہوتا ہے۔

ایسے میں فیصلہ سازقوت اگردانائی اوردوربینی کو بروئے کارلائے تواس شخص کا نصیب سنورجاتا ہے،جس سے متعلق فیصلہ ہونا ہوتا ہے۔زہرہ سہگل کی زندگی میں دوفیصلوں نے بڑا اہم کردارادا کیا۔ایک فیصلہ ان کی والدہ کا تھا تو دوسرا والد کا۔دونوں فیصلے ذہنی وسعت اورترقی پسندانہ سوچ کے آئینہ دارتھے۔روہیلہ پٹھان گھرانے میں جنم لینے والی زہرہ سہگل جس زمانے میںرام پور میں ہوش سنبھال رہی تھیں،عام طور پرچھوٹی عمر میں بچیوں کی شادی کردی جاتی۔ان کا خاندان خاصا مذہبی تھا،برقعہ اوڑھنا جہاں لازمی خیال کیا جاتا۔ لڑکیوں کو پڑھانے لکھانے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی تھی۔

ایک بار آنکھوں میں سرمہ ڈال لینے پرہی زہرہ سہگل کو سرزنش کا سامنا کرناپڑگیا۔ان کے والدین نے مگر زمانے کی رفتارکا صحیح اندازہ کرلیا تھا، اس لیے بچیوں کو اپنی روایات سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ دورجدید کے ہم راہ قدم ملا کرچلنے کی آزادی دی،تاکہ وہ معاشرے میں انفرادیت قائم کرسکیں۔زہرہ سہگل کے بقول’’ہم سب ہی بہنوں نے کسی نہ کسی میدان میں سرفرازی حاصل کی۔‘‘

زہرہ سہگل کی والدہ ناطقہ بیگم کے جس فیصلے کی طرف ہم نے اوپراشارہ کیا ہے، وہ یہی تھا کہ انھوں نے بیٹی کو رام پور سے لاہورکے معروف تعلیمی ادارے کوئین میری میں پڑھنے کے واسطے بھیجا۔اس زمانے کے اعتبار سے اس اقدام کو غیرمعمولی قراردیا جاسکتاہے۔زہرہ کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر بھائی بہن کہا کرتے کہ اسے لڑکا ہونا چاہیے تھا۔رام پورکے گھٹن زدہ ماحول میں زہرہ بچپن میں ان خطوط پرسوچا کرتیں۔ ’’میں اڑنا چاہتی تھی۔گانا چاہتی تھی۔اورناچنابھی چاہتی تھی۔‘‘

لاہورمیں ان کی ہم جماعت لڑکیوں کا پہناواشلوارقمیص تھا، اس لیے رام پور سے آئی لڑکی کا،جو کرتا اورتنگ موری والاپاجامہ پہنتی خوب مذاق اڑتا۔انگریزاستانیوں پریہ بات جلد کھل گئی کہ ان کی شاگردہ بڑے گنوں والی ہے، اس لیے تھیٹراوررقص سے متعلق اس کی سرگرمیوں کی خوب حوصلہ افزائی ہوتی۔ایک استانی نے خیال ظاہرکیاکہ زہرہ اگر انگلینڈ میں ہوتی تو تھیٹرکے ذریعے سے ہفتے میں پانچ پائونڈ تو ضرور کمالیتی۔ یہ سن کرلندن جانے کی خواہش نے انگڑائی لی۔رام پورآکرگھروالوں کواپنے ارادے سے آگاہ کیاتو ان کے ماموں جو ولایت جارہے تھے، انھوں نے اپنا وزن بھانجی کے پلڑے میں ڈالا۔

اور پھرانھی ماموں کے ہمراہ خشکی کے رستے وہ افغانستان، ایران اورعراق سے ہوتے ہوئے مصرپہنچیں ، جہاں سے اسکندریہ کی بندر گاہ سے بحری جہازکے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔اس سفرکی ابتدامیں قلات میں زہرہ سہگل کو اغوا کرنے کی کوشش ہوئی جسے ان کے ماموں نے ناکام بنایا۔ مصرمیں ان کی ملاقات ماموں زاد بھائی سے ہوئی،جنھوں نے تجویزکیا کہ وہ اداکاری کے بجائے رقص پرتوجہ دیں کیونکہ انھیں ردھم کا غیرمعمولی شعورحاصل ہے۔ایک توکزن کی بات معقول لگی ، تو دوسرے اس زمانے میں ایزاڈورا ڈنکن کا ڈنکا بج رہا تھا ، جس کے اندازرقص سے بے حد متاثرتھیں توان دونوں باتوں نے رقص میں خود کو منوانے کے بارے میں قائل کرلیا۔

