’’بالجملہ زبان اردو مشتمل است بر چند زبان یعنی عربی وفارسی و ترکی و پنجابی و پوربی وبرجی وغیرآں مثال مدلل‘‘۔ ’دریائے لطافت‘ کے مصنف، پشتون اُردواَدیب وشاعر جناب انشاء اللہ خان انشائؔ نے اردو کی تشکیل میں اپنی مادری زبان کو یکسر فراموش کردیا تو یہ بات یقیناً تعجب خیز ہے۔
اس کی توجیہ پیش کرنا میرے بس کی بات نہیں، خصوصاً اس حقیقت کے پیش نظر کہ موصوف ماہرِلسان تھے، کئی زبانوں پر دسترس کے حامل بھی۔ پشتو کے ایک محقق کا دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ ان تمام زبانوں سے زیادہ، اردو پر پشتو نے اثر ڈالا ہے:’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو پر اِن زبانوں کے اثرات موجود ہیں، لیکن یہ بات بھی شک وتردد سے بالاتر ہے کہ اردو پر اِن سے کئی گُنا زیادہ گہرے اثرات پشتو کے ہیں‘‘۔
(حنیف خلیل: ’اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار‘)۔ ایک قدم آگے بڑھیں تو ہمیں امتیاز علی خان عرشیؔ جیسے فاضل محقق یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’اردو زبان کی پیدائش کا سب سے بڑا سبب، ہندوستان میں افغانیوں (افغانوں) کی آمد تھی اور اِس نئی زبان میں عام طور پر بولے جانے والے عربی، فارسی، ترکی اور مُغلئی الفاظ کا بڑا حصہ بھی افغانیوں ہی کی زبان اور اُنھیں کی وساطت سے داخل ہوا ہے‘‘۔ یہ بات تاریخی تناظر میں غلط ہے۔
عرشیؔ مرحوم کی علمیت سے قطع نظر خاکسار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اُن جیسے محقق کو دیگر زبانوں اور علاقوں کے دعاوی کو یکسر نظراَنداز کرتے ہوئے، (خواہ بالواسطہ ہی سہی) اپنی مادری زبان کو اُن پر فوقیت دینا زیب نہیں دیتا، خصوصاً جب یہ نظریہ بہت پہلے رَد اور باطل ہوچکا کہ اُردو کہیں باہر سے آئی یا لائی نہیں گئی، کسی قوم کے ہند میں ورود سے اس کی پیدائش جُڑی ہوئی نہیں ہے۔
بے شک جہاں ہم برج بھاشا، کھڑی بولی/ہریانوی/رانگڑی، پوربی (نیز بھوجپوری، میتھلی وغیرہ) جیسے ابتدائی ناموں پر بہت توجہ دیتے ہیں، قدیم عہد میں ویدک بولیوں اور سنسکِرِت کی تشکیل اور پھر ہندی کے ساتھ اپنی زبان کی بنیادی ساخت پر گفتگو کرتے ہیں، اس باب میں گوجری، گجراتی، پنجابی، سرائیکی اور ہندکو کے کردار پر غور کرتے ہیں تو وہیں اشتراک عمل کے لحاظ سے دیگر ہم رشتہ یا بہن زبانوں میں (بنگلہ و دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ) پشتو کو بھی شامل کرنا چاہیے۔
عرشیؔ صاحب کی یہ دلیل کہ اردو پر ایک طویل مدت تک اثراَنداز ہونے والی فارسی، درحقیقت قدیم فارسی یعنی تورانی/ افغانی شاخ ہے (نیز ماوَراء النہری) جسے دَری یا دَرّی بھی کہتے ہیں، بالکل درست ہے، مگر اِس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اسی اثناء میں پشتو بھی دخیل ہوئی، نامناسب لگتا ہے، کیونکہ پشتو کی بطور زبان تشکیل کا دور بھی کم وبیش وہی ہے جو اُردو کا ہے، بس فرق علاقائی بنیاد پر کسی جگہ پھلنے پھولنے کا ہے۔ فارسی کا یہی قدیم رنگ ہمارے یہاں پروان چڑھا تو اُسے ’سبکِ ہندی‘ کا نام دیا گیا۔