رقص کی باقاعدہ تربیت حاصل کرلینے کی ٹھان لی تو پھر لندن کے بجائے جرمنی اس کام کے لیے زیادہ موزوں نظرآیا، جہاں اس کام کے لیے زیادہ بہترادارے موجود تھے۔تین برس جرمنی میں رقص کے رموز جانے۔اتفاق سے اس زمانے میںنامورہندوستانی رقاص اودے شنکراپنے طائفہ کے ساتھ جرمنی میں اپنا بیلے شو کرنے آئے، جس کو دیکھنے کے لیے زہرہ سہگل بھی گئیں۔یہ بات 1931ء کی ہے۔اودے شنکرکوان کی رقص سے دلچسپی نے متاثرکیا تو چھوٹتے ہی انھیں اپنے طائفہ میں شمولیت کی دعوت دے ڈالی ،زہرہ سہگل نے وطن واپس پہنچ کراس دعوت کو قبول کرلیا۔اودے شنکرکے طائفہ کا حصہ بننے کے قصے سے ہی وہ فیصلہ جنم لیتا ہے، جس کو ہم ان کی والدہ کے انھیں لاہورمیں تعلیم دلانے کے فیصلہ کے بعددوسرا اہم فیصلہ جانتے ہیں۔

ان کا خاندان اس وقت پوری میں تھا جب اودے شنکرکا تار انھیں موصول ہوا ،جس میں ان سے استفسارکیا گیا کہ کیا وہ بارہ دن کے اندراندرطائفہ میں شمولیت اختیارکرسکتی ہیں۔زہرہ سہگل نے ڈرتے ڈرتے تارباپ کے سامنے کیا۔وہ اسے جیب میں ڈال کراپنے کمرے میںچلے گئے ۔ اس صورت حال میں یہ بے چین اورمضطرب کہ نجانے والد کی عدالت سے کیافیصلہ صادر ہوتا ہے۔ پندرہ منٹ بعدوہ کمرے سے برآمد ہوئے توفوراً ہی بیٹی کو اجازت کی نوید سنائی۔ باپ کے اس فیصلے کے بارے میں زہرہ سہگل نے معروف ادیب اور ہندوستانی تھیٹر پرگہری نظر رکھنے والے زبیررضوی کواپنے اس انٹرویو میں جو زیرنظرمضمون کے لیے بھی بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے، میں بتایا ’’آپ اندازہ کیجیے کہ ایک باپ نے ان پندرہ منٹوں میں کیا کچھ سوچا ہوگا۔

جذبے اور کیفیات کے کیا مدوجزرآئے ہوں گے مگرانھوں نے وقت اورحالات کی نزاکت اورسنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک بے حد عملی باپ کے روپ میں اس احساس کو جھٹک دیاکہ ان کے خاندان کی بیٹی ایک ہندو رقاص کے ٹروپ میں جگہ جگہ ناچے گی۔انھیں یہ بھی معلوم تھاکہ میں بے حدضدی ہوںاوروہ میرے لندن جانے کی پچھلی کوششوں سے واقف تھے اس لیے انھوں نے اپنے سارے جذبوں پرقابو پاتے ہوئے بڑے پروقار انداز میں مجھے اس راستے پرجانے کی اجازت دے دی جو میری منزل کی طرف جاتا تھا ۔میرے شوق کی تکمیل کی خاطر یہ ان کی اپنی روایتوں سے کتنی بڑی ذہنی بغاوت تھی۔‘‘

4اگست 1935ء کو کلکتہ کے نیوایمپائرتھیٹر میں زہرہ سہگل نے اودے شنکرکے ساتھ مل کرپہلی بارپیشہ ورانہ رقص کیا۔اسی سال اودے شنکرکے طائفہ میں شامل ہوکرکئی ممالک کا دورہ کیا۔ 1938میں اودے شنکرنے الموڑہ میں رقص کی تربیت کے لیے اسکول قائم کیا توزہرہ سہگل نے ان کا بھرپورانداز میں ساتھ دیا۔ادارے کا نصاب بنایا اورجرمنی سے سیکھے کو دل وجان سے دوسروں کو منتقل کیا۔یہیں پہلی بارانھوں نے کامیشور سہگل کو دیکھا، جس کی ایک پینٹنگ انھیں بہت اچھی لگی تھی۔