خطہ ہند میں پشتو بولنے والوں کا ایک اہم گڑھ، روہیل کھنڈ ہے اور تھا جہاں ایک طویل مدت تک، یہ لوگ اپنی مادری وپدری زبان ہی آپس کے رابطے کے لیے استعمال کرتے تھے، پھر جب فطری طور پر، ہر طرف اردو کا بول بالا ہوا تو یہ قوم بھی پشتو بھولتی گئی۔ اس دوران میں دونوں زبانوں کا فطری میل ملاپ اور اشتراک بھرپور ہوا اور دونوں ہی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوئیں۔ پشتون یا پختون ثقافت کے آثار تو باقی رہے، مگر بحیثیت مجموعی ہندوستانی چھاپ لگ گئی۔
پانی پت کی تیسری جنگ میں، احمد شاہ دورانی (عرف دُرّانی) ابدالی کی حمایت وتائید میں شریک ہونے والا نواب حافظ رحمت خان روہیلہ، پشتو زبان کا محافظ بھی قرار پایا، مگر آج یہ حال ہے کہ روہیل کھنڈ میں پشتو بولنے والے پٹھان شاذ ہی ملیں گے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی پہلی یا آخری مثال نہیں۔ آخر ہمارے آباء بھی تو عربی داں، عربی گو سے فارسی گو ہوئے اور پھر اردوگو، مگر بہرحال کہیں نہ کہیں کسک ہوتی ہے۔
یہ ضرورہے کہ روہیل کھنڈی، خصوصاً رامپوری بولی میں پشتو کا اثرونفوذ آج بھی نمایاں ہے اور دعوت تحقیق دیتا ہے۔ خاکسار نے گزشتہ دنوں اس مخصوص بولی پر، زباں فہمی لکھا تو چار اقساط ہوگئی تھیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ (آنلائن ملاحظہ فرماسکتے ہیں)۔ اردو اور پشتو کے مشترک الفاظ کی ایک اچھی خاصی تعداد اُسی میں نقل کرچکا ہوں، مزید یہاں پیش کروں گا۔
پشتو کے ابتداء تا ارتقاء تمام مراحل میں صوفیہ کرام اور علمائے عظام کا کردار بہت نمایاں رہا اور ان میں کئی ایک اردو کے قدیم شاعر بھی تھے، اردو ہی نہیں بلکہ ہندکو کے بھی قدیم اور اولین شعراء کی صف میں شامل تھے۔ یہ بات ماقبل زباں فہمی کے شمارے بعنوان ’’اردوزبان کا ماخذ ہندکو؟‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ پشتو، اردو اور ہندکو کے مابین اشتراک کے لیے عربی ذخیرہ الفاظ نے پُل کا کام کیا۔ آج بھی پشتو میں گفتگو کرنے والے عربی الفاظ کے استعمال بشمول تلفظ میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدیوں پہلے کے صوفیہ وعلماء کے کردار سے قطع نظر، عربی کے اثرات بڑی حد تک فارسی کے ذریعے اردو اور پشتو میں شامل ہوئے۔ خطہ ہند میں دَرآنے والے فاتحین کے ساتھ فارسی کا اثرونفوذ بھی بڑھا اور معاشرے کے ہر طبقے نے فارسی کو اپنایا۔ اس سلسلے سے بھی بہت پہلے، سنسکِرِت اور اُس کی ہم رشتہ پہلوی نے قدیم فارسی میں اشتراک کی وہ بنیاد فراہم کی تھی کہ ادبیات بشمول لوک ادب کا اچھا خاصا حصہ، تراجم کی شکل میں پہلے فارسی اور پھر اردو میں شامل ہوگیا۔ درباروعوام دونوں ہی فارسی گو بن گئے تو ایسے میں پشتو کی عمل داری بھی فارسی سے جُڑی رہی اور رفتہ رفتہ ترقی کرتی گئی۔
پشتو کے قواعد پر فارسی کی گہری چھاپ ہے۔ فارسی کے مصدر خوردن کو خوڑل، کردن کو کڑل اور مردن کو مڑل بنالیا گیا۔ اسی طرح اسماء میں لاحقے کار، کر، ور وغیرہ فارسی کی طرح اپنالیے گئے۔ پشتو کے محقق تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ محض فارسی ہی نہیں، بلکہ عربی کے بھی الفاظ باقاعدہ منظم شکل میں مستعار لیے گئے جو اُردو سے بڑھ کر ہیں، پھر بھی ان دونوں زبانوں کے درمیان تعلق کئی دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے۔
اردو اور پشتو میں الفاظ کے اشتراک ومماثلت میں یہ بات ہمیشہ نمایاں رہی کہ بعض الفاظ ومحاورہ جات وتراکیب کی شکل یکسر بدل گئی، مگر کہیں نہ کہیں ان کا سِرا مل جاتا ہے۔ دینی ومذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں ہی کو اسلامی زبان کا درجہ حاصل ہوا، دونوں میں ہمسائیگی کے سبب، بنیادی مآخذ کی زبانوں سے دخیل ہونے والے الفاظ موجود ہیں، البتہ اردو میں پشتو کا حصہ، پشتو میں اردو کے حصے کی نسبت زیادہ اور نمایاں ہے۔
یہ الگ بات کہ ماقبل خاکسار نے لکھا تھا کہ جدید پشتو بول چال میں اردو گنتی اور بعض فقرے وغیرہ بہت روانی سے استعمال کیے جاتے ہیں اور اس بابت بھی کل کا مؤرخ ومحقق یقیناً کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور ہوگا۔ ایک محقق کی رائے میں اردو میں عربی وفارسی دونوں کا اثر، پشتو کے ذریعے آیا۔ اس کے پیش نظر وہی فاتحین کا عہد ہے، ورنہ گہرائی میں جائیں تو خطہ ہند میں عربی کے اثرات اردو کے ابتدائی تشکیلی دور ہی سے داخل ہوگئے تھے۔
اسی طرح فارسی کے باقاعدہ چلن سے بھی مدتوں پہلے سنسکِرِت کے طفیل، پہلوی اور اَوِستا سے ہوتے ہوئے پہلے پہل مقامی زبانوں، بولیوں اور پھر اُردو میں شامل ہوئے۔ یہ نکتہ بھی جدید تحقیق میں پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ یہاں ’’انوارِ سُہیلی‘‘ (کلیلہ ودمنہ) کا حوالہ کافی ہے۔
مغلیہ سلطنت کے بانی میرزا بابُر کے ہندوستان میں ورود مسعود کے وقت یہاں ہندکو اور ہندوی (قدیم اردو) میں شعر کہنے والے پشتون سیاح شاعر سید محمود، دکن میں، (بعہدسلطنت قطب شاہی) مستند سخنور ہوا کرتے تھے۔ وہ بہ یک وقت چار زبانوں یعنی ہندکو، پنجابی، پوٹھوہاری اور گوجری کی صنف ’حرفی‘ یا ’سی حرفی‘ عرف ’جھولنا‘ کے بانیوں میں شامل تھے جن کی ہندوی یا دکنی شاعری کے نمونے محفوظ ہیں جو سے بھی علاقہ رکھتے ہیں۔ محمود ؔ کی بیاض میں عربی، فارسی، دکنی اور پشتو کلام محفوظ ہے۔
اُن کی اپنے ہم عصر، شاہ علی متقی ملتانی سے حریفانہ چشمک کا بھی ذکر ملتا ہے۔ خاطرؔ غزنوی اُن کے دکنی کلام کو بھی مندرجہ ذیل الفاظ کے استعمال کی بنیاد پر ہندکو ہی قرار دیتے ہیں اور دکنی اردو کو ہندکو کی توسیع:
ہوئے، کدے، کدھی (کدی، کبھی)، آپی آپ (آپ ہی آپ)، پچھاں، لوکاں، آپے، سعد، مکھ، کجتے وغیرہ۔
محمودؔ جیسے پشتون کی زبان کا ایک نمونہ اس ’جھولنا‘ میں دیکھیں جسے بہ یک وقت دکنی یعنی قدیم اردو اور ہندکو کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے:
میرے دل کا حال کوئی کیا جانے، تجھ بولتا ہوں توں سنتا نئیں
کبھی پھوڑتا ہوں سرود، ڈھولک، ایتا خود لکیا ہوں آپ کا نئیں
کدھی ہنستا ہوں، کدھی روتا ہوں، کدھی دیکھتا پیو کہ چہومیاںنئیں
خود چھوڑ محمودؔ ! اپس کی باتوں کی توں آپی آپ اپس پچھاں جا نئیں
محمودؔ کے معاصر، صاحبِ کرامت صوفی شاعرسید ( میاں،شیخ) عیسیٰ مشوانی اپنا مقام بناچکے تھے۔ سلطان شیرشاہ سوری کے دورکا ایک واقعہ بھی ان سے منسوب بیان کیا جاتا ہے جس سے اُن کے صاحب ِ کرامت ہونے کا پتا چلتا ہے۔