دوبرس کے رومانس کے بعدکامیشورنے ان کو شادی کی آفرکردی، جس کو قبول کرلینے میں انھیں ایک تو اس وجہ سے تامل تھا کہ موصوف ان سے آٹھ برس چھوٹے تھے، دوسرے مذہب مختلف ہونے سے بھی مسائل کے جنم لینے کا امکان تھا۔ قصہ مختصر ، 1942ء میں دونوںنے شادی کرلی، جس کے بعد اودے شنکرکی اجازت سے لاہور میں zuresh کے نام سے رقص کا اسکول کھول لیا، یہ نام میاں بیوی دونوںکے ناموں سے اخذ کردہ تھا۔سیاسی حالات کی گرما گرمی سے ہندو مسلم تنائو بڑھنے لگاتوایسے میں ان کی چھوٹی بہن عذرا نے جو اس زمانے میںبمبئی میں پرتھوی تھیٹرسے متعلق تھیں، زہرہ سہگل کو تجویز کیا کہ وہ بمبئی میں فلم انڈسٹری کا دروازہ کھٹکھٹائیں، بہن کی تحریک پر وہ فلم کے اس مرکز میں آگئیں مگریہاں فلموں میں جس قسم کا رقص ہورہا تھا، اس نے اتنا مایوس کیا کہ توبہ ہی بھلی جانی۔اب ان نے پرتھوی تھیٹر کا رخ کیا۔

پرتھوی راج اداکارہ کی حیثیت سے ان پراعتمادکرنے پرتیارنہیں تھے البتہ رقص میں مہارت کی بنا پرانھیں ڈانس ڈائریکٹربنادیا گیا۔ آخرکار ’’دیوار‘‘ نام کے ڈرامے میں انھیں ویمپ کا رول مل گیا۔زہرہ سہگل کی فنی زندگی میں کامیابی کے پیچھے ایک بڑی وجہ ان کے بڑوں کا ان پراعتماد اورتنگ نظرنہ ہونا بھی رہا۔اس حوالے سے ان کے والدین اورماموںکا رویہ کیسا تھااس بابت آپ پڑھ چکے تو اب زرا ان کی ساس کا طرز عمل بھی جان لیں۔ ویمپ کے روپ میںاسٹیج پر بہو کو دیکھا تو زہرہ سہگل کو ساس کی رائے جاننے کی چیٹک ہوئی،تو یہ جواب ملا’’بہو تو ہزارکی محفل میں ننگی کیوں نہ ہومیں تیری نظرپہچانتی ہوں۔‘‘دمینتی ساہنی کے پرتھوی تھیٹرچھوڑ دینے کے بعد زہرہ سہگل نے کئی سال مرکزی کردار کئے۔

پرتھوی تھیٹر سے ان کا ساتھ چودہ برسوں پرمحیط رہا۔وہ ان برسوں میں شکنتلا،پٹھان، دیواراورغدار میں کام کرنے کے تجربے کو بہت خوش گوار قرار دیتی تھیں۔ 1946-47ء کے دوران وہ مشہور زمانہ انڈین پیپلز تھیٹر کی نائب صدر رہیں۔1946ء میں انھوں نے خواجہ احمد عباس کی فلم ’’دھرتی کے لال‘‘ اور چیتن آنندکی فلم’’ نیچانگر‘‘میں اداکارہ کی حیثیت سے کام کیا۔معروف براڈ کاسٹراوربرصغیرکی فلم انڈسٹری پراتھارٹی سمجھے جانے والے عارف وقارکے بقول’’یہ دونوں فلمیں بائیں بازوکے دانش وروں اورکارکنوں کی محنت کا ثمرتھیں۔‘‘ فلم ’’بازی ‘‘’’نودوگیارہ ‘‘، اور’’سی آئی ڈی‘‘ میں کوریو گرافر کی حیثیت سے صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

اس زمانے میں کوریو گرافرکے طورپرراج کپور کی فلم ’’آوارہ‘‘ میں اپنا کام ان کو سب سے بڑھ کرپسند رہا۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا’’ان دنوں کا ایساکون سا کام ہے، جو آپ کبھی نہیں بھلا پائیں گی؟‘‘اس سوال کا جواب زہرہ سہگل نے کچھ یوں دیا۔’’میں نے راج کپورکی ’’آوارہ‘‘کا ڈریمز سیکونس کوریو گراف کیا تھا۔اس کے بعد ویسا کام دوبارہ نہیں دیکھا گیا۔اس وقت ہم نے سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کیا تھا، اب کریٹیوٹی پرتکنیک حاوی ہوگئی ہے۔اس لیے لوگ دل سے لوگوں کے ساتھ جڑ نہیں پاتے ہیں۔‘‘

1959ء میں ان کے شوہرکی خود کشی نے ان کو بہت رنج دیا۔شوہرکی موت کے بعد بمبئی چھوڑ کروہ دہلی چلی آئیں اور کملا دیوی چٹوپادھیائے کی سنگیت اکیڈمی میںکام کرنے لگیں۔ان کے بہنوئی ڈاکٹر زیڈ احمد کا، جو معروف کیمونسٹ لیڈربھی تھے، خیال تھا کہ غم کی شدت کم کرنے کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ باہرچلی جائیں، اس لیے وہ اسکالرشپ پرانگلینڈ چلی گئیں، جہاں پران کا زیادہ لمبا عرصہ قیام کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن ہوا اس کے برعکس اورانھیں پچیس برس ادھررکنا پڑا۔ان برسوں میں ٹی وی پربہت سا کام انھوں نے کیا۔ان کی بیٹی کرن سہگل جنھوں نے اپنی ماں کی “Zohra Segal- Fatty” کے عنوان سے سوانح لکھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ زہرہ سہگل نے ایسے وقت میں برطانوی ٹی وی سیریلز میں اپنی جگہ بنائی جب ایشیائی کرداربھی گوروں سے کرائے جاتے۔

زہرہ سہگل نے شروع شروع میں چھوٹے موٹے رول کئے۔ان کی شہرت کا صحیح معنوں میں آغازٹی وی سیریل ’’جیول ان دی کرائون‘‘میں لیڈی چیٹرجی کے کردار سے ہوا ۔’’مائینڈ یورلینگویج ‘‘اور’’تندوری نائٹس ‘‘میں بھی ان کی پرفارمنس بہت عمدہ رہی۔کئی انگریزی فلموں میں بھی انھوں نے کام کیا ۔ ڈھائی عشروں کے بعد وطن واپس لوٹیں توشروع شروع میں تھیٹرمیں ان کو کام نہ ملا جس سے مایوسی ہوئی۔ بعد ازاں انھیں معروف تھیٹرڈائریکٹرابراہیم القاضی نے لورکا کے ڈرامے”The House of Bernarda Alba” کے اردو روپ ’’دن کے اندھیرے میں‘‘مرکزی کردارادا کرنے کی آفرکی جس کو انھوں نے قبول کرلیا۔

زبیر رضوی جنھوں نے اس ڈرامے میں انھیں اداکاری کرتے دیکھا، اپنی قابل قدر کتاب ’’عصری ہندوستانی تھیٹر‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ہندوستانی اسٹیج کی مشہوراداکارہ زہرہ سہگل (81سال)نے اس ڈرامے میں قدسیہ بیگم کامرکزی کردار، بڑے اعتماد اورٹھسے کے ساتھ اداکیا، پیرانہ سالی نے نہ ان کی زبان میں کوئی جھول ڈالااورنہ ہی ان کی اداکاری کی صلاحیتوں کومرجھانے دیا، تعجب ہوا کہ وہ ایک باربھی نہ لڑکھڑائیں، نہ ہی انھوں نے کوئی بھول چوک کی۔وہ اس عمرمیں بھی ناظرین کو اپنی اداکاری اوراس کی ساحری میں اسیررکھنے میں کامیاب رہیں۔‘‘

ہندوستان آگئیں توپھرپاکستان بھی ان سے زیادہ دورنہ رہا، جہاں پران کی بہن عذرا بٹ اجوکا کے پلیٹ فارم سے تھیٹر کر رہی تھیں۔1993ء میں اجوکا والوں نے کمال یہ کیا کہ شاہد محمود ندیم کے تحریرکردہ ڈرامے’’ایک تھی نانی‘‘میں چالیس برس بعد ان بہنوں کو اسٹیج پرایک دوسرے کے روبروکردیا ،دونوں نے اپنی یادگارپرفارمنس سے لاہوریوں کو لوٹ لیا۔تقسیم کے بعد زہرہ سہگل ہندوستان رہ گئیں،اورعذرا ساٹھ کی دہائی میں پاکستان آگئیں۔بہنوں کے بچھڑنے کی اس کہانی سے انسپائر ہوکرہی شاہد محمود ندیم نے ’’ایک تھی نانی ‘‘لکھا۔