مشوانی پشتو، فارسی اور ہندوی میں شعر کہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مشوانی قبیلے کے جدّامجد خواجہ بندہ نواز گیسودراز تھے۔ مشوانی کی پشتو شاعری کا فارسی کے توسط سے ترجمہ اور مابعد تصحیح ہوچکی ہے۔ نیز ہندوی کلام اُن سے منسوب ہے جو اِس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ پٹھان صدیوں پہلے اردو جیسی ترقی پذیر زبان کے اولین شعراء میں شامل تھے۔ اس کا ایک سبب، بقول سید بہادرشاہ کاکاخیل، سُوری سلاطین کے عہد میں پشتو کی جگہ ہندوی کا فروغ ہے۔
پشتون سیلانی اور جنگجو صوفیہ میں اولین نمایاں نام ’’پیرِروشان‘‘/روخان بایزید/بازید انصاری(عُرف وجید) کا ہے جو وِکی پیڈیا کے اندراج کے مطابق 1525ء میں جالندھر (پنجاب، ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور 1585ء میں ’’ٹوپی‘‘ نامی جگہ پر فوت ہوئے جو کبھی افغان صوبے کابل کا حصہ تھا اور اَب ضلع صوابی، خیبرپختون خوا (پاکستان) میں شامل ہے اور اُن کا مزار شمالی وزیرستان میں واقع ہے۔
(اُن کا سن وفات 1572ء غلط بیان کیا گیا)۔ {آج ٹوپی میں سابق صدرپاکستان جناب غلام اسحٰق خان مرحوم سے منسوب سائنسی تعلیم کا ادارہ Ghulam Ishaq Khan Institute of Engineering Sciences and Technology کام کررہا ہے۔ اسی ٹوپی سے سابق صوبہ سرحد کی نامور سیاسی وتعلیمی شخصیت صاحبزادہ عبدالقیوم (نواب خان بہادرصاحبزادہ سَر عبدالقیوم خان: 12 دسمبر 1863 تا 4 دسمبر1937ئ) بانی اسلامیہ کالج، پشاور کا بھی تعلق تھا}۔
مغل تاجدار اکبر کے خلاف صف آرا اور جنگ میں کام آنے ہونے والے بایزید، اپنی تحریک ’روشانیاں‘ کی وجہ سے مشہور ہوئے اور اُن کا لسانی کارنامہ، پشتو شاعری کے ساتھ ساتھ، اس زبان کو باقاعدہ تحریری شکل دینا ہے۔ اُن کی کتاب ’خیرالبیان‘ (1521ئ) اس زبان کی اولین نثری کتاب ہے۔ بقول دولتؔ (پشتو شاعر، خلیفہ بایزید)، ’’پشتو تحریر مشکل تھی، پڑھی نہ جاسکتی تھی۔ اُس نے گیارہ حروف بنائے اور تحریر آسان کردی‘‘۔ (بحوالہ ’’اردو زبان کا ماخذ۔ہندکو‘‘ ص225)۔ یوں پشتو کے حروف تہجی بھی منظرعام پر آئے۔
اُن کی کتب کی تعداد ایک درجن کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ مغلوں کے خلاف سرگرم عمل ہونے کے سبب، اُن کے افکار ونظریات اور پشتون قوم پرستی سے متعلق جدوجہد یقیناً ا س طرح نمایاں نہ ہوسکی جو عموماً کسی تاریخی شخصیت کے حوالے سے ہوا کرتی ہے۔ بایزید انصاری اپنے دور کی تقریباً تمام زبانوں پر حاوی تھے۔ اسی وجہ سے اُن کی اس مشہور کتاب میں پشتو کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور ہندوی (یعنی قدیم اردو) بھی شامل ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہندکی (یعنی قدیم ہندکو) کے ابتدائی نمونے بھی اسی کتاب سے دریافت کیے گئے ہیں جنھیں میرے بزرگ کرم فرما پروفیسر خاطر ؔ غزنوی مرحوم نے ہندکو زبان کا اولین معلوم نثری نمونہ قرار دیا۔ (’’اردو زبان کا ماخذ۔ہندکو‘‘ ص 219)۔ آئیے ’خیرالبیان‘ کا ایک اقتباس دیکھتے ہیں جو پشتو، ہندکو اور اُردو تینوں زبانوں کے اہل زبان کے لیے اہم ہے:
’’ اے بایزید!
لکھ کتاب کے آغاز کے بیان
جن کے سارے اکھر ہن بسم اللہ تمام
میں نہ کَنواؤں گا ضروری انہن کی جے لکھن پڑھن بگاڑن اکھر کہ
تمکنی پڑھن لکھن اس کا ن جسے سہی (صحیح) ہوتے بیان‘‘
ترجمہ:اے بایزید!
لکھ کتاب کے آغاز میں صاف اور درست حروف میں بسم اللہ۔ میں اُن لوگوں کی محنت اور مزدوری ضایع نہیں کرتا جو لکھتے ہیں، پھر اُنھیں مِٹاتے ہیں، حرف حرف اور نقطہ نقطہ تاکہ تم واضح طور پرپڑھ سکو اور بیان صحیح لکھا جائے۔
اب اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجابی کا بھی بایزید انصاری پر اُتنا ہی دعویٰ ہے جتنا ہندکو کا (شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بھی اہل زبان پنجابی حضرات میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ہندکو کو اپنی زبان کا ایک لہجہ یا بولی قراردینے پر مُصر ہیں)۔ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہؔ کی کتاب ’پنجابی ادب دی مختصر تاریخ‘ اور مولابخش کُشتہ امرِتسَری کی ’پنجابی شاعراں دا تذکرہ‘ میں اُن کا ذکر موجود ہے۔
اُن کے نزدیک یہ ہندوی اور پنجابی کے کافی اور اشلوک کہنے والے شاعر تھے۔ اُن کے پنجابی اشلوک پر مشتمل کتاب ’وَجِید دے اشلوک‘ ایک اور محقق، اونکار ناتھ بھَردواج نے مرتب کی۔ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ ؔکے انکشاف کے مطابق، بایزید نے ہندوی میں بھی شاعری کی تھی۔ اس طرح انھیں مسعودسعدسلمان، امیر خسرو، بابا فرید، مخدوم بِہاری کے بعد، قدیم شعرائے ہندوی (قدیم اردو) میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
’خیرالبیان‘ کی جدید دورمیں دریافت، بلکہ بازیافت اور پھر اشاعت پشتو اکیڈمی کے بانی، پشتو کے جدید نقاد ومحقق مولاناعبدالقادر کی کوشش سے1967ء میں ممکن ہوئی۔ یہ واحد نسخہ جرمنی کی ٹیوبنگن یونیورسٹی[Tübingen University] کے کتب خانے میں محفوظ تھا۔
تحریک ’روشانیاں‘ سے متعلق یہ دل چسپ انکشاف بھی لائق توجہ ہے کہ سابق سوویت یونین کے جنگ افغانستان میں وزیرستان سے ہونے والی پیہم مزاحمت کا پس منظر جاننے کے لیے روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں قایم تحقیقی ادارے Saint Petersburg State University Institute of Oriental Studies نے اس تحریک کے باب میں باقاعدہ تحقیق کی سعی کی تھی۔
پشتو نے اپنے عہد کے جبر کے تحت، انگریزی الفاظ اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا، مگر اُردو کی نسبت اس میں انگریزی کا حصہ کم ملتا ہے۔ محقق ڈاکٹر پراچہ کا خیال ہے کہ پشتون انگریزی تلفظ میں دوسروں سے بہتر ہے، مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر اتفاق رائے تلاش کیا جائے۔
پشتو کے ذخیرہ الفاظ میں تُرکی زبان سے اختلاط کا بھی سُراغ لگایا گیا ہے، مگر اس بابت باقاعدہ تحقیق ابھی باقی ہے۔ جب یہ باب وا ہوگا تو محقق کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ پشتو اور ترکی مدتوں ساتھ ساتھ رہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ترکی الفاظ اس قدر نمایاں نہیں جتنے عربی وفارسی ہیں اور کہیں کہیں اُردو بھی۔ شاید وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ عثمانی یا عثمانلی (یعنی اصل وقدیم) ترکی سے اس کا رشتہ کمزور پڑگیا۔ (جاری)
The post زباں فہمی نمبر197؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ دوم) appeared first on ایکسپریس اردو.