ہندوستان واپسی پربالی وڈ کے ساتھ ٹوٹا ناتابھی جڑ گیا۔ کئی فلموں میں یادگا رول کئے۔فلم’’ چینی کم ‘‘میںانھوں نے امیتابھ بچن کی والدہ کا کردارادا کیا۔ امیتابھ کے بقول ’’’’چینی کم کے سیٹ پرزہرہ ہمیشہ سب کو بڑے پیارسے پرانی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔‘‘ ’’چلو عشق لڑائیں‘‘میں گونداکی دادی کا کردارکمال خوبصورتی سے نبھایا۔شاہ رخ خا ن کے ساتھ ’’کل ہونہ ہو‘‘’’دل سے‘‘ اور’’ویرزارا‘‘ میں کام کیا۔مشہور فلم ’’ہم دل دے چکے صنم‘‘ میں بھی وہ تھیں۔2007ء میں ریلیز ہونے والی ’’سانوریا‘‘ان کی آخری ہندی فلم ثابت ہوئی۔ زہرہ سہگل نے ’’بھاجی آن دی بیچ‘‘اوربینڈ اٹ لائیک بیکم‘‘جیسی آف بیٹ فلموں میں بھی اداکاری کی۔

وہ بڑی چھان پھٹک کے بعد ہی رول کرنے پرآمادہ ہوتیں۔ چند برس قبل بی بی سی کو انھوں نے بتایا تھا ’’جب تک مجھے کہانی پسند نہیں آتی اورمیں اپنے کردار میں خود کو اتارنہیں لیتی اس وقت تک میں کام نہیں کرتی۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے جب مجھے کہانی پسند آئی لیکن میرے کردار میں جان نہیں تھی۔اس وقت میں نے اسے دوبارہ لکھوا کرفلم کرنے پرآمادگی ظاہرکی۔چینی کم میں ، میں نے بالا کے ساتھ ایسا ہی کام کیا۔امیتابھ بچن کی ماں بننا آسان کام نہیں تھا۔‘‘

فنون لطیفہ کی مختلف اصناف، اس سے وابستہ افراد سے کیا تقاضا کرتی ہیں،اس بابت ان کا بڑا واضح موقف تھا۔ان کی دانست میں’’ہرکلا ،ہرآرٹ خواہ وہ تھیٹرہویا شاعری، مصوری ہویاسنگیت آپ سے پوری سادھنامانگتاہے، اس میں پوری طرح ڈوبے بغیریکتائی حاصل نہیں ہوتی، اب یہ کیا فضااورماحول ہوا کہ صبح آپ کی مصروفیت کچھ اورہے ، دوپہر میں کچھ اورشام کو آپ تھیٹرکرنے آگئے۔آرٹسٹ کو پورے طورسے اورکل وقتی اندازمیں تھیٹرسے جڑنے کے مواقع نہیں ملتے تو یہ افسوس ناک ہے۔‘‘

زہرہ سہگل بڑی زندہ دل خاتون تھیں۔بڑھاپے میں بھی طبیعت کی شوخی کم نہ ہوئی۔تھیٹرمیں ڈراما ختم ہونے کے بعد وہ اکثرحفیظ جالندھری کی نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘گاکرسناتی تھیں۔ان کے بقول’’عمرآپ کے جسم میں نہیں دماغ میں ہوتی ہے۔‘‘27 اپریل 1912کو سہارن پورمیںڈپٹی کلکٹرمحمد ممتاز الحسن خان کے ہاں آنکھ کھولنے والی زہرہ سہگل نے 10 جولائی 2014ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔ تھیٹر ، فلم اورٹی وی میں اداکارہ کی حیثیت سے انھوں نے جو کام کیااس نے انھیں ممتازمقام پرفائزکیا ۔اس سے ہٹ کررقاصہ اورکوریو گرافرکے طورپران کا کام بھی انھیں زندہ رکھے گا ، اس لیے وہ ہم سے جدا ہوکربھی کبھی جدانہیں ہوں گی۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